صحابہ کرام کی فضیلت اور ان کے حقوق

آصف تنویر تیمی عقائد

عربی تحریر: پروفیسر سلیمان بن صالح بن عبد العزیز الغصن
اردو قالب: آصف تنویر تیمی

صحابی کی تعریف:
جن کی ملاقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایمان کے ساتھ ہوئی ہو اور ایمان ہی پر ان کا انتقال بھی ہوا ہو۔
صحابہ کی جماعت امت میں سب سے افضل اور لوگوں میں سب سے بہتر گزری ہے جن کو اللہ نے اپنے نبی کی مصاحبت کے لیے منتخب فرمایا،جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے،آپ کی معاونت کی اور راہ حق میں آنے والی مشکلات ومصائب کو انگیز کیا۔دین کی تبلیغ کی، دشمنوں سے دو دو ہاتھ کیا۔اللہ ان سے راضی ہوا وہ اللہ سےراضی ہوئے۔
قرآن مقدس میں جا بہ جا اللہ تعالی نے صحابہ کی تعریف کی ہے۔فرمایا:’’محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں کافروں پر سخت ہیں آپس میں رحم دل ہیں، تو انھیں دیکھے گا کہ رکوع اور سجدے کررہے ہیں، اللہ تعالی کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں ہیں، ان کا نشان ان کے چہروں سجدوں کے اثر سے ہے،ان کی یہی مثال تورات میں ہے اور ان کی مثال انجیل میں ہے،مثل اس کھیتی کے جس نے اپنا انکھوا نکالا پھر اسے مضبوط کیا اور وہ موٹا ہوگیا پھر اپنے تنے پر سیدھا کھڑا ہوگیا اور کسانوں کو خوش کرنے لگا تاکہ ان کی وجہ سے کافروں کو چڑائے،ان ایمان والوں اور نیک اعمال والوں اور نیک اعمال والوں سے اللہ نے بخشش کا اور بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے۔‘‘(الفتح:۲۹)
اللہ نے صحابہ سے اپنی رضامندی،ان کی کامیابی اور ان کے جنت کے وعدے کو اس طرح بیان کیا: ’’اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ مہیا کررکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں ہمیشہ رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے۔‘‘(توبہ:۱۰۰)
اللہ تعالی نے فرمایا:’’لیکن خود رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) اور اس کے ساتھ کے ایمان والے اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کرتے ہیں،یہی لوگ بھلائیوں والے ہیں اور یہی لوگ کامیابی حاصل کرنے والے ہیں۔‘‘(التوبہ:۸۸)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیشتر احادیث میں صحابہ کرام کے فضائل وخصائل کو اجاگر کیا ہے۔عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’سب سے بہتر لوگ میری صدی کے ہیں،پھر اس کے بعد آنے والے،پھر اس کے بعد والے۔‘‘(بخاری،کتاب الشھادات:۲۶۵۲)دوسری حدیث میں فرمایا:’’ستارے آسمان کے لیے امن کی علامت ہیں،جب ستارے غائب ہوجائیں گے تو آسمان کو وہ چیزیں لاحق ہوں گی جس کا وعدہ ہے،میں اپنے صحابہ کے لیے امن کی علامت ہوں،میرے بعد صحابہ وہ دیکھیں گے جس کا وعدہ کیا گیا ہے،اور میرے صحابہ میری امت کے لیے امن کے ضامن ہیں ان کے رخصت ہونے کے بعد میری امت پر وہ وقت آئے گا جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے۔‘‘(مسلم،کتاب الفضائل:۲۵۳۲)
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:’’اللہ نے بندوں کے دلوں کو دیکھا تو سب سے بہتر دل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پایا جسے نبوت کے لیے چن لیا،پھر انھیں رسالت سے سرفراز کیا،محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پھر اللہ نے بندوں کے دلوں کو دیکھا تو صحابہ کے دلوں کو بہتر پایا جن کو اپنے نبی کا وزیر بنایا،جنھوں نے دین کی خاطر اللہ کی راہ میں جہاد کیے۔‘‘(مسند احمد:۱/۳۷۹)جیسا کہ نصوص سے ظاہر ہے ہو بہو صحابہ ویسے ہی تھے ظاہر اور باطن میں کوئی فرق نہ تھا.۔
صحابہ کے حقوق:
صحابہ کے بے شمار حقوق ہیں جن کا پاس ولحاظ رکھنا ہم سب کے لیے ضروری ہے۔ذیل میں چند حقوق اختصار کے ساتھ قلمبند کیے جاتے ہیں:
(۱)ان سے محبت،ان کے نام کے ساتھ رضی اللہ عنہ کا استعمال کرنا: اس لیے کہ اللہ نے ان سے محبت کی،ان سے راضی ہوا، انھیں جنت کی بشارت دی جیسا کہ سابقہ آیتوں سے معلوم ہوا۔
(۲)ان کے بہتر ہونے اور ان کی فضیلت کا یقین: جیسا کہ اوپر کی حدیثوں سے علم ہوا۔
(۳)ان کی عدالت کا یقین: جیسا کہ شریعت کے بہت سارے نصوص سے معلوم ہوتا ہے بلکہ اہل علم کی ایک جماعت نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ (التمھید لابن عبد البر:۲۲/۴۷)
(۴)ان کے تعلق سے اپنے دل کو صاف رکھنااور جو کچھ صحابہ کے مابین سیاسی واقعات رونما ہوئے ان پر گفتگو سے گریز کرنا: جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:’’اور(ان کے لیے) جو ان کے بعد آئیں جو کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے ہیں اور ایمان داروں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ(اور دشمنی) نہ ڈال،اے ہمارے رب بے شک تو شفقت ومہربانی کرنے والا ہے۔‘‘(الحشر:۱۰)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:’’ اہل سنت والجماعت کے اصول میں سے ہے کہ ان کا دل اور ان کی زبان صحابی رسول کے لیے پاک ہوتی ہے۔کتاب وسنت اور اجماع میں ان کے جو فضائل ومراتب بیان کیے گئے انھیں تسلیم کرتے ہیں۔صحابہ کے درمیان جو نزاعات ہوئے اس پر گفتگو کرنے سے گریز کرتے ہیں اور جن حدیثوں میں صحابہ کو برا بھلا کہا گیا ہے انھیں یا تو جھوٹ،یا من مانے طریقے سے گھٹایا بڑھایا گیا تسلیم کرتے ہیں۔ ساتھ ہی صحابہ کے نزاعات کو ان کے اجتہادات پر مبنی قرار دیتے ہیں،جس پر ہر حال میں وہ ثواب کے مستحق ہیں۔ اگر ان کا اجتہاد صحیح ہوا تو دو ثواب اور اگر ان سے اجتہادی غلطی ہوئی تو ایک ثواب۔
اہل سنت والجماعت ہر ایک صحابی کو صغائر وکبائر سے معصوم بھی نہیں مانتے،ان سے غلطی ممکن ہے، لیکن ان کے فضائل ومحامد اس قدر ہیں جو ان کی معافی کے لیے کافی ہیں،یہاں تک کہ ان کی وہ غلطیاں معاف ہوسکتی ہیں جن کی معافی کی توقع دوسروں سے نہیں کرسکتے۔اس لیے کہ ان کے حصے میں وہ نیکیاں آئیں جن سے دوسرے محروم رہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں خیر القرون سے تعبیر کیا ہے.اور اللہ کی راہ میں دیا گیا ان کا ایک سیر دوسروں کے دیے گئے احد پہاڑ سونے پر فائق ہے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ اگر کسی صحابی سے کوئی غلطی ہوئی ہوگی تو انھوں نے توبہ کرلیا ہوگیا،یا اس کے بعد ایسی نیکی کی ہوگی جس سے ان کا گناہ مٹ گیا ہوگا۔یا ان کی سابقہ نیکیاں ان کے گناہ کو ختم کرنے کے لیے ہوں گی۔ ممکن ہے وہ شفاعتِ محمدی کے حقدار ٹھہریں جس کا عین امکان ہے جس کی وجہ سے ان کا گناہ کافور ہوجائے۔ یہ بھی متوقع ہے کہ صحابہ کے دین کی راہ میں بے لوث خدمات کی وجہ سے ان کا گناہ بالکلیہ اللہ مٹادے۔جب صحابہ کے حقیقی گناہ کے معافی کے یہ سارے دروازے کھلے ہیں تو بھلا ان گناہوں سے متعلق کیا کہا جائے جو اجتہادی نوعیت کے رہے… یقینا جو صحابہ کے فضائل ومناقب اور ان کے کارناموں کا حقیقت پسندانہ جائزہ لے گا وہ اس بات کی گواہی دینے پر اپنے آپ کو مجبور پائے گا کہ نبیوں کے بعد ان سے بہتر مخلوق اس روئے زمین پر آئی اور نہ آئے گی۔ وہ اس امت کے بہتر لوگ تھے جنھیں اللہ تعالی نے نوع بہ نوع نعمتوں سےنوازا تھا۔(مجموع الفتاوی:۳/۱۵۲-۱۵۶)
(۵)انھیں گالیاں نہ دی جائیں،ان کی شان میں گستاخی نہ کی جائے اور انھیں ان کے مقام سے نہ گرایا جائے: صحابہ لوگوں میں سب سے بہتر اور دینِ اسلام کے پرچارک ہیں۔ان کو گالی دینا در اصل ان کے تعلق سے اللہ تعالی کے دیے گئے رضامندی کے سرٹیفکیٹ پر عیب لگانا،اللہ کے نبی کو تکلیف پہنچانااور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان کے تعلق سے صادر کیے گئے احکامات کی مخالفت ہے،اور سب سے بڑی بات یہ کہ صحابہ کو مطعون کرنا پورے دین اسلام کو شکوک وشبہات کے گھیرے میں لانے کے مترادف ہے۔ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تم لوگ میرے صحابہ کو گالیاں نہ دو،تم میں کا کوئی احد پہاڑ کے مثل سونا خرچ کرکے ان کے ایک سیر آدھے سیر کے(ثواب کو) پہنچنا چاہے تو نہیں پہنچ سکتا۔‘‘(بخاری،کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم:۳۶۷۳)عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:’’ تم سب صحابی رسول کو گالی نہ دو،ان کے ایک ساعت کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم نشینی تمھاری پوری زندگی کے عمل سے کہیں بہتر ہے۔‘‘(فضائل الصحابہ،لأحمد:۱/۵۷)بشر بن حارث رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’ جس نے صحابہ کو گالی دی وہ کافر ہوگیا، اگرچہ وہ روزہ رکھے،نماز پڑھے اور اپنے کو مسلمان خیال کرے۔‘‘(ابن بطہ:۱۶۲) ابو زرعہ رازی رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’جب تم کسی کو صحابہ کی تنقیص کرتے دیکھو تو سمجھ لو کہ وہ بے دین ہوگیا،اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم حق ہیں،قرآن برحق ہے،یہ قرآن اور یہ سنت ہمیں صحابہ ہی کے ذریعہ پہنچا ہے،اور یہ(بے دین) لوگ چاہتے ہیں کہ ہماری گواہیوں کو مجروح کردیں تاکہ کتاب وسنت کا بطلان بہ آسانی ہوسکے۔‘‘(الکفایہ:۹۷)
امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’جو صحابہ کو گالیاں بکتا ہو اس کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں۔‘‘(السنہ للخلال:۳/۴۹۳)امام احمد رحمہ اللہ سے جب اس شخص سے متعلق پوچھا گیا جو صحابہ کو گالی دیتا ہو تو فرمایا:’’میرے خیال میں وہ مسلمان نہیں۔‘‘(السنہ للخلال:۳/۴۹۳) امام سرخسی حنفی رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’جو صحابہ کے خلاف اپنی زبان دراز کرے،وہ ملحد،اسلام کا مخالف اور اگر اپنے عمل سے توبہ نہیں کرتا تو اس کا علاج صرف گردن زدنی ہے۔‘‘(اصول السرخسی:2۲/۱۰۴)
(۶)صحابہ کی شان میں غلو نہ کیا جائے: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ ان کی شان میں غلو نہ کیا جائے۔اور ان کے تعلق سے یہ عقیدہ رکھا جائے کہ وہ انسان،مومن اور اللہ کے بندے ہیں۔وہ اپنی ذات یا دوسروں کو بلا اللہ کی مرضی کے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔چنانچہ ان میں سے کسی کی شخصیت کو بے جا بڑھانا درست نہیں۔اس لیے کہ غلو شرک کے قبیل سے ہے اور شرک سے آدمی دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔اسی لیے علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے کہا:’’ایک طبقہ مجھ سے اتنی محبت(غلو آمیز) کرتا ہے کہ وہ اس کے باعث جہنم میں داخل ہوجاتا ہے،اور ایک طبقہ مجھ سے اتبا بغض رکھتا ہے کہ اس کے باعث جہنم رسید ہوجاتا ہے۔‘‘(رواہ ابن ابی عاصم فی السنہ:۲/۴۷۷،علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو جید قرار دیا ہے)
صحابہ کے تعلق سے افراط وتفریط سے پاک منہج اختیار کرنا ضروری ہے جیسا کہ امام الطحاوی رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے:’’ہم تمام صحابہ سے (غلو سے پاک) محبت کرتے ہیں،کسی سے برأت کا اظہار نہیں کرتے، ہم ان لوگوں سے بغض رکھتے ہیں جو صحابہ سے بغض یا ان کا ناحق تذکرہ کرتے ہیں،ہم سراپا صحابہ کا ذکر جمیل کرتے ہیں۔ان سے محبت دین،ایمان اور ثواب کا سبب ہے۔اور ان سے بغض کفر،منافقت اور سرکشی کا پیش خیمہ ہے۔‘‘(العقیدہ الطحاویہ مع الشرح:۲/۶۸۹)
اللہ ہم سب کے دلوں میں صحابہ کی محبت ڈال دے اور ان کے منہج کو اختیار کرنے کی توفیق دے۔

آپ کے تبصرے

3000