خِطَّۃ البحث یا خُطَّۃ البحث؟

فاروق عبداللہ نراین پوری تنقید و تحقیق

بعض کلمات اپنے غلط یا مرجوح ضبط کے ساتھ معاشرے میں مشہور ہوجاتے ہیں اور ہم انھیں جس طرح سنتے ہیں بلا تأمل وتحقیق اسی طرح ادا بھی کرتے ہیں۔ انھی میں سے ایک لفظ “خطۃ البحث” ہے۔
استاد محترم شیخ عبد الباری بن حماد انصاری اور کلیۃ الحدیث جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ کے دیگر اساتذہ حفظہم اللہ نے کئی بار کلاس میں اس لفظ پر ہمیں تنبیہ کی ہے۔ شیخ عبد الباری حفظہ اللہ نے ایک مقالہ میں بھی اسے بیان کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کا صحیح ضبط خا کے کسرہ کے ساتھ ”خِطَّہ“ہے۔
اکثر طلبہ اور باحثین اسے خا کے ضمہ کے ساتھ “خُطَّہ” پڑھتے ہیں جو کہ وجیہ نہیں۔ خِطَّہ یہ تخطیط کے معنی میں ہے۔ مکانات کی تعمیر کے لیے ایک انجینئر جو نقشے تیار کرتا ہے اسے خِطَّہ کہتے ہیں۔ اور یہی لفظ ہم علمی بحوث کی تخطیط کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ لہذا یہ خا کے کسرہ کے ساتھ خِطَّہ ہے، ضمہ کے ساتھ خُطَّہ نہیں۔ [دیکھیں: الصحاح للجوہری:٣/٢٦٠ – تہذیب اللغہ للازہری:٦/٥٥٩]
اسی ضبط کے ساتھ بہت ساری کتابوں کے نام بھی موجود ہیں، مثلًا: خِطَط مصر للقضاعی، الخِطَط للمقریزی، الخِطَط التوفیقیہ لعلي پاشا مبارک، خِطَط الشام لمحمد کرد علی۔
اور جہاں تک لفظ خُطَّہ کی بات ہے تو وہ عربی زبان میں “الأمر العظيم، الأمر، القصة، الحال، الخصلة من الخصال” کے معنی میں مستعمل ہے۔ [دیکھیں: الصحاح للجوہری:٣/٢٦٠ – مقاییس اللغۃ لابن فارس:٢/١٥٤ – مشارق الانوار للقاضی عیاض:١/٢٣٥ – عمدۃ القاری للعینی:٧/١٤]
حدیث میں بھی یہ لفظ اسی معنی میں آیا ہے جسے قاضی عیاض، حافظ ابن حجر اور علامہ عینی وغیرہ نے بیان کیا ہے۔
صحیح بخاری (٣/١٩٣، حدیث نمبر ٧٣١) میں مسور بن مخرمہ اور مروان رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے:
خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَمَنَ الحُدَيْبِيَةِ حَتَّى إِذَا كَانُوا بِبَعْضِ الطَّرِيقِ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ خَالِدَ بْنَ الوَلِيدِ بِالْغَمِيمِ فِي خَيْلٍ لِقُرَيْشٍ طَلِيعَةٌ، فَخُذُوا ذَاتَ اليَمِينِ» فَوَاللَّهِ مَا شَعَرَ بِهِمْ خَالِدٌ حَتَّى إِذَا هُمْ بِقَتَرَةِ الجَيْشِ، فَانْطَلَقَ يَرْكُضُ نَذِيرًا لِقُرَيْشٍ، وَسَارَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا كَانَ بِالثَّنِيَّةِ الَّتِي يُهْبَطُ عَلَيْهِمْ مِنْهَا بَرَكَتْ بِهِ رَاحِلَتُهُ، فَقَالَ النَّاسُ: حَلْ حَلْ فَأَلَحَّتْ، فَقَالُوا: خَلَأَتْ القَصْوَاءُ، خَلَأَتْ القَصْوَاءُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا خَلَأَتْ القَصْوَاءُ، وَمَا ذَاكَ لَهَا بِخُلُقٍ، وَلَكِنْ حَبَسَهَا حَابِسُ الفِيلِ»، ثُمَّ قَالَ: «وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لاَ يَسْأَلُونِي خُطَّةً يُعَظِّمُونَ فِيهَا حُرُمَاتِ اللَّهِ إِلَّا أَعْطَيْتُهُمْ إِيَّاهَا»

اس میں محل شاہد آخری جملہ ”لاَ يَسْأَلُونِي خُطَّةً“ ہے، جس کا ضبط اور معنی بیان کرتے ہوئے قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قَوْله: (لَا يَسْأَلُونِي خُطَّةً) بِالضَّمِّ, أَي: قصَّة وَأمر
[مشارق الأنوار على صحاح الآثار:١/٢٣٥]
اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قَوْلُهُ: (لَا يَسْأَلُونَنِي خُطَّةً) بِضَمِّ الْخَاءِ الْمُعْجَمَةِ، أَيْ: خَصْلَةً يُعَظِّمُونَ فِيهَا حُرُمَاتِ اللَّهِ، أَيْ: مِنْ تَرْكِ الْقِتَالِ فِي الْحرم
[فتح الباري:٥/٣٣٦]
اور علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قَوْله: (خُطَّةً) بِضَم الْخَاء الْمُعْجَمَة وَتَشْديد الطَّاء، أَي: حَالَة، وَقَالَ الدَّاودِيّ: خصْلَة، وَقَالَ ابْن قرقول: قَضِيَّة وأمراً
[عمدة القاري شرح صحيح البخاري:٧/١٤]
بعض باحثین نے خا کے ضمہ کے ساتھ “خُطۃ البحث” بھی کہا ہے لیکن دلائل خا کے کسرہ والے ضبط کی ہی تائید کرتے ہیں۔
اس لیے راجح تلفظ کے ساتھ اسے “خِطَّۃ البحث” ہی پڑھنا چاہیے۔ واللہ اعلم

آپ کے تبصرے

3000