مولانا عبد السمیع جولم فیضی مدنی؍حفظہ اللہ: اپنی خدمات کے آئینے میں

آصف تنویر تیمی تاریخ و سیرت

دین اسلام کی راہ میں ہندونیپال کے علماء کے سنہری کارنامے آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ یقینا گزشتہ سوسالوں میں ہندونیپال کے شمالی حصے میں دعوت واصلاح اور تعلیم وتعلم کا بڑا کام انجام پایا ہے۔ اور اس کے پیچھے ہمارے علما وفضلا کی بے پناہ محنتیں رہی ہیں جو تاریخ کی زینت ہیں۔ہمارے علماء میں سے بعض کی قسمت میں شہرت نصیب ہوئی اور بعض بڑی خاموشی سے اپنی علمی اور دعوتی زندگی بسر کرتے رہے۔ ایسے ہی خاموش مزاج علماء اور دعاۃ میں سے ایک شیخ عبدالسمیع جولم فیضی مدنی حفظہ اللہ بھی ہیں، جن کی پوری زندگی تدریس وتعلیم، دعوت وتبلیغ،مدارس وجامعات کی تاسیس،تعلیمی اداروں کاتعاون اور جماعتی غیرت وحمیت سے عبارت ہے۔
ذیل کی سطور میں مولانا موصوف کی خدمات کے چند گوشے اختصار کے ساتھ قلمبند کیے جارہے ہیں تاکہ نئی نسل ان کے کارناموں سے مستفید ہو۔
نام ونسب:
آپ کا نام عبدالسمیع بن جولم بن بچومیاں بن تھلی میاں ہے۔ پاسپورٹ کے مطابق آپ کی ولادت یکم جنوری۱۹۵۱ء(اصل تاریخ پیدائش معلوم نہیں) کو نیپال کے ضلع جنکپور دھام کی ایک مشہور بستی ٹھیلہ میں ہوئی۔ والد صاحب نے جب اسکول اور مدرسہ میں داخلہ دلوایا تو ایک اندازے سے مذکورہ تاریخ لکھ دی گئی۔
خاندانی پس منظر:
مولانا کا پورا خاندان پہلے ٹھیلہ میں آباد تھا، خاندان کی بہت ساری زمینیں اس گاؤں کے قریب ایک دوسری بستی’جرہیا‘ میں بھی تھیں، جہاں کھیتی باڑی ہوا کرتی تھی اور اناج وغیرہ بھی وہیں رکھے جاتے تھے۔ اس طرح دھیرے دھیرے پورا خاندان ٹھیلہ سے جرہیامنتقل ہوگیا۔ ان کے خاندان سے پہلے بھی کئی خاندان اس گاؤں سے جرہیا منتقل ہوچکے تھے، مثلا منصف میاں کا خاندان، بنٹھا میاں کا خاندان، گنائی میاں کا خاندان اور رحیمن میاں کا خاندان وغیرہ۔ اگر دیکھا جائے تو اس وقت جرہیا کی بڑی آبادی ٹھیلہ ہی کے مہاجرین پر مشتمل ہے۔ایک اندازے کے مطابق مولانانے اپنے خاندان کے دوسرے افراد کے ساتھ جرہیا کو مستقل طور پر ۱۹۶۶ء میں رہائش گاہ بنایا۔اگرچہ آپ کے والدین تعلیم یافتہ نہیں تھے۔ مگر اپنے بچوں کو تعلیم یا فتہ بنانے کے خواہاں تھے، چنانچہ مولانا کے ہوش سنبھالنے کے بعد ہی تعلیم کا آغاز ہوگیا۔
ابتدائی تعلیم:
آپ نے اپنی تعلیم کا آغاز ٹھیلہ ہی کے ایک سرکاری اسکول سے کیا،یہاں آپ نے چارپانچ کلاسوں تک کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد والدین کے مشورے سے ٹھیلہ ہی کے ایک قدیم مدرسہ’’مدرسہ نجم الہدی‘‘ میں آپ کا داخلہ ہوگیا۔ابتدائیہ کے سارے درجات آپ نے یہیں مکمل کیے۔ بلکہ عربی کی پہلی جماعت تک کی بھرپور تیاری بھی کرلی۔
آپ کے یہاں کے اساتذہ میں مولانا ضیاء الرحمن(ریام کوٹھی دربھنگہ)، مولانا ظفیر احمد( بچھاڑ پور، دربھنگہ) اور مولانا عبدالعزیز رحمانی قابل ذکر ہیں۔ ان میں سے آخر الذکر سے آپ کو کافی فائدہ ہوا، انھوں نے آپ پر خصوصی توجہ دی اور اس لائق بنایا کہ یہاں کے بعد کسی بھی مشہور ومعروف مدرسہ اور جامعہ میں آپ بہ آسانی پہلی جماعت میں داخلہ لے سکیں۔
اعلی تعلیم:
مدرسہ نجم الہدی،ٹھیلہ نیپال کے بعد آپ نے اپنے مشفق استاذ مولانا عبدالعزیز رحمانی کے مشورے سے اعلی تعلیم کی غرض سے ۱۹۶۰ء میں ہندوستان کے معروف مدرسہ فیض عام،مئو کا رخ کیا۔ اتنی استعداد ہوچکی تھی کہ عربی درجات میں داخل ہوسکیں، ممتحن کے امتحان کے بعد آپ فیض عام کی پہلی جماعت کے لیے اہل قرار پائے،اس طرح آپ کا داخلہ فیض عام میں ہوا۔ سابقہ استعداد اور موجودہ محنت ولگن نے سونے پر سہاگہ کا کام کیا، اس سال پوری جماعت میں اول پوزیشن حاصل کی۔ اساتذہ اور ذمہ داروں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ اسی مناسبت سے شہر کے متمول شخص جناب حاجی سلیم صاحب (کوٹھا والے) نے ناظم مدرسہ مولوی احمد صاحب کی زبانی اعلان کروایا کہ جس نے پہلی جماعت میں پہلی پوزیشن حاصل کی ہے اس کی کفالت ان کے یہاں ہوگی،اس طرح مولانا فیضی کے کھانے پینے کا مکمل نظم حاجی صاحب کے گھر ہوگیا۔ مولانا فیضی بتلاتے ہیں کہ حاجی صاحب کا گھرانہ ضیافت اور کفالت کے لیے مشہور تھا، ہر دن خصی کا گوشت ، بہترین چاول اور روٹی کھانے میں ملتی تھی،اس کے بعد سے ہر طالب اس بات کا خواہاں ہوتا تھا کہ اس کی کفالت حاجی صاحب کے گھر ہو، مگر؎

یہ منصب بلند ملا جس کو مل گیا

ہر مدعی کے واسطے دارورسن کہاں

اس طرح مولانا فیضی پہلی جماعت سے آخری جماعت فضیلت تک حاجی صاحب اور ان کے انتقال کے بعد ان کے بیٹوں جناب اظہار الحق اورا نور الحق(کوٹھا والے) کے مہمان بنے رہے۔ بلکہ آپ ہی کی سفارش سے آپ کے چھوٹے بھائی جناب ڈاکٹر عبداللہ جولم عمری مدنی( استاذ جامعہ دار السلام عمر آباد) کی کفالت بھی حاجی صاحب کے گھر ہوئی۔
آپ کے فیض عام کے اساتذہ میں سے مولوی احمد(ناظم مدرسہ) اور مفتی حبیب الرحمن ہیں، ثانی الذکر سے آپ نے صحیح بخاری جلد اول پڑھی۔ قاری عبدالسبحان صاحب سے آپ نے مشکاۃ المصابیح کا درس لیا۔ مولانا عبدالمعید بنارسی(ابو عبیدہ) سے آپ نے فلسفہ کی مشہور کتاب ہدایۃ الحکمۃ پڑھی۔ ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری( مولانا معاصر اور استاذ دونوں تھے) سے آپ نے القراء ۃ الرشیدۃ پڑھی۔ ڈاکٹر عبد العلی مئوی(معاصر واستاذ) سے آپ نے نحو کی قدیم کتاب شرح جامی کا سبق لیا۔ اور شیخ صفی الرحمن مبارکپوری(معاصر واستاذ) سے آپ نے بلوغ المرام پڑھا۔
یہاں یہ واقعہ قابل ذکر ہے کہ اسی زمانے میں ڈاکٹر عبدالعلی ازہری مئوی فیض عام سے فارغ ہوکر استاذ بحال ہوئے تھے،وہ نہایت ذہین فطین اور زبردست قوت حافظہ کے مالک تھے۔ ان کی اسی صلاحیت کی وجہ سے ناظم مدرسہ( مولوی احمد صاحب) نے انھیں اس سال مدرسہ کی نئی مسجد (جسے حاجی سلیم صاحب،کوٹھا والے ہی نے بنوایا تھا)میں تراویح پڑھانے کو کہا۔ ڈاکٹر صاحب حافظ نہیں تھے، یہ ایک عظیم ذمہ داری تھی، لیکن قبول کرلی اور اللہ کی مدد اور ذاتی محنت سے روزانہ ایک پارہ قرآن یاد کرکے نمازیوں کو سنانے لگے، حافظہ ایسا قوی تھا کہ روزانہ یاد کرنے اور سنانے کے باوجود کہیں بھی تشابہ نہ لگتا، سننے والے کومحسوس ہوتا کہ زمانے کے حافظ ہیں۔ اس وقت ان کے پیچھے نماز ادا کرنے والوں میں مولانا فیضی بھی ہیں۔
تدریسی مراحل:
فیض عام سے ۱۹۶۸ء میں فراغت کے بعد درس وتدریس سے منسلک ہوگئے۔ آپ نے تدریس کا باضابطہ آغاز شمالی بہار کے ایک نہایت قدیم ادارہ’مدرسہ احمدیہ سلفیہ‘ بیرگنیاں(سنہ تاسیس ۱۳۳۳ھ) سے کیا۔ مولانا ابو القاسم سلفی (استاد مدرسہ احمدیہ ) کو خبر لگی کہ اس سال فیض عام سے ایک ہونہار،لائق وفائق نوجوان عالم عبدالسمیع فارغ ہورہا ہے، چنانچہ انھوں نے موقع کو غنیمت جانا اور فورا پینتالیس(۴۵) روپئے کے مشاہرہ پر مولانا فیضی حفظہ اللہ کو مدرسہ احمدیہ لے آئے۔آپ کی لیاقت اور محنت کو بھانپتے ہوئے ذمہ داران مدرسہ نے جلد ہی آپ کی تنخواہ ۷۵؍روپئے،اس کے بعد ۱۵۰؍روپئے کردی۔ چونکہ یہ مدرسہ حکومت بہار سے بھی ملحق تھا،اس لیے بورڈ سے بھی پندرہ(۱۵)روپئے مل جاتے تھے۔ اس زمانے میں مذکورہ تنخواہ اعلی تنخواہ شمار ہوتی تھی۔
اس طرح ۱۹۶۸ء سے ۱۹۷۴ء تک مولانا عبد السمیع صاحب فیضی مدرسہ احمدیہ سلفیہ،بیراگنیاں، سیتامڑھی کے استاذ رہے۔ اس دوران انھوں نے بڑی محنت اور لگن سے عربی کی چھٹی جماعت تک طلبہ کو پڑھایا۔اس وقت اس مدرسے میں صوبہ اور ملک کے قابل فخر اساتذہ موجود تھے۔ جیسے: مولانا ابوالقاسم سلفی(مدھوبنی)، مولانا عباس سلفی(مدھوبنی)، مولانا عزیز الرب فیضی( مدھوبنی)، مولانا خلیل احمد سلفی(مشرقی چمپارن)، مولانا بشیر احمد فیضی( سیتامڑھی) اور مولانا حبیب الرحمن مدنی(بستی،یوپی)وغیرہ ۔
آپ نے یہاں جو کتابیں پڑھائیں ان میں ازھار العرب، شرح وقایہ، ھدایہ، مرقاۃ(منطق) اور کچھ حدیث وتفسیر کی کتابیں اہم ہیں جن کا نام ایک زمانہ گزرنے کی وجہ سے یاد نہ رہا۔یہاں آپ کے بے شمار شاگردان ہوئے، جن میں مولانا خورشید عالم سلفی مدنی(مشرقی چمپارن)، مولانا نظام الحق سلفی (مشرقی چمپارن)، مولانا ممتاز عبداللطیف مدنی(استاذ جامعہ اسلامیہ سنابل)، مولانا انیس الرحمن ازہری (پروفیسر ملیشیا یونیورسٹی)،پروفیسر عفان سلفی(اموا،مشرقی چمپارن)،ڈاکٹر نیک محمد (لچھمنیا، نیپال)،مولانا ارقم صاحب(جھنگڑوا،نیپال)اور ڈاکٹر مظہر(بکھری،مشرقی چمپارن) وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
آپ مدرسہ احمدیہ سلفیہ ہی میں مدرس تھے کہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے آپ کی منظوری ڈاکٹر عبداللہ جولم کی کوشش سے آگئی۔ چونکہ ڈاکٹر صاحب حفظہ اللہ نے جامعہ دار السلام عمر آباد سے فراغت حاصل کی تھی اور عمر آباد کا معادلہ پہلے سے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے ہوچکا تھا، اس لیے ان کی منظوری بھی پہلے آئی اور وہ وہاں چلے گئے، جاتے ہوئے اپنے بھائی کی سرٹیفکیٹ بھی لے گئے، چونکہ اب تک فیض عام کا الحاق جامعہ اسلامیہ سے نہیں ہوا تھا، اس لیے داخلہ ممکن نہ تھا، چنانچہ مولانا عبدالسمیع فیضی صاحب کی منظوری الہ آباد بورڈ کی مولوی کی ڈگری کی بنیاد پر آئی تھی۔
اس زمانے میں نیپال کے لوگوں کا سوائے حج کے پاسپورٹ نہیں بنتا تھا، اس لیے مولانا فیضی کو بڑی دشواری ہوئی۔محسنوں کے تعاون اور اللہ کی مدد سے پاسپورٹ بنا اور اس طرح ۱۹۷۵ء میں تاخیر ہی سٍے سہی آپ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ روانہ ہوگئے۔ وہاں جانے کے بعد فیض عام کا معادلہ نہ ہونے کی وجہ سے آپ کو ’’معہد اللغۃ العربیۃ لغیر الناطقین بہا‘‘میں داخلہ ملا، جس کے لیے آپ بالکل تیار نہ تھے۔ آپ کی شدید خواہش تھی کہ آپ کا داخلہ کلیہ میں ہو۔ چنانچہ آپ نے اس کا راستہ یہ نکالا کہ محنت اور مشقت کرکے فیض عام کا الحاق جامعہ اسلامیہ سے کرایا تاکہ کسی طرح آئندہ سال کلیہ میں داخلہ ہوجائے۔ اور ایسا ہی ہوا، آپ کی کوشش اور اللہ کی توفیق سے فیض عام کا الحاق جامعہ اسلامیہ سے ہوگیا اور اس طرح آپ کی بھی خواہش پوری ہوئی، اگلے سال آپ کلیۃ الحدیث الشریف میں چلے گئے۔ یقینا آپ کا یہ کارنامہ عظیم الشان اور قابل فخر ہے۔ اے کاش!آج کا ہر طالب علم اپنے مدرسے کے لیے اسی طرح مخلص اور کوشاں ہوتا۔ اگر دیکھا جائے تو اس وقت ہر فیضی مدنی آپ کا ممنون اور احسان مند ہے۔یہی نہیں بلکہ آپ نے وہاں جانے کے بعد مدرسہ احمدیہ سلفیہ بیرگنیاں کا بھی معادلہ جامعہ اسلامیہ سے کرایا، چنانچہ یہاں سے بھی درجنوں طلبہ وہاں تعلیم کے لیے جاچکے ہیں۔ ان شاء اللہ ان کی اس کوشش کا بہتر بدلہ دنیا وآخرت میں ان کو ملے گا۔
جامعہ اسلامیہ میں آپ کے مشہور اساتذہ میں شیخ حماد انصاری، شیخ عبدالمحسن عباد، شیخ امان جامی، شیخ عبدالکریم مداد، شیخ عبدالغفار حسن، شیخ ضیاء الرحمن اعظمی، شیخ اکرم ضیا عمری وغیرہ ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ آپ نے جس سال کلیۃ الحدیث الشریف میں داخلہ لیا اسی سال اس کلیہ کا قیام عمل میں آیا تھا۔ اس اعتبار سے آپ اس کلیہ کے پہلے بیچ کے فارغین میں سے ہیں۔
۱۹۸۰ء جامعہ اسلامیہ سے آپ کے فراغت کا سال ہے۔ اسی سال حرم مکی میں عبداللہ جہیمان(یمنی) کا واقعہ بھی پیش آیا، جس سے جامعہ اسلامیہ اور سلفیوں کی کچھ بدنامی بھی ہوئی۔مولانا فیضی اس واقعہ سے متعلق بتلاتے ہیں کہ سعودی عرب حکومت کے لیے یہ بڑا سانحہ تھا،خود مفتی سعودی عرب شیخ ابن بازؒ کچھ وقت کے لیے شش وپنج میں پڑگئے اور پورے دن کوئی رائے اور فتوی نہ دے سکے تھے۔پھر اس کے بعد انھوں نے جہیمان کے مہدی ہونے کے دعوے کو باطل قرار دیااور پاکستانی افواج کی جوانمردی اور دلیری سے جہیمان اور اس کے سارے چیلے چپاٹے مارے اور پکڑے گئے۔جہیمان نے مہدی ہونے کا ڈھونگ محض اس لیے رچا تھا کہ اس کو سعودی عرب کی سرکاری ملازمت سے کسی وجہ سے برطرف کردیا گیا تھا۔
فراغت کے سال ہی ڈاکٹر سید عبدالحفیظ سلفی(ناظم دار العلوم احمدیہ سلفیہ،دربھنگہ) نے جامعہ اسلامیہ کے مدیر شیخ عبداللہ زائد کو مولانا فیضی سے متعلق خط لکھا کہ فراغت کے بعد انھیں بطور استاذ وداعی دار العلوم بھیج دیا جائے، مولانا سلفی کی نظر انتخاب ان پر اس لیے پڑی تھی کہ انھوں نے جامعہ اسلامیہ کے طلبہ سے ان کی علمی گہرائی وگیرائی سے متعلق سن رکھا تھا نیز ان کا گھر بھی دار العلوم سے قریب تھا۔ اس طرح فراغت کے بعد جامعہ اسلامیہ کی طرف سے بڑی تنخواہ پر مولانا فیضی دار العلوم بطور مدرس وداعی متعین ہوگئے۔ ۱۹۸۳ء تک آپ پوری دلجمعی اور یکسوئی سے دار العلوم کی خدمت کرتے رہے۔لیکن افسوس اسی سال جامعہ اسلامیہ نے مدرسین اور دعاۃ کی کفالت کایہ سلسلہ موقوف کردیا، جس سے مجبورا آپ کو تدریسی عمل بندکرنا پڑا اور اپنے وطن نیپال چلے گئے۔ لیکن جلد ہی ڈاکٹر عبدالحفیظ سلفی رحمہ اللہ نے آدمی بھیج کر ایک ہزار(۱۰۰۰) مشاہرہ پر دار العلوم بلالیا اور آپ آبھی گئے۔ آپ کا دوبارہ آنا مبارک ثابت ہوا اور صرف تین ماہ کے بعد آپ کا تعاقد دار الافتاء سے ہوگیا، اس طرح آپ ایک بار پھر سے پورے اطمینان ،خوش دلی اور فارغ البالی کے ساتھ درس وتدریس اور دعوت وتبلیغ سے جڑ گئے۔ لیکن چونکہ اس بار آپ کا تعاقد انڈیا نہیں نیپال کے لیے ہوا تھا، اس لیے نیپال ہی میں رہ کر کام کرنا آپ کی مجبوری تھی، آگے آپ نے مستقل طور پر نیپال کے شہر جنکپور کو اپنی تدریس ودعوت کا محور ومرکز بنایا اور ان گنت مجاہدانہ کارنامے انجام دیے۔ انھیں قدرے تفصیل سے آئندہ کی سطور میں ذکر کیا جائے گا۔
آپ کے دار العلوم کے شاگردوں میں مولانا نور العین سلفی(ہر لاکھی)، مولانا بدر عالم سلفی( استاذ دار العلوم احمدیہ سلفیہ،دربھنگہ) اور مولانا اختر عالم سلفی(مؤسس جامعہ اسلامیہ ریاض العلوم شنکر پور، سپول،بہار)وغیرہ کے اسماء قابل ذکر ہیں۔
دار العلوم احمدیہ سلفیہ کے بعد آپ نے تدریسی ودعوتی جولان گان کے طور پر جنکپور نیپال کے مشہور ادارہ’’مدرسہ شمس الہدی‘‘ کو منتخب کیا، جس کے بانی مولانا شمس الحق سلفی( استاذ فیض عام مئواور شیخ الحدیث جامعہ سلفیہ بنارس) اور ان کے بھائی مولانا عین الحق سلفی( استاذ دار العلوم احمدیہ سلفی، دربھنگہ) تھے۔ مولانا عبد السمیع فیضی صاحب جامعہ اسلامیہ مدینہ کے طالب علمی کے زمانے میں ہی اپنے نیپال کے ساتھیوں کے تعاون سے اس مدرسہ کے معین ومددگار رہے تھے، بلکہ اس مدرسہ کو تعلیمی اور تعمیری اعتبار سے وسعت دینے میں آپ کا سب سے زیادہ ہاتھ تھا۔ آپ ہی کے مشورے سے مدرسہ شمس الہدی کا نام بدل کر ’’جامعہ سلفیہ،جنکپور‘‘ کیا گیا تھا، تاکہ عام لوگوں کو معلوم ہو کہ جس علاقے میں یہ مدرسہ قائم ہے وہاں سلفی حضرات بھی پائے جاتے ہیں۔ اسی وقت سے جنکپور،نیپال کا یہ جامعہ سلفیہ کافی مشہور ہوا۔جوق در جوق طلبہ ہندونیپال سے یہاں تشریف لاکر اپنی علمی پیاس بجھانے لگے۔ مولانا فیضی کے آنے اور ناظم بننے کے بعد جامعہ سلفیہ نے چندسالوں میں بڑی ترقی کی، کثیر تعداد میں فراغت تک کے طلبہ کے ساتھ ماہر اساتذہ کی ٹیم بھی وہاں جمع ہوگئی اور مولانا فیضی کی کوششوں سے جامعہ سلفیہ کا معادلہ بھی جامعہ اسلامیہ سے ہوگیا،اس طرح ہر سال یہاں کے تین چار طلبہ کا داخلہ جامعہ اسلامیہ میں ہونے لگا۔لیکن آپسی اختلاف وانتشار کی وجہ سے چندسالوں کے بعد یہ ادارہ بند ہوگیا۔ مولانا فیضی اور دیگر احباب جماعت کی کوششوں کے باوجود ادارے کو وہ نیک نامی نہ مل سکی جو پہلے تھی۔اس کے بعد مولانا فیضی نے اپنے پیسے سے وہیں قریب میں مدرسہ کے لیے دوسری زمین لی،طلبہ اور اساتذہ ساتھ تھے،اس کا نام بھی جامعہ سلفیہ رکھا گیا، جامعہ کے اساتذہ تعاون کے لیے سعودی عرب اور خلیج کا سفر کرتے رہے، مگر پیسے نے سب کو ایک دوسرے اور دین کے کام سے دور کردیا، پھر سے اختلاف کی ہوا چلی، سب نے اپنا ذاتی ادارہ قائم کرنا شروع کردیا،اساتذہ بھی منتشر ہوگئے، ادارے کے تعاون اور آمدنی کے جو داخلی اور خارجی دروازے تھے دھیرے دھیرے وہ سب بھی بندہوگئے۔ مجبوراآج کی تاریخ تک دوسرا جامعہ سلفیہ نیپال بھی بند ہے، بیچ میں مولانا فیضی نے جامعہ امام ابن باز کے نام سے جامعہ سلفیہ جدید کو شروع کرنے کی کوشش کی مگر عمر اور تنہا ہونے کی وجہ سے کامیاب نہ ہوسکے۔ اب مولانا فیضی کے بیٹے اس لائق ہوئے ہیں کہ وہ ادارے کو دوبارہ رخ دے سکیں تو دیکھیے وہ وقت کب آتا ہے کہ جامعہ سلفیہ اپنی پرانی روشن تاریخ رقم کرتا ہے۔
ادارے پر نادانوں کی نادانی غالب آئی، اپنے غیروں سے مل گئے، مدرسہ کو بھی داؤ پر لگادیا، ذاتی دشمنی، پیسوں کی حرص وہوس نے سب کو اندھا کردیا، الزامات اور تہمت تراشیوں کا دور دورہ رہا، جس کی وجہ سے قوم وملت کا یہ عظیم سرمایہ آج بھی ماتم کناں اور اپنی آبیاری کا منتظر ہے۔
جامعہ سلفیہ قدیم اور جدید میں جن لوگوں نے تدریسی فرائض انجام دیے ان میں مولانا عمیر سلفی، مولانا حبیب الرحمن فیضی مدنی، مولانا عبدالقیوم سلفی مدنی، مولانا اشرف فیضی مدنی، مولانا عبد اللہ مدنی جھنڈا نگری اور مولانا ارشد فہیم سلفی مدنی(سابق نائب رئیس جامعہ امام ابن تیمیہ) کے نام قابل تحریر ہیں۔یہاں کے فارغین کی کثیر تعداد ہندونیپال کے شہروں میں درس وتدریس اور دعوت وتبلیغ سے منسلک ہے۔
مولانا فیضی جامعہ سلفیہ قدیم وجدید کے بندہونے کے بعد خاموشی کے ساتھ اپنے علاقے میں اپنی بساط بھر دین کی خدمت انجام دے رہے ہیں، ۱۹۹۵ء تک وہ باضابطہ وزارۃ الشؤون الاسلامیہ کی طرف سے داعی تھے، اس کے بعد یہ بھی ختم ہوگیا، لیکن ان کی دعوت کا سلسلہ موقوف نہیں ہوا۔ اس وقت ان کی عمر تقریبا اسی(۸۰) یا اس سے زائد ہی ہے، لیکن وہی نشاط اور وہی دعوتی غیرت وحمیت ہے، دعوت کا سارا فریضہ للہ فی اللہ انجام دیتے ہیں، حسب ضرورت غرباء ومساکین کی مدد بھی کرتے رہتے ہیں، اللہ ان کی عمر میں برکت دے اور ان کی خدمات کو شرف قبولیت عطا فرمائے،ان کی شخصیت میں ہم طالب علموں کے لیے بے شمار اسباق موجود ہیں،دعوت وتدریس اور ادارتی امور میں مشغولیت کی وجہ سے تصنیف وتالیف کے لیے وقت نہیں نکال سکے اور اب تو زندگی کا آخری پڑاؤ ہے، عبادت وریاضت ہی ان کی حیات کا خلاصہ ہے۔مذکورہ ساری معلومات ان سے سن کر تحریر کی گئی ہیں اور اس مضمون کا کچھ حصہ انھوں نے سنا بھی ہے۔

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
محمد مصطفی بن محمد آدم فیضی ٹھیلوی

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
اللہ جزاۓ خیر دے شیخ محترم کو اور انکی خدمات کو شرف قبولیت بخشے بہت ہی نرم مزاج کے شخصیت ہیں اور میں نے دیکھا ہے اپنے علاقے کے طالبعلموں سے جب بھی ملاقات ہوتی تو کچھ علمی اور درسی سوالات کرتے ہوۓ اور طلبہ کے کامیابی کے ہمیشہ متمنی ہوتے اللہ شیخ محترم کو صحت و تندرستی دے آمین