صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، افعال اور آپ کی سیرت کو بالتفصیل بیان کیا ہے وہیں انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ مبارک کو بھی بہت ہی باریک بینی اور تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ بہت سارے محدثین نے ”شمائل النبی“ کے عنوان سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ مبارک اور عادات واخلاق پر دلالت کرنے والی احادیث کو مستقل کتابوں میں جمع کیا ہے۔ ان میں سے سب سے مشہور کتاب امام ترمذی رحمہ اللہ کی ”الشمائل المحمدیہ“ ہے۔
اسی طرح ہمارے علمائے کرام نے ان خوش نصیب حضرات کے حالات بھی قلمبند کیے ہیں جن کی شکل وصورت پیارے نبی سے ملتی تھی، یعنی جو آپ کے ہم شکل تھے۔
اگر ہم اپنے گرد وپیش کا جائزہ لیں تو پائیں گے کہ بہت سارے حضرات عادات واطوار اور وضع قطع میں اپنے محبوب اداکار، کھلاڑی، سیاستداں وعلما کی مشابہت اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اسے اپنی خوش نصیبی سمجھتے ہیں۔ تصور کریں اگر کسی کی شکل وصورت کسی عام شخص سے نہیں بلکہ بنی آدم کے سردار پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتی جلتی ہو تو وہ کتنا خوش نصیب ہوگا۔ یقینا یہ ایک ایسی خوش نصیبی ہے جو قسمت والوں کو نصیب ہوئی ہے۔ اگر آپ اسلامی تاریخ اور شروحات حدیث کا مطالعہ کریں تو بہت سارے ایسے نام آپ کو ملیں گے جن کے بارے میں علما نے یہ صراحت کی ہے کہ ان کی شکل وصورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جیسی تھی۔ اس مضمون میں انھی بعض خوش نصیب حضرات کے متعلق مختصر معلومات فراہم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان کے اسمائے گرامی ہیں:
(۱)ابراہیم رضی اللہ عنہ بن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ابراہیم کو دیکھا ہے؟ تو آپ نے جواب دیا:
نَعَمْ، مَاتَ وَهُوَ صَغِيرٌ، أَشْبَهُ النَّاسِ بِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَوْ قُضِيَ أَنْ يَكُونَ بَعْدَهُ نَبِيٌّ لَعَاشَ ابْنُهُ إِبْرَاهِيمُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ(ہاں، صغر سنی میں ہی ان کی وفات ہو گئی تھی۔ اللہ کے رسول سے سب سے زیادہ مشابہت رکھنے والے تھے۔ اگر آپ کے بعد کوئی نبی ہوتا تو آپ کا بیٹا ابراہیم زندہ رہتا) [المعجم الأوسط: ۶/۳۶۸، حدیث نمبر ۶۶۳۸، تاریخ دمشق:۳/۱۳۵۔ حافظ ابن حجر نے فتح الباری (۱۰/۵۷۸)میں کہا ہے کہ اسے ابو بکر اسماعیلی اور ابن مندہ نے بھی روایت کیا ہے۔ ابو بکر اسماعیلی کی مستخرج مطبوع نہیں اور ابن مندہ کے یہاں مجھے یہ روایت مسندًا نہیں ملی]
علامہ ہیثمی اس کی سند کے متعلق فرماتے ہیں:
رواه الطبراني في الأوسط، ورجاله رجال الصحيح، غير عبيد بن جناد الحلبي، وهو ثقة (اسے امام طبرانی نے الاوسط میں روایت کیا ہے اور اس کے روات صحیح کے روات ہیں سوائے عبید بن جناد کے اور وہ ثقہ ہیں)
اس میں محل شاہد ابراہیم رضی اللہ عنہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مشابہ قرار دینا ہے۔ حافظ ابن حجر اور دوسرے علما نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ ان کی شکل وصورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ تھی۔ [فتح الباری:۷/۵۰۷، سبل الہدی والرشاد للصالحی الشامی:۲/۱۱۵]
(۲)نواسہ رسول حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی ”صحیح“(حدیث نمبر:۳۷۵۰)میں عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث روایت کی ہے، فرماتے ہیں:
رَأَيْتُ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَحَمَلَ الحَسَنَ وَهُوَ يَقُولُ:بِأَبِي شَبِيهٌ بِالنَّبِيِّ، لَيْسَ شَبِيهٌ بِعَلِيٍّ» وَعَلِيٌّ يَضْحَكُ (میں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ آپ حسن رضی اللہ عنہ کو اٹھائے ہوئے ہیں اور فرما رہے ہیں: میرے باپ ان پر فدا ہوں، یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ ہیں، علی کے نہیں اور علی رضی اللہ عنہ مسکرا رہے تھے)
اسی طرح انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں:
لَمْ يَكُنْ أَحَدٌ أَشْبَهَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ(حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے زیادہ اور کوئی شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ نہیں تھا) [صحیح بخاری، حدیث نمبر۳۷۵۲]
(۳)نواسہ رسول حسین بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ
امام بخاری رحمہ اللہ نے ہی اپنی ”صحیح“(حدیث نمبر۳۷۴۸) میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، فرماتے ہیں:
أُتِيَ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ زِيَادٍ بِرَأْسِ الحُسَيْنِ عَلَيْهِ السَّلاَمُ، فَجُعِلَ فِي طَسْتٍ، فَجَعَلَ يَنْكُتُ، وَقَالَ فِي حُسْنِهِ شَيْئًا، فَقَالَ أَنَسٌ: كَانَ أَشْبَهَهُمْ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ(جب حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک عبید اللہ بن زیاد کے پاس لایا گیا اور ایک طشت میں رکھ دیا گیا تو وہ اس پر لکڑی سے مارنے لگا اور آپ کے حسن اور خوبصورتی کے بارے میں بھی کچھ کہا۔ اس پر انس رضی اللہ عنہ نے کہا: حسین رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ مشابہت رکھنے والے تھے)
اگر انس رضی اللہ عنہ کی مذکورہ دونوں احادیث پر غور کریں تو بظاہر تعارض معلوم ہوتا ہے؛ کیونکہ دونوں نواسوں کے متعلق انھوں نے اسم تفضیل کا صیغہ استعمال کیا ہےکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ مشابہت رکھنے والے تھے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری (۷/۹۶-۹۷) میں ان دونوں روایتوں کے مابین یہ تطبیق دی ہے کہ حسن رضی اللہ عنہ کے متعلق انس رضی اللہ عنہ کا یہ قول حسن رضی اللہ عنہ کی زندگی میں تھا۔ حسن رضی اللہ عنہ کی مشابہت حسین سے زیادہ تھی۔ لیکن ان کی وفات کے بعد حسین ہی سب سے زیادہ مشابہت رکھنےوالے تھے۔
ایک دوسری تطبیق یہ دی گئی ہے کہ حسن رضی اللہ عنہ کی مشابہت بعض اعضامیں زیادہ تھی اور حسین رضی اللہ عنہ کی بعض دوسرے اعضا میں۔ اس کے لیے بطور دلیل علی رضی اللہ عنہ کا یہ قول پیش کیا جاتا ہے:
الحَسَنُ أَشْبَهُ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا بَيْنَ الصَّدْرِ إِلَى الرَّأْسِ، وَالْحُسَيْنُ أَشْبَهُ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا كَانَ أَسْفَلَ مِنْ ذَلِكَ(سر سے لے کر سینے تک حسن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مشابہت رکھنے والے تھے۔ اور باقی نیچے کے حصے میں حسین زیادہ مشابہت رکھنے والے تھے) [جامع ترمذی:۵/۶۶۰، حدیث نمبر:۳۷۷۹، مسند احمد:۲/۲۱۲، حدیث نمبر:۸۵۴، صحیح ابن حبان:۱۵/۴۳۰، حدیث نمبر:۶۹۷۴]
لیکن اس کی سند متکلم فیہ ہے۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے ”التعلیقات الحسان علی صحیح ابن حبان“ (۱۰/۹۷) حدیث نمبر (۶۹۳۵) میں اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کی تائید ایک دوسری روایت سے ہوتی ہے جسے امام اسماعیلی نے روایت کیا ہے، اس کے الفاظ ہیں:
كان أشبهَهم وجهًا بالنبي صلى الله عليه وسلم [فتح الباری:۷/۹۷](حسن رضی اللہ عنہ چہرے کے اعتبار سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مشابہت رکھنے والے تھے)
امام اسماعیلی کی مستخرج مطبوع نہیں ہے، اس لیے اس کی سند کے متعلق کچھ کہنا مشکل ہے۔
(۴)جعفر الطیار بن ابی طالب رضی اللہ عنہ
آپ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے سگے بھائی ہیں۔ علی رضی اللہ عنہ سے دس سال بڑے تھے۔ [دیکھیں: معرفۃ الصحابہ لابی نعیم:۲/۵۱۱]
جنگ موتہ میں اکتالیس سال کی عمر میں شہید ہوئے۔ [الاستیعاب لابن عبد البر:۱/۲۴۵]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ان کے متعلق فرمایا ہے:
أَشْبَهْتَ خَلْقِي وَخُلُقِي(تم صورت اور عادات و اخلاق سب میں مجھ سے مشابہ ہو) [صحیح بخاری، حدیث نمبر۲۶۹۹]
”خَلقی“ کی تشریح کرتے ہوئے علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أَمَّا الْخَلْقُ فَالْمُرَادُ بِهِ الصُّورَةُ، فَقَدْ شَارَكَهُ فِيهَا جَمَاعَةٌ مِمَّنْ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (خَلق سے مراد شکل وصورت ہے۔ اور اس میں ایک جماعت ان کی طرح ہی مشابہت رکھنے والے ہیں جنھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے)[تحفۃ الاحوذی:۱۰/۱۷۸]
اور ”خُلُق“سے مراد عادت واخلاق ہے۔ یہ جعفر رضی اللہ عنہ کے لیے بہت بڑی منقبت اور فضیلت ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے متعلق خود اللہ تعالی نے فرمایا ہے:
وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ (اور بے شک آپ بہت اونچے اخلاق پر فائز ہیں) [فتح الباری:۷/۵۰۷]
(۵)عبد اللہ بن جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ
ان کے متعلق بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
وَأَمَّا عَبْدُ اللهِ فَشَبِيهُ خَلْقِي وَخُلُقِي (عبد اللہ شکل وصورت اور عادات واخلاق میں میرے مشابہ ہیں)
امام احمد نے اپنی مسند (۳/۲۷۹، حدیث نمبر۱۷۵۰) میں بسند صحیح اسے روایت کیا ہے۔
(۶)عون بن جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ
ان کے متعلق بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
وَأَمَّا عَوْنٌ فَشَبِيهُ خَلْقِي، وَخُلُقِي (عون شکل وصورت اور عادات واخلاق میں میرے مشابہ ہیں)
امام طبرانی نے ”المعجم الکبیر“(۲/۱۰۵، حدیث نمبر ۱۴۶۱) اور ابو نعیم نے معرفۃ الصحابہ (۴/۲۲۳۰، حدیث نمبر۵۵۴۸) میں بسند صحیح اسے روایت کیا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری (7/507) میں ان کے متعلق کہا ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت رکھتے تھے۔
ابو العباس احمد شہاب الدین الرملی الدمشقی نے بھی اپنے قصیدے میں ان لوگوں کی فہرست میں ان کا نام ذکر کیا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح دکھتے تھے۔ [دیکھیں:سبل الہدی والرشاد للصالحی الشامی:۲/۱۱۵]
(۷)قُثَم بن عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ
یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور حسین بن علی رضی اللہ عنہ کے رضاعی بھائی ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اطہر کے ساتھ سب سے آخر تک رہنے کا شرف آپ کو حاصل ہے۔ جو صحابہ کرام تدفین کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر میں اترے تھے ان میں سب سے آخر میں نکلنے والے آپ ہی تھے۔ [دیکھیں: الاستیعاب لابن عبد البر:۳/۱۳۰۴]
بہت سارے علما نے آپ کی سوانح میں ذکر کیا ہے کہ آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم شکل تھے۔ [دیکھیں: طبقات ابن سعد:۷/۳۶۷، الاستیعاب لابن عبد البر:۳/۱۳۰۴، تہذیب الاسماء واللغات للنووی:۲/۵۹، وفیات الاعیان:۶/۳۵۱، تہذیب الکمال:۲۳/۵۳۸، سیر اعلام النبلاء:۱/۲۰۳]
(۸)ابو سفیان بن حارث بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ
یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی ہیں۔ بلکہ رضاعی بھائی بھی ہیں۔ حلیمہ سعدیہ دونوں کی رضاعی ماں ہیں۔ بہت سارے علما نے ان کی سوانح میں ذکر کیا ہے کہ ان کی شکل وصورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتی تھی۔ [دیکھیں: الاستیعاب لابن عبد البر:۴/۱۶۷۴، تہذیب الاسماء واللغات للنووی:۲/۲۳۹، وفیات الاعیان:۶/۳۵۱، سیر اعلام النبلاء:۱/۲۰۳]
(۹)سائب بن عبید بن عبد یزیدبن ہاشم بن المطلب بن عبد مناف رضی اللہ عنہ
یہ امام شافعی رحمہ اللہ کے جد امجد ہیں۔ غزوہ بدر میں مشرکین کی طرف سے شریک ہوئے تھے۔ بنی ہاشم کا جھنڈا ان ہی کے ہاتھ تھا۔ جنگ کے بعد قید کر لیے گئے۔ فدیہ دےکر اپنی جان چھڑائی۔ پھر حلقہ بگوش اسلام ہو گئے۔
بہت سارے علما نے ذکر کیا ہے کہ دکھنے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح تھے۔ [دیکھیں: تاریخ ابن ابی خیثمہ:۱/۲۲۷، الاستیعاب لابن عبد البر:۴/۱۶۷۴، تاریخ دمشق:۵۱/۲۷۴، اسد الغابہ:۲/۳۹۶، وفیات الاعیان:۶/۳۵۱]
(۱۰)عبد اللہ بن عامر بن کریز بن ربیعہ بن حبیب بن عبد شمس بن عبد مناف القرشی العبشمی رضی اللہ عنہ
علامہ ابن الاثیر الجزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ماموں زاد بھائی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری زندگی میں ان کی پیدائش ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے گئے اور شرف صحابیت سے سرفراز ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دیکھ کر فرمایا: هَذَا يشبهنا (ان کی شکل وصورت ہم سے ملتی ہے) [اسد الغابہ:۳/۲۸۹]
دوسرے علما نے بھی کہا ہے کہ ان کی شکل نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتی تھی۔ [دیکھیں: الاستیعاب لابن عبد البر:۳/۹۳۱، الوافی بالوفیات للصفدی:۱۷/۱۲۰، الاصابہ لابن حجر:۵/۱۴، التحفۃ اللطیفہ للسخاوی:۲/۴۵]
(۱۱)مسلم بن معتب بن ابی لہب رضی اللہ عنہ
بلاذری نے ”انساب الاشراف“(4/309) میں انھیں صحابہ کرام میں سے شمار کیا ہے۔ ان کے علاوہ کہیں مجھے ان کا ترجمہ نہیں ملا۔
بلاذری، ابو جعفر بن حبیب اور سخاوی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم شکلوں میں ان کا ذکر کیا ہے۔ [انساب الاشراف:۴/۳۰۹، المحبر لابی جعفر بن حبیب:ص۴۶، استجلاب ارتقاء الغرف للسخاوی: ۲/۵۵۱]
اس ضمن میں بعض علما نے فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی ذکر کیا ہے۔ لیکن شاید ان کی مشابہت شکل وصورت میں نہیں، عادات واخلاق میں تھی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث اسی بات پر دلالت کرتی ہے۔ فرماتی ہیں:
مَا رَأَيْتُ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ كَانَ أَشْبَهَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَلَامًا وَلَا حَدِيثًا وَلَا جِلْسَةً مِنْ فَاطِمَةَ (بات چیت اور بیٹھنے کے اعتبار سے میں نے فاطمہ سے زیادہ کسی کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ نہیں دیکھا) [الادب المفرد للبخاری: ص۳۲۶، حدیث نمبر۹۴۷، وغیرہ۔ علامہ البانی نے الادب المفرد کی تخریج میں اسے صحیح کہا ہے]
ان کی شکل وصورت کے ساتھ مشابہت کے متعلق بھی ایک حدیث وارد ہے جسے امام حاکم نے اپنی ”مستدرک‘‘(۳/۱۷۶، حدیث نمبر۴۷۵۹)میں روایت کیا ہے۔ لیکن حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ”تلخیص المستدرک“میں اسے موضوع یعنی من گھڑت قرار دیاہے۔
اسی طرح مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے بارے معاصرین کے یہاں یہ مشہور ہے کہ وہ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم شکل تھے۔ بعض معاصر سیرت نگاروں نے یہ بیان کیا ہے۔ لیکن جنھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم شکلوں پر بحث کی ہے انھوں نے ان کا نام ذکر نہیں کیا ہے۔ مثلا: محمد بن الحسن المقرئ، حافظ عراقی، ابن الشحنہ، حافظ ابن حجر، علامہ سخاوی، صالحی شامی وغیرہ۔ انھوں نے ان کا نام ذکر نہیں کیا ہے۔
شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا چہرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ نہ رہا ہو، صرف جنگی اسلحے پہننے کے بعد جسم کے ڈیل ڈول، قد وقامت کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح دکھتے ہوں۔ کیونکہ تاريخ الخميس في احوال انفس النفيس (1/429), شرح الزرقاني على المواهب اللدنيہ بالمنح المحمديہ (2/414) اور کئی کتابوں میں اس بات کی علما نے صراحت کی ہے کہ جب وہ جنگی اسلحے پہنتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح دکھتے تھے۔
حسین بن محمد الدیار بکری فرماتے ہیں: “وفى المواهب اللدنية قيل كان سبب الهزيمة ان ابن قميئة الحارثى قتل مصعب بن عمير وكان مصعب اذا لبس لأمته يشبه النبىّ صلّى الله عليه وسلم فلما قتله ظنه رسول الله فرجع الى قريش وقال قد قتلت محمدا”.
لہذا شاید یہ مشابہت چہرے کے ساتھ نہیں تھی۔ واللہ اعلم بالصواب۔
اسی طرح عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے متعلق بھی کہا جاتا ہے کہ ان کی شکل وصورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتی تھی۔ لیکن یہ صحیح نہیں؛ کیونکہ اس کا دار ومدار ایک موضوع روایت پر ہے جسے ابن عدی نے ”الکامل فی ضعفاء الرجال“(۶/۲۳۴) میں روایت کیا ہے۔ حافظ ذہبی اور حافظ ابن حجر نے اسے ”موضوع“ یعنی من گھڑت قرار دیا ہے۔ [میزان الاعتدال:۳/۲۴۶، فتح الباری:۷/۹۸]
نیز عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا حلیہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مختلف بھی تھا۔ [دیکھیں: فتح الباری:۷/۹۸]
اب تک جتنے ناموں کا ذکر ہوا تمام کے تمام صحابہ کرام ہیں اور سب کا تعلق قریش سے ہے۔ ان کے علاوہ بھی بعض دوسرے حضرات ہیں جن کے متعلق علمائے سیرت وتاریخ نے یہ صراحت کی ہے کہ ان کی شکل وصورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتی تھی۔ جن میں سے بعض یہ ہیں:
(۱۲)مسلم بن عقیل بن ابی طالب الہاشمی رحمہ اللہ
یہ تابعی ہیں۔ بہت سارے علما نے ان کی سوانح میں ذکر کیا ہے کہ ان کی شکل وصورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتی تھی۔ [دیکھیں: التاریخ الکبیر للبخاری:۷/۲۶۶، الثقات لابن حبان:۵/۳۹۱، فتح الباری:۷/۹۷]
(۱۳)محمد بن عقیل بن ابی طالب الہاشمی رحمہ اللہ
امام مزی نے ”تہذیب الکمال“(۲۶/۱۳۰) میں کہا ہے کہ ان کی شکل وصورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح تھی۔ اور یہ بڑے نیک تھے۔
(۱۴)کابس بن ربیعہ بن مالک بن عدی القرشی البصری رحمہ اللہ
یہ بھی تابعی ہیں۔ شکل وصورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح تھی۔ اسی وجہ سے معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کی تکریم کی تھی۔ جب ان کے پاس حاضر ہوئے تو ان کے استقبال کے لیے اپنے تخت سے اتر کر آئے اور ان کی پیشانی کو چوما۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ جب انھیں دیکھتے تو بے اختیار رو پڑتے۔ [دیکھیں: المنمق فی اخبار قریش لابی جعفر بن حبیب:ص۴۲۵، انساب الاشراف للبلاذری:۱۱/۳۲، کشف المشکل لابن الجوزی:۱/۴۳]
(۱۵)عبد اللہ بن حارث بن نوفل بن حارث بن عبد المطلب رحمہ اللہ
ان کا لقب ”بَبَّہ“ہے۔ ابو جعفر ابن حبیب اور ابن عبد البر نے کہا ہے کہ ان کی شکل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح تھی۔ [المحبر:ص۴۶، الاستیعاب:۳/۹۹۹]
ان مذکورہ حضرات کو-سوائے مسلم بن معتب بن ابی لہب کے- حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ”فتح الباری“(۷/۹۸) میں صرف دو اشعار میں اختصار کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔ کوئی ان دو اشعار کو یاد کر لے تو آسانی سے ان تمام ناموں کو یاد کر سکتا ہے۔ فرماتے ہیں:
شبه النبي لِيَهٍّ سائبٍ وأبي سفيان والحَسَنَينِ الخال أمهما
وجعفرٍ وَلَدَيْهِ وابنِ عامرٍ كا بسٍ ونَجْلَيْ عَقِيلٍ بَبَّةٍ قُثَمَا
(پندرہ حضرات ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ تھے: سائب بن یزید، ابو سفیان بن حارث، حسن، حسین، ان کے ماموں یعنی ابراہیم، ان کی ماں یعنی فاطمہ، جعفر طیار، ان کے دونوں بیٹے یعنی عبد اللہ وعون، عبد اللہ بن عامر بن کریز، کابس بن ربیعہ، عقیل کے دونوں بیٹے یعنی محمد ومسلم، بَبَّہ یعنی عبد اللہ بن حارث بن نوفل، اور قثم بن عباس)
اس میں فاطمہ رضی اللہ عنہا کا بھی نام ہے، لیکن ابھی اوپر بیان کیا گیا کہ ان کی مشابہت شکل وصورت میں نہیں، عادات واخلاق میں تھی۔
اس شعر میں لفظ ”لِيَهٍّ“ ”لخمسۃ عشر“کےمعنی میں ہے۔ اس میں حافظ ابن حجر نے ”حساب الجُمَّل“ ابجد ھوز حطی کا استعمال کیا ہے۔ حساب الجمل میں یاء دس کے مساوی ہےاور ھاء پانچ کے مساوی۔ دس اور پانچ پندرہ ہوتے ہیں۔
ان خوش نصیب افراد کو اشعار میں ذکر کرنے کا اہتمام دوسرے علما نے بھی کیا ہے۔
مثلا: قاضی ابو الولید ابن الشحنہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وخمسَ عشرَ لهم بالمصطفى شَبَهٌ سِبْطَاه وابنا عَقِيلٍ سائبٍ قُثَمُ
وجعفرٌ وابنُه عَبْدَانِ مسلم أبو سفيانَ كابس عُثْم ابن النِّجَاد هُمُ
انھوں نے بھی پندرہ حضرات کا تذکرہ کیا ہے لیکن حافظ ابن حجر سے بعض نام مختلف ہیں۔ انھوں نے ابن النجاد کا ذکر کیا ہے جن کا نام ابو اسماعیل علی بن علی بن نجاد بن رفاعہ الرفاعی البصری الیشکری ہے۔ یہ راہب العرب کے نام سے معروف ہیں اورروایت حدیث کے باب میں متکلم فیہ ہیں۔ [دیکھیں: التاریخ الکبیر للبخاری:۶/۲۸۸، تاریخ الاسلام للذہبی:۴/۴۶۴، والوافی بالوفیات للصفدی:۲۱/۲۲۰]
ابن سعد نے ”الطبقات الکبری“(۷/۲۷۵) میں فضل بن دکین اور عفان بن مسلم سے نقل کیا ہے کہ ان کی شکل نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتی تھی۔
انھوں نے جو ”مسلم“ کہا ہے اس سے مراد مسلم بن عقیل نہیں ہیں؛ کیونکہ انھوں نے ”ابنا عقیل“ کہا ہے جس میں مسلم بن عقیل شامل ہیں۔ غالبا اس سے مراد مسلم بن معتب بن ابی لہب ہیں جن کا ذکر اوپر صحابہ کرام کی فہرست میں سب سے آخر میں گزرا۔ اس مسلم کا تذکرہ حافظ ابن حجر نے اپنے اشعار میں نہیں کیا ہے۔
علامہ محمد بن یوسف الصالحی الشامی نے ”سبل الہدی والرشاد“(۲/۱۱۵) میں ایک باب قائم کیا ہے جس کا عنوان ہے:معرفة الذين كانت صفات أجسادهم تقرب من صفات جسده صلى الله عليه وسلم (یعنی ان لوگوں کی معرفت جن کی جسمانی صفات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جسمانی صفات کے قریب تھیں)اس باب میں انھوں دو طویل قصیدے نقل کیے ہیں جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت رکھنے والوں کا تذکرہ ہے۔ پہلا قصیدہ ان کے استاد اور جامع دمشق کے امام ابو العباس احمد شہاب الدین الرملی الدمشقی الشافعی کا ہے اور دوسرا قصیدہ شمس الدین محمد بن محمد بن محب الدین احمد بن احمد القیسی المالکی کا۔
اوپر پندرہ سے زائد خوش نصیبوں کا نام ذکر کیا گیا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم شکل تھے۔ اور بھی بعض نام ہیں جن کے متعلق بعض علما نے کہا ہے کہ ان کی شکل نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتی تھی۔ اختصار کے ساتھ انھیں ذکر کیا جا رہا ہے:
قاسم بن عبد اللہ بن محمد بن عقیل رحمہ اللہ
[دیکھیں: تاریخ ابن ابی خیثمہ:۲/۶۴۴-۲/۹۳۳، جمہرۃ انساب العرب لابن حزم :ص۶۹]
ابراہیم بن عبد اللہ بن حسن بن حسن بن علی
[دیکھیں: تاریخ بغداد:۶/۵۵۹، العقد الثمین لابی الطیب المکی الفاسی:۶/۲۴۵، فتح الباری:۷/۹۸]
یحی بن قاسم بن جعفر بن محمد بن علی بن حسین بن علی۔ یہ یحی الشبیہ کے نام سے معروف ہیں۔
[جامع الآثار فی السیر ومولد المختار:۴/۴۳۲، توضیح المشتبہ:۵/۳۸۱]
ابراہیم بن حسن بن حسن بن علی بن ابی طالب
[تاریخ بغداد:۶/۵۵۹]
یہ تو اس امت کی بات ہوئی۔ اگر امت سے باہر کی بات کی جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل وصورت ابراہیم علیہ السلام کی طرح تھی۔ اس کی دلیل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
أما إبراهيم فانظروا إلى صاحبكم(جہاں تک ابراہیم علیہ السلام کی شکل ہے تو اپنے صاحب یعنی اپنے نبی کو دیکھ لو) [صحیح بخاری:حدیث نمبر۵۹۱۳، صحیح مسلم: حدیث نمبر۱۶۶]
علامہ سخاوی نے ”استجلاب ارتقاء الغرف بحب أقرباء الرسول وذوي الشرف‘‘(۲/۵۵۷)میں بیان کیا ہے کہ آدم علیہ السلام کی صورت بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح تھی۔ پتہ نہیں ان کا دارو مدار کیا ہے۔اللہ اعلم بالصواب
اسی طرح مہدی علیہ السلام کے متعلق بھی کہا گیا ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم شکل ہوں گے۔ لیکن شاید یہ شکل کے متعلق نہیں اخلاق وعادات کے متعلق ہے۔ صحیح ابن حبان (حدیث نمبر ۶۸۲۸) کی روایت ہے:
يخرج رجل من أمتي، يواطىء اسْمُهُ اسْمِي، وَخُلُقُهُ خُلُقِي، فَيَمْلَؤُهَا قِسْطًا وَعَدْلًا كما ملئت ظلما وجورا(میری امت میں ایک شخص آئےگا جس کا نام میرے نام پر اور اس کا اخلاق میرے اخلاق کی طرح ہوگا، وہ عدل و انصاف سے زمین کو بھر دے گا، جیسا کہ وہ ظلم و جور سے بھر دی گئی ہے)
لیکن یہ روایت متکلم فیہ ہے۔
ایک روایت میں صراحت کے ساتھ بیان ہوا ہے کہ شکل وصورت میں نہیں صرف اخلاق میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ ہوں گے۔ اسے امام ابو داود نے اپنی ”سنن“(حدیث نمبر۴۲۹۰) میں روایت کیا ہے۔ لیکن اس کی سند بھی ضعیف ہے۔
علامہ سخاوی فرماتے ہیں:عَدُّهُ في الأشباه غلط (ہم شکلوں میں ان کا نام شمار کرنا غلط ہے) [استجلاب ارتقاء الغرف للسخاوی:۲/۵۵۱]
اور بھی بعض ناموں کے متعلق بعض علما نے کہا ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم شکل تھے، لیکن دوسرے علما نے ان کی تردید کی ہے، اس لیے انھی مذکورہ ناموں پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
محترم قارئین! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل وصورت میں مشابہت اختیار کرنا ہمارے بس میں نہیں، لیکن وضع قطع، رہن سہن اور دیگر امور میں مشابہت اختیار کرنا بالکل ممکن ہے۔ بلکہ یہ ہم سے مطلوب بھی ہے کہ ہم ہر چیز میں آپ کو اپنا آئیڈیل بنائیں اور ان کی طرح بننے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالی ہمیں اپنے پیارے نبی کے طریقے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
جزاکم اللہ خیرا،
ماشاء الله، ہت اچھی ریسرچ ہے یہ، اللہ آپ کے علم میں زیادتی فرامائے اور عوام الناس کو بھی فائدہ پہونچائے۔ آمین۔
ما شاء الله بارك الله فيك وجعلك مفتاحا للخير ومغلاقا للشر
ما شاء اللہ
بارک اللہ فی علمک
ماشاء اللہ کافی تحقیقی مقالہ ہے الھم زد فزد