خرید وفروخت کے مختصر احکام

آصف تنویر تیمی معاشیات

عربی زبان اور قرآن وحدیث کی اصطلاح میں خرید وفروخت کے لیے بیع(فروخت) وشراء(خرید) کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔
خریدوفروخت کا حکم:
قرآن وحدیث کی متعدد دلیلوں سے معلوم ہوتا ہے کہ بیع وشراء جائز اور مشروع ہے۔اللہ تعالی نے فرمایا:’’اللہ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام کیا ہے۔‘‘(بقرہ:۲۷۵)اور اس معنی کی قولی وفعلی بہت ساری حدیثیں بھی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ خرید وفروخت جائز عمل ہے۔خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کی،سامان بیچا اور خریدا۔ایک حدیث میں آپ نے فرمایا:’’کوئی شہری کسی دیہاتی کا سامان(بازار میں داخل ہونے سے پہلے) نہ خریدے۔‘‘(سنن ابو داود،حدیث نمبر:۳۴۴۰) اور فرمایا:’’خرید بکری کرنے والے کو جدا ہونے تک (بیع کے ختم کرنے کا)اختیار ہے۔(بخاری مسلم)
بیع کی حکمت:
بیع ہر انسان کی ضرورت ہے۔کوئی ایسا نہیں جس کے پاس دنیا کی ہر چیز مہیا اور دستیاب ہو۔کسی کے پاس سامان ہے تو کسی کے پاس پیسہ۔چنانچہ بیع کی مشروعیت کی وجہ سے ہر شخص اپنی حاجت بہ آسانی پوری کرسکتا ہے۔ورنہ لوگ پریشانی اور حرج میں مبتلا ہوجائیں گے۔
بیع کے ارکان:
رکن اس چیز کو کہتے ہیں جس کے بغیر اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔جیسے نماز کے لےو قیام، سورہ فاتحہ اور آخری تشہد وغیرہ۔
اسی طرح بیع کے پانچ ارکان ہیں:
(۱)بیچنے والا: جس کو عربی میں (بائع)کہتے ہیں۔اور بائع کے لےی ضروری ہے کہ جس چیز کو وہ بیچ رہا ہے پورے طور پر وہ اس کا مالک یا صاحب مال کی طرف سے اس کو بیچنے کی اجازت حاصل ہو۔نیز خریدار باشعور اور عقل مند ہو۔بے وقوف شخص کا خرید وفروخت درست نہیں۔
(۲)خریدنے والا: جس کو عربی میں (مشتری)کہا جاتا ہے۔مشتری کے لےی ضروری ہے کہ وہ باشعور اور بالغ ہو،بے وقوف اور بچہ نہ ہو۔
(۳)سامان:جس کو عربی میں (مَبیع، مُثمن یا سِلعہ))کہا جاتا ہے۔اور مبیع کے لے ضروری ہے کہ وہ مباح،پاکیزہ اور خریدار کے حوالے کرنے کے لائق ہو۔بائع ومشتری دونوں کو سامان کا علم یا اس کا وصف معلوم ہو۔ایسا سامان قابل فروخت نہیں جو شرعی اعتبار سے ناپاک یا ناقابل تسلیم ہو۔جیسے شراب،بیڑی،سگریٹ دیگر منشیات وغیرہ۔ایسے ہی بھاگے ہوئے جانور یا اڑتے ہوئے پرندے کو بیچ نہیں سکتے اس لے کہ مشتری کے حوالے بھاگے ہوئے مویشی یا پرندے کو نہیں کیا جاسکتا۔
(۴)صیغہ:وہ لفظ جس کے ذریعہ بیع انجام پاتا ہے اس کو صیغہ کہا جاتا ہے۔جیسے بائع کہے:میں نے یہ سامان اتنے میں بیچا اور مشتری کہے:میں نے یہ سامان اتنے میں خریدا۔اسی کو ایجاب وقبول بھی کہا جاتا ہے۔ایجاب کا تعلق بائع سے اور قبول کا تعلق مشتری سے ہوتا ہے۔کبھی صیغہ لفظ کے علاوہ فعل بھی ہو سکتاہے۔جیسے مشتری کہے:مجھ سے یہ کپڑا بیچ دو اور بائع بلا کچھ کہے کپڑا پیش کردے۔
(۵)رضامندی: اس کے لےق عربی میں (تراضي )کا لفظ بولا جاتا ہے۔کوئی بھی خرید بکری بلا طرفین(بائع ومشتری)کی رضامندی کے صحیح نہیں ہوتا۔نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا:[إنما البیع عن تراض] بیع رضامندی ہی کا نام ہے۔( رواه ابن ماجہ،وسندہ حسن)
بیع کے جائز شروط:
بیع میں مناسب اور جائز شروط عائد کی جاسکتی ہیں۔لیکن ایسی شرط جو حلال کو حرام یا حرام کو حلال قرار دے اس کی شریعت میں کوئی گنجائش یا کوئی اعتبار نہیں بلکہ اس قسم کی ساری شرطیں لغو اور بیکار سمجھی جائیں گی۔اگر مشتری کوئی جائز شرط لگائے اور بائع اس شرط کو پورا نہ کرے تو مشتری چاہے تو اس بیع کو واپس(فسخ) کرسکتا ہے۔جیسے آپ کسی دکان دار سے کوئی کاپی خریدنا چاہتے ہیں اور آپ نے اس سے کہا کہ جناب!مجھے لال رنگ کی ہی کاپی چاہےش مگر وہ ہری کاپی دے دے تو ایسی صورت میں آپ کو اختیار ہے چاہیں تو وہ کاپی آپ رکھ لیں یا واپس کردیں،اس لےا کہ کاپی آپ کی شرط کے مطابق نہیں ملی۔ایسے ہی اگر آپ نے لوہار کو کہا کہ میرا دروازہ لوہے کا ہونا چاہےص مگر وہ آپ کے گھر کا دروازہ لکڑی کا بنادے تو وہ بیع آپ کی مرضی پر منحصر ہے چاہیں تو قیمت میں کمی کرکے گوارہ کرلیں یا سرے سے بیع فسخ کردیں۔
بیع کے جائز شروط کی مثالوں میں سے یہ بھی ہے کہ کوئی جانور بیچنے والا یہ کہے کہ: بھائی صاحب! میں اپنا جانور (اونٹ،بیل،بھینس وغیرہ)تو بیچ رہا ہوں مگر یہ جانور آپ کا اس وقت ہوگا جب میں اس پر سوار ہوکر اپنے گھر پہنچ جاؤں گا۔یا گھر بیچنے والا مزید ایک ماہ اس گھر میں رہنے کی شرط لگائے تو لگاسکتا ہے،کپڑا خریدنے والا سِل کر دینے کی شرط رکھے تو رکھ سکتا ہے،لکڑی خریدنے والا اس کے پھاڑنے کی شرط لگائے تو لگاسکتا ہے اور یہ تمام شرطیں پوری کی جائیں گی۔
بیع کی ناجائز شرطیں:
ابھی گزرا کہ ایسی تمام شرطیں جو کتاب وسنت کے نصوص کے مخالف یا متعارض ہو وہ جائز نہیں۔
بیع کی ناجائز شرطوں میں سے چند یہ ہیں:
(۱)ایک بیع میں دو شرط نہیں لگائی جاسکتی، جیسا کہ مشتری بائع سے لکڑی کےتعلق سے کہے: آپ پھاڑیں گے بھی اور میرے گھر ڈھوکر پہنچائیں گے بھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا:’’ایک بیع میں دو شرط جائز نہیں۔‘‘(ابوداود،حدیث نمبر:۳۵۰۴)
(۲)وہ تمام شروط باطل ہیں جو بیع کےاصل مقصد کو فوت کرڈالیں۔جیسے کہ سواری بیچنے والا شخص خریدنے والے سے کہے کہ آپ خریدنے کے بعد اسے بیچ نہیں سکتے۔
بیع میں اختیار کا حکم:
شریعت اسلامیہ کا یہ حسن ہے کہ اس نے بائع اور مشتری دونوں کو جائز حقوق عطا کےا ہیں۔اور اس بات کی بھرپور کوشش کی ہے کہ دونوں میں سے کسی کو کوئی بھاری نقصان نہ ہو۔اسی کی ایک کڑی بیع میں اختیار بھی ہے۔
اختیار کے بہت سارے مسائل ہیں جن میں سے چند اہم یہ ہیں:
بائع اور مشتری جب تک بیع کی مجلس میں ہیں اس وقت تک دونوں کو اختیار ہے چاہے تو خریدےنہ خریدے یا بیچے نہ بیچے۔جیسے ہی مجلس برخواست ہوگی دونوں کا اختیار ختم ہوجائے گا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’البیعان بالخیار مالم یتفرقا‘‘[بخاری و مسلم) بائع اور مشتری کو جدا ہونے تک اختیار ہے۔(اس اختیار کو فقہ کی اصطلاح میں خِیار مجلس سے تعبیر کیا جاتا ہے)
بائع اور مشتری میں سے کوئی اگر سامان یا قیمت کی واپسی کے لےی ایک ماہ کی بھی مہلت طلب کرے اور دونوں اس بات کے لے تیار ہوجائیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔لیکن مہلت گزرتے بیع مکمل سمجھاجائے گا جس کو بیع لازم کہتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’المسلمون علی شروطہم‘‘(مسلمان شرطوں کی پاسداری کرتے ہیں)
اگر بائع مشتری سے دھوکہ دے کر ایک تہائی قیمت زیادہ لے تو ایسی صورت میں مشتری بیع فسخ کرسکتا ہے۔یا یہ کہ قیمت کا جو فرق ہے بائع اتنا مشتری کو واپس کردے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کم عقل بائع سے کہا جب تم بیچا کرو تو کہو:’’لا خلابة‘‘ (مسلم)دھوکہ نہیں۔
معلوم ہوا کہ اگر کوئی دھوکہ دے کر سامان یا پیسہ لے لے تو وہ بیع فسخ ہوجائے گا۔یا یہ کہ زائد پیسہ یا زائد سامان واپس کردیا جائے۔
سامان(مبیع)میں پھیر بدل (تدلیس) اس طور سے کہ بائع اچھا سامان دکھا کر ردی سامان دے دے۔یا اچھا سامان اوپر رکھ دے اور سڑا ہوا نیچے چھپا دے تو ایسی صورت میں مشتری سامان کو واپس کرسکتا ہے۔اس لے( کہ یہ بھی دھوکہ کی ایک قسم ہے اور دھوکہ دھڑی اسلام میں جائز نہیں۔(من غشنا فلیس منا)
تدلیس کی مشہور فقہی مثال یہ دی جاتی ہے کہ بکری،گائے،بھینس یا اونٹنی بیچنے والا شخص کئی دنوں سے اپنے جانور کا دودھ روک کررکھے اور پھر اسے اس نیت کے ساتھ بیچے کہ دودھ دکھاکر مشتری سے زیادہ قیمت وصول کیا جاسکے۔یا خود مشتری جانور کے تھن میں زیادہ دودھ دیکھ کر زیادہ قیمت دے۔بیع کی اس شکل کو حدیث میں تصریہ سے تعبیر کیا گیا ہے جو کہ جائز نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’لا تصروا الابل ولاالغنم‘‘[مسلم] تم لوگ اونٹ اور بکری کے دودھ کو روک کر رکھا نہ کرو۔
سامان خریدنے کے بعد سامان میں کوئی عیب نظر آجائے جو خریدتے وقت نظر نہیں آیا تھا تو مشتری کو اختیار ہے کہ چاہے تو اس عیب کے برابر پیسہ واپس لے لے یا مکمل طور پر سامان ہی بائع کو واپس کردے۔اگر عیب معمولی ہو جس سے سامان کی قیمت پر اثر نہ پڑ رہا ہو تو اس عیب کا اعتبار نہیں ہوگا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ہر مسلمان بائع کو چاہے کہ وہ سامان بیچتے وقت اپنے سامان کے عیب کو بیان کردے۔‘‘[رواہ الحاکم والبیھقی فی السنن الکبری]
بائع اور مشتری دونوں کا آپس میں سامان یا اس کی نوعیت کے بارے میں اختلاف ہوجائے تو دونوں قسم کھائیں گے اور اس کے بعد دونوں کو اختیار ہوگا کہ بیع کو باقی رکھیں یا فسخ کردیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اگر بائع اور مشتری کا اختلاف ہوجائے اور کسی کے پاس کوئی گواہی نہ ہو تو دونوں حلف اٹھائیں گے۔‘‘[سنن ابو داود،حدیث نمبر:۳۵۱۱]
تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:
(۱)السعی الحثیث الی فقہ اہل الحدیث،تالیف علامہ ڈاکٹر محمد لقمان سلفی رحمہ اللہ
(۲)منھاج المسلم،تالیف شیخ ابوبکر جابر جزائری رحمہ اللہ

آپ کے تبصرے

3000