دل یہ کہتا ہے فراق انجمن سہنے لگوں (۳)

رشید سمیع سلفی سفریات

سفر کے پروگرام میں نیپال جانا بھی تھا کیونکہ ننیہال اور سسرال دونوں ہوتی ہے،بارڈر پر بہت سختی تھی لیکن کناروں سے جوق در جوق آمد‌ورفت کا سلسلہ جاری تھا،بمشکل تمام جب انڈیا کا بارڈر کراس کرکے ہم نیپال کی سرحد پر پہنچ رہے تھے تو نیپالی پولیس سب کو روک رہی تھی،کئی لوگ کھڑے منت سماجت کررہےتھے،لیکن‌ پولیس ٹس سے مس نہیں ہورہی تھی۔میں پریشان ہوگیا لیکن قریب پہنچا تو پہلے پولیس نے ہم پر ایک تنقیدی نظر ڈالی پھر مجھے مع اہل خانہ جانے کا اشارہ کردیا،حیرت ہوئی کہ داڑھی اور ٹوپی کا عالمی پروپیگنڈہ نیپالی پولیس پر اثرانداز نہیں ہوا،وگرنہ یہ دونوں چیزیں تو جگہ جگہ مشکلات پیدا کردیتی ہیں،بنتا کام بھی بگڑ جایا کرتا ہے۔
یہ در اصل اس جمہوری روح کی دین ہے جس کے رنگ میں نیپال ماضی قریب میں رنگ گیا ہے، جی ہاں نیپال طویل خونریزی کے بعد جمہوری قدروں کا امین ہے،ہندو کثیر تعداد میں بستے ہیں لیکن نہ تو کہیں لنچنگ ہے اور نہ ہی فسادات ہیں،تعصب اور فرقہ پرستی کا کہیں گذر بھی نہیں ہے،مسلم اور ہندو سب ایک ساتھ زندگی گذار رہے ہیں۔یہ بد نصیبی ہمارے ملک کی ہے جہاں آر ایس ایس کی لگائی ہوئی کشت نفرت لہلہارہی ہےاورجس کے نتائج فرقہ پرستی،تعصب،موب لنچنگ اور فسادات کی شکل میں سامنے آرہے ہیں،نیپال کا ماحول دیکھ کر ایک حسرت بھری آہ نکلی کہ کاش ہمارا ملک بھی ایسے ہی فرقہ پرستی سے پاک ہوتا،اجمل سلطان پوری نے ایسے ہی حالات کو دیکھ کر کہا تھا؎
مسلماں اور ہندو کی جان
کہاں ہے میرا ہندوستان
میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں
فصل خریف کٹ چکی تھی اور فصل ربیع کے لیے کھیتوں کی ہمواری اور تخم ریزی کا کام شباب پر تھا،میں زرعی مصروفیات میں مخل ہورہاتھا لیکن ہر جگہ مہمان نوازی کا جذبہ مصروفیت پر غالب رہا۔ نیپال بھی ہمہ گیر تبدیلی کے دور سے گذررہا ہے،خوشحالی گھروں کی منڈیروں سے جھانک رہی ہے،زیادہ تر لوگ روزگار کے لیے قطر جاتے ہیں اور حالات پہلے سے کافی بہتر ہوگئے ہیں، سرکار مکاتب میں ایک استاد کو مشاہرہ بھی دیتی ہے،یہاں بھی پہلے کا نیپال کہیں کھو ساگیا ہے اور موجودہ نیپال نیا روپ دھار رہاہے۔لمبنی کپل وستو کے اس علاقے سے بھی گذرہوا جو بدھ مذہب کے آثار وباقیات کے لیے جانا جاتا ہے،بدھسٹوں کا ماننا ہے کہ گوتم بدھ یہیں پیدا ہوئے تھے،اس لیے یہ وسیع وعریض احاطہ بدھ کے مندروں اور مورتیوں کا عجائب گھر بن گیا ہے،قریب سے گذرتے ہوئے باہرسے مشاہدہ تو کیا لیکن اندر جانا دل نے گوارہ نہ کیا، بھلا ہم توحید پرستوں کا شرک کے بازاروں سے کیا کام!اللہ شعور توحید کی روح ہم میں زندہ رکھے،وگرنہ رفتہ رفتہ رواداری کے بگڑتے مزاج نے لوگوں کو دیوالی کی مٹھائی سے آگے مندروں اور بت خانوں کے آستانوں پر بھی پہنچادیا ہے،شاعر کہتا ہے؎
اذاں دی کعبے میں ناقوس دیر میں پھونکا
کہاں کہاں ترا عاشق تجھے پکار آیا
(محمد رضا برق)
نیپال سے واپسی پرجامعہ سلفیہ کے دوست اور جونئیر ساتھی ڈاکٹر فرید سلفی سے ۱۰؍نومبر کو ایک ملاقات طے تھی،ملاقات ان کے قائم کردہ ادارہ سلفیہ پبلک سکول میں ہونی تھی،آپ علاقے کے پردھان بھی ہیں،جرأت وہمت، دلیری اور دبدبہ ایسا ہے کہ آئے دن ہندو شدت پسند تنظیموں سے لوہا لیتے رہتے ہیں،رسوخ بڑے بڑے نیتاوں سے لےکرپولس افسروں تک ہے، ’’حاجی کرم حسین سلفی پبلک اسکول‘‘غیر مسلموں کے سینے میں کسی خنجر کی طرح پیوست ہے جس سے شدت پسند ہندو تلملائے ہوئے ہیں کیونکہ اس میں آدھے سے زیادہ غیر مسلم طلبا پڑھتے ہیں،آپ کے خلاف آئے دن جھوٹے مقدمے دائر کےں جاتے ہیں اور آپ مخالفت کے ہجوم میں مسکراتے ہوئے منزل کی طرف رواں دواں ہیں۔خاطر تواضع میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی،اس ملاقات میں ڈاکٹر صاحب کے جامعہ سلفیہ کے چند اور ساتھیوں سے شناسائی ہوئی،پرانے دنوں کی یادیں اور اپنی اپنی سرگزشت ایک دوسرے سے شئرر کی۔
۱۳؍نومبر کو عزیز دوست اور کنوارے شاعر کاشف شکیل کا قصد کرنا تھا، کاشف شکیل ذہین وفطین،شگفتہ مزاج وملنسار، شوخ چنچل نوجوان فاضل ہیں، کم عمری ہی میں اپنے علم وفن اور شعر وادب سے چھوٹے بڑے ہر کسی کو اپنی شخصیت کا اسیر کرلیا ہے،دوستوں اور احباب کا حلقہ بہت وسیع ہے،آئے دن آپ کے یہاں کوئی نہ کوئی مہمان بنتا ہے،بڑے بڑے بزرگان بھی حاضری دیے ہوئے ہیں تو ہم کس شمار میں ہیں۔آپ کا گھر غریب خانے سے کافی دور ہےلیکن خلوص ہوتو دوریاں کوئی معنی نہیں رکھتی ہیں،لہذا شاداں و فرحاں سنت کبیر نگر کے لیے چل پڑا ،۲۵کلو میٹر پہلے بانسی میں کاشف صاحب ریسیو کرنےکے لیے آئے، مجھے صرف ایک دن رہنا تھا لیکن کاشف صاحب کا پورا گھر ایسا غیرمعمولی مہمان نواز ہے کہ ایک دن اورغیر ارادی طور پر رہ گیا،وہ چھ سالہ رمشہ شکیل بھی ملی جو اکثر کاشف شکیل کی وال پر کسی نعت یا نظم کےساتھ نمودار ہوتی ہے،کئی نظموں سے اس نے شاد کام کیا۔
شام کو کاشف شکیل صاحب نے ابوالمکرم سلفی رحمہ اللہ کا قائم کردہ ادارہ ’’مدرسہ زید بن ثابت‘‘ کا بھی مشاہدہ کرایا،مدرسے سے ذرا متصل قبرستان میں آپ کی قبر بھی دکھائی جہاں آپ کی وصیت کے مطابق آپ کو رکھا گیا تھا،ابوالمکرم سلفی کے فرزند ارجمند حسان ابوالمکرم ریاضی سے بھی ملاقات کرائی،آپ ریاض یونیورسٹی میں ماجستر کررہے ہیں اور بہت باذوق نوجوان ہیں۔
شیخ اسماعیل سلفی حفظہ اللہ (دبئی) کے ادارے’’ مدرسہ کعب بن مالک‘‘ کی بھی زیارت کرائی جو سانتھا میں واقع ہے،بہت خوبصورت اور جدید انداز کا طرز تعمیر ہے،اس پورے علاقے میں مساجد اور مدارس کا جال بچھا ہوا ہے۔
ہم مدرسہ مدینۃ العلوم کرن جوت بھی گئے،یہ حامدالانصاری انجم رحمہ اللہ کا ساختہ پرداختہ ادارہ ہے،اس سے ذراسا فاصلے پر لڑکیوں کے لیے مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ بھی قائم کیا ہے،حیرت ہوئی کہ ہمارے بزرگ کتنے فعال تھے،انھوں نے بے سروسامانی کے عالم میں جو کچھ کیا وہ مال کی فراوانی کے باوجود لوگ نہیں کرسکے، ہند ونیپال کے سرحدی علاقے حامدالانصاری انجم رحمہ اللہ کی دعوتی جولانیوں کے گواہ ہیں،سدھارتھ نگر سوہانس میں بھی آپ نے مرکزالدعوۃ السلفیہ(جامعہ احد) قائم کیا ہے جہاں آج رابعہ تک تعلیم ہورہی ہے،آپ چاہتے تو کوئی ایک ادارہ پکڑ کر اسے بلندیوں تک لے جاتے اور مسند اعزاز پر براجمان ہو کر اپنی محنتوں کی خراج وصولتے،پھر اس تراث پر آل اولاد عیش کرتی،لیکن آپ ادارے کو رواں کرکے آگے بڑھ جاتے تھے،کئی اداروں کی کہانی بس یہی ہےکہ قائم کیا،رفتار پکڑا دیا اور نئی زمینوں کی تلاش میں چل کھڑے ہوئے،کبھی مڑکر پیچھے نہ دیکھا۔یہاں تو مدرسوں کا المیہ بڑادلدوز ہے،صرف عہدوں کے لیے لاٹھیاں چلتی ہیں،مقدمے بازیاں ہوتی ہیں،وہ کتنے بے لوث تھے جو اپنے ترقی پذیر ادارے دوسروں کے حوالے کرجاتے تھے،سچ کہا ہے شاعر نے؎
یہی بے لوث محبت یہی غم خوارئ خلق
اور معراج کسے کہتے ہیں انسانوں کی
نام ہے کیا اسی ہنگامے کا آغاز شباب
ایک آندھی سی چلی آتی ہے ارمانوں کی
(نہال سیوہاروی)
کئی رسالے بھی نکالے اور صحافت کے ذریعہ دعوت کے مشن کو آگے بڑھایا،جلسوں میں تو آپ کی صدائے دلنواز سنائی ہی دیتی تھی لیکن زمینی سطح پر بھی آپ نے اصلاح وتزکیے کا مثالی کارنامہ انجام دیا ہے،کتنے ہی لوگ ہیں جو یہ کہتے ہوئے نظر آئے کہ ہم کو اور ہمارے پورے خاندان کو انجم صاحب نے اہل حدیث بنایا ہے،گھروں پر جا کر ایک ایک فرد کو پکڑ کر توحید وسنت سے آشنا کیا ہے،آج دعوت توحید اور منہج کتاب وسنت کا جو غلغلہ ان علاقوں میں سنائی دیتا ہے اس کے پیچھے ہمارے انھی بزرگوں کی انتھک جد وجہد ہے؎
کچھ ایسے نقش بھی راہ وفا میں چھوڑآئے ہو
کہ دنیا دیکھتی ہے اور تم کو یاد کرتی ہے
(جاری)

آپ کے تبصرے

3000