یوں تو مغرب کی طرف سے’’اسلاموفوبیا‘‘کے تحت کیے جانے والے اقدامات اور مسلمانان عالم کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کوئی نئی بات نہیں ہے، لیکن سانحہ نائن الیون کے بعد مغرب میں ملکی وریاستی سطح پر جس طرح ’’اسلاموفوبیا‘‘میں اضافہ ہوا ہے اس کو بخوبی محسوس کیا جاسکتا ہے ۔
یورپ و امریکہ میں کہیں بھی چھوٹے یا بڑے پیمانہ پرکوئی دہشت گردانہ واقعہ رونما ہوتاہے،خواہ اسے انفرادی طور پر کسی نے انجام دیا ہو یا اس کی تہ میں کسی تنظیم کا ہاتھ ہو اگر اس کو انجام دینے والا شخص یا افراد مسلمان ہوں تو فوری طور پر اسلام کا رشتہ دہشت گردی سے جوڑ دیا جاتا ہے اور پورے مذہبی اسلام کو ایک دہشت گردانہ مذہب قرار دینے میں ذرا بھی تاخیر نہیں کی جاتی ہے،جب کہ مغربی ملکوں میں قتل وخوں ریزی اور فائرنگ کے ایسے بے شمار واقعات وقتاً فوقتاً پیش آتے رہتے ہیں جن میں اکثریتی فرقہ یعنی عیسائیت کو ماننے والے لوگ ملوث ہوتے ہیں، کبھی کوئی طالب علم اپنے ہی ساتھیوں کو گولیوں کا نشانہ بناتا ہے، کبھی کسی نائٹ کلب میں گولیاں چلتی ہیں اور کبھی پیدل چلتے ہوئے راہگیروں پر کنٹینر چڑھا دیا جاتا ہے اور چشم زدن میں درجنوں بے گناہ لوگوں کو موت کی نیند سلا دیا جاتا ہے لیکن کبھی ایسے واقعات کا رشتہ عیسائیت سے نہیں جوڑا جاتا بلکہ اسے کسی جنونی اور انتہا پسند شخص کی انفرادی حرکت کہہ کر اس پرپردہ ڈال دیا جاتا ہے۔گذشتہ سال مارچ کے مہینہ میں نیوزی لینڈ کی مسجد میں ایک عیسائی دہشت گرد انتہاپسند شخص نے مسجدمیں عین نماز جمعہ کے دوران گولیاں چلا کر پچاس سے زیادہ نمازیوں کو شہید کردیا، لیکن کسی میڈیا خبر رساں ادارہ یا تفتیشی ٹیم نے اس جنونی شخص کے مذہب سے بحث نہیں کی اور نہ ہی دنیا کے مسلمانوں نے اسے بحث کا موضوع بنایا لیکن اس کے برعکس جب اس سے بہت معمولی درجہ کا کوئی جرم کسی بھی مسلمان سےسرزد ہوتا ہے تو پوری مسلم قوم کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا جاتا ہے اور پوری قوم کو بلا تاخیر اور بلاتکلف دہشت گرد قراردے دیا جاتا ہے۔یہ اندازفکر پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے ناقابل قبول ہے، ہم اس دوغلے رویہ اور حقائق کو دیکھنے اور سمجھنے کے دوسرے پیمانہ کو سختی سے مسترد کرتے ہیں۔ مغرب کے دوہرے معیار کو ظاہر کرنے والا تازہ واقعہ فرانس میں پیش آیا، جہاں بچوں کو پڑھانے والے ایک استاد نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اہانت آمیز خاکہ کلاس میں بچوں کو دکھایا، تو ایک ۱۶؍سالہ نوعمر مسلمان طالب علم سے برداشت نہ ہوسکا اور اس صریح استعال انگریزی پر اس نے اپنا آپا کھود یا اور اس استاد کا گلا ریت کر قتل کر دیا، ہم اس حرکت کی بالکل تائید نہیں کرتے اس کو چاہے دہشت گردی کے زمرے میں رکھا جائے یا ایک فعل شنیع کا ردعمل قرار دیا جائے ، لیکن ایسا کیا جانا غلط ہے اس طالب علم کو اس حرکت کی سزا ملی جس کو گولیوں سے بھون دیا گیا، بات یہاں ختم ہو جانی چاہیے تھی، لیکن فرانس نے حکومتی سطح پر اس معاملہ کو مزید طول دیا اور وہاں کے وزیراعظم امانوئل ماکرون نے نہ صرف یہ کہ پورے مذہب اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کی بلکہ اس طرح کے توہین آمیز خاکوں اور کارٹونوں کی حمایت کی اور اسے اظہار رائے کی آزادی قرار دیا، دنیا کے مسلمان اظہار رائے کی آزادی کا مطلب بخوبی سمجھتے ہیں لیکن جب یہ آزادی کسی قوم کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کا سبب بن جائے تو ایسی بے لگام آزادی کو ہرگز قبول نہیں کیا جا سکتا، امانویل ماکرون نے کمال بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ کہا کہ ہم اس طرح کی حرکتوں کو بند نہیں کر سکتے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری رہے گا ،اس نے دنیا بھر کے مسلمانوں کی حد درجہ دل آزاری کی ہے بلکہ ان کو غم و غصہ سے بھر دیا ہے۔ ہم اس طرح کی اشتعال انگیزی اور اہانت کے رسول صلی اللہ وسلم کے ارتکاب کو ہرگز برداشت نہیں کر سکتے،بلکہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کا مسلمان اپنی بے شماربداعمالیوں کے باوجود توہین رسالتﷺ، توہین قرآن مقدس اور مقامات مقدسہ کی اہانت کسی حال میں برداشت نہیں کر سکتا، ناموس رسالت کی حفاظت ہمارے ایمان کا حصہ ہے ، فرانس کی حکومت کو اپنے رویہ پر نظرثانی کرنا چاہیے اور ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی دل آزاری سے اسے گریز کرنا چاہیے، ورنہ اس سے امن عالم کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنے ردعمل کے اظہار اور پرامن احتجاج کے اپنے جمہوری حق کا استعمال کریں، لیکن کسی بھی طرح کے تشدد سے گریز کریں تاکہ دنیا کا امن تہ وبالانہ ہو، یہی ہمارے امن پسند مذہب کی تعلیم بھی ہے۔
آپ کے تبصرے