ہر دلعزیز بننے کے چار نبوی نسخے

آصف تنویر تیمی سماجیات

حدیث کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دوستوں(صحابہ کرام) کے مابین ہر دلعزیز تھے۔صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کسی سے محبت نہیں کرتے تھے۔بلکہ وہ اپنے آپ اور ماں باپ سے بھی زیادہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو چاہتے تھےاور یہی ایمان واسلام کا تقاضہ تھا،ہے اور قیامت تک رہے گا جیسا کہ عمر رضی اللہ عنہ کے واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ: ایک دفعہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے نبی! آپ میری جان کے علاوہ ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں،آپ نے فرمایا:’’عمر(رضی اللہ عنہ) سنو!جب تک میں تمھارے نزدیک تمھاری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں تم(کامل) مومن نہیں ہوسکتے‘‘ تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اب آپ میرے نزدیک میری جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں،تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا:’’اب تم جاکر(کامل) مومن ہوئے‘‘۔(صحیح بخاری،حدیث نمبر:۶۶۳۲)
اگر ہم اور آپ بھی اپنے ساتھیوں کے درمیان دلعزیز بننا چاہتے ہیں،ان کا دل جیت کر ان کے اوپر حکمرانی کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی وہ نسخہ سیکھنا چاہیے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنایا اور برتا تھا۔ان میں سے چند چیزیں ذیل کے سطور میں قلمبند کی جاتی ہیں اور امید کی جاتی ہے کہ ہر مسلمان ان کو اپنی زندگی میں داخل کرنے کی بھرپور سعی کرے گا تاکہ محبت الہی،محبت رسول اور محبت خَلائق سب ہاتھ آجائے۔
(۱)حسن اخلاق:
انسان کو اس کا روپیہ پیسہ،جاہ ومنصب،رنگ ونسل بلندی عطا نہیں کرتا بلکہ انسان کا رتبہ، اس کے اخلاق وکردار سے اونچا ہوتا ہے۔جس کے اپنانے کی تاکید قرآن وحدیث میں جابہ جا کی گئی ہے۔ حسنِ اخلاق ہی وہ جوہر ہے جس سے آدمی سب کی نگاہوں میں محبوب بنتا ہےاور ہر دل پر ایسے شخص کی حکومت ہوتی ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’تمھارا مال سب کو کفایت(یعنی اس کے ذریعہ سب کو خوش نہیں کرسکتے) نہیں کرسکتا،مگر جو چیز کفایت کرسکے وہ تمھارا مسکراتا چہرہ اور تمھاری خوش خُلُقی ہے۔‘‘(کشف الاسرار عن زوائد البزار:۲/۲۹۸)افسوس آج اس نبوی نسخہ کو غیروں نے اپنالیا اور ہم اس سے تہی دامن ہوگئے،ان کی دکانیں چلنے لگیں اور بدخلقی کے کارن ہماری دکانیں اور کمپنیاں فیل ہوگئیں۔دل جیتنے کا سب سے بڑا ہتھیار حسن اخلاق ہے، اس سے کبھی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے۔
(۲)مسکراہٹ:
ہم میں کا ہر شخص وجہ بے وجہ ہنستا اور مسکراتا ہے،لیکن نیکی اور ثواب سمجھ کر مسکرانے والوں کی بے حد کمی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں سے ایک خاصیت یہ بھی تھی کہ آپ اپنے دوستوں کے ساتھ مسکراتے تھے اور دوسروں کو اس کی تاکید بھی کرتے تھے۔اسلام میں مسکراہٹ کو صدقہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’نیکی کے کسی کام کو کمتر نہ سمجھو،گرچہ کسی سے مسکراتے ملنے کو‘‘۔(صحیح مسلم:۸/۳۷)جنت میں صرف مال اور دولت اللہ کے راستے میں خرچ کرکے ہی نہیں پہنچا جاسکتا بلکہ معمولی کاموں کے ذریعہ بھی اپنا مقام جنت میں بنایا جاسکتا ہے،مثلا چند سیر اناج اور غلہ صدق دل سے اللہ کی راہ میں دے کر، کھجور کی گٹھلی،راستے سے تکلیف دِہ چیز ہٹا کر یا پیاسے جانور کو پانی پِلا کر بھی جنت کمائی جاسکتی ہے۔مذکورہ حدیث میں نیک نیتی سے راہ الہی میں حسبِ استطاعت خرچ کرنے کی تاکید اور دل جیتنے کا نسخہ بھی بتلاگیا ہے کہ آدمی مسکرانے کو نہ چھوڑے۔
(۳)شیریں گفتگو:
بات سب کرتے ہیں مگر بات کرنے کی سلیقگی بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہےاور اس زمانے میں تو جھوٹوں کی کثرت ہے، جھوٹ بول کر فریب میں ڈالنا،نقصان پہنچانا بڑا ہنر سمجھا جاتا ہے اور اس کو پیشہ تصور کر کے مالِ حرام بھی کمایا جاتا ہے۔اللہ ایسے لوگوں سے بچائے اور صدق گوئی کی توفیق دے۔
اپنی باتوں سے دِل جیتنا حالانکہ اس موضوع پر اب تو مشرق ومغرب کے مفکرین اور دانشوران کی اردو، عربی اور انگریزی زبان میں بے شمار کتابیں موجود ہیں مگر شیریں گفتاری کا جو ہنر سنت میں موجود ہے وہ کسی کتاب میں نہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ خوبصورت گفتگو کرنے والا ہوا ہے اور نہ ہوگا۔آپ بولتے تو لگتا کانوں میں رَس گھولتے اور دلوں کو مُوہتے ہیں۔ آپ کی گفتگو میں بَلا کی شگفتگی اور سلیقگی پائی جاتی تھی،حالات وظروف اور مخاطب کا آپ خاص خیال رکھا کرتے تھے۔اس سکون سے بولتے کہ بہتوں کو آپ کی باتیں ازبر ہوجاتیں،اسی لیے بہ آسانی صحابہ کرام نے آپ سے سن کر قرآنی سورتیں اور حدیثیں حفظ کیں۔تاریخ وسیرت میں اس کی متعدد مثالیں آپ کو بخوبی مل سکتی ہیں۔سورہ کہف ہی کو لے لیجیے کئی صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سن کر یاد کرلی تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو میں لفظ اور معنی دونوں اعتبار سے شیرینی ہوتی تھی،باتیں سچی اور میٹھی ہوتی تھیں۔جس کی وجہ سے دشمن دوست ہوجاتا اور اپنا سر آپ کے قدموں میں ڈال کر ہمیشہ کے لیے آپ کا اسیر بن جاتا تھا۔ایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’میٹھی گفتگو صدقہ ہے‘‘۔( صحیح بخاری،حدیث نمبر:۸۱۱۱ )اور صدقہ کبھی رائیگاں نہیں جاتا،دنیا اور آخرت میں اس کا فائدہ پہنچتا ہے۔
(۴)لوگوں کا خیال رکھنا:
ہر شخص چاہتا ہے کہ اس کی عزت ووقار کا خیال رکھا جائے،اس کی تعریف کی جائے،اس کی پسند اور ناپسند کو عملی شکل دی جائے،اس کی شخصیت کو ترجیحی حیثیت دی جائے اسے نیگلِٹ نہ کیا جائے۔اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا:’’لوگوں کو ان کا مناسب مقام دو‘‘۔کسی کو جائز مقام سے نیچے رکھنا ناانصافی اور عناد کا باعث ہے۔اور بدیہی امر ہے کہ جب آپ اپنے مقابل کا خیال رکھیں گے،اس کے دکھ تکلیف میں کام آئیں گے اوراس کی جائز تمناؤں کو پوری کریں گے تو یقینا ایسا شخص آپ کے ہاتھوں اپنا دل ہار جائے گا،بہ آسانی آپ اس کے دل پر قبضہ جمالیں گے۔حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے ایسا عمل بتلائیے جس سے بہ آسانی میں جنت میں پہنچ جاؤں،آپ نے فرمایا:’’غریبوں کو کھانا کھِلاؤ،لوگوں کو سلام کرو،میٹھی گفتگو کرو،تہجد کا اہتمام کرو،آرام سے جنت میں چلے جاؤگے۔‘‘( کشف الاسرار عن زوائد البزار:۱/۲۸۰ ) یہ سارے کام ایسے ہیں جن سے آدمی دوسرے کے دلوں کا بادشاہ بنتا اور اپنے لیے جنت کا راستہ آسان کرتا ہےاور یہی ہر مسلمان کی بڑی خواہش ہوتی ہے کہ دنیا میں بھی اس کی آؤ بھگت ہو اور آخرت میں بھی جنت اسے نصیب ہو۔

آپ کے تبصرے

3000