بعض سلف صالحین کی صحیح بخاری کے ساتھ الفت ومحبت دیکھ کر رشک اور تعجب ہوتا ہے۔ انھی میں سے ایک خطیب بغدادی رحمہ اللہ ہیں۔ صحیح بخاری کے ساتھ ان کے قلبی لگاؤ کا اندازہ اسی سے لگا یا جا سکتا ہے کہ انھوں نے دو دو بار اسے پانچ دن سے کم میں مکمل پڑھ کر ختم کیا ہے۔
ایک بار اپنے استاد علامہ اسماعیل بن احمد بن عبد اللہ الحِیرِی النیشاپوری کے پاس اور ایک بار کَرِیمَہ المَروَزِیہ کے پاس۔ یہ دونوں صحیح بخاری کے مشہور رُوات میں سے ہیں۔علامہ اسماعیل الحِیرِی نے امام کُشمِیہَنِی سے صحیح بخاری پڑھی ہے۔
فتح الباری کا مطالعہ کرنے والوں کے لیے ”کُشمِیہَنِی“ کوئی غیر معروف نام نہیں۔ ایک ہزار سے زائد بار فتح الباری میں ان کا نام آیا ہے۔ یہ امام بخاری سے ڈائریکٹ صحیح بخاری پڑھنے/سننے والے روات میں سے سب سے مشہور راوی محمد بن یوسف بن مَطَر الفِرَبرِی کے شاگردِ خاص ہیں۔
جب علامہ اسماعیل الحیری کی عمر تقریبا باسٹھ (۶۲) سال تھی ایک قافلہ کے ساتھ نیشاپور سے حج کے لیے نکلے۔ ارادہ تھا اب مکہ مکرمہ میں بقیہ زندگی بیت اللہ شریف کے جوار میں گزارنی ہے۔ اس لیے اونٹ بھر کر اپنی کتابیں ساتھ لینا نہ بھولے۔ ان کتابوں میں صحیح بخاری کا نسخہ بھی تھا۔ دوران سفر بغداد میں رکے۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ راستے میں امن وامان کے فقدان کی وجہ سے اس سال ان کا حج کرنا ممکن نہ ہوا۔ اس لیے حج کا ارادہ ترک کرکے بیچ راستے سے ہی انھیں نیشاپور واپس ہونا پڑا۔ آج کل میں بغداد سے نکلنے ہی والے تھے کہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے ان کے سامنے صحیح بخاری پڑھنے کی درخواست پیش کی جسے انھوں نے قلت وقت کے باوجود قبول کر لیا۔
خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے صرف تین نشست میں ان کے پاس صحیح بخاری ختم کی۔ ان میں سے دو نشستیں رات کو تھیں۔ مغرب کے وقت بیٹھک شروع ہوتی اور مسلسل –نماز وغیرہ کے علاوہ– فجر تک جاری رہتی۔ ابھی دو ہی نشستیں ہوئی تھیں کہ ان کا قافلہ مشرقی جانب جزیرہ کی طرف چل پڑا اور ”سوق یحیی“ میں جاکر رکا۔ میں اور میرے بعض ساتھی جو گزشتہ دو نشستوں میں حاضر تھے ہم نے یہ ترکیب نکالی کہ ہم بھی جزیرے کی طرف نکل پڑے اور وہاں جاکر دن چڑھنے کے بعد سے ان کے سامنے باقی حصہ پڑھنا شروع کیا، ہم چاشت کے وقت سے لے کر مغرب تک اور پھر مغرب سے لے کر فجر تک مسلسل پڑھتے رہے، یہاں تک کہ طلوع فجر کے وقت کتاب مکمل ہوگئی۔ تعجب کی بات یہ کہ اس تھکان کے باوجود صبح ہی پھر ان کا قافلہ اپنے سفر پر رواں دواں ہو گیا۔ [تاریخ بغداد:۷/۳۱۷-۳۱۹]
اس طرح خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے صرف تین نشستوں میں ان کے پاس پوری صحیح بخاری پڑھ کر ختم کی ہے۔
ان کا دووسرا واقعہ اپنی خاتون استاد ام کرام کریمہ بنت احمد المروزیہ کے سامنے صرف چار یا پانچ دن میں مکمل صحیح بخاری پڑھنے کا ہے۔
کریمہ المروزیہ بھی صحیح بخاری کے مشہور روات میں سے ہیں اور آپ بھی امام کشمیہنی کی تلمیذہ رشیدہ ہیں۔ زندگی بھر صحیح بخاری کی تحدیث وروایت کے ساتھ جڑی رہیں۔ تقریبا سو سال عمر پائی تھی لیکن شادی بیاہ سے دور ہی رہیں۔ سنہ۴۶۳ یا۴۶۵ ہجری میں ان کی وفات ہوئی ہے۔
موسم حج میں مناسک حج کی مشغولیات کے دوران خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے انھیں صرف چار دن میں اور ایک قول کے مطابق پانچ دن میں پوری صحیح بخاری پڑھ کر سنایا ہے۔
یہ مختصر مدت اس لیے بھی تعجب خیز ہے کہ ان کی عادت تھی ہمیشہ اپنے اصل نسخے سے ہی روایت کرتیں۔ اور جو بھی ان سے صحیح بخاری کی روایت لیتا دقت اور باریک بینی سے خود ان کے ساتھ تقابل کا کام کرتیں۔
ایک بار کا واقعہ ہے، ابو الغنائم النرسی فرماتے ہیں کہ انھوں نے مجھے اپنی صحیح بخاری کا نسخہ دیا، جس سے میں نے سات ورقے نقل کیے، پھر انھیں پڑھا، اب میں چاہتا تھا کہ خود ان کے اصل نسخے سے ان کا تقابل کروں لیکن وہ راضی نہ ہوئیں، کہنے لگیں :”نہیں، میرے ساتھ تقابل کرو“، پھر میں نے ان کے ساتھ تقابل ومقارنہ کا کام پورا کیا۔ یہ تھا صحیح بخاری کی روایت وتحدیث کے ساتھ ان کا اہتمام اور ان کی دقت وباریک بینی۔ اسی وجہ سے جو بھی روایتیں ان سے منقول ہیں ان میں شاذ ونادر ہی کوئی اختلاف پایا جاتا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں ابو ذر الہروی کی روایت کے ساتھ جن مختلف روایات پر اعتماد کیا ہے ان میں سے کریمہ المروزیہ کی بھی روایت ہے۔ [دیکھیں: سیر اعلام النبلاء للذہبی:۱۸/۲۳۳-۲۳۴، قلادۃ النحر فی وفیات اعیان الدہر للطیب با مخرمہ:۳/۴۴۸]
آج کوئی ایک گھڑی ایسی نہ ہوگی جب پوری دنیا میں صحیح بخاری کے ساتھ کوئی جڑا نہ ہوگا۔ یقینا جن نفوس قدسیہ نے اپنی زندگیوں کے چین وسکون کی قربانی دے کر اسے ہم تک پہنچایا ہے گرچہ ان کی زندگیاں ختم ہو گئی ہیں لیکن ان کے اعمال حسنہ کا سلسلہ رکا نہیں ہوگا۔
اللہ تعالی ان کی قبروں کو نور سے بھر دے، ان کے درجات بلند کرے اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین
آپ کے تبصرے