قرآن وحدیث اور سیرت وتاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام وکفر کی رسہ کشی نہایت قدیم ہے۔انسانی تاریخ کے ہر دور میں اسلام اور مسلمانوں کو زیر کرنے کی مذموم کوشش کی گئی ہے۔ مسلمانوں کا دل دُکھانے،انھیں کمتر دکھانے اور بدنام کرنے کی غیر معمولی سعی بھی کی جاتی رہی ہے۔ کبھی قرآن مجید،کبھی احادیث،کبھی اسلام،کبھی مسلمان اور کبھی پیغمبراسلام (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کی بے داغ شخصیت کو داغدار کرنے کی ناپاک حرکت کی گئی۔اوریہ سب شروع اسلام سے جان بوجھ کر کیا جاتا رہا تاکہ مسلمان جوشِ غیرت وحمیت میں اپنے اخلاقی ودینی حد بندیوں کو پھلانگ کر کچھ ایسا کریں جس سے اسلام اور مسلمانوں کی شبیہ خراب ہو۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شاعر،مجنون،جادوگر،کاہن اور نجومی جیسے نازیبا القاب سے نوازا گیا،آپ کو سب وشتم کا نشانہ بنایا گیا مگر آپ نے برائی کا جواب برائی سے دیے بغیر ہمیشہ دشمنوں کے ساتھ بہتر سلوک کیا تاکہ اہل دنیا کے سامنے اسلام کی اچھی شبیہ بنے اور لوگ اسلام کی اخلاقی بلندی سے متاثر ہوکر اسلام میں داخل ہوں۔ اور ایسا ہوا بھی کہ اسلام کو برا بھلا کہنے والے بے شمار لوگ اسلام کی آغوش میں آئے۔اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جس ذات کا نگراں اور محافظ اللہ پاک ہے دنیا کا کوئی انسان یا پوری انسانیت مل کر بھی کچھ بگاڑ نہیں سکتی۔ آپﷺ کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ تعالی نے لی ہوئی ہے اسی لیے چاہ کر بھی دشمنان اسلام اپنی سازش میں پورے طور پر کامیاب نہیں ہوسکتے۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے:’’اے رسول! آپ پر آپ کے رب کی جانب سے جو نازل کیا گیا ہے، اسے پہنچا دیجیے اور اگر آپ نے ایسا نہیں کیا تو گویا آپ نے اس کا پیغام نہیں پہنچایا اور اللہ لوگوں سے آپ کی حفاظت فرمائے گا،بے شک اللہ کافروں کو ہدایت نہیں دیتا ہے‘‘[المائدہ: ۶۷]۔ دوسری جگہ ارشاد فرمایا:’’پس آپ کو جو حکم دیا جارہا ہے اسے کھول کر بیان کردیجیے اور مشرکین کی پروا نہ کیجیے، ہم مذاق اڑانے والوں سے نمٹنے کے لیے آپ کی طرف سے کافی ہیں‘‘۔[الحجر:۹۴-۹۵]قرآن کریم میں ایک اور مقام پر ایسے حالات سے متعلق اللہ تعالی کا ارشاد موجود ہے:’’اور(اے میرے نبی!) آپ صبر سے کام لیجیے، اور صرف اللہ کی توفیق سے ہی آپ صبر کریں گے، اور(کافروں کے ایمان نہ لانے سے) آپ ملول خاطر نہ ہوں، اور جو سازشیں وہ کررہے ہیں ان سے آپ تنگ دل نہ ہوں، بے شک اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو متقی ہوتے ہیں اور جو بھلائی اور نیک کام کرنے والے ہوتے ہیں‘‘۔[النحل: ۱۲۷-۱۲۸]
پچھلے دنوں فرانس میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے متعلق جو سانحہ پیش آیا وہ افسوس ناک ہے۔اظہار رائے کی آزادی کے نام پر دنیا کا کوئی مذہب یا قانون اس بات کی قطعی اجازت یا چھوٹ نہیں دیتا کہ کسی مذہب یا کسی شخص کو تکلیف پہنچایا جائے،اس کی شان میں گستاخی یا اس کی بے ادبی کی جائے۔خود فرانس کے قانون میں بھی مادر پدر اظہار رائے کی آزادی نہیں ہے۔لیکن اسلام دشمنی ان کے رگ وریشے میں اس قدر سرایت کی ہوئی ہے کہ اپنے بنائے ہوئے قانون کی مخالفت بھی انھیں نظر نہیں آتی۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ جس وقت کمبخت فرانسیسی استاد’’سیموئل پیٹی‘‘نے آپ ﷺ کے خاکے کو پیش کیا اور اس کے خلاف پولیس میں شکایت دراج کرائی گئی ویسے ہی اس پر فرانسیسی حکومت اور پولیس کی طرف سے ایکشن لیا جاتا،استاد کو گرفتار کرکے جیل میں ڈالا جاتا اور مذہب کی توہین کے جرم میں استاد کو سخت سے سخت سزا دی جاتی مگر ایسا کچھ نہ ہوا بلکہ الٹے گستاخ استاد کی حوصلہ افزائی کی گئی اور اظہار رائے کی آزادی کے نام پر اس کو ناک کا مسئلہ بنالیا گیا نتیجتا مسلمان طالب علم کی غیرت بھڑکی اور گستاخِ رسول کوکیفر کردار تک پہنچادیا۔ مسلمان سب کچھ برداشت کرسکتا ہے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر کوئی طعن وتشنیع کرے وہ گوارا نہیں کرسکتا۔ ایک ادنی مسلمان بھی اپنے سے،اپنے ماں باپ سے،اپنے بھائی بہن سے اور دنیا کی تمام سستی اور مہنگی چیزوں سے آپﷺ کو عزیز جانتا اور آپﷺ کی شان میں عقیدت ومحبت کے پھول نچھاور کرتا ہے۔ہر مسلمان کا عظیم سرمایہ محبتِ رسول(ﷺ) اور اطاعتِ رسول(ﷺ) ہے۔
فرانس کے صدر’’ا یمانوئیل ماکروں‘‘طاقت کے نشے میں آپﷺ کی گستاخی پر کمر بستہ ہے،بلکہ وہاں کی میڈیا اور اسلام کے محاسن سے نابلد لوگ اسلام کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں جو محض ان کی اسلام دشمنی کا نتیجہ ہے ورنہ کھلے دل سے اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرنے والا ہر شخص بخوبی اس بات سے آگاہ ہے کہ اسلام دینِ رحمت اور امن وسلامتی کا پیغامبر ہے۔وہ جس طرح نبی محمدﷺ کا احترام، انسانیت کے دل میں جاگزیں کرتا ہے ویسے ہی وہ سارے نبیوں کی محبت کو لوگوں کے دلوں میں پیوست کرتا ہے۔اس لیے کہ سبھوں پر ایمان رکھنا دین اور عقیدہ کا اٹوٹ حصہ ہے۔
فرانسیسی صدر نے جب سے اپنے استاد کی طرف سے کی گئی اہانت کی تائید میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تقریر کی ہے تب سے پوری اسلامی اورغیر اسلامی دنیا میں کھلبلی مچی ہوئی ہے۔عالم اسلام،عالم یورپ اور دنیا کے اطراف واکناف میں زبانی اور قلمی جنگیں جاری ہیں، فرانس مخالف نعرے اور مظاہرے ہو رہے ہیں جس موقف کی تائید میں نہیں کرسکتا اور نہ میں اس کو اسلام کے حق میں سمجھتا ہوں بلکہ ایسے وقت میں ہمارا موقف وہی ہونا چاہیے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کا ہوتا تھا۔ وقتی طور پر ہنگامہ برپا کرنا اور پھر خاموش ہوجانا نبوی طریقہ نہیں ہے۔اسلام صبر اور حکمت کے ساتھ ایسے گستاخوں کا ہمیں جواب دینے کی تعلیم دیتا ہے اور ان کا بہتر جواب یہ ہے کہ ہم مسلمانانِ عالم دل وجان سے ایمان واسلام کو اپنی زندگی میں داخل کریں۔توحید وسنت کے علمبردار بنیں۔آپﷺ کی ایک ایک ادا پر مرمٹنے کا عہد وپیمان کریں۔اور ان کے اقوال وارشادات کو دنیا کی زندہ زبانوں میں عام کرنے کا جذبہ اپنے اندر پیدا کریں۔اخلاق وکردار میں ہم مغرب کے دلدادہ ہوں اور زبان سے رسولﷺ کا دفاع کریں ایسی محبت سے کچھ حاصل نہیں۔محبت کا تقاضا ہے کہ ہم ہر اعتبار سے مسلمان ہوں،عقیدہ کے اعتبار سے بھی اور منہج وفکر کے اعتبار سے بھی،ہمارے کہنے اور کرنے میں کوئی تضاد نہ پایا جائے تب جاکر ہم حقیقی معنوں میں فرانس اور اس جیسے اسلام دشمن ملکوں کا جواب دے سکتے ہیں۔جب تک ہمارا دل پورے طور پر مسلمان نہیں ہوگا اس وقت تک ہم کوئی بڑا اقدام نہیں کرسکتے۔
اچھی بات ہے کہ جب سے فرانس میں آپﷺ کے خاکے کو اظہار رائے کی آزادی کے نام پر سرکاری طور پر دکھانے کی کھلی چھوٹ ملی ہے اور صدر ماکروں اس کے حق میں نظر آئے ہیں، اپنی تقریر میں اسلام کو اس وقت دنیا میں بحران کا شکار مذہب، مسلمانوں کو انتہا پسندقوم اور فرانس میں مسلمانوں کے لیے زمین تنگ کرنے کی بات کہی ہے اس وقت سے پوری عرب اور اسلامی دنیا میں فرانس کے خلاف غم و غصہ دیکھنے کو ملا ہے۔سعودی عرب سمیت دیگر عرب ملکوں نے بھی فرانسیسی صدر کو عالمی طور پر گھیرنے کی کوشش کی ہے۔دنیا کے غیور مسلمانوں نے پرنٹ،الکٹرانک اور سوشل میڈیا پر فرانس کی اس حرکت کو غیر اخلاقی اور غیر انسانی قرار دیا ہے۔اور تاریخ شاہد ہے کہ جب جب اس قسم کی گستاخی آپ ﷺ کی شان میں کی گئی ہے تب تب غیر اسلامی دنیا میں اسلام کو سمجھنے کا رجحان بڑھا ہے اور بکثرت لوگوں نے اسلام قبول کیا ہے۔اس بار بھی کچھ ایسی ہی امید ہے۔در اصل اسلام مخالف طاقتیں ایسا کرکے ہماری ایمانی غیرت کا امتحان لینا چاہتی ہیں،وہ دیکھنا چاہتی ہیں کہ ہم مصائب ومشکلات پر کتنا صبر کرتے ہیں۔ساتھ ہی وہ ہمارے احساسات وجذبات کو بے جا طور پر مشتعل کر اپنے دنیاوی مفاد حاصل کرنا چاہتی ہیں جیسا کہ اس سے قبل بارہا ان کی طرف سے کیا جاچکا ہے۔ عقلمندی اسی میں ہے کہ ہم اپنے جذبات کو قابو میں رکھیں اور نہایت خاموشی سے فرانس اور دیگر اسلام دشمن قوتوں کا جواب دیں۔جانے انجانے میں ہرگز ہم ایسا کوئی کام نہ کریں جس سے اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچے، یاد رکھیں اہل مغرب کی طرف سے مسلمانوں کی دل آزاری کا یہ سلسلہ کوئی نیا نہیں ہے تقریبا پندرہ سو سالوں سے یہ جاری ہے۔مگر اسلام تمام تر عناد ودشمنی کے باوجود پوری قوت کے ساتھ باقی ہے اور قیامت تک رہے گااور دشمنوں کو منہ کی کھانی پڑے گی،عنقریب فرانس کی حکومت اور اس کے شیطان صفت صدر بھی ذلیل وخوار ہوں گے اور اسلام اور مسلمانوں کو سرخروئی حاصل ہوگی۔اللہ کی لاٹھی میں آواز نہیں ہوتی۔
آپ کے تبصرے