علامہ ابوالفضل محمد احسان اللہ عباسی کا اردو ترجمۂ قرآن (تعارفی، تجزیاتی اور تنقیدی مطالعہ)

رفیق احمد رئیس سلفی تنقید و تحقیق

مغلیہ حکومت کے زوال اور ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کی ناکامی نے ہندی مسلمانوں کی کمر توڑ دی تھی ،وہ ملی حیثیت سے جس مایوسی اور افسردگی کے دلدل میں گرتے چلے جارہے تھے ،اس سے باہر نکلنے کا بہ ظاہر کوئی طریقہ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔کم وبیش ایک ہزار سال تک وہ ایک حکم راں کی حیثیت سے وطن اور اہل وطن کی خدمت کرتے چلے آرہے تھے،ملک کے تمام مذاہب اور ثقافتوں کو یکساں پھلنے پھولنے کے مواقع حاصل تھے ،خود مسلمانوں کے دین اور مذہب اور ان کی تہذیب وثقافت کے لیے کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں تھا لیکن انگریزی حکومت کے غلبہ واستعلاء نے مسلمانوں کے ملی وجود کو ہلاکر رکھ دیا،ایک طویل عرصے تک سیاسی بالادستی کی فضا میں زندگی گزارنے والے اچانک سیاسی طور پر محکوم بن گئے۔ان کے تمام عہدے اور مناصب،معاشی وسائل وذرائع اور سماجی اثرورسوخ بہ تدریج ختم کردیے گئے۔ جن کو انگریزوں کی بالادستی منظور نہیں تھی،وہ قتل کردیے گئے یا ان کی زمین جائیداد بہ حق سرکار ضبط کرلی گئی اور وہ دانے دانے کے لیے محتاج بنادیے گئے۔
ایسے نازک حالات میں اگر کسی نے ملت کی صحیح رہنمائی کی اور آنے والے حالات کا صحیح تجزیہ کرکے مسلمانوں کوملک میں عزت کے ساتھ جینے کا طریقہ سجھایا تو وہ سرسید احمد خاں تھے۔ دین ومذہب کے حوالے سے ان کے بعض تفردات وشذوذکی کوئی صحیح تاویل نہیں کی جاسکتی لیکن شاید اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس وقت سرسید نے انگریزی حکومت کے ساتھ جو رویہ اپنانے کی نصیحت کی،شاید اس سے بہتر اور قابل عمل کوئی دوسرا طریقہ ملت کے پاس نہیں تھا۔آج ممکن ہے کچھ لوگ راہ عزیمت اختیار کرنے کی بات کہیں اور سرسید کے دور میں انگریزوں سے مفاہمت کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے ان سے برسرپیکار ہونے کا تذکرہ کریں لیکن یہ بات کہنے میں جتنی بھلی معلوم ہوتی ہے،عملاً اس کی دشواریوں کا آج ہم اندازہ بھی نہیں کرسکتے۔تحریک شہیدین کے سلسلے میں خود مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے نے جو رویہ اپنایا ،اس سے تاریخ کا ہر طالب علم واقف ہے۔جذبہ شہادت سے معمور اس جماعت کو دین اسلام سے ہٹا ہوا قرار دیا گیا اور آج تک بعض ذہنوں نے ان کی قربانیوں کو تسلیم نہیں کیا۔راہ عزیمت وہ قومیں اختیار کرتی ہیں جن میں کردار وعمل کی خوبیاں بھی ہوں اور عزم وحوصلہ بھی ،یہاں دونوں چیزیں مفقود تھیں۔اجتماعی حیثیت سے ملت کردار وعمل سے تہی دامن تھی اور عزم وحوصلہ سے وہ کافی پہلے سے محروم ہوچکی تھی۔حکم رانوں اور امراء سے عوام بے زار تھی، تملق اور چاپلوسی کا دور دورہ تھا،نوجوان نسل کبوتر بازی اور مرغ بازی میں مصروف تھی۔
دینی لحاظ سے مختلف مسلکوں میں تقسیم ملت کے بعض علماء نے عوام کو ایک ایسے راستے پر ڈال دیا تھا جس میں تکفیر،تبدیع اور تفسیق کا ایک لا متناہی سلسلہ تھا۔آپ ذرا اندازہ کریں کہ جس وقت مغلیہ سلطنت اپنے خاتمہ کے کگار پر کھڑی تھی ،ہمارے بعض محترم علماء امتناع نظیر اور اللہ جھوٹ بولنے پر قادر ہے یا نہیں جیسے لایعنی اور فضول مسائل پر نہ صرف مناظرہ کررہے تھے بلکہ ان مسائل میں جو ان کا ہم خیال نہ ہوتا ،اسے دین اسلام سے خارج قرار دے رہے تھے یا کم ازکم اس کے ایمان ویقین کو غیرمعتبر سمجھتے تھے۔حدیث اور فقہ اسلامی کے باہمی اختلافات کا چرچا تھا،تقلید اور عدم تقلید پر طرفین کی طرف سے کتابوں پر کتابیں لکھی جارہی تھیں،تصوف کے کئی ایک سلسلے تزکیہ اور احسان کے حوالے سے عوام وخواص میں اپنے حلقے قائم کرکے بے عمل مسلمانوں کو جھوٹی امیدیں دلارہے تھے اور کرامات اولیاء اللہ کا تذکرہ کرکے یہ سمجھانے میں مصروف تھے کہ اوراد ووظائف کی غیر شرعی ضربیں لگاؤ،ساری مصیبتیں چھومنتر ہوجائیں گی۔
مسلمانوں کی شکست خوردگی اور ان کی ہزیمت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید کی بالاکوٹ میں شہادت کے بعد برسوں تک یہ عقیدہ ہمارے بعض بزرگوں کے دلوں میں راسخ رہا کہ حضرت پردہ فرماگئے ہیں ،تھوڑے عرصے بعد اپنے ناقابل شکست فوج کے ساتھ دوبارہ ظہور فرمائیں گے اور اسلام کے دشمنوں کا صفایا کردیں گے۔متصوفانہ لٹریچر میں حضرت خضر کے وجود کی معنویت اور غوث،قطب اور ابدال کی اہمیت کا تجزیہ کریں ،ساری حقیقت سامنے آجائے گی۔قومیں جب شکست وہزیمت سے دوچار ہوتی ہیں،تو دست وبازو سے کام لینے کی بجائے چمتکاروں اور کرامات کے انتظار میں اپنے ماہ وسال گزارنے لگتی ہے۔اوراد ووظائف ، توکل علی اللہ اور دعا ومناجات کے معانی ومفاہیم الٹ دیے جاتے ہیں۔غزوہ بدر میں اپنے رسول ﷺ کا اسے یہ اسوہ یاد نہیں رہتا کہ تین سو تیرہ کو میدان جنگ میں مورچے پر لگانے کے بعد انھوں نے اللہ سے دعا مانگی تھی کہ یہ مٹھی بھر جماعت اگر آج ہلاک ہوگئی تو روئے زمین پر تیری عبادت نہیں ہوگی۔دنیا کا ایک نظام ہے ،اس نظام کو جو قومیں سمجھ لیتی ہیں،کامیاب رہتی ہیں اور جو اس کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتیں وہ ہمیشہ اندھیروں میں بھٹکتی رہتی ہیں۔
مایوسی،اوہام پرستی اور بدعقیدگی کے اس تاریک ماحول میں اگر کسی نے مسلمانوں کو زمینی حقیقت سے آگاہ کیا تو وہ سرسید اور ان کے رفقائے کار تھے۔جس فکر وفلسفہ نے مسلمانوں کو ذلت ورسوائی کے اس دلدل میں پھنسا دیا تھا ،سرسید نے کئی ایک طریقوں سے یہ ثابت کیا کہ ایسے فکروفلسفہ سے اسلام کا کوئی تعلق نہیں ہے۔خالق کائنات نے اپنی اس کائنات کا ایک محکم نظام بنادیا ہے ،اللہ کا یہ نظام تبدیل نہیں ہوا کرتا۔آگ اگر جلاتی ہے تو اس سے ہر چیز جلے گی ہی،اس سے برف جمانے کا کام نہیں لیا جاسکتا۔ ابراہیم خلیل اللہ کے لیے اگر نار نمرود گل زار بنی تھی تو بار بار اس قسم کے معجزات دنیا میں ظاہر نہیں ہوا کرتے اور نہ ان کی امید میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے کی اسلام تعلیم دیتا ہے۔
سرسید نے جدید علم کلام کی بنیاد رکھی اور مسلمانوں کو میدان عمل میں اتر کر پیش قدمی کرنے کی تلقین کی۔ان کے فکر وفلسفے کے جو مظاہر سامنے آئے ،ظاہر ہے کہ ان کی پورے طور پر تائید نہیں کی جاسکتی لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سرسید ملی غیرت وحمیت سے سرشار تھے اور مسلمانوں کو جدید دنیا میں اہم مقام دلانے کے لیے کوشاں تھے۔جو حضرات ساحل پر کھڑے تماش بیں بنے ہوئے تھے ،انھیں موجوں کے تھپیڑوں کی شدت کا اندازہ کیسے ہوسکتا تھا اور ان کو کیا معلوم کہ کس کس جتن سے ساحل بہ کنار ہوا جاسکتا ہے۔ان حالات کے پس منظر میں اگر سرسید اور ان کے رفقاء کی مساعی جمیلہ پر غور کیا جائے گا تو لازماً سرسید اور ان کے رفقاء سے ہم دردی پیدا ہوگی اور ہم ان کے مثبت کاموں کی اہمیت کا اندازہ کرسکیں گے۔سرسید کی کتاب ’’اسباب بغاوت ہند‘‘کے منظر اور پس منظر کا مطالعہ کیجیے اور اس پر انگریزی حکومت کا ردعمل سامنے رہے تو کہا جاسکتا ہے کہ سرسید نے یہ نازک کام اس دور میں کیا جب انگریزی حکومت کے خلاف ایک لفظ بولنا اپنی موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔
سرسید کا ایک عظیم کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے قرآن کی طرف لوٹنے اور قرآن کو غور وفکر کا محور ومرکز بنانے کی تلقین کی۔شاہ عبدالقادر اور شاہ رفیع الدین کے ترجمہ قرآن کو کافی عرصہ بیت چکا تھا۔عصری تناظر میں قرآن کو سمجھنے میں ان تراجم سے کوئی خاص مدد نہیں مل پارہی تھی اور اردو زبان میں بھی اب تک کافی کچھ نکھار آگیا تھا ،اس لیے ضرورت تھی کہ ملک کے عام مسلمانوں کی جو زبان ہے،اس میں قرآن کا ترجمہ کیا جائے اور اس کی تفسیر بیان کی جائے تاکہ کلام الٰہی کی تفہیم ہوسکے،مسلمان اللہ کی کتاب کی طرف لوٹیں اور ان کے لیے جو دستور حیات قرآن میں اتارا گیا ہے،اس پر عمل پیرا ہوں۔اس کے لیے خود سر سید احمد خاں نے پہل کی اور قرآن کا اردو ترجمہ کیا اور تفسیر لکھی ۔اسی مقصد کے لیے تحریک سرسید سے وابستہ اور ان کے مشن سے ذہنی وفکری ہم آہنگی رکھنے والے علامہ محمد احسان اللہ عباسی نے نہ صرف مکمل قرآن کا ترجمہ کیااور اس کے مختصر حواشی تحریر کیے بلکہ الاسلام اور تاریخ الاسلام کے نام سے دو ایسی اہم کتابیں بھی تصنیف کیں جن سے قرآن کے معنی ومفہوم کو سمجھنے میں کافی مدد ملتی ہے۔ذیل میں اسی ترجمہ قرآن اور اس کے مختصر حواشی کا تفصیلی مطالعہ پیش کیا جارہا ہے۔
علامہ ابوالفضل محمد احسان اللہ عباسی نے ترجمہ سے پہلے ۳۲؍صفحات پر مشتمل دیباچہ لکھا ہے۔قرآن کے اس اردو ترجمہ کا پس منظرسمجھنے کے لیے دیباچہ کا مطالعہ ضروری ہے۔ اسی دیباچہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان کا مکمل ترجمۂ قرآن اگرچہ ڈپٹی نذیر احمد کے ترجمہ کے بعد اشاعت پذیر ہوا لیکن اس کا آغاز انھوں نے ڈپٹی صاحب سے پہلے کردیا تھا بلکہ اس وقت تک ڈپٹی صاحب قرآن کا ترجمہ کسی دوسری زبان میں کرنے کے قائل ہی نہیں تھے۔ان کا خیال تھا کہ عربی زبان میں جو حسن ہے،اس کی فصاحت اور بلاغت کا جو بلند معیار ہے اور معانی کا ایک سمندر جو اس میں موجزن ہے،دنیا کی کوئی زبان اسے پورے طور پر بیان کرنے سے قاصر ہے۔ڈپٹی صاحب کی اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن قرآن مجید تمام انسانوں کے لیے نازل کیا گیا خواہ وہ کہیں بھی رہتے ہوں اور ان کی زبان کوئی بھی ہو ۔کسی بھی بات کو ہر شخص جس قدر آسانی سے اپنی زبان میں سمجھ لیتا ہے،دوسری زبان میں نہیں سمجھ سکتا لیکن قرآن کے پیغام کو دنیا کے تمام انسانوں تک پہنچانے کے لیے ضروری ہے کہ قرآن مجید کا ترجمہ ان کی اپنی زبان میں پیش کیا جائے۔
مترجم کا دیباچہ ۳۵؍ ذیلی عنوانات پر مشتمل ہے۔یہاں گنجائش نہیں کہ ہر ایک عنوان پر گفتگو کی جائے لیکن قارئین ذی احترام کو اس دیباچے کی علمی اہمیت سے واقف نہ کرانا زیادتی ہوگی۔اسی لیے اس کے بعض اہم عنوانات ہم یہاں درج کررہے ہیں اور اس سلسلے میں بعض باتوں کی تفصیل بھی ان شاء اللہ پیش کی جائے گی۔
ترجمہ کرنے کا خیال کب اور کیوں پیدا ہوا،ترجمہ قرآن کی صورت زمانۂ وسطی اور زمانۂ اخیر میں،زمانۂ حال میں ترجمہ کی ضرورت،ترجمہ کے متعلق مترجم کے خیالات مختلف،مولانا نذیر احمد دہلوی کا ترجمہ،ترجمۂ موجودہ کی اشاعت کے اسباب، الفاظ زائد کا استعمال،مختلف ترجمے،مذہبی کتابوں کی ضرورت،اصول مذہب مختلف،مذہب اسلام، پیغمبروں کے نام،کتب الہامی،ملائکہ،مصطلحات دین اسلام،حضرت جبرائیل اور نزول قرآن،رسالت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم،حضرت موسیؑ اور آنحضرت محمد ﷺ کے حالات،قرآن مجید کا نزول،قرآن کی سورتیں اور آیتیں،تدوین قرآن،قرآن بشکل موجودہ،قرآن کے تیس پارے،متضاد احکام قرآن میں نہیں ہیں،مضامین قرآن کا اجمالی ذکر،مکرر باتیں قرآن میں،قرآن کے مضامین کا سمجھنا،قرآن مجید کے ساتھ تاریخ الاسلام بھی دیکھنا چاہیے،برکات اسلام،چند احکام قرآن جن پر صرف یورپ کے مہذب لوگوں کا عمل درآمد ہے،برکات اسلام کے لیے الاسلام بھی دیکھنا چاہیے،معجزات،مولف کی معذرت،آیات قرآنی سمجھنے میں علماء کا اختلاف،مسلمانوں سے درخواست۔
مغرب کی ترقی،اس کی علمی،معاشی اور سیاسی برتری دنیا کو آج بھی حیرت زدہ کیے ہوئے ہے۔مسلم امہ کا سیاسی زوال اور پھر اس کے نتیجے میں زندگی کے مختلف شعبوں میں اس کی پسپائی اور بدحالی علمائے اسلام اور دانشوران ملت اسلامیہ میں بحث کا موضوع رہی ہے۔سرسید احمد خاں اور ان کے رفقاء کا تجزیہ یہ رہا ہے کہ دنیا میں عروج واقبال سے ہم کنار ہونے کے لیے جن اصولوں کی پاسداری ضروری ہے،جب مسلمانوں نے ان اصولوں کو ترک کردیا تو وہ زوال وشکست سے دوچار ہوگئے جب کہ اہل مغرب نے ان اصولوں کو سمجھا،اپنی عملی زندگی میں ان کو برتا اور ان کی بنیاد پر ایک نئے ذہن اور ایک نئے سماج کی تشکیل کی تو وہ عروج وفتح مندی کے مستحق قرار پائے۔جس دور میں اس طرح کے خیالات ظاہر کیے جارہے تھے،وہ انگریزی حکومت اور اس کی سیاسی بالا دستی کا دور تھا اور ’’الناس علی دین ملوکھم‘‘کے بموجب مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ جس میں جدید تعلیم یافتہ حضرات کی اکثریت تھی ،علی رؤوس الاشہاد یہ کہتا تھا کہ اسلام وہ نہیں ہے جس کی پیروی مسلمان کررہے ہیں بلکہ اسلام وہ ہے جس کے بتائے ہوئے راستے پر اہل مغرب چل رہے ہیں۔’’دو قرآن‘‘ اور ’’دو اسلام ‘‘کے نام سے کتابیں بھی لکھی گئیں۔یہ ذہنی مرعوبیت عام تھی اور آج بھی اس کے اثرات دکھائی دیتے ہیں۔علامہ احسان اللہ عباسی نے اپنے اس دیباچہ میں جیسا کہ آپ نے دیکھا،ایک ذیلی عنوان یہ قائم کیا ہے:’’چند احکام قرآن جن پر صرف یورپ کے مہذب لوگوں کا عمل درآمد ہے‘‘۔
اس عنوان کے تحت انھوں نے قرآن کے جن احکام کا تذکرہ کیا ہے اور اس پر جو تفصیلی گفتگو کی ہے،اس کو یہاں نقل کرنے کی گنجائش نہیں البتہ اپنے الفاظ میں اس کا خلاصہ درج کرنے کی کوشش کررہا ہوں،یہ مسلمانوں کے لیے بڑی عبرت کی چیز ہے اور اس پہلو سے اگر وہ اپنا محاسبہ کرنے بیٹھ جائیں تو بہت کچھ تبدیلیاں آسکتی ہیں:
(۱)قرآن نے سیر وسیاحت کا حکم دیا تھا،یورپ والوں نے اس پر عمل کیا جب کہ ایشیاء کے لوگ اس پر عمل نہیں کرتے۔
(۲)قرآن میں عورتوں کے حقوق وراثت مقرر ہیں،انگریز اس پر عمل کرتے ہیں جب کہ بطور خاص ہندوستانی مسلمانوں کا اس پر عمل نہیں ہے۔
(۳)ہندوستان کے شرفاء عقد بیوگان کو خلاف شرافت سمجھتے ہیں جب کہ انگریزوں کے ذہن میں بھی نہیں آتا کہ ایسا کرنا معیوب ہے۔
(۴)عدم ایفائے عہد انگریزوں میں سخت معیوب ہے جب کہ وعدہ خلافی کرکے ایک مسلمان کو ذرا بھی ندامت نہیں ہوتی۔
(۵)قرآن کی تعلیم یہ ہے کہ اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہو،انگریز کسی چیز کی ناکامی پر مایوس نہیں ہوتے جب کہ مسلمان ذرا سی ٹھوکر پر ہمت ہار جاتے ہیں اور مایوس ہوکر بیٹھ جاتے ہیں۔
(۶)قرآن ہر جماعت پر فرض قراردیتا ہے کہ وہ اپنا مذہبی پیشوا مقرر کرے، انگریزوں نے اس پر عمل جاری رکھا ہے جب کہ مسلمانوں کے یہاں اس کا کوئی نظم نہیں۔
(۷)قرآن میں جابجا کشتیوں کا ذکر ہے۔ایک زمانے میں ترکوں کی کشتیاں تجارتی میدان میں بہت آگے تھیں،لیکن اب یورپ کا پلہ اس میدان میں بھاری ہے۔
(۸)قرآن باہم مشورہ کرنے کی تاکید کرتا ہے۔دور عروج میں مسلمانوں کا نظام شورائی تھا لیکن اب ان کے یہاں یہ نظام ختم ہوچکا ہے جب کہ یورپ نے اسی شورائی نظام کو آگے بڑھاکر جمہوری نظام حکومت کی بنا ڈالی ہے اور کامیاب ہیں۔
(۹)قرآن نے حکم دیا ہے کہ کسی کے گھر جاؤ تو اجازت طلب کرو یہاں تک کہ بعض مخصوص اوقات میں نابالغ اولاد بھی اپنے والدین کے کمروں میں بغیر اجازت نہ جائے۔آج انگریزوں کا اس پر عمل ہے لیکن مسلم معاشرے کو اس کا علم ہی نہیں ہے۔
(۱۰)قرآن نے سب سے پہلے غلامی کی رسم مٹائی لیکن بعد میں مسلمانوں نے اپنے یہاں اس رسم کو دوبارہ رواج دے دیا۔یورپ نے پورے طور پر غلامی کا استیصال کیا ۔ آج مسلمانوں میں جو غلامی کا سلسلہ نہیں ہے وہ اسلام کی تعلیم کے زیر اثر نہیں بلکہ اہل یورپ کے خوف کی وجہ سے ہے۔
(۱۱)قرآن میں بلند آواز سے گفتگو کرنے کی ممانعت ہے،آج آپ انگریزوں کے جلسے میں جائیں اور مسلمانوں کے جلسوں میں بھی،پتا چل جائے گا کہ کون اس حکم پر عمل پیرا ہے۔
(۱۲)متبنٰی بنانے کی رسم جاہلیت میں تھی،اسلام نے اس کو مٹادیا تھا ۔انگریزوں میں اس قسم کی کوئی رسم نہیں جب کہ اولاد ذکور سے محروم بہت سے مسلمان کسی بچے کو لے پالک بناکر ساری جائیداد اس کے نام کردیتے ہیں۔
(۱۳)قرآن علوم سیکھنے کی طرف خاص طور پر متوجہ کرتا ہے لیکن ترکی جیسے ملک میں مذہب اور حرب کے سوا کوئی علم نہیں،جب کہ یورپ علم تشریحات انسانی،علم نباتات، علم معدنیات،علم طبقات الارض،علم برق،علم خواص اشیاء،علم کیمیا،علم طبعیات وغیرہ میں دنیا کا امام بنا ہوا ہے۔
(۱۴)قرآن گفتگو میں جس تہذیب کی دعوت دیتا ہے وہ یہ ہے کہ جب مستقبل میں کسی کام کے کرنے کا عزم ظاہر کیا جائے تو ان شاء اللہ کہا جائے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ میں یہ کام کرنے کی کوشش کروں گا۔یہ روایت انگریزوں کے یہاں ہے لیکن مسلمانوں کے یہاں اس کا کوئی وجود نہیں۔
آخر میں علامہ عباسی کی یہ عبارت بھی خاص اہمیت رکھتی ہے،ملاحظہ فرمائیں:
’’یہ چند باتیں بطور نمونہ کے یہاں لکھی گئیں،قرآن پڑھنے والے قرآن کوپڑھتے وقت خیال رکھیں گے تو انھیں خود بخود معلوم ہوتا رہے گا کہ ہم مسلمانوں کا عمل قرآن پر بہت کم ہے اور یہی ہمارے ادبار کا باعث ہے۔بہر حال غور کرنے کے بعد نہایت استواری سے میں اس رائے پر قائم ہوا کہ اسلامی اصول کی پیروی جو اس زمانہ کے مسلمانوں نے ترک کردی ہے اور غیروں نے اسے اختیار کرلیا ہے،یہی باعث ہے ایک کے تنزل اور دوسرے کی ترقی کا‘‘۔(دیباچہ ترجمہ قرآن مجید،ص:۲۸-۲۹)
مترجم موصوف نے دیباچہ کے بعدمضامین قرآن کی ایک جامع فہرست دی ہے۔ یہ بالکل ایک نئے انداز کی فہرست ہے۔اس وقت تک قرآن کے اردو تراجم میں اس طرح مضامین قرآنی کی فہرست پیش کرنے کا چلن عام نہیں ہوا تھا۔بعد کے بعض مترجمین قرآن نے مضامین قرآن کی فہرست ضرور پیش کی ہے لیکن علامہ عباسی کا انداز منفرد اور جداگانہ ہے۔ان کا طریقہ یہ ہے کہ قرآن کی تمام سورتوں میں جن موضوعات پر گفتگو کی گئی ہے ،ان کو مترجم موصوف نے رکوع بہ رکوع بیان کیا ہے۔اگر کسی رکوع میں کوئی ایک ہی مضمون بیان ہوا ہے تو صرف اسی کو فہرست میں درج کیا ہے اور اگر ایک رکوع میں ایک سے زیادہ مضامین ہیں تو ان کو کئی ایک عنوانات کے ساتھ پیش کیا ہے۔مضامین کی اس فہرست سے یہ دعوی تو نہیں کیا جاسکتا کہ ہر رکوع میں بیان کیے جانے والے تمام مضامین گرفت میں آگئے ہیں،لیکن ہر رکوع کے بڑے اور اہم مضامین اس فہرست میں شامل ضرورہیں۔اس فہرست کو دیکھ کر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مترجم موصوف کا مطالعۂ قرآن کافی وسیع اور گہرا تھا۔اس فہرست سے قارئین ذی احترام ایک نظر میں قرآن کریم کے اہم اور خاص موضوعات سے واقف ہوسکتے ہیں۔قرآن کے ان مضامین کو موضوعات کے لحاظ سے مرتب کردیا جائے تو اس کی افادیت مزید بڑھ جائے گی اور ہمارے لیے ایک موضوع سے متعلق تمام آیات پر غور وفکر کرنا آسان ہوجائے گا۔
علامہ عباسی نے اپنا ترجمہ قرآن،متن قرآن کے بغیر شائع کیا تھا۔شاید ان کے ذہن میں یہ خیال آیا ہو کہ مصحف کا تقدس اور اس کی عظمت ،قرآن مجید کی تلاوت اور اس پر غور وفکر کے لیے خاص اہتمام کا تقاضا کرتی ہے اور یہی سوچ کر ایک مسلمان اس کے لیے اپنا وقت فارغ نہیں کرپاتا۔اگر متن قرآن کے بغیر یہ ترجمہ قرآن ہاتھوں میں جائے گا تو لوگ زیادہ سے زیادہ اس سے استفادہ کریں گے اور جب چاہیں گے، اسے کھول کر اپنے رب کے احکام اور اس کی تعلیمات کو سمجھنے کی کوشش کریں گے لیکن ان کا یہی پاکیزہ جذبہ اور بلند خیال اس صاف ستھرے اور سلیس ترجمہ کی عدم مقبولیت کا سبب بن گیا اور آج بہت کم لوگ اس سے واقف ہیں۔مسلمانوں کی اکثریت آج بھی مصحف کو گھر میں سب سے اونچی جگہ پر رکھتی ہے اور جو کتاب اس کے لیے دستور حیات کی حیثیت رکھتی ہے، اس کی محض تلاوت کرلینے کو کافی سمجھتی ہے جب کہ اسے تو ہمیشہ اس کے سرہانے ہونا چاہیے اور کسی مسلمان کے مطالعہ کی میز اس سے خالی نہیں رہنی چاہیے ۔قرآن سیکھنے اور اس سے معلومات اخذ کرنے کی جو ضرورت واہمیت ہے ،اس کا تقاضا ہے کہ وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے اور ایسا اسی وقت ہوسکتا ہے جب قرآن ہماری اپنی زبان میں عربی متن کے بغیر ہو لیکن اس کو کیا کیجیے گا،اب تو مفتیان کرام کا فتوی ہی یہ سامنے آگیا ہے کہ متن قرآن کے بغیر قرآن کا صرف ترجمہ شائع کرنا خواہ کسی زبان میں ہو،ناجائز ہے۔اس اجتہاد اور فتوے پر زبان تو خاموش ہوجائے گی لیکن شرح صدر نہیں ہوتا کہ آخر کسی واضح دلیل کی بنیاد پر بغیر متن کے محض ترجمہ قرآن شائع کرنا ناجائز ہے۔
علامہ عباسی کے ترجمہ کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ وہ انتہائی سلیس،رواں،بامحاورہ اور آسان ہے، متن قرآن سے قریب ہے اور قرآنی الفاظ کی بڑی حد تک رعایت کی گئی ہے۔ایسا نہیں ہوا ہے کہ انھوں نے بامحاورہ اور سلیس ترجمہ کرتے ہوئے قرآن مجید کے اسلوب اوراس کی آیات کی ترتیب کو متاثر کیا ہو۔ذیل میں ہم سورہ ’’مسد‘‘کے ترجمے کا ایک مفصل تقابلی مطالعہ پیش کرتے ہیں ،اس سے علامہ عباسی کے ترجمہ کا حسن اور اس کی خوبی سامنے آجائے گی:
سورہ’’مسد‘‘ کے ترجمے کا موازنہ
(۱)شاہ عبدالقادرمحدث دہلوی(۱۸۱۴ء)
ٹوٹ گئے ہاتھ ابی لہب کے، اور ٹوٹ گیا وہ آپ۔ کام نہ آیا اس کو مال اس کا، اور نہ جو کمایا۔اب پہنچے گا ڈیگ (لپٹیں)مارتی آگ میں۔اور اس کی جورو ۔ سر پر لیے پھرتی ایندھن۔اس کی گردن میں رسی ہے مونج کی۔
(۲)شاہ رفیع الدین محدث دہلوی(۱۸۱۸ء)
ہلاک ہوجیو ہاتھ ابولہب کے اور ہلاک ہو وہ،نہ کفایت کیا اس کو مال اس کے نے اور جو کچھ کمایا تھا۔شتاب داخل ہوگا آگ شعلہ والی میں،اور جورو اس کی اٹھانے والی لکڑیوں کی ،بیچ گردن اس کی کے رسی ہے پوست کھجور کی سے۔
(۳)فتح محمد خاں جالندھری(۱۹۰۰ء)
ابولہب کے ہاتھ ٹوٹیں اور وہ ہلاک ہو،نہ تو اس کا مال ہی اس کے کچھ کام آیا اور نہ وہ جو اس نے کمایا۔وہ جلد بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہو گا اور اس کی جورو بھی جو ایندھن سر پر اٹھائے پھرتی ہے ،اس کے گلے میں مونج کی رسّی ہو گی۔
(۴)ڈپٹی نذیر احمد(۱۹۱۲ء)
(جیسے ابولہب نے پیغمبر کو کوسا تھا الٹے)ابولہب ہی کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ(آپ ہی ) ہلاک ہوا۔نہ تو اس کا مال(ہی)اس کے کچھ کام آیااور نہ اس کی کمائی نے اس کو کچھ فائدہ پہنچایا۔وہ عنقریب دوزخ کی ڈیگ مارتی ہوئی آگ میں جا داخل ہوگا اور (اس کے ساتھ)اس کی جورو(بھی)،جو لگائی بجھائی کرتی پھرتی ہے کہ اس کی گردن میں بھانجوا رسی ہوگی۔
(۵)مولانا عبدالحق حقانی(۱۹۱۷ء)
ٹوٹ جائیں ابی لہب کے دونوں ہاتھ اور وہ ٹوٹ بھی گیا۔نہ تو اس کا مال اس کے کام آیا اور نہ اولاد،اور وہ اب دہکتی آگ میں گرتا ہے اور اس کی جورو بھی۔جو لکڑیوں کا پشتارہ اٹھائے گلے میں مونج کی رسی ڈالے پھرتی ہے۔
(۶)مولانا محمود حسن دیوبندی(۱۹۲۰ء)
ٹوٹ گئے ہاتھ ابی لہب کے اور ٹوٹ گیا وہ آپ،کام نہ آیا اس کو مال اس کا اور نہ جو اس نے کمایا،اب پڑے گا ڈیگ مارتی آگ میں اور اس کی جورو جو سر پر لیے پھرتی ہے ایندھن،اس کی گردن میں رسی ہے مونجھ کی۔
(۷)مولانا وحید الزماں حیدرآبادی(۱۹۲۰ء)
ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ(خود بھی )ہلاک ہوا۔اس کا مال اور اس کی کمائی کچھ اس کے کام نہ آئی۔وہ عنقریب شعلہ مارتی ہوئی آگ میں داخل ہوگااور اس کی جورو(ام جمیل ابوسفیان کی بہن)بھی جو لکڑیاں اٹھائے پھرتی ہے۔اس کی گردن میں چھال کی رسی ہے۔
(۸)مولانا احمد رضا خان(۱۹۲۱ء)
تباہ ہوجائیں ابولہب کے دونوں ہاتھ اور وہ تباہ ہوہی گیا،اسے کچھ کام نہ آیا اس کا مال اور نہ جو کمایا۔اب دھنستا ہے لپٹ مارتی آگ میں وہ،اور اس کی جُورو لکڑیوں کا گٹھا سر پر اٹھاتی،اس کے گلے میں کھجور کی چھال کا رسّا۔
(۹)مولانا عاشق الٰہی میرٹھی(۱۹۴۱ء)
ابولہب کے ہاتھ ٹوٹیں اور وہ ہلاک ہوجائے،نہ اس کے مال نے اسے فائدہ دیا اور نہ اس کی کمائی نے۔یہ عنقریب شعلہ مارتی ہوئی بڑی آگ میں داخل ہوگااور اس کی بیوی بھی، بری عورت جو لکڑیاں لادنے والی ہے، اس کے گلے میں رسی ہے کھجور کی چھال کی۔
(۱۰)مولانا محمد جونا گڑھی(۱۹۴۱ء)
ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ (خود)ہلاک ہو گیا،نہ تو اس کا مال اس کے کام آیا اور نہ اس کی کمائی۔وہ عنقریب بھڑکنے والی آگ میں جائے گا۔اور اس کی بیوی بھی (جائے گی)جو لکڑیاں ڈھونے والی ہے،اس کی گردن میں پوست کھجور کی بٹی ہوئی رسی ہو گی۔
(۱۱)مولانا اشرف علی تھانوی(۱۹۴۳ء)
ابو لہب کے ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ برباد ہوجائے۔نہ اس کا مال اس کے کام آیا اور نہ اس کی کمائی (مال سے مراد سرمایہ اور ماکسب سے مراد اس کا نفع)۔اور آخرت میں عنقریب (مرنے کے متصل)ایک شعلہ زن آگ میں داخل ہوگا۔وہ بھی اور اس کی بیوی بھی جو لکڑیاں لاد کر لاتی ہے (مراد خار دار لکڑیاں ہیں)۔اور دوزخ میں پہنچ کر اس کے گلے میں ایک رسی ہوگی خوب بٹی ہوئی۔
(۱۲)مولانا سید ابوالاعلی مودودی(۱۹۷۹ء)
ٹوٹ گئے ابولہب کے ہاتھ اور نامراد ہو گیا وہ،اُس کا مال اور جو کچھ اس نے کمایا وہ اُس کے کسی کام نہ آیا۔ضرور وہ شعلہ زن آگ میں ڈالا جائے گااور (اُس کے ساتھ) اُس کی جورو بھی، لگائی بجھائی کرنے والی،اُس کی گردن میں مونجھ کی رسی ہوگی۔
(۱۳)مولانا امین احسن اصلاحی(۱۹۹۷ء)
ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ خود بھی ڈھے گا۔نہ اس کا مال اس کے کام آیا اور نہ اس کی کمائی۔وہ بھڑکتی آگ میں پڑے گا۔اس کی بیوی بھی ایندھن ڈھوتی ہوئی،اس کی گردن میں بٹی ہوئی رسی ہوگی۔
(۱۴)علامہ احسان اللہ عباسی(۱۹۲۸ء)
ہلاک ہوجائیں دونوں ہاتھ ابولہب کے اور وہ خود بھی ہلاک ہو۔ اس کا مال اور اس کی کمائی اس کے کام نہ آئی۔عن قریب وہ اور اس کی چغلی کھانے والی بی بی جس کے گلے میں کھجورکی رسی ہے،یہ دونوں دہکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے۔
علامہ عباسی کے ترجمے میں جو روانی اور سادگی ہے ،اسے دیکھا جاسکتا ہے اور جب یہ بات پیش نظر رہے کہ یہ اس دور کا ترجمہ ہے جب ابھی سلیس،رواں اور بامحاورہ ترجمہ کرنے کا چلن عام نہیں ہوا تھاتو اس ترجمہ کی افادیت اور معنویت میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔
قرآن مجید کے بعض اردو مترجمین کا اصرار ہے اور وہ اسے بسااوقات ضروری قرار دیتے ہیں کہ قرآن مجید کی کسی آیت میں آئے ہوئے تمام حروف،الفاظ اور ادوات تاکید کا اردو میں ترجمہ ہونا چاہیے ۔اگر کوئی ایسا نہیں کرتا تو وہ کتاب الٰہی کی صحیح ترجمانی نہیں کرتا۔ ڈپٹی نذیر احمد دہلوی کے ترجمہ پر بعض ثقہ علماء نے جو تنقید کی ہے ،اس کا تنقیدی جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ انھوں نے ڈپٹی صاحب کے ساتھ انصاف کیا ہے یا اردو کے مروج اسلوب میں ترجمہ کرنے کی وجہ سے ان پر تنقید کی گئی ہے۔ماہرین لسانیات یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہر زبان کا اپنا اسلوب ہوتا ہے ،اس کی خاص تعبیرات ہوتی ہیں اور اس کے اپنے محاورے ہوتے ہیں۔جب بھی کسی زبان کو دوسری زبان میں منتقل کیا جائے گا تو کوشش یہی کی جائے گی کہ جس زبان سے ترجمہ کیا جارہا ہے،اس کی روح متاثر نہ ہونے پائے اور جس زبان میں ترجمہ کیا جارہا ہے ،اس کے اسلوب اور نداز بیان کی رعایت کی جائے۔ورنہ زبان وادب کا صحیح ذوق رکھنے والا شخص عجیب الجھن محسوس کرے گا اور ترجمہ سے اسے وہ فائدہ حاصل نہیں ہوگا جو مترجم اپنے قارئین کو پہنچانا چاہتا ہے۔ ذیل میں اس کی ایک مثال درج کی جارہی ہے،اس پر غور کریں تو بات سمجھنے میں آسانی ہوگی۔سورۃ المائدۃ میں اللہ کا ارشاد ہے:
حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِیرِ وَمَا أُہِلَّ لِغَیْرِ اللَّہِ بِہِ وَالْمُنْخَنِقَۃُ وَالْمَوْقُوذَۃُ وَالْمُتَرَدِّیَۃُ وَالنَّطِیحَۃُ وَمَا أَکَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَکَّیْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ وَأَن تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَامِ ذَٰلِکُمْ فِسْقٌ الْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِینَ کَفَرُوا مِن دِینِکُمْ فَلَا تَخْشَوْہُمْ وَاخْشَوْنِ الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمُ الْإِسْلَامَ دِینًا فَمَنِ اضْطُرَّ فِی مَخْمَصَۃٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّإِثْمٍ فَإِنَّ اللَّہَ غَفُورٌ رَّحِیمٌ
(المائدۃ:۳)
شاہ عبدالقادر محدث دہلوی رحمہ اللہ نے اس آیت کا یہ ترجمہ کیا ہے:
حرام ہوا تم پر مُردہ ، اور لہو، اور گوشت سؤر(خنزیر)کا، اور جس چیز پر نام پکارا اﷲ کے سوا (غیر اﷲ)کا،اور جو مر گیا (گلا)گھُٹ کر، یا چوٹ سے یا گر کر یا سینگ مارے (لگنے) سے،اور جس کو کھایا پھاڑنے والے (درندے)نے، مگر جو ذبح کر لیا۔اور (حرام ہے)جو ذبح ہوا کسی تھان (آستانے)پر، اور یہ کہ بانٹا (قسمت معلوم)کرو پانسے ڈال کر۔ یہ گناہ کا کام ہے۔آج نا امید ہوئے کافر تمہارے دین سے، سو اُن سے مت ڈرو، اور مجھ سے ڈرو،آج میں پورا دے چکا تم کو دین تمہارا اور پورا کیا تم پر میں نے احسان اپنا اور پسند کیا میں نے تمہارے واسطے دین مسلمانی (اسلام)۔پھر جو کوئی ناچار (مجبور) ہو گیا بھوک میں، کچھ گناہ پر نہیں ڈھلتا، تو اﷲ بخشنے والا ہے مہربان‘‘۔
مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے اس آیت کا ترجمہ اس طرح فرمایا ہے:
’’تم پر حرام کیے گئے ہیں مرداراور خون اور خنزیر کا گوشت اور جو جانور کہ غیر اللہ کے نام زد کردیا گیا ہو اور جو گلا گھٹنے سے مرجاوے اور جو کسی ضرب سے مرجاوے اور جو اونچے سے گر کر مرجاوے اور جو کسی ٹکر سے مرجاوے اور جس کو کوئی درندہ کھانے لگے لیکن جس کو ذبح کر ڈالواور جو جانور پرستش گاہوں پر ذبح کیا جاوے اور یہ کہ تقسیم کرو بذریعہ قرعہ کے تیروں کے یہ سب گناہ ہیں آج کے دن ناامید ہوگئے کافر لوگ تمہارے دین سے سو ان سے مت ڈرنا اور مجھ سے ڈرتے رہنا ۔آج کے دن تمہارے لیے تمہارے دین کو میں نے کامل کردیااور میں نے تم پر اپنا انعام تام کردیا اور میں نے اسلام کو تمہارا دین بننے کے لیے پسند کرلیا۔پس جو لوگ شدت کی بھوک میں بیتاب ہوجاوے بشرطیکہ کسی گناہ کی طرف اس کا میلان نہ ہو تو یقینا اللہ تعالیٰ معاف کرنے والے ہیں رحمت والے ہیں‘‘۔
مولانا سید ابوالاعلی مودودی رحمہ اللہ نے آیت مذکورہ بالا کا ترجمہ یہ کیا ہے:
’’تم پر حرام کیا گیا مُردار، خون، سُور کا گوشت، وہ جانور جو خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، وہ جو گھلا گھٹ کر، یا چوٹ کھا کر، یا بلندی سے گر کر، یا ٹکر کھا کر مرا ہو، یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو سوائے اس کے جسے تم نے زندہ پاکر ذبح کر لیا اور وہ جو کسی آستا نے پر ذبح کیا گیا ہو نیز یہ بھی تمہارے لیے ناجائز ہے کہ پانسوں کے ذریعہ سے اپنی قسمت معلوم کرو یہ سب افعال فسق ہیں ۔آج کافروں کو تمہارے دین کی طرف سے پوری مایوسی ہو چکی ہے لہٰذا تم اُن سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو۔ آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے (لہٰذا حرام و حلال کی جو قیود تم پر عائد کر دی گئی ہیں اُن کی پابند ی کرو)البتہ جو شخص بھوک سے مجبور ہو کر اُن میں سے کوئی چیز کھا لے، بغیر اس کے کہ گناہ کی طرف اس کا میلان ہو تو بیشک اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے‘‘۔
علامہ احسان اللہ عباسی رحمہ اللہ نے آیت زیر بحث کا ترجمہ اس طرح کیا ہے:
’’تم پر حرام ہے مردار، لہو،سورکا گوشت اور وہ جواللہ کے سوا کسی اورکانام زد کیا گیاہو اوروہ بھی حرام ہے جوگلاگھٹ کر،چوٹ کھاکر،گرکر یاسینگ کے مارنے سے یا درندوں کے پھاڑنے سے مرے اورتم اسے ذبح نہ کرسکواور جوبتوں پرچڑھاکرذبح کیا گیا ہو یاتیروں کے پانسے ڈال کرتم میں تقسیم کیاگیا،وہ بھی حرام ہے ،یہ سب گناہ ہیں۔آج کے دن تمہارے دین سے کافر ناامیدہوگئے تم ان سے نہ ڈرو ، مجھ سے ڈرو۔ آج کے دن میں تمہار ے لیے تمہارا دین کامل کرچکا، اپنااحسان تم پرپورا ہوچکا او ر دین اسلام میں نے تمہارے لیے پسند کیا۔ اگرکوئی بھوک میں ناچارہوجائے، گناہ کی طرف اس کامیلان نہ ہو،تواللہ بخشنے والامہربان ہے‘‘۔
آیت زیر مطالعہ کے یہ چاروں تراجم غور سے دیکھیں ،صاف نظر آئے گا کہ کس مترجم نے اردو اسلوب کی رعایت کی ہے اور کس نے آیت کے الفاظ اور حروف کی رعایت کرتے ہوئے ایک ایسا ترجمہ کیا ہے جو اردو زبان وادب اور اس کے اسلوب سے ہم آہنگ نہیں ہے۔عربی زبان میں کئی معطوف علیہ جب استعمال ہوتے ہیں تو ہر ایک لفظ کو واو عاطفہ سے جوڑا جاتا ہے اور ہر واو عاطفہ کا ترجمہ ’’اور‘‘سے کیا جاتا ہے لیکن اردو زبان کا اسلوب اس سے الگ ہے،اس میں صرف آخری لفظ سے پہلے ’’اور‘‘ لگاکر جملے کو رواں اور سلیس بنالیا جاتا ہے۔’’اور اور‘‘ کی تکرار اردو کے معروف اسلوب کے خلاف ہے۔علامہ احسان اللہ عباسی اور مولانا مودودی کے ترجمے کی سلاست دیکھیں اور شاہ عبدالقادر اور مولانا تھانوی کے ترجمے میں قاری کے لیے جو رکاوٹیں اور الجھنیں ہیں، دونوں کا تجزیہ کریں تو بات واضح ہوجائے گی۔کیا کوئی یہ دعوی کرسکتا ہے کہ منشائے الٰہی کی ترجمانی شاہ عبدالقادر اور مولانا تھانوی نے احسان اللہ عباسی اور مولانا مودودی سے بہتر کی ہے۔احترام اور عقیدت اپنی جگہ لیکن جب ہم اردو ترجمہ قرآن کی سلاست،روانی اور عمدہ اسلوب کی کررہے ہوں تو ہمیں حقیقت شناس ہونا چاہیے اور ایک لمحے کے لیے احترام وعقیدت کا چشمہ آنکھوں سے اتار دینا چاہیے۔
علامہ عباسی نے اپنے ترجمہ قرآن میں سلاست وروانی کو باقی رکھنے کے لیے الفاظ قرآنی سے ہٹ کر جو الفاظ اور جملے استعمال کیے ہیں ،جنھیں ہم تشریحی الفاظ کہہ سکتے ہیں ،ان کو ممتاز رکھنے کے لیے ان پرانھوں نے خط کھینچ دیا ہے۔یہ ان کی غایت درجہ احتیاط ہے ۔اس سے وہ اہل علم کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ خط کشیدہ الفاظ قرآن کے کسی لفظ کا ترجمہ نہیں بلکہ ہمارا اضافہ ہیں اور جو آیت میں موجود الفاظ ہی سے مفہوم ہوتے ہیں۔ قرآن کے اردو تراجم میں جب سے سلاست اور روانی کی روایت عام ہوئی ہے ،اب تشریحی الفاظ پر خط کھینچنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ۔ویسے بھی علامہ عباسی کے تشریحی الفاظ بہت زیادہ نہیں ہیں ،اگر جدید ایڈیشن میں اس کی رعایت نہ بھی کی جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔
علامہ عباسی نے اپنے ترجمۂ قرآن پر جگہ جگہ حواشی بھی تحریر کیے ہیں۔یہ حواشی کہیں ذرا طویل ہیں،کہیں ایک دوسطر کے ہیں اور کہیں نصف سطر کے اور کہیں محض چند الفاظ پر مشتمل ہیں۔ قرآن کے بعض مجمل اشارے بغیر تشریح وتفسیر کے سمجھے نہیں جاسکتے ہیں،اسی طرح کہیں کسی ترجمے سے کوئی غلط مفہوم اخذ کرنے کا بھی احتمال ہوتا ہے،اس لیے ضروری ہوتا ہے کہ قاری کی صحیح رہنمائی کردی جائے۔اپنے دیباچہ میں علامہ عباسی نے ان مختصر حواشی کی ایک افادیت اور بیان فرمائی ہے ،ملاحظہ فرمائیں:
’’میں نے اس ترجمہ میں یہ بھی خیال رکھا ہے کہ جوآیت یاجزوِ آیت مختلف طور پرترجمہ کی گئی،ا س کے مختلف ترجمے میں نے لکھ دیے ہیں۔ اس طرح کہ جس ترجمہ پر کثرتِ رائے ہے،وہ اصل کتاب میں ہے،دیگر اقوال کا اظہارحاشیہ میں ہے۔جہاں حاشیہ میں معنی کی توضیح کی گئی ہے،وہاں بھی حتی الوسع وہ تمام معانی لکھ دیے گئے ہیں،جو اسلام کے مختلف فرقوں میں مختلف فیہ ہیں اور ان اختلافات کی وجہ سے جن مسائل فقہ میں اختلاف پیدا ہوا ہے،ان کی توضیح بھی کردی گئی ہے تاکہ اس ترجمۂ قرآن سے ہندستان کے مختلف فرقوں کے اہلِ اسلام یکساں مستفید ہوں‘‘۔(دیباچہ ترجمہ قرآن مجید، ص:۳۲)
حواشی کا مطالعہ کرنے سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے بہت ہی اختصار کے ساتھ بعض آیات کے شان نزول بیان کیے ہیں اور اگر کسی آیت میں کسی خاص واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے تو اس واقعہ کا مختصر طور پر تذکرہ کیا ہے۔حواشی عالمانہ بھی ہیں اور محققانہ بھی،علمائے متقدمین کی عربی تفاسیر مترجم کے سامنے ہیں،ان سے استفادے کے بعد ہی یہ حواشی تحریر کیے گئے ہیں۔
سرسید احمد خان نے اپنی تفسیر اور بعض دوسرے مذہبی مضامین میں بعض غیبی امور پر گفتگوکی ہے اور اس ضمن میں انھوں نے فرشتوں،جن وشیاطین اور جنت وجہنم کے سلسلے میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے،وہ اہل سنت والجماعت کے متفقہ عقیدے کے خلاف ہے ۔ اسی طرح انبیائے کرام کے ہاتھوں جن معجزات کا اظہار ہوا،وہ ان کو معجزہ تسلیم نہیں کرتے بلکہ اس کی مادی توجیہ پیش کرتے ہیں ۔سرسید کے یہ خیالات ان کے اپنے دور میں خوب چرچا میں رہے اوران کے انھی خیالات کی وجہ سے ان کے خلاف فتوے بھی صادر کیے گئے ۔چوں کہ علامہ عباسی سرسید کے ہی ادارہ کے فیض یافتہ تھے ،اس لیے سرسید کے ان خیالات کا تھوڑا بہت اثر انھوں نے ضرور قبول کیا ہوگا۔
اس سے پہلے کہ اپنی بات کے ثبوت میں میں علامہ عباسی کے حواشی کے کچھ نمونے پیش کروں ،یہ عرض کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنے دیباچے میں ’’ملائکہ اور مصطلحات دین اسلام‘‘کے دو عنوانات کے تحت بعض غیبیات اسلام کا تذکرہ کیا ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ وہ ان غیبی امور پر عام اہل سنت کی طرح ایمان رکھتے ہیں لیکن سرسید احمد خاں کے سلسلے میں بعض علماء نے جو یہ رویہ اپنا یا کہ ان کے ان خیالات کی وجہ سے ان کو خارج ازاسلام قرار دینے لگے ہیں،ان سے اپنی عدم موافقت کا اظہار کیا ہے۔چنانچہ لکھتے ہیں:
’’ملائکہ،جن اور شیاطین کاذکرقرآن میں گو جابجاآیا ہے لیکن ان کی ماہیت بیان نہیں کی گئی ہے۔اس لیے اگر کوئی انھیں قوتوں سے تعبیر کرے اور پھر یہ کہے کہ یہ قوتیں خارجی وجود نہیں رکھتیں،یہ عرض نہیں محض جوہر ہیں تو ان بحثوں میں پڑنے والے میرے خیال میں دائرۂ اسلام سے توباہر نہیں جاتے لیکن یہ ضرو ر کہاجائے گا کہ ان کے ایمان میں ضعف ہے۔پکے مسلمان کا یہ کام ہے کہ قرآن میں اگر کچھ باتیں سمجھ سے باہر ہوں تو ان پر اس لیے ایمان لائے کہ وہ قرآن میں ہیں اور چاہے تو اپنے دل کویوں بھی سمجھالے کہ صرف قرآن ہی میں یہ باتیں نہیں ہیں بلکہ تمام مذہبی کتابوں میں ہیں۔ہر زمانے کے عقلا انھیں مانتے آئے ہیں،عقلِ انسانی ہر چیز پرحاوی نہیں ہوسکتی‘‘ ۔ (دیباچہ ترجمہ قرآن مجید،ص:۹)
اسی طرح وہ’’ مصطلحات دین اسلام ‘‘کے تحت عرش،اللہ کے اسماء وصفات،تقدیر، لوح محفوظ،کراماً کاتبین،نامۂ اعمال،میدان حشر،جنت اور جہنم کا تذکرہ کرتے ہیں ۔البتہ جنت وجہنم میں مہیا چیزوں کی جو تفصیل قرآن میں پیش کی گئی ہے ،اس کے لیے ’’بطور لسان تمثیلی‘‘کے الفاظ استعمال کرتے ہیں جن سے کہیں نہ کہیں سرسید احمد خاں کے خیالات کی تائید ہوتی ہے۔علامہ عباسی نے اسی ضمن میں ایک دل چسپ بات یہ بھی تحریر فرمائی ہے:
’’بہشت کے سامان آسایش کا بیان جابجا قرآن میں کیا گیا ہے لیکن اہل تسنن کے نزدیک تمام لطف سے بڑھ کر دیدار الٰہی کا درجہ رکھاگیا ہے،جس کا سمجھنا زیادہ تر علم باطنی سے تعلق رکھتا ہے اور اہل تشیع کا مذہب یہ ہے کہ قیامت میں بھی رویتِ باری تعالیٰ نا ممکن ہے‘‘۔(دیباچہ ترجمہ قرآن مجید،ص:۱۰)
علامہ عباسی نے قرآنی معجزات پر گفتگو کرتے ہوئے اپنے دیباچے میں لکھا ہے:
’’قرآن میں گو لفظ ’’معجزہ‘‘ کہیں نہیں آیا ہے لیکن اصطلاح شرع میں پیغمبر کے خوارق عادات افعال کو معجزہ کہتے ہیں۔قرآن میں لفظ ’’آیات‘‘ البتہ جابجا آیا ہے۔ آیات جمع ہے آیت کی۔آیت کے معنی ہیں نشانی اوراجزاے سورۂ قرآنی کوبھی آیت کہتے ہیں۔آیات کے معنی ہوئے احکام اورنشانیاں۔ان معانی میں بھی آیات کے لفظ کا ترجمہ مفسرین نے کیا ہے۔بینات کے معنی ہیں دلائل واضح ۔یہ لفظ بھی قرآن میں جابجا آیا ہے۔ بعض مقامات پر مفسرین نے اس لفظ سے معجزات مراد لیے ہیں۔خدا کی نشانیاں د و قسم کی قرآن میں بیان کی گئی ہیں۔ایک تو وہ جو عادات کے موافق ہیں،جیسے مینھ کابرسنا،بجلی کاکڑکنا، آسمان اور زمین میں رنگارنگ چیزوں کا ظاہرہونا وغیرہ وغیرہ۔دوسری وہ چیزیں ہیں جو معمولاً ظاہر نہیں ہوتیں۔ پچھلے معنوں میں جہاں لفظ ’’آیات‘‘ قرآن میں آیا ہے وہاں مفسرین نے ’’معجزات‘‘ اس کاترجمہ کیا ہے۔ یہی ترجمہ جابجا میں نے بھی اختیار کیا ہے۔اب اگر یہ سوال کیاجائے کہ اور پیغمبروں کے معجزات جس طرح قرآن میں مذکور ہیں،اسی طرح آں حضرت کے معجزات بھی قرآن میں ذکر کیے گئے ہیں یانہیں؟تو اس کاجواب مشکل ہے۔قرآن سے ظاہر ہوتا ہے کہ آں حضرت سے باربارمعجزوں کی فرمایش کی گئی۔ آں حضرت نے جواب دیا: معجزے دیکھ کر اگلی امتیں کب ایمان لائیں کہ تم معجزے کی فرمایش کرتے ہو۔میں قدرت الٰہی دکھاکر اللہ کی وحدانیت تمھیں سمجھاتاہوں،پچھلے واقعات یاددلاکرتمھیں عبرت دلاتا ہوں،آخرت کے عذاب سے تمھیں ڈراتا ہوں، ماننے نہ ماننے کاتمھیں اختیار ہے۔صرف ایک معجزہ شق القمر کاقرآن میں مذکور ہے۔لیکن یہ بھی مختلف فیہ ہے۔دیکھیے سورۂ قمر میں حاشیۂ زیریں۔لیکن اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ پیغمبروں کے معجزوں سے کوئی مسلمان انکار کرسکتا ہے۔اب رہی معجزوں کی حقیقت کہ خدا نے جو اسباب دنیا کے نظام کے لیے قائم کررکھے ہیں، ان سے الگ ہوکر وہ پیغمبروں کے لیے مافوق العادت باتیں دکھاتا تھا،یا یہ کہ سلسلۂ اسباب جس وقت روزِازل میں قائم ہوا، اسی وقت ٹھہرگیا تھا اورلوحِ محفوظ میں درج ہوگیا تھا کہ فلاں وقت فلاں بات فلاں پیغمبر کے ذریعہ اس طرح سرزد ہوگی کہ خرقِ عادت یا مافوق العادت متصور ہوگی؟ یہ ایسی بحث ہے کہ جس پر اللہ پرایمان لانے والے بحث کرنا بے ادبی تصورکرتے ہیں‘‘۔(دیباچہ ترجمہ قرآن مجید،ص:۲۹-۳۰ )
اس اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ معجزات کے سلسلے میں علامہ عباسی کانقطۂ نظر بہت زیادہ واضح نہیں ہے اور وہ دبی زبان میں ان کو سلسلۂ اسباب ہی سے جوڑ کر دیکھتے ہیں۔اہل سنت کا موقف ان کے سامنے ہے لیکن اس پر دوٹوک بحث کرنے کو وہ بے ادبی تصور کرتے ہیں۔
(۱)سورہ الفیل پر علامہ عباسی کا یہ حاشیہ ملاحظہ فرمائیں:
’’اصحاب فیل کا قصہ مشہور ہے۔ولادت آں حضرت سے کچھ پہلے نجاشی شاہ حبشہ کے عیسائی گورنر ابرہہ متعینہ یمن نے مکہ کے انہدام کے لیے چڑھائی کی۔اللہ کے گھر کو اللہ پرچھوڑ کر قریش پہاڑوں پرچلے گئے ۔ خدا کے حکم سے چڑیاں آئیں او ران کے کنکریاں پھینکنے سے وہ سب ہاتھی والے تباہ ہوگئے۔بعضوں کا خیال ہے کہ ابرہہ کالشکروبائے چیچک سے تباہ ہوا اور وہ محاورہ کے لحاظ سے بجائے ’’اس نے ان پر غول کے غول پرند بھیجے جنھوں نے ان پرپتھر کی کنکریاں پھینک مارا ، کے یہ عبار ت لکھتے ہیں’’اس نے ان پرمصائب کے غول بھیجے جس نے ان کو اس آفت میں مبتلا کیا جو ان کے لیے لکھی ہوئی تھی‘‘۔
عباسی مرحوم نے یہاں واضح طور پر واقعہ فیل کو ایک معجزہ قرار دینے کی بجائے چیچک کی وبا کا بھی تذکرہ کردیا جب کہ شروع میں وہ ابرہہ کے لشکر کی ہلاکت کی وجہ پرندوں کی ماری ہوئی کنکریوں کو قرار دیتے ہیں۔
(۲)سورہ بقرہ میں ہے:
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاہِیمُ رَبِّ أَرِنِی کَیْفَ تُحْیِی الْمَوْتَیٰ قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِن قَالَ بَلَیٰ وَلَٰکِن لِّیَطْمَئِنَّ قَلْبِی قَالَ فَخُذْ أَرْبَعَۃً مِّنَ الطَّیْرِ فَصُرْہُنَّ إِلَیْکَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلَیٰ کُلِّ جَبَلٍ مِّنْہُنَّ جُزْء ًا ثُمَّ ادْعُہُنَّ یَأْتِینَکَ سَعْیًا وَاعْلَمْ أَنَّ اللَّہَ عَزِیزٌ حَکِیمٌ
(آیت:۲۶۰)
علامہ عباسی نے اس آیت کا یہ ترجمہ کیا ہے:
اے محمدؐ! یاد کر جب ابراہیمؓ نے کہا: ’’میرے رب تو مجھے دکھادے کیوں کر تو مردوں کو جلاتاہے۔تو اللہ نے کہا :کیاتجھے یقین نہیں آتا؟ ابراہیمؓ نے کہا:کیوں نہیں! مگر اپنے دل کی تسکین کے لیے میں نے پوچھا ہے۔ اللہ نے کہا:چار پرند لے اور ان کو اپنے پاس منگا، پھر ایک ایک جزو ان کاہر پہاڑ پر رکھ اوربعد ازاں ان کو بلا۔ تیرے پاس وہ دوڑے چلے آئیں گے جان رکھ! اللہ زبردست حکمت والا ہے‘‘۔
احیائے موتی کے اس واضح معجزہ پر علامہ عباسی حاشیہ میں لکھتے ہیں:
’’ابراہیمؓ نے ایک مرتبہ مرکر جینے پر غور کیا۔اللہ نے وحی بھیجی اور اس کے مطابق وہ چندپرندوں کو مارکرپہاڑوں پر پھینک آئے اور پھر آواز دی، تووہ پرندے اڑتے ہوئے ان کے پاس چلے آئے…… اوربعض نے اس کے معنی یہ لکھے ہیں کہ حضرت ابراہیمؓ نے چار جانوروں کو خوب ما نوس کرکے چار جگہ رکھ دیا اوربلایا توچاروں دوڑے چلے آئے، اس سے وہ سمجھ گئے کہ اجزائے جسم کہیں ہوں گے،اللہ کے بلانے سے یک جا ہوجائیں گے‘‘۔
احیائے موتی کے سلسلے میں اس معجزہ کے سلسلے میں بھی انھوں نے دونوں باتیں تحریر فرمادیں۔
علامہ عباسی نے اپنے حواشی میں شیعی نقطۂ نظر کو بھی کہیں کہیں ذکر کیا ہے لیکن اس پر کوئی نقد وتبصرہ نہیں کیا۔
(۱)سورہ النمل میں اللہ کا ارشاد ہے:
وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَیْہِمْ أَخْرَجْنَا لَہُمْ دَابَّۃً مِّنَ الْأَرْضِ تُکَلِّمُہُمْ أَنَّ النَّاسَ کَانُوا بِآیَاتِنَا لَا یُوقِنُونَ
(آیت:۸۲)
علامہ عباسی نے اس آیت کا ترجمہ اس طرح کیا ہے:
’’جب وعدۂ قیامت ان پرپوراہونے کو ہوگا تو ہم زمین سے ایک جانورلوگوں کے لیے نکالیں گے جو ان سے کہہ دے گا کہ کون آدمی ہماری آیتوں پریقین کرنے والے نہیں ہیں‘‘۔
دابۃ الارض سے کیا مراد ہے،اس کی تشریح حاشیہ میں اس طرح کرتے ہیں:
’’اس کا مطلب یوں کہاگیا ہے کہ ایک بڑا جانور انسانی بولی بولنے والا قریب قیامت پید اہوکر تمام دنیا کاسفر کرے گا اورہر ایک انسان کی پیشانی پر نشان کردے گا جس سے معلوم ہوجائے گا کہ کون کافر اورکون غیرکافر ہے۔اصطلاح شرع میں دابۃ الارض اس کا نام ہے۔اہل تشیع کے نزدیک دابۃ الارض سے مراد حضرت علی ہیں اورپھر اس تقدیر پربجائے ’’جانور‘‘ کے ’’چلنے والا ‘‘ ترجمہ ہوگا‘‘۔
(۲)سورہ صٰفّٰت ،آیات:(۱۰۰-۱۰۸)کا عباسی ترجمہ یہ ہے:
’’ابراہیم نے کہا :اے میرے رب مجھے اولاد صالح دے۔ ہم نے اسے ایک بردبار لڑکا (اسمٰعیل) کے پیدا ہونے کی بشارت دی۔جب وہ لڑکا اس کے ساتھ چلنے پھرنے لگا تو اس نے کہا: اے میرے بیٹے میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں تجھ کو ذبح کرتا ہوں۔ دیکھ تیری کیا رائے ہے؟ اس نے کہا: ابا جان جو حکم آپ کوملا ہے، اس کی تعمیل کیجیے،ان شاء اللہ آپ مجھے صابر پائیں گے۔جب دونوں تعمیل حکم پر آمادہ ہوئے اور ابراہیم نے ذبح کرنے کی غرض سے اس لڑکے کوپیشانی کے بل لٹایا تو ہم نے آواز دی اے ابراہیم تو اپنا خواب سچاکرچکا ہم اسی طرح نیکوکاروں کو بدلہ دیتے ہیں۔یہ صریح آزمائش تھی۔ اور ایک بڑی قربانی اس لڑکے کے بدلے میں ہم نے بھیجی اور اس کا ذکر آئندہ امتوں پر قائم رکھا‘‘۔
یہاں عباسی حاشیہ ملاحظہ فرمائیں:
’’مفسروں نے لکھا ہے کہ بجائے حضرت اسمٰعیل کے ایک دنبہ جنت سے ذبح کرنے کے لیے آیا اور اسی کو حضرت ابراہیم نے ذبح کیا او ریہی بڑی قربانی ہے۔ اوریہ بھی ہوسکتا ہے کہ بعد اس واقعہ کے ہر سال مواشی کی قربانی کا دستورقائم ہوا اوریہ بڑی قربانی ہے۔ اہل تشیع کے نزدیک شہادت حضرت امام حسین کی یہ پیشین گوئی ہے‘‘۔
شیعہ حضرات نے کس طرح اسے حضرت امام حسین کی شہادت کی پیشین گوئی سمجھ لیا،اس کی دلیل کیا ہے ؟اس پر مترجم موصوف نے کوئی روشنی نہیں ڈالی۔
سورہ فاتحہ میں غیرالمغضوب علیہم ولا الضالین کا ترجمہ اس طرح کرتے ہیں:
’’ان لوگوں(کفار ومشرکین)کی راہ پر نہ چلا جن پر غضب نازل کیا گیا اور جو گمراہ ہیں‘‘۔
قوسین کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ عباسی مرحوم مغضوب علیہم اور ضالین سے کفار اور مشرکین مراد لیتے ہیں۔اسی ترجمہ پر اپنے حاشیہ میں لکھتے ہیں:
’’بجائے کفار ومشرکین اہل تشیع یہود ونصاری مراد لیتے ہیں۔دیکھیے:ترجمۃ الصلوۃ از علامہ باقر مجلسی‘‘۔
یہ بات بھی حقیقت واقعہ کے خلاف ہے ۔اہل سنت کے بیشتر مفسرین نے مغضوب علیہم اور ضالین سے یہود ونصاری ہی کو مراد لیا ہے۔
ڈاکٹر خالدبن عبدالعزیز باتلی نے اپنی کتاب’’التفسیر النبوی مقدمۃ تأصیلیۃ مع دراسۃ حدیثیۃ لأحادیث التفسیر النبوی الصریح‘‘میں سورہ فاتحہ کی اس آیت کی تفسیر میں عدی بن حاتم سے یہ حدیث نقل کی ہے:
قال:قال رسول اللہ ﷺ:ان المغضوب علیہم :الیہود،والضالین: النصاری۔
عدی بن حاتم بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:مغضوب علیہم سے یہود اور ضالین سے نصاری مراد ہیں۔
ڈاکٹر خالد نے اس حدیث کے طرق،شواہد اور متابعات پر تفصیلی گفتگو کرنے کے بعد اپنی تحقیق کا خلاصہ اس طرح بیان کیا ہے:
الحدیث بما سبق یترقی الی درجۃ الحسن وصححہ ابن حبان کما سبق،وابن تیمیۃ فی المجموع۱:۶۴،وأوردہ ابن حجر فی الفتح ۸:۹،وھو صحیح أو حسن علی شرطہ الذی بینہ فی المقدمۃ(ھدی الساری)ص:۶،ومعنی الحدیث صحیح وھو کالمتفق علیہ بین أھل العلم ۔قال ابن أبی حاتم فی تفسیرہ۱:۳۱:لا أعلم بین المفسرین فی ھذا الحرف اختلافاً
۔(۱؍۱۲۱-۱۲۸،دارکنوز اشبیلیا،الریاض،۱۴۳۱ھ)
’’مذکورہ بالا تحقیق وتفصیل کی روشنی میں یہ حدیث حسن ہے جب کہ ابن حبان نے اس کو صحیح کہا ہے ا۔اسی طرح ابن تیمیہ نے بھی مجموع الفتاوی (۱:۶۴) میں اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔حافظ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری (۸:۹)میں اس حدیث کونقل کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حدیث ان کی نظر میں بھی صحیح یاحسن ہے جیسا کہ انھوں نے فتح الباری کے مقدمہ(ص:۶) میں اپنی شرح کی یہی شرط بیان کی ہے۔ حدیث کا مفہوم صحیح ہے اور وہ اہل علم کے درمیان متفق علیہ ہے ۔ابن ابی حاتم نے اپنی تفسیر(۱:۳۱)میں لکھا ہے کہ مجھے تو اس بابت اہل علم کے کسی اختلاف کا علم ہی نہیں ہے۔یعنی مغضوب علیہم سے یہود اور ضالین سے نصاری مراد لینے میں تمام ہی لوگوں کا اتفاق ہے‘‘۔
مختصر یہ کہ علامہ ابوالفضل احسان اللہ عباسی نے قرآن مجید کا ایک بہترین رواں اردو ترجمہ اُس دور میں پیش کیا جب ابھی بامحاورہ ترجمہ ٔقرآن کی ابتدا ہورہی تھی۔ اپنے دور میں یہ ایک مقبول عام ترجمہ تھا، اسی وجہ سے اس کے تین ایڈیشن بہت کم وقفے میں ہاتھوں ہاتھ نکل گئے لیکن بعد کے سالوں میں جب بامحاورہ اردو ترجمہ قرآن کے سلسلے میں غلط فہمیاں پیدا کردی گئیں تو بتدریج اس کی مقبولیت میں کمی آتی گئی اور چوں کہ علامہ عباسی نے عربی متن کے بغیر یہ ترجمہ شائع کیا تھا،اس لیے محض حفظ وتلاوت پر اکتفا کرنے والی عوام کو اس ترجمہ میں کوئی دل چسپی نہیں رہی اور آہستہ آہستہ یہ ترجمہ قرآن مجید پردۂ خفا میں چلا گیا۔ضرورت ہے کہ اسے عربی متن کے ساتھ ازسر نو شائع کیا جائے تاکہ ایک خوبصورت، رواں،سہل اور آسان ترجمۂ قرآن سے عوام وخواص سبھی حضرات استفادہ کرسکیں۔ترجمہ پر نظر ثانی بھی ضروری ہے تاکہ طباعتی غلطیاں درست ہوجائیں اور جہاں کہیں حواشی میں جادۂ مستقیم سے انحراف پایا جاتا ہے ،اس کو دور کردیا جائے ۔ مصنف کے دور کے اپنے تقاضے تھے،جن کی وجہ سے انھوں نے حواشی میں بعض ایسی باتیں بھی قبول کرلی ہیں جن کو نصوص شریعت کی روشنی میں صحیح نہیں کہا جاسکتا۔

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
ابو حنظلہ ارشاد احمد ربانی علیگ

شیخنا الجلیل! عمدہ تحریر ہے۔ معلومات میں اضافہ کا باعث ہے۔ جزاکم اللہ خیرا و احسن الجزاء۔
آپ نے بہترین پروجیکٹ کے طرف اشارہ فرمایا ہے۔ بس اگر مذکورہ نسخہ فوٹو یا پی ڈی ایف شکل میں مل جائے، تو آگے کے مراحل آسان ہوجاتے۔ اگر آپ کے پاس سافٹ کاپی ہو تو ارسال فرماتے۔ اور اس علمی تعاون پر ہم ممنون و مشکور ہوتے۔

آپ کا خیراندیش
ارشاد احمد ربانی علیگ

Nimra

اسلام وعلیکم
سر اس پر کسی قسم کا مقالہ لکھا جا سکتا ہے؟؟