ہاتھرس سانحہ: کون سنے گا، کس کو سنائیں؟

عطا بنارسی سیاسیات

ایک بار پھر انسانیت شرمسار ہوئی ہے،اتر پردیش کے ضلع ہاتھرس میں ایک دلت لڑکی کے ساتھ عصمت دری کے بعد وحشیانہ طریقے سے ظلم و زیادتی کا واقعہ پیش آیا ہے ،جس میں متاثرہ کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا ہے۔چار اعلیٰ ذات کے لڑکوں نے اس انسانیت سوز واردات کو انجام دیا ہے۔لڑکی کے ساتھ جس درندگی کا مظاہرہ کیا گیا ہے وہ ہمیں ۲۰۱۲میں دہلی میں پیش آئے ’نربھیا‘ سانحہ کی یاد دلا رہا ہے ۔جب پورا ملک اس اندوہناک واقعہ کے خلاف سر اپا احتجاج تھا۔اس وقت کے وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کو خود متاثرہ کو رسیو کرنے کے لیے ایئر پورٹ جانا پڑا تھا،یو پی اے کی چیئر پرسن سونیا گاندھی کو خود چل کر نربھیا کے پاس جانا پڑا تھا۔مگر اس بار ہاتھرس کے واقعہ کی نوعیت کچھ اور ہے۔ ایک طرف جہاں حزب اختلاف کی جماعتیں درندگی کی شکار اس مظلوم لڑکی کے لیے انصاف کا مطالبہ کر رہے ہیں وہیں دوسری طرف اقتدار میں بیٹھے افراد ظالموں کے دفاع میں بے شرمی کے ساتھ ڈٹے ہوئے ہیں۔بد قسمتی سے اس وقت اتر پردیش کی باگ ڈور ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں ہے جس سے عصمت دری کی شکار متاثرہ کے لیے انصاف کی امید لگانابے کار اور عبث ہے۔ ایک ایسے شخص سے خواتین کے تحفظ کی امید کیسے کر سکتے ہیں جس کے ماضی کے بیانات اور نظریات خواتین کے خلاف ہی رہے ہوں۔آج بھی وہ بیان محفوظ ہے جس میں یوگی آدتیہ ناتھ عوامی طور پر ایک مخصوص مذہب سے تعلق رکھنے والی خواتین کے خلاف عوام کو مشتعل کر رہے ہیں کہ مسلم خواتین کو قبروں سے نکال کر ان کے ساتھ عصمت دری کرو۔ایک ایسے شخص سے آپ کیسے امید کر سکتے ہیں کہ وہ آپ کی ماؤں اور بہنوں کی عصمت کا تحفظ کرے گا،یا عصمت دری کی شکار بچیوں کو انصاف دلائے گا؟؎

ہم کو ان سے وفا کی ہے امید

جو نہیں جانتے وفا کیا ہے

سچ کہا جاتا ہے کہ اولاد کی محبت کیا ہوتی ہے اور اولاد کے کھونے کا درد کیا ہوتا ہے ؟یہ کوئی لا ولد شخص ہرگز محسوس نہیں کر سکتا ۔یہی سبب ہے کہ رات کے اندھیرے میں اس مظلوم لڑکی کی آخری رسومات ادا کر دی گئیں اور ماں باپ بھائی ،بہنوں اور رشتہ داروں کو چہرہ تک دیکھنے نہیں دیا گیا۔ایک ماں کی آنکھوں کے سامنے اس کی لخت جگر کو سپرد آتش کر دیا گیا اور انھیں دکھایا تک نہیں گیا،ماں تڑپتی رہی، منتیں کرتی رہی،آخری بار اپنی بیٹی کا چہرہ دیکھنا چاہتی تھی لیکن تف ہے ایسی پولیس اور ایسے مکھیا پر جن کا دل اس ماں کی تڑپ پر بھی نہیں پگھلا اور ہنسی ٹھٹھوں کے درمیان بڑی بے شرمی کے ساتھ آخری رسومات ادا کر دی گئیں۔ در اصل یو پی پولیس نے رات کی تاریکی میں اس لڑکی کی چتا نہیں جلائی ہے بلکہ انسانیت کو جلایا ہے ،جمہوریت اور قانون میں آ گ لگائی ہے۔ہمیں یقین ہے کہ قدرت انتقام ضرور لے گی ،اس مظلوم لڑکی کی چتا ٹھنڈی نہیں ہوگی بلکہ شعلہ بن کر حکومت اور اقتدار میں بیٹھے تانا شاہوں کی کرسی کو جلا کر راکھ کر دے گی۔
بی جے پی نے اقتدار میں آنے کے بعد پورے ملک میں خواتین اور بچیوں کے تحفظ کے لیے ایک مہم چلائی تھی ،بیٹی بچاؤ اور بیٹی پڑھاو‘،شروعاتی دور میں تو لگا کہ یہ خواتین اور بچیوں کے تحفظ کے لیے مہم چلائی جا رہی ہے لیکن اب آئے دن عصمت دری کی واردات رونما ہونے اورواردات میں شامل مجرموں کے تحفظ کی کوششیں کرنے جیسے واقعات سے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ خواتین کے تحفظ کی کوئی مہم نہیں تھی بلکہ ملک کے عوام کو انتباہ تھا کہ اپنی لڑکیوں اور بیٹیوں کا تحفظ کرو کیونکہ اب حکومت کی باگ ڈور ایسے افراد کے ہاتھ میں ہے جو بے اولاد ہیں۔انھیں کیا خبر اولاد کے کھونے کا غم کیا ہوتا ہے۔
ہاتھرس واقعہ میں رات کے اندھیرے میں اور جلد بازی میں جس طریقے سے متاثرہ کی آخری رسومات ادا کی گئیں اس نے اپنے پیچھے متعدد سوالات چھوڑے ہیں۔آخری رسوم کی ادائیگی کی اتنی بھی کیا جلدی تھی جبکہ ہندو رسم و رواج کے مطابق سورج ڈوبنے کے بعد چتا کو آ گ لگانا ممنوع ہے۔انتظامیہ اپنے کون سے گناہوں کو مٹانا اور ختم کرنا چا ہتی تھی۔اخری رسوم میں میڈیا کو کوریج کی اجازت بھی نہ دی گئی۔ دفعہ۱۴۴لاگو کر کے متاثرہ کے اہل خانہ کو گھر میں نظر بند کر دیا گیا،بلکہ پولیس اہلکار خود لواحقین کو دھمکاتے نظر آئے،میڈیا والوں کے ساتھ بد تمیزی کی گئی ،متاثرہ کنبہ سے ملنے جانے والے راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی کے ساتھ بد سلوکی کی گئی، لاٹھیاں برسائی گئیں اور دھکا مکی کی گئی۔
اگر یہ واقعہ دلت کے بجائے اعلیٰ ذات کی لڑکی کے ساتھ پیش آتا تو کیا یوگی حکومت اور پولیس کا یہی رویہ ہوتا۔
اپوزیشن کی ہنگامہ آرائی اور چوطرفہ دباؤ کے بعد یوگی حکومت نے ایس پی ،ڈی ایس پی سمیت دیگر پولیس والوں کو معطل کر دیا ہے ،اسی کے ساتھ سی بی آئی سے جانچ کا فرمان جاری کر دیا ہے مگر ماضی کے تجربات بتاتے ہیں کہ فیصلہ وہی ہوگا جو حاکم وقت چاہے گا،حال ہی میں سی بی آئی کی خصوصی عدالت کے ذریعہ بابری مسجد کیس میں جو فیصلہ آیا ہے اس کی مثال ہمارے سامنے ہے۔تمام شواہد اور دلائل کی موجودگی کے باوجود فیصلہ وہی سنایا گیا جو حاکم وقت کی منشا کے مطابق تھا،معاملہ آئینے کے مثل صاف ہونے کے باوجود تمام مجرمین با عزت بری کر دیے گئے ۔عصمت دری کے اس معاملے میں بھی سی بی آئی جانچ میں تمام اعلیٰ ذات کے گرفتار چاروں ملزمین بری ہو جائیں گے اور الزام متاثرہ کے لواحقین پر ہی ڈال دیا جائے گا۔اس کے لیے پلاٹ تو ابھی سے تیار کیا جا رہا ہے ۔حکمرا ں جماعت سے وابستہ افراد اوربی جے پی کارکنان ببانگ دہل عوامی طور پر یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ اس لڑکی کے ساتھ عصمت دری جیسی کوئی واردات نہیں ہوئی ،یہ معاملہ زمین کے تنازعہ کا تھا جس میں دونوں گروپ کے مابین مارپیٹ میں لڑکی کی جان چلی گئی۔بس اس سے زیادہ یہ معاملہ کچھ نہیں ہے ۔ملزمین کے دفاع میں باقاعدہ ہاتھرس میں سولہ گاؤں کی پنچایت بیٹھی اور انھوں نے انتظامیہ کی ناک کے نیچے تمام گرفتار کیے گئے ملزمین کو بے قصور بتاتے ہوئے رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔اس سے بہ آسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس حکومت میں متاثرہ کو انصاف ملنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن سا نظر آتا ہے۔

آپ کے تبصرے

3000