اخوانی و تحریکی فکر کی کارستانیاں

رشید سمیع سلفی عقائد

اخوانیت اور تحریکیت ایک حقیقت کے دو روپ ہیں،اخوانیت مصر میں پروان چڑھی اور تحریکیت اخوانیت کا ہندوستانی ورژن ہے،دونوں ملت اسلامیہ کے جسم میں ایک خطرناک ناسور ہیں،عقیدۂ ومنہج کی صحت کے لیے زہر ہلاہل ہیں،اسلام دشمنوں کا آلۂ کار ہیں،اسلام کے نام سے ناموس اسلام کے غارت گر ہیں۔آج تک اس فکر نے عالم اسلام کوصرف نقصان ہی پہنچایا ہے،انسانیت کا صرف خون بہایا ہے،تحریکی فکر نے پوری دنیا میں اسلام کی شبیہ خراب کی ہے۔مصر سے بھگائے گئے تو الگ الگ ملکوں میں پناہ گزین ہوئے،پھر وہاں پر فساد پھیلانے کے لیے اثر و رسوخ بنایا اور موقع پاکر فتنہ وفساد کی آگ بھڑکانے لگے، جنھوں نے ان کو پناہ دی وہ بھی ان کے شر سے محفوظ نہیں رہے،مصر میں جبر وقہر کے بعد یہ جہاں بھی گئے اپنے جراثیم ساتھ لے گئے۔
تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ ہوا کہ لوگ مسلمانوں کو اپنے ملک کے لیے خطرہ محسوس کرنے لگے،ان کو شک و شبہے کی نظر سے دیکھا جانے لگا،ان کی آمد ورفت پر پابندی لگانے کی بات کی جانے لگی،یہ ٹیررسٹ اور دہشت گرد کہےجانے لگے،مسلم ممالک میں انھوں نے حکومت کے خلاف مظاہرے، دھرنے، نعرے،ہنگامے،پتھراؤ اور دہشت گردانہ کارروائیوں کو فروغ دیا ہےنتیجۃً کئی ممالک میں نہ صرف خلفشار پیدا ہوا بلکہ ان کے سبب دوسروں کو گھسنے اور دخل دینے کا موقع ملا،حکومتیں گرائی گئیں اور حکمرانوں کو قتل کیا گیا،قتل وغارت کا طوفان بپا ہوا،طریقۂ قتل میں باطنیوں کی راہ اپنائی،ان کی انتہاپسندانہ حرکتوں کی وجہ سے جگہ جگہ سنی مسلمان حکومت کے عتاب کا نشانہ بنے ہیں،شام میں بشار حکومت سے ٹکراؤ نے آج شام کے سنی مسلمانوں کا جو حشر کیا ہے وہ بیان سے باہر ہے،۱۹۸۲میں پچیس ہزار مسلمان قتل کیے گئے اور خواتین کی اثنا عشری شیعوں نے عصمت دری کی،حالیہ سالوں میں لاکھوں مسلمان قتل کیے جاچکے ہیں اور لاکھوں دردر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں ،قیامت سے پہلے قیامت کا منظر ہے،الجزائر میں بھی یہی کارستانی کی اور تقریباً سترہزار مسلمانوں کو قتل کردیا گیا،ان کی انتہاپسندانہ باتوں نے امت کے جوانوں کو ورغلایا اور خوفناک لڑائیوں میں جھونک دیا ہے۔
فلسطین کا مسئلہ ان کی وجہ سے پیچیدہ ہوتا جارہا ہے،اسرائیل پر ایک راکٹ مار کر یہ فلسطین کو آگ اور خون کے باڑھ پر رکھ دیتے ہیں،جب دو کے بدلے دوہزار لاشیں گرجاتی ہیں تو حماس کا کلیجہ ٹھنڈا ہوجاتاہے،اخوان شام کی تاریخ ہر سنی ملک میں دہرانا چاہتے ہیں،لیکن کامیاب نہیں ہورہے ہیں،وہ سنی ممالک جو کتاب وسنت کے علمبردار ہیں اور دعوت ورفاہ کے میدان میں بساط بھر کوشاں ہیں وہ انھیں ایک آنکھ نہیں بھاتے،ان کے خلاف الزام تراشیوں اور بہتان بازیوں کا بازار گرم رکھتے ہیں،آئے دن جھوٹی موٹی خبریں سوشل میڈیا پر نشر کرتے ہیں ،ان کے خلاف الگ الگ طرح سے محاذ آرائی جاری رکھتے ہیں،وہ اسلام دشمن ممالک جن کے نام پر مردہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں،یہ آج تک ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے بلکہ ان کی انتہا پسندانہ کارروائیاں امریکہ اوراسرائیل کے مقاصد پورے کررہی ہیں،مردہ باد کے نعرے کسی اورکے خلاف لگاتے ہیں اور نقصان کسی اور کو پہنچاتے ہیں۔
شیعہ جو عالم اسلام کے خطرناک دشمن ہیں، ان سے دوستی کی پینگیں بڑھاتے ہیں،ان کے کاموں کو سراہتے ہیں،جبکہ تاریخ شاہد ہے کہ انھوں نے عالم اسلام کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے،آج تک عالم اسلام پر جو بھی بڑی تباہی آئی ہے وہ شیعوں کی لائی ہوئی ہے،بغداد میں لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کرنے والے تاتاریوں کو انھوں نے ہی خط دے کر بلایا تھا،ایک ایسی قیامت امت مسلمہ کے سرپر مسلط کی جس کے صدمے سے آج بھی امت ابھر نہیں پائی ہے،مؤرخین نے لکھا ہے کہ بغداد پر تاتاری حملہ اور اسپین پر عیسائی یلغار سے اس امت کی جو الٹی گنتی شروع ہوئی ہے وہ آج تک رکی نہیں ہے،وہی رافضی ایرانی آج اخوانیوں کے نہ صرف منظور نظر ہیں بلکہ پرانے دوستانہ مراسم بھی ہیں،یہ دوستی رنگ بھی لائی ہے صحابہ کی عزت وناموس کے بارے میں تحریکی فکر شیعی فکر سے ہم آغوش ہوچکی ہے،خلافت وملوکیت نے اسی قرض کو ادا کیا ہے،بحرین کے اخوانی طارق السویدان کا ایرانی سفیر سے یہ کہنا کہ تم ابوہریرہ کو برا کہو ہم نہیں روکتے لیکن ہمارے سامنے نہ کہو،یہ حوالہ بتاتا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب رافضی یکسانیت مسلسل سفر کرکے اس نکتے تک پہنچ جائے گی جہاں صحابہ پر رفض وتشیع کی گاج گرائی جاتی ہے۔
حکومت الہیہ کے قیام کا دعوی لے کر اٹھنے والی تحریک اب ووٹ اور الیکشن کی اسیر ہوچکی ہے،حکومت تو علی منہاج النبوۃ چاہتی ہے اور طریقہ طاغوتی اختیار کرتی ہے،طرفہ یہ کہ مسلم حکمرانو‌ں کو طاغوتی نظام کا علمبرداربھی ظاہر کرتی ہے،اگر نام نہاد اسلامی حکومت مشن تھا تو مرسی نے مصر کے ایک سالہ دور حکومت میں کیا کیا؟اسلامی حکومت کے لیے کون سی پیش رفت کی تھی؟کیا ایران کا دورہ اور مصر کے امام باڑوں کو کھولنا حکومت الہیہ کا نقطۂ آغاز تھا،سچ تو یہ ہے کہ مصر کو ایران سے مل کر پھر قرامطی دور میں پہنچانے کی سازش چل رہی تھی‌،یہی وجہ تھی کہ اہل سنّت مسلمانوں نے سازش کامیاب نہ ہونے دی،وہ جس طریقے سے کرسئی اقتدار تک پہنچے تھے اسی طریقے سے رجعت قہقری بھی ہو گئی۔
آج تحریکی روافض سے مل کر شیعی خفیہ اہداف کو پایۂ تکمیل تک پہنچانا چاہتے ہیں،مملکہ سعودیہ عربیہ ایران کا سب سے بڑا دشمن اور سب سے بڑا ہدف ہے،وہ عراق اور شام کے بعد یمن کی راہ سے حوثیوں کے ذریعہ ایک اور مہم چھیڑے ہوئے ہیں جہاں پرسنی مزاحمت سے حوثی ناکوں چنے چبارہے ہیں، دوسرے اطراف سے بھی یہ مملکت توحید کو گھیرنا چاہتے ہیں،جواب کے طور پر عرب نئے سیاسی اقدامات کررہے ہیں لیکن سیاسیات کے کھلاڑی تحریکی سب کچھ جان کر بھی عربوں کے فیصلے پر اچھل کود مچارہے ہیں،آسمان سر پر اٹھا رہے ہیں تاکہ ان کے آقا ایران کے توسیع پسندانہ عزائم کی راہ ہموار ہواورتحریکی حق غلامی سے عہدہ برآ ہوجائیں۔

آپ کے تبصرے

3000