کرے ہے عداوت بھی وہ اس ادا سے

رشید سمیع سلفی عقائد

شیطان نے بدبختی وبربادی کی جو راہ انسانیت پرکھولی ہے وہ کہاں تک درازہوگی،یہ وقت ہی بتائے گا، مگر شیطان کی تخریب ودسیسہ کاری جاری ہے۔آج فتنے ہر چہار جانب موج ماررہے ہیں،غیروں کا کیا شکوہ،نام نہاداسلامیوں نے کردار وعمل کی جس پستی میں قدم رکھا ہے وہ ہم پر ہماری حالت کو عیاں کرنے کے لیے کافی ہے۔
سناتھاکہ عداوت میں روافض صحابہ کی وفات پر جشن مناتے ہیں اوراظہار مسرت کرتے ہیں لیکن عقیدت ومحبت کا گداز جذبہ امت کو اس سے بھی آگے لے جاچکا ہے،قلبی شقاوت کی انتہا ہے کہ وہ رسول رحمت جو امت کی فکر میں راتوں کو روتے تھے،امت کی مغفرت کے لیے بارگاہ خداوندی میں اشکہائے گرم لٹاتے تھے،روز محشر بھی اللہم امتی اللہم امتی کے الفاظ ان کی زبان پر ہوں گے،اسی رسول کی حرمتیں پامال ہورہی ہیں،اسی رسول کی تاریخ وفات مسرت و شادمانی کے لمحوں میں تبدیل کردی گئی،وہی جگر خراش صبح وشام رنگ رلیوں اور لذت کوشیوں کا موسم بہار بن گئی؎

کرے ہے عداوت بھی وہ اس ادا سے

لگے ہے کہ جیسے محبت کرے ہے

(کلیم عاجز)
مستند تحقیقات بارہ ربیع الاول کو نبی کی تاریخ وفات بتارہی ہیں،سیرت کے کئی حوالے اس پر شاہد عدل ہیں۔یہ کہابھی جائے کہ ہم تو ولادت کا جشن منارہے ہیں،لیکن ان حوالوں کی روشنی میں یہ جشن تاریخ وفات پر ہورہا ہے،یہ موت پر خوشیاں منائی جارہی ہیں،رطب ویابس حوالوں کا کوئی اعتبار نہیں،ذرا سوچوکہ محبت کے جھوٹے ترنگ نے سنگدلی،بے مروتی اور قساوت کی حدیں کیسے پار کروائیں،عظمت رسول کی حرمتوں کو کیسے پامال کروایا،جوش عشق میں مدہوش عاشقان رسول دانستہ نادانستہ وہ کررہے ہیں جو دشمنان رسول نے بھی نہیں کیاہوگا۔
ظالمو تمھارے دلوں نے یہ کیسے گوارہ کرلیا کہ تم اس تاریخ پر خوشی مناؤ جس پر پورا مدینہ صدمے سے نڈھال تھا،نبی کےچاہنے والوں پر کیسی کیسی قیامتیں گذررہی تھیں،وفات رسول کی خبر نے جماعت صحابہ پر جیسے بجلی گرادی ہو،جو جہاں سنتا ہے کلیجہ اور سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے،کیاآپ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کادرد سے تپتا ہوا وہ شعر نہیں سناجو نبی کی رحلت پر لبوں کی مہر توڑ کر باہر نکل پڑاتھا؎

صبت علی مصائب لو انہا

صبت علی الایام صرن لیا لیا

ترجمہ: ( آپ کی رحلت کے بعد) میرے اوپر وہ مصائب آن پڑے کہ اگر دنوں پر آتے تو وہ راتوں میں بدل جاتے۔
رسول اللہ کی وفات کا سانحہ کتنا المناک تھا۔حضرت انس کہتے ہیں مدینہ کی تاریخ میں سب سے خوبصورت دن وہ تھا جب رسول اللہ کے پائے اقدس مدینہ کی خاک پر پڑے تھے اور سب سے منحوس دن وہ تھا جب آپ سفر آخرت کو سدھارے تھے،ذراسوچو کیا بیتی تھی جگر گوشۂ رسول پر؟
جیسے ہی روح قفس عنصری سے پرواز کرتی ہے فاطمہ الزھراء کا درد بھی چھلک پڑتا ہے،روروکے کہتی ہیں:
يا أبتاه! أجاب رباً دعاه
يا أبتاه! مَن جنةُ الفردوس مأواه
يا أبتاه! إلي جبريل ننعاه
’’اے ابا جان! آپ نے (اپنے) رب کا بلاوا قبول فرمایا۔ اے ابا جان! آپ جنت الفردوس میں قیام پذیر ہیں۔ اے ابا جان! میں اس غم کی خبر جبرئیل علیہ السلام کو سناتی ہوں۔‘‘
ابا کی موت پر دل نہیں مان رہا تھا،رورو کے انس رضی اللہ عنہ سے کہہ رہی تھیں، انس ! تمھارے دل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نعش پر مٹی ڈالنے کے لیے کس طرح آمادہ ہوگئے تھے ۔
یہی وہ دن تھا جب فولادی اعصاب کے مالک عمر فاروق بوکھلا اٹھے تھے اور تلوار سونت کر مسجد نبوی میں دیوانہ وار ٹہل رہے تھےاور کہہ رہے تھے،خبردار اگر کسی نے یہ کہا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تو اس کی گردن اڑادوں گا،وہ یہ ماننے کے لیے تیار ہی نہ تھے کہ نبی ان سے جدا ہوگئے،جب یقین آیاتوتاب نہ لاسکے اور زمین پر گرگئے۔
آہ کتنا درد ہواتھا یارغار کو،رسول کی پیشانی کو چوماتھااورروئےتھے،آنسؤوں کا بند دریاآنکھوں سے بہہ جانا چاہتا تھا لیکن یہ کہہ کر آنسؤوں کو پی گئے تھےکہ مرے ماں باپ آپ پر قربان، اللہ نے جو موت آپ کے لیے مقدر کی تھی وہ آپ کو آچکی اللہ آپ پر دو موتیں جمع نہیں کرے گا،وہ اپنے وجود میں اٹھنے والے طوفانوں کو روکے ہوئے تھا کیونکہ انھیں اپنے دوست کی امت کو سنبھالنا تھا۔
وفات رسول کے بعد جب صحابہ پر کوئی بڑی افتاد آتی تو وہ رسول اللہ کے غم وفات کو یاد کرلیتے تو انھیں ان کا غم ہلکا لگنے لگتا،رسول اللہ کی موت کے یقین کا کوئی سامنا کرنے کی ہمت نہیں پارہا تھا۔
پھراس مناسبت کو کیا کہیں گے جب حیات رسول کی آخری شب تھی،چراغ جلانے کے لیے گھر میں تیل نہیں تھا،پڑوسن کےگھرسے تیل ادھار لے کر خانۂ نبوت کو روشن کیا گیا تھا،ذرا سوچو یہی وہ رات ہوتی ہے جب برقی قمقموں سے پوری بستی کو روشن کردیا جاتا ہے،گلی کوچوں میں روشنی کا سیلاب بہہ رہا ہوتا ہے،مجھے بتاؤ،کہیں یہ روشنیاں نبی کے افلاس کا مذاق اڑانے کے لیے تو نہیں،ہاں ہاں مجھے یہی لگتا ہے،جس طرح محرم میں پانی کی سبیلیں لگا کر کربلا کے پیاسوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے اسی طرح بارہ ربیع الاول کو روشنی کرکے رسول اللہ کی شب وفات کا مذاق اڑایا جارہاہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ اس پورے مدعا کی بنیاد ایک ایسا مسئلہ ہے جوزمانے سے مختلف فیہ رہا ہے تو مجھے بھی یہ کہنے کا حق ہے کہ اتنے مہتم بالشان عمل کی بنیاد وہ واقعہ ہے جس کی تاریخ بھی متعین نہیں بلکہ اس میں شدید اختلاف رہاہے۔ذرا سوچو کہ رب نے نبی کی تاریخ میلاد کیوں محفوظ نہیں رکھا،کیونکہ رسول اللہ کی ولادت کے نام پر اسے اہل ایمان سے کوئی عمل مطلوب نہیں تھا،اگر اللہ کو اس دن میں امت رسول کے لیے کوئی عمل مشروع کرنا ہوتا تو وہ دونوں عیدوں کی طرح اس خودساختہ عید کو بھی کسی متعین تاریخ کے ساتھ مشروع قرار دیتااور پھر اس کے منانے پر کسی کومجال اعتراض بھی نہ ہوتا۔

آپ کے تبصرے

3000