سید سلمان حسینی ندوی کی نئی قلابازی

شمیم احمد ندوی معاملات

مولانا سید سلمان حسینی ندوی کی سیماب صفتی کسی بھی باخبر اور صاحب نظر پر مخفی نہیں ہے ،وہ پل پل رنگ بدلنے اور اپنی وفاداریاں تبدیل کرنے میں ماہر ہیں اور اپنی اس صفت کے لیے اپنوں اور بیگانوں کے حلقوں میں غیر معمولی شہرت رکھتے ہیں۔
ان کی تازہ تگ ودو یا اچھل کود کا شاخسانہ ان کا دامن بریلویت میں پناہ گیر ہونا ہے، ان کی شخصیت جس طرح گھڑی میں رتی گھڑی میں ماشہ کا نمونہ اور گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے میں ان کی مہارت تامہ کی جیتی جاگتی مثال ہے ، اس کو دیکھتے ہوئے ان کی کوئی بھی حرکت نہ تو بعید از قیاس ہے اور نہ ہی باعث حیرت و استعجاب۔
ان کی شخصیت ہمیشہ سے تضادات کا مجموعہ رہی ہے اور وہ ہمیشہ دور کی کوڑی لانے کو اپنی علمیت کی دلیل سمجھتے رہے ہیں، لیکن تازہ معاملہ ان کی ازیں قبل پیش آنے والے دیگر معاملات سے کافی حد تک مختلف ہے اور اس بات کے ثبوت کے لیے کافی ہے کہ ہدایت توفیق الٰہی پر موقوف ہوتی ہے، اس کے لیے علم و فضل میں ممتاز ہونا اور اچھے خانوادہ سے تعلق کا ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔
مولانا سید سلمان حسینی ندوی کو شرعی علوم سے حظ وافر ملا، دینی علوم میں درک و مہارت اور عربی ادب و بلاغت میں ان کی لیاقت بھی شک و شبہ سے بالاتر ہے، لیکن ان کا اپنے علم اور خانوادہ پر فخر و مباہات، دوسروں کو حقیر اور کمتر سمجھنے کی عادت، علمائے دین کی تحقیر و تذلیل اور ہم چنیں دیگرے نیست کا ہمہمہ وطنطنہ کچھ اس طرح ان کی شخصیت کا جزو بنا کہ ان کی ساری خوبیوں پر پانی پھر گیا۔
گذشتہ دنوں اجمیر کی درگاہ میں ان کی حاضری اور وہاں ان کی تاج پوشی و دستار بندی یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ اللہ تعالی جب کسی کے لیے ذلت ورسوائی کا فیصلہ کرلیتا ہے تو اس کے لیے ایسے اسباب بھی مہیا کر دیتا ہے جس کا بظاہر پہلے تصور بھی نہیں ہوتا، اس لیے یہ تازہ معاملہ صرف ان کی سیمابی صفت کا ہی مظہر نہیں ہے بلکہ اس سے ان کی بوکھلاہٹ اور اس قعر مذلت کو سمجھا جاسکتا ہے جس میں وہ تیزی کے ساتھ غرق ہوتے چلے جا رہے ہیں اور یہ نتیجہ ہے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شان میں ان کی گستاخی وزبان درازی کا اور یہ صلہ ہے عظمت صحابہ کو مجروح کرنے کی ان کی سعی نامشکور کا جس کا مشاہدہ ان کے دوست و دشمن سب بآسانی کر سکتے ہیں۔
انھوں نے حال ہی میں لکھنؤ سے اجمیر کی طرف شدرحال کیا یعنی ندویت و دیوبندیت کو خیرباد کہہ کر بریلویت کو گلے لگایا،یہ اپنے آپ میں ایک عبرت ناک منظر ہے اور عزت و ذلت کے مالک رب ذوالجلال نے ان کے لیے جس رسوائی وجگ ہنسائی کو مقدر کیا ہے وہ لوگوں کو مجسم شکل میں اس طرح نظر آرہا ہے کہ اس پر کسی تبصرہ کی بھی ضرورت نہیں۔
انھوں نے پہلے بھی کئی بار مختلف میدانوں میں قلابازیاں کھائی ہیں اور سیاسی اعتبار سے اپنا قبلہ کئی بار تبدیل کیا ہے، کبھی ملائم سنگھ کو اپنا رہبر و پیشوا مانا، کبھی مایاوتی کے در دولت پر حاضری دی، کبھی بھاجپا اور یوگی سے رسم و راہ پیدا کی اور کبھی مختلف چھوٹی پارٹیوں کے وفاق میں شامل ہوکر زمام قیادت ہاتھ میں لینے کے بجائے خود دعویداری پیش کی، اسی طرح فکری و نظریاتی اعتبار سے بھی وہ اپنی وابستگی تبدیل کرتے رہے ہیں، لیکن اس تبدیلی کے پیچھے حق و ناحق اور نیک و بد کی تمیز نہیں بلکہ صرف ذاتی مفادات، مالی تحفظات اور دنیاوی حرص و طمع کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا،ان کے ہر فیصلہ کے پیچھے صرف ہوس زر اور اپنی ذات کو نمایاں کرنے کا جذبہ کارفرما ہوتا ہے، لیکن اس بار اجمیر میں حاضری اور بادی النظر میں یا بالواسطہ طور پر بریلویت کو مذہب برحق ہونے کا سند دینا اپنے آپ میں بہت کچھ سامان عبرت رکھتا ہے کہ جو شخص کل تک اپنے آپ کو ہندوستان میں فکر ولی الّٰلہی کا اکلوتا وارث اور جانشین سمجھتا تھا وہ یکایک درگاہ اجمیر کا سجادہ نشین بننے کے لیے پر تولنے لگے یہ نہ صرف یہ کہ جائے عبرت ہے بلکہ یہ رجعت قہقری اور یہ ذلت و رسوائی عذاب الہی کی ایک شکل ہے۔
انھوں نے جب گذشتہ سال صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے خلاف سب وشتم کا ایک نیا محاذ قدرے مختلف انداز میں کھولا اور شیعی شراب کو نئی بوتل میں سربمہر کرکے پیش کیا تو امت کا سنجیدہ طبقہ اسی وقت ہوشیار ہو گیا تھا اور اس کے کان کھڑے ہوگئے تھے کہ اب یہ سیدوالا تبار اپنی حسینیت پر مغرور ہو کر کچھ نیا گل کھلانے والا ہے اور شیعیت ورافضیت کی گود میں بیٹھنے کے لیے بے قرار ہے، اسی وقت باخبر حلقوں نے یہ پیشین گوئی کر دی تھی کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ناموس سے کھلواڑ کرنے کے نتیجہ میں اب اس شخص پر دیر سویر اللہ کا عذاب مسلط ہونے والا ہے، اور اللہ کے یہاں اس کا جرم قابل معافی نہیں ہے، کیونکہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت پر مرمٹنے والوں کی شان میں گستاخی اور ان کی کردار کشی اللہ کے نزدیک ناقابل معافی جرم ہے، حیرت انگیز حد تک تیزی کے ساتھ نتیجہ سامنے آیا، پہلے انھیں بابری مسجد کی سودے بازی کی کوشش میں مسلم پرسنل لا بورڈ سے برطرف کیا گیا، پھر دارالعلوم ندوۃ العلماء کی مسند درس ان سے چھین لی گئی، پھر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شان میں گستاخی کے جرم میں ان کے وہ حوارین بھی ان سے کنارہ کش ہوتے گئے جو ان کے ایک ایک فرمان پر سر دھنتے تھے اور ان کی بے سروپا تحقیقات پر آمنا و صدقنا کہتے تھے حتی کہ ان کے شاگرد بھی ان سے فاصلہ بنانے پر مجبور ہوگئے اور ان کی ہفوات و خرافات کا مدلل انداز میں جواب دینے لگے۔
اور پھر ان کے جرائم کے خلاف دیوبند و سہارنپور سے استفتاء طلب کیا گیا جہاں سے ان کی کار گزاریوں اور صحابہ کرام کے خلاف ان کی زبان درازیوں پر سخت الفاظ میں فتاوی صادر کیے گئے، ان کے مدارس میں بچوں کو تعلیم دلانے کو بھی ناپسندیدہ و معیوب قرار دیا گیا، ان کی امامت کو مشکوک و مکروہ ٹھہرایا گیا اور عملی طور پر بھی یہ روز بد ان کو دیکھنا پڑا کہ ان کو امامت کے مصلیٰ پر سے اتارا گیا اور نمازیوں نے ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے انکار کیا، کیا کسی خانوادۂ سادات سے تعلق رکھنے والے ایک عزت دار اور علم و فضل میں ممتاز شخص کے لیے یہ بے عزتی کسی عذاب سے کم ہے۔
ان کی حرص و طمع کا یہ عالم ہے کہ جب بابری مسجد اور اس سے ملحق وسیع زمین کے عوض عدالت نے مسلمانوں کو مسجد کی تعمیر کے لیے ۵؍ ایکڑ زمین دینے کا فیصلہ کیا تو اس وقت جب کہ عام مسلمان اس غیر منصفانہ فیصلہ کے خلاف غم و اندوہ میں ڈوبے ہوئے تھے ، مولانا سلمان حسینی ندوی چند غیر معروف سے افراد کا ایک اہم وفد لے کر یوگی ادتیہ ناتھ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس زمین کا مطالبہ کرنے میں دیر نہیں لگائی لیکن ان کو اس کا کیا حق پہنچتا تھا وہ کس حیثیت سے وہاں گئے تھے؟ انھیں یہ جاننے کی ضرورت نہیں تھی، بس زمین و جائیداد نقد و جنس اور ملت کی قیادت کے نام پر جو کچھ بھی ملے آنے دو، کیا وہ ہندوستان کے بیس کروڑ مسلمانوں کے نمائندہ تھے، کیا وہ شہنشاہ بابر کے وارث تھے، کیا ان کا تعلق بابری مسجد قضیہ کے فریق ہاشم انصاری کے خاندان سے تھا، کیا وہ سنی وقف بورڈ کے صدر تھے، کیا وہ بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے صدر تھے اور کیا وہ مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر یا جنرل سیکریٹری تھے ، غرض کہ ان کی حیثیت کیا تھی؟ وہ اس بات کو خود بھی سمجھتے تھے اور ہندوستانی مسلمانوں کا اہل علم طبقہ اس سے بخوبی واقف تھا، اب اس موقع پر ایک بار ان کی پھر تذلیل ہوئی کہ باوجود اس کے کہ انھوں نے سپریم کورٹ کے اس دل آزار غیر منصفانہ فیصلہ کو سراہا اور یوگی کی شان میں قصیدے پڑھے، جب اس زمین کی حوالگی کا معاملہ زیر بحث آیا تو اس کے لیے سینٹرل سنی وقف بورڈ نے ایک کمیٹی بنا دی جناب کو اس وقت سخت دھچکا لگا جب ان کو معلوم ہوا کہ بورڈ کی طرف سے تشکیل کردہ اس کمیٹی کے ایک ادنی ممبر کی حیثیت سے بھی ان کا کہیں دور دور تک نام نہیں تھا، جب کہ ان کا بزعم خود دعوی یا ان کا ذاتی خیال خام تھا کہ وہ پورے ہندوستان کے تمام مسلمانوں کے بلا شرکت غیرے نہ صرف یہ کہ نمائندے ہیں بلکہ مکمل طور سے قائدانہ صلاحیتوں سے مالا مال ہیں، پتہ نہیں کیوں جن کو مٹھی بھر نمازیوں کی دو رکعت نماز کی امامت کا اہل نہیں سمجھا گیا وہ بیس کروڑ مسلمانوں کی امامت و قیادت کے اہل کیوں کر ہو گئے، حالانکہ یہ شعر ان کی نظر سے گزرا ہوگا؎

قوم کیا چیز ہے، قوموں کی امامت کیا ہے

ا س کو کیا سمجھیں یہ بے چارے دو رکعت کے امام

بہر حال یہاں بھی ذلت و رسوائی ان کا مقدر بنی، لیکن عقل ٹھکانے نہیں آئی۔ دراصل ان کو ہمیشہ اخبار کی سرخیوں میں رہنے کا خبط ہے ، اس لیے روز کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑتے رہتے ہیں، لیکن افسوس کہ یہ شوشہ اکثر نہ صرف ان کے لیے باعث رسوائی ہوتا ہے بلکہ تمام مسلمانوں کی جگ ہنسائی کا سبب بنتا ہے، خواہ وہ بابری مسجد کے لیے سودے بازی ہو، خواہ اپنے سے بزرگ اور ذی علم لوگوں کی اہانت کا معاملہ ہو، خواہ اپنی شخصیت کو نمایاں کرنے کا معاملہ، خواہ صحابہ کرام کی عظمت سے کھلواڑ اور ان کی عدالت وثقاہت کو نشانہ بنانے کا معاملہ ہو، بہرحال ان کی ہر غلطی معاف کی جاسکتی ہے لیکن آخر الذکر غلطی ناقابل معافی جرم ہے اور اس جرم کی سزا اب مسلسل ان کو مل رہی ہے۔
وہ ہر طرف سے رسوا ہوکر ہر فورم سے دھتکارے جا رہے ہیں، جن میں سے بعض کا اوپر ذکر ہوا، لیکن جب مظاہر العلوم سہارنپور اور دارالعلوم دیوبند کے دارالافتاء سے ان کے خلاف توہین صحابہ کے ارتکاب اور ایک طرح سے ان کے سماجی بائیکاٹ کا فتوی صادر ہوا تو یہ ان کے لیے اونٹ کی پیٹھ پر آخری تنکا ثابت ہوا اور یہ اونٹ ہی کی طرح بلبلانے لگے، اب ان کے پیروں سے زمین سرک چکی ہے اور امامت و قیادت کے لیے بنایا ہوا ان کا تانا بانا بکھر چکا ہے، ان کے غالی عقیدت مند بھی ان کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں تو اب ان کے سامنے اس کے علاوہ کون سا راستہ بچا تھا کہ وہ اپنا قبلہ تبدیل کرلیں حالانکہ ایک راستہ اور بھی تھا وہ اپنی خطاؤں و غلطیوں سے رجوع، توبہ اور انابت الیٰ اللہ کا راستہ تھا ، لیکن ان کو اس کی توفیق نہیں ملی بلکہ اس کے برعکس وہ بد توفیقی کے سمندر میں مزید غرق ہوگئے، اب انھوں نے جو راستہ اپنے لیے منتخب کیا ہے وہ ان کو اپنے مسلک ومنہج اور اپنے فکر و عقیدہ سے مزید دور اور اپنوں سے مزید بیگانہ کرنے والا ہے، اس فیصلہ کے ساتھ وہ ان بریلویوں قبوریوں کی گود میں بیٹھ گئے ہیں جو آج تک دیوبندیوں پر کفر و گمراہی کے فتوے لگاتے رہے ہیں اور جن کے دیوبندیوں وندویوں کے ساتھ مسلکی و عقائدی اختلافات کبھی جدال و قتال اور مسجدوں کے انہدام تک پہنچتے رہے ہیں۔
مولانا سلمان حسینی ندوی نے درگاہ اجمیر کے مجاوروں کے ساتھ مل کر اور ان کی ہاں میں ہاں ملا تے ہوئے بالواسطہ طور پر تمام دیوبندیوں،ندویوں اور ان تمام اہل حدیثوں کو بیک جنبش قلم ناصبی وخارجی قرار دیا ہے جو صحابہ کرام بالخصوص حضرت امیر معاویہ، حضرت عثمان غنی اور حضرت عمرو بن العاص جیسے ان تمام صحابہ کی تعریف و توصیف اور مدح و تحسین کرتے ہیں جن سے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کسی بھی طرح کے سیاسی اختلافات رہے ہیں، ناصبیت کے مذموم وملعون عقیدہ کی ان لوگوں نے از خود کچھ اس طرح کی تعریف کی ہے جس کے تحت تمام سنیوں، صحیح العقیدہ مسلمانوں اور تمام صحابہ کرام کا یکساں طور سے احترام کرنے والے اہل ایمان پر اس کو چسپاں کر سکیں۔
ایک وقت تھا کہ مولانا سلمان حسینی کی تقریروں پر داد و تحسین کے ڈونگرے برستے تھے اور لوگوں کو یہ گمان ہوتا تھا کہ اس جوان رعنا کی تقریروں کی روانی کے سامنے دریاؤں کی روانی ہیچ ہے، وہ پہاڑوں پر کمندیں ڈالنے اور سمندروں سے موتیاں نکالنے پر قادر ہے، اسی وصف سے انھوں نے اپنے عقیدت مندوں اور ارادت کیشوں کا ایک حلقہ تیار کر لیا تھا لیکن اب اس طرح ہر جانب سے ان کو دھتکارا جا رہا ہے کہ ان کو بریلیوں کی درگاہوں میں پناہ لینے پر مجبور ہونا پڑا اور کوئی تعجب نہ ہو گا اگر ان کا اگلا قدم شیعیت و رافضیت کی طرف اٹھے کیونکہ اس وقت ان کے نزدیک حسینیت سے بڑا کوئی وصف نہیں اور حب صحابہ رضی اللہ عنہم سے بڑا کوئی عیب نہیں اور اس طرح وہ براہ راست و بلاواسطہ شیعیت کے مفادات کو پورا کرنے میں لگے ہیں، سعودی عرب اور امارات کے خلاف ان کا شمشیر برہنہ ہونا اور وہاں کے امراء وحکام اور ائمہ و مشائخ کے خلاف مغلظات بکنا سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے اور بریلویت میں بھی بالخصوص شیعی عقائد اور حسینیت کی تلاش ان کا موجودہ مشن ہے جو اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ان کے مالی مفادات کہیں اور سے اس سے زیادہ بہتر انداز سے پورے نہ ہونے لگیں۔

آپ کے تبصرے

3000