مفاد پرستی کا آزار

رشید سمیع سلفی سماجیات

مفاد پرستی ایک بدترین خصلت ہے جو خلوص و ایثار کے منافی ہے،دنیاپرستی کی ذلیل ترین سطح ہے،حرص وآز خود غرضی وخود پرستی کا آئینہ دار ہے۔دنیامیں ہمیشہ ایثارووفا،خلوص واپنائیت ،ترجیح واحسان جیسے اوصاف کو سراہا گیا ہے، قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے،مفاد ومنفعت کے بندوں کی مذمت کی گئی ہے۔یہ دنیا پرستوں اور طالع آزماؤں کا وطیرہ ہے کہ وہ لوگوں کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں،حقیر نفع کے لیے انسانیت کے تقاضوں کو پس پشت ڈال دیتےہیں۔ مشاہدہ کیجیے تو ہر جگہ مفاد پرستی کا کھیل جاری وساری ہے،زندگی کے ہر میدان میں اس کا چلن ایسا عام ہے کہ دوست احباب کو بھی مطلب پرستی کی چھری سے ذبح کردیا جاتا ہے۔شاعر کہتا ہے؎

شاید کبھی خلوص کو منزل نہ مل سکے گی

وابستہ ہے مفاد ہر ایک دوستی کے ساتھ

مفاد پرستی پر اکثر خلوص ووفا کا ریشمی غلاف چڑھا ہوتا ہے،لفظ وبیان کی ملمع کاری ہوتی ہے،لب ولہجہ کی شیشہ گری ہوتی ہے،خوبصورت حوالے اور جملوں کے جالے ہوتے ہیں تاکہ شکار کو اعتماد میں لے کر مطلب کشید کیا جائے اورآنکھوں پر غفلت و بے خبری کی پٹی باندھ کر استحصال کیا جائے؎

ریشم سے نرم لہجے کے پیچھے مفاد تھا

اس تاجری کو ہم نے شرافت سمجھ لیا

مفاد پرست کے مقصد کو پہچاننا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن جب آپ سے مفاد کا حصول کرلیا جاتا ہے اور ظاہری پردہ ہٹتا ہے تو آپ کف دست ملتے ہیں،ضیاع کا احساس آپ کو ہارا ہوا بنا دیتا ہے،رسمی تکلفات کی ایسی کیفیت ہوتی ہے کہ آپ کچھ کرنہیں سکتے۔پہلے تو آؤ بھگت تھی،تکریم و تعظیم تھی،قدردانی وقدر شناسی تھی،دل فرش راہ ہوتا تھا لیکن مراد برآنے کے بعد ساری گرمجوشی کافور ہوجاتی ہے،برتاؤ کی سرد مہری اور انداز کا روکھاپن انسان کو مار ہی دیتا ہے؎

آنکھوں کا رنگ، بات کا لہجہ بدل گیا

وہ شخص ایک شام میں کتنا بدل گیا

دنیا میں گھوم پھر کر دیکھیے تو جابجا مفاد کے کھلاڑی دام ہمرنگ زمین لیے پھرتے نظرآئیں گے،ان کی چوٹ سے گھائل مظلوم بھی دکھائی پڑیں گے۔دنیا عجائب گھر اور کشمکش کا میدان ہے،انسانیت کا درد کم ہی لوگوں میں نظرآتاہے،دنیاپرستی کا بے لگام جذبہ انسانی جان کو بھی حقیر مصلحت کی بھینٹ چڑھانے سے نہیں چوکتا۔
ذرا آگے بڑھیے اور مفاد پرستی کے رنگ برنگ مظاہر دیکھیے اور سر دھنیے،سرکاری گلیاروں سے لے کر چھوٹے سے گھر کی چہار دیواری تک مفاد کا لہلہاتا سبزہ زار ہے۔سیاست تو پوری کی پوری مفاد پرستی کا اکھاڑہ ہے، سیاسی بازیگروں کی رگوں میں تو مفاد و منفعت کا خون دوڑتا ہے،ایوان اقتدار کی بلند وبالا عمارت کی اینٹ اینٹ سے مفاد ومنفعت،موقع پرستی وابن الوقتی پھوٹتی محسوس ہوتی ہے،سفید پوش سیاسی طالع آزماؤں کے قدموں پر خلوص و امانت دم توڑ رہی ہوتی ہے،ان کی زندگی مکر ودغا کے گندے پانیوں میں غوطے کھارہی ہوتی ہے۔
تجارت کا حال بھی کچھ مختلف نہیں ہے،بازار تجارت میں حرص وہوس،جھوٹ،غلط بیانی،ملاوٹ، چوری اور مفاد پرستی ہی کے شاخسانے ہیں۔کوئی فرش سے عرش پر جست لگاتا ہے تو کوئی عرش سے فرش پر آجاتا ہے،مفاد پرستی کا آزار انسان کو مفاد کے علاوہ ہر چیز سے بے نیاز کردیتا ہے،ضرورت پڑی تو گدہا بھی بن جاتا ہے اور کبھی گدہے کی اولاد بھی بن جاتا ہے۔ کسی نے اچھا شعر موزوں کیا ہے؎

مفاد نفس کی جادو گری کا حال کیا کہیے

گدہے کو والد عالی حشم کہنا ہی پڑتا ہے

تعلیم گاہوں میں تو کشت مفاد لہلہا رہی ہے،لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے، تعلیم کی بڑھتی مہنگائی کے پس پشت مفاد کا جذبہ ہی کارفرما ہے،تفصیلی سروے بتاتا ہے کہ تعلیم کے بہانے نفع بخش تجارت ہے جو پھل پھول رہی ہے،غلطی سے بھی انسانیت کی خدمت کا نام نہ لیں،یہ الفاظ صرف تقریر اور اسٹیج پر بولنے کے ہوتے ہیں،یہی وہ کوچہ ہے جہاں بڑوں کی خوشامد وچاپلوسی نہ صرف ایک فن بلکہ صنعت بن چکی ہے،ضروری بھی ہے کیونکہ صلاحیتوں کے فقدان کی تلافی کیسے ہوگی؟کارکردگی بہتر کیسے ثابت ہوگی؟مستقبل میں پرموشن کیسے ہوگا؟
مدارس کی کہانی بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے،مفاد پرستی موقع محل اور نفسیات کے مطابق روپ بدل کر جلوہ دکھاتی ہے،چندوں میں دھاندلی اور بدعنوانی اسی جذبے کی کارستانی ہے،درون مدرسہ صلاحیتوں کا استعمال کم اور استحصال زیادہ ہے،کہیں کہیں بڑی مچھلیاں تو واجبی حقوق پر بھی ہاتھ صاف کردیتی ہیں، کسی کو سالہاسال کے بعد پتہ چلتا ہے کہ تنخواہ پیپر پر کچھ اور عمل درآمد کے لیے کچھ اورتھی،بڑوں کے تقرب کا آزار اس کوچے میں بھی پایا جاتا ہے،بلکہ بعض عناصر کو حد سے گذرنا بھی آتا ہے۔
دوستی کے تعلق کی بھی مفاد پرستی سے رسم وراہ ہوتی ہے،کبھی تو دوست کی زرخیز جیب کشش رکھتی ہے اور کبھی دوست کے رسوخ سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے پھر یہ رسوخ دودھ دینے والی گایوں تک پہنچاتا ہے،بہرکیف مراد برآتی ہے،فنکاری کا کمال یہ ہے کہ پہلا حاشیے پر چلا جاتا ہے اور دوسرا دودھ کی ملکیت کا بلا شرکت غیرے مالک بن جاتا ہے،کیا سمجھے آپ؟مفاد پرستی صرف عادت نہیں بلکہ فن ہوگئی ہے،کسی نے ایسی ہی چوٹ کھاکر لکھا ہے کہ؎

دلچسپ واقعہ ہے کہ کل اک عزیز دوست

اپنے مفاد پر مجھے قربان کرگیا

نیرنگئ وقت تو دیکھیے کہ کہیں کہیں مقدس رشتے بھی مفاد پرستی کی تاخت سے نہیں بچ پاتے ہیں، واقعات یوں بھی ہیں کہ باپ برسر روزگار بیٹی کا نکاح اس لیے نہیں کررہا ہے کہ کہیں بیٹی کی تنخواہ کسی اور کی تحویل میں نہ چلی جائے،بیٹی کا شباب کمھلا رہا ہوتا ہے،حسرتیں دم توڑ رہی ہوتی ہیں لیکن مفاد پرست باپ کو رحم‌نہیں آتا ،قدم قدم پر امانت ودیانت کا کلیجہ شق کردینے والے واقعات ہیں،مفاد کا جادو کیا کیا گل کھلاتا ہے؟اس کی کوئی سیما نہیں ہے؎

بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے

ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے

ہے موجزن اک قلزم خوں کاش یہی ہو

آتا ہے ابھی دیکھیے کیا کیا مرے آگے

مولوی کی مفاد پرستی ذرا مومنانہ ٹائپ کی ہوتی ہے۔بدعت کو زمزم سے دھو دو تو وہ سنت نہیں ہوجاتی البتہ بدعت کے جلو میں خوبصورت نعرے اور بھاری بھرکم جبہ وعمامہ ہوتو جواز اور حلال سے بھی اوپر کی چیز ہوجاتی ہے،یہاں حریم مفاد پر اتنے دبیز پردے پڑے ہوتے ہیں کہ ان پردوں کو چاک کرنا تو درکنار ان پر نگاہ غلط انداز بھی بہت بڑا جرم ہوتا ہے۔میلادی مولویوں کی نذر نیاز سےلے کر حلوہ اور کھچڑے کا تام جھام بھی ایسی ہی مومنانہ مفاد پرستی کا کھیل ہے،دوسری طرف اس مفاد پرستی کی شکار امت کی سادہ لوح عوام ہے جو خوبصورت نعروں اور ہوائی جذبوں کے نشے میں دھت ہے۔
مفاد پرستی کی ایک مہذب ادا یہ بھی ہے کہ حلالہ کی چھری کے خوف سے مولوی متاثرہ مریدنی کے لیے اہل حدیث مفتی کے پاس پہنچتا ہے،تین طلاق کے بعدکی گنجائش کا فتوی تو ادھر لےلیتا ہے لیکن تجدید نکاح کے خوبصورت لفافے کی طلب اسے ادھر لے کر چلی جاتی ہے،اس قبیل کی مفاد پرستی کی گیسوئے دراز تو اور کئی حیران کن واقعات تک دراز ہے لیکن بات بہت دور تک چلی جائےگی،یہاں مضمون کی طوالت قارئین کو طول شب فراق کا درد دینے لگی ہے،لہذا رخصت اے بزم یاراں!

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
عبدالمجید عبداللطیف

Masha Allah