اہل بدعت کی کتابوں سے استفادے کا ضابطہ

ابو احمد کلیم الدین یوسف تنقید و تحقیق

سلف صالحین رحمہم اللہ نے کتاب وسنت کی روشنی میں ہر موضوع پر نہایت عمدہ، مفصل اور سیر حاصل بحث کی ہے، شاید ہی کوئی ایسا گوشہ ہو جو تشنہ رہ گیا ہو، جیسے ایک مخلص طبیب مریض کے لیے خیر خواہ ہوتا ہے اور اسے ان چیزوں سے روکتا ہے جو اس کی صحت کے لیے مضر ہوں اور ان اشیاء کے استعمال کی ترغیب دیتا ہے جن میں اس کی تندرستی اور صحت وعافیت کا راز مضمر ہو، بالکل اسی طرح ایک مخلص عالم دین عوام الناس کے لیے طبیب کے قائم مقام ہوتا ہے جو ان کی عقیدہ ومنہج کی صحت وسلامتی کے پیشِ نظر ان پگڈنڈیوں پر چلنے سے منع کرتا ہے جہاں دن میں بھی دھندلا پن ہو اور پائے ثبات میں لغزش پیدا ہونے کا خطرہ ہو اور ان شاہراہ عام پر چلنے کی تلقین کرتا ہے جہاں کی رات بھی دن کے مانند ہے۔
چناں چہ اہل بدعت کی کتابوں میں پائے جانے والے افکار انھی دھندلی پگڈنڈیوں کے مانند ہیں جہاں قدم ڈگمگانے کا پورا خطرہ ہوتا ہے، گرچہ اس دھندلے پن میں کچھ نظر آجائے لیکن لغزش کا خطرہ ہنوز برقرار رہتا ہے، جبکہ اہل سنت اور سلف صالحین کی کتابیں ان شاہراہِ عام کی مانند ہیں جہاں اندھیرا تو دور کی بات، سنت کی ضیاء پاش کرنوں سے وہاں کی راتیں بھی دن کی طرح روشن ہوتی ہیں۔
ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: بدعتیوں سے علم حاصل کرنے میں دو خرابیاں ہیں:
(۱)اغتراره بنفسه فيحسب أنه على حق(وہ بدعتی عجبِ نفس میں مبتلا ہو جائے گا اور یہ سمجھے گا کہ وہ حق پر ہے)
(۲)اغترار الناس به
اور دوسری خرابی یہ ہوگی کہ لوگ اس سے دھوکے میں پڑ جائیں گے(1)۔
یعنی جب عام لوگ دیکھیں گے کہ علماء ان بدعتیوں سے علم حاصل کر رہے ہیں تو وہ اس دھوکے میں پڑجائیں گے کہ یہ بدعتی حق پر ہیں، کیوں کہ اگر وہ حق پر نہیں ہوتے تو یہ حق پرست علماء ان سے علم حاصل کیوں کرتے یا ان سے علم حاصل کرنے کی تلقین کیوں کرتے؟ کیوں کہ عوام کو حق وباطل کے درمیان تمییز کم ہوتی ہے، وہ اپنے علماء کی تقریر و تحریر اور ان کے تعامل وتصرف سے سیکھتے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہود ونصاری کی کتابوں کو پڑھنے سے منع کیا ہے، حالاں کہ ان کی کتابوں پر ہمارا اجمالی ایمان ہے اور یقینا وہ کتابیں وحی الٰہی سے خالی نہیں ہیں، لیکن اس کے باوجود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کتابوں کو پڑھنے سے روکا بلکہ ناراضگی کا اظہار بھی کیا، کیوں کہ اس میں حق کے ساتھ باطل کی بھی آمیزش ہے اور ہمارے پاس ایسی تعلیمات موجود ہیں جو صرف حق ہیں۔
چنانچہ جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ یہودیوں کی کتاب کا بعض نسخہ لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، یہ دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہوگئے اور فرمایا:
أمتهوكون يا ابن الخطاب؟! والذي نفسي بيده؛ لقد جئتكم بها بيضاء نقيّة، لا تسألوهم عن شيء فيخبروكم بحق فتكذبوا به أو بباطل فتصدقوا به، والذي نفسي بيده؛ لو أنّ موسى عليه السلام كان حياً ما وسعه إلا أن يتّبعني
(2)
مفہوم حدیث: اے عمر (رضی اللہ عنہ) ابھی تک تم متردد ہو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، یقینا میں تمھارے پاس بالکل صاف ستھری شریعت لے کر آیا ہوں، یہود ونصاری سے کچھ نہ پوچھا کرو، ہوسکتا ہے وہ تمھیں حق بتائیں اور تم انھیں جھٹلا دو، یا جھوٹ بتائیں تو تم انھیں سچ مان لو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر آج موسی علیہ الصلاۃ والسلام بھی زندہ ہوتے تو انھیں بھی مجھ پر ایمان لانا پڑتا۔
ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
وعمر انتفع بهذا حتى أنه لما فتحت الإسكندرية وجد فيها كتب كثيرة من كتب الروم فكتبوا فيها إلى عمر فأمر بها أن تحرق وقال: حسبنا كتاب الله

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس نصیحت سے عمر رضی اللہ عنہ نے فائدہ اٹھایا، چنانچہ ان کے دورِ خلافت میں جب اسکندریہ فتح ہوا تو وہاں اہل روم کی بہت سی کتابیں پائی گئیں، عمر رضی اللہ عنہ سے ان کتابوں کے متعلق پوچھا گیا کہ ان کتابوں کا کیا کیا جائے، تو عمر رضی اللہ عنہ نے ان تمام کتابوں کو جلانے کا حکم دیا، اور فرمایا کہ ہمارے لیے کتاب اللہ ہی کافی ہے(3)۔
مروذی کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد رحمہ اللہ سے کہا:
استعرت كتابا فيه أشياء رديئة، ترى أن أخرقه أو أحرقه؟ قال: نعم، قال المروذي: قال أبو عبد الله: يضعون البدع في كتبهم، إنما أحذِّر عنها أشد التحذير

ترجمہ: میں نے ایک کتاب عاریتا لی ہے، جس میں کچھ شریعت مخالف چیزیں ہیں، کیا میں اس کتاب کو پھاڑ دوں یا جلا دوں؟ تو امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا: ہاں بالکل اسے جلا دو یا پھاڑ دو، کیوں کہ اہل بدعت اپنی کتابوں میں بدعت داخل کر دیتے ہیں، میں اس قسم کی کتابوں سے سختی سے منع کرتا ہوں(4)۔
مفضل بن مہلہل فرماتے ہیں:
لو كان صاحب البدعة إذا جلست إليه يحدثك ببدعته حذرته , وفررت منه , ولكنه يحدثك بأحاديث السنة في بدو مجلسه , ثم يدخل عليك بدعته , فلعلها تلزم قلبك , فمتى تخرج من قلبك

مفہوم: کسی بھی بدعتی کی مجلس میں بیٹھوگے تو وہ شروع سے ہی اپنی بدعت کو بیان نہیں کرے گا، کیوں کہ اگر وہ بدعت سے ہی مجلس کی شروعات کرےگا تو تم اس کی مجلس سے اٹھ کر چلے جاؤگے، اس لیے وہ مجلس کی ابتدا ان احادیث سے کرتا ہے جو عظمت سنت پر دلالت کرتی ہوں، پھر اس کے بعد دوران گفتگو اپنی بدعات کو قدرے چالاکی سے پیش کرے گا، اگر وہ بدعت سنت کے نام پر تمھارے دل میں جگہ بنا لے تو پھر کیسے باہر نکلے گی؟(5)۔
محترم قارئین! اگر آپ غور فرمائیں تو مفضل بن مہلہل رحمہ اللہ کا یہ اثر اہل بدعت کی کتابوں پر پورے طور سے منطبق ہوتا ہے، یہ حضرات بھی اپنی کتابوں کی شروعات کتاب وسنت کے دفاع سے ہی کرتے ہیں، لیکن آگے چل کر ایسا گل کھلاتے ہیں کہ الامان و الحفیظ۔
مثال کے طور پر ایک کتاب ’’خلافت وملوکیت‘‘ کو لے لیں، شروع کے صفحات قرآنی آیات اور اس کے ترجمہ سے مزین ہیں، احادیثوں کا انبار ہے، لیکن بعد میں جاکر انھوں نے جو گل کھلایا ہے وہ کسی صاحب عقل و خرد پر پوشیدہ نہیں ہے، خاص طور سے جنھوں نے ان کی اس کتاب کا مطالعہ کیا ہے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ومن هجر أهل البدع: ترك النظر في كتبهم خوفا من الفتنة بها، أو ترويجها بين الناس فالابتعاد عن مواطن الضلال واجب لقوله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، في الدجال: «من سمع به فلينأ عنه فوالله إن الرجل ليأتيه وهو يحسب أنه مؤمن فيتبعه مما»، لكن إن كان الغرض من النظر في كتبهم معرفة بدعتهم للرد عليها فلا بأس بذلك لمن كان عنده من العقيدة الصحيحة ما يتحصن به وكان قادرا على الرد عليهم، بل ربما كان واجبا؛ لأن رد البدعة واجب وما لا يتم الواجب إلا به فهو واجب

مفہوم: اہل بدعت کی کتابوں سے دور رہنا چاہیے، کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کتاب کے مطالعے کی وجہ سے فتنے میں مبتلا ہو جائے اور بدعتیوں کی کتابوں کی لوگوں کے درمیان ترویج و اشاعت بھی نہ کی جائے، ان کتابوں میں گمراہی ہوتی اور گمراہی کی جگہوں سے دور رہنا واجب ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم علیہ وسلم نے دجال کے بارے میں بتاتے ہوئے فرمایا:
’’من سمع به فلينأ عنه فوالله إن الرجل ليأتيه وهو يحسب أنه مؤمن فيتبعه مما يبعث به من الشبهات‘‘ رواه أبو داود قال الألباني: وإسناده صحيح

مفہوم حدیث: جو دجال کے آنے کی خبر سنے وہ اس سے دور رہے، اس کے قریب نہ جائے، اللہ کی قسم ایک آدمی اپنے آپ کو مؤمن سمجھے گا اور اس کے پاس مقابلہ کرنے کے لیے جائے گا، لیکن دجال اس کو اپنے شبہات میں ایسا الجھائے گا کہ وہ اسی کا پیروکار بن کر رہ جائے گا۔
(اس لیے جن کتابوں میں بدعت وضلالت ہے ان سے دور رہنا چاہیے، کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی اپنے آپ کو بڑا دقاق سمجھ کر ان کتابوں کا مطالعہ کرنا شروع کرے اور کہے کہ میں تو ’خذ ما صفا ودع ماکدر‘ پر عمل کروں گا اور بعد میں پتہ چلے کہ وہ اس فکر سے ایسا متاثر ہوا کہ خود اس کو بھی پتہ نہیں چلا)
ہاں اگر اہل بدعت پر رد کرنے کے لیے ان کی کتابوں کا مطالعہ کرنے کی ضرورت پیش آجائے تو ان پر رد کرنے کے لیے ان کی کتابوں کو پڑھ سکتے ہیں، لیکن یاد رہے کہ اہل بدعت پر رد کرنے کے لیے ان کی کتابوں کو پڑھنے کی اجازت صرف اسی کو ہوگی جو علمی طور پر پختہ ہو اورعقیدہ صحیحہ کا علم رکھتا ہو، بدعتیوں پر رد کرنے کی قدرت بھی رکھتا ہو، بصورتِ دیگر ان کی کتابوں کو پڑھنا جائز نہیں(6)۔
قارئین کرام! آپ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کے کلام میں غور فرمائیں، انھوں نے اہل بدعت کی کتاب کو پڑھنے کی اجازت ان کے بدعات پر رد کرنے کی غرض سےدی ہے، رہی بات ان کی کتابوں سے استفادہ کرنے کی تو علماء نے اس کو ناجائز قرار دیا ہے۔
ایسے بہت سے اقوال علماء سلف صالحین سے منقول ہیں، بخوف طوالت انھیں ترک کر رہا ہوں، کیوں کہ عقل مند را اشارہ کافی است۔
معزز قارئین: اللہ رب العالمین کی بہت مہربانی ہے کہ اس نے شریعت کے کسی مسئلے میں غموض و پیچیدگی نہیں رکھی، اسلام کا ہر مسئلہ دن چڑھے سورج کی طرح روشن وعیاں ہے، نیز مسائل شریعت کے مابین کسی قسم کا کوئی تضاد بھی نہیں پایا جاتا، کیوں کہ تمام مسائل کتاب وسنت پر مبنی ہیں جو کہ من جانب اللہ ہیں اور پیغام الہی میں تضاد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
چونکہ سلف صالحین کی تعلیمات انھی مذکورہ دونوں مصادر پر مبنی ہیں اس لیے ان کے یہاں بھی الفاظ و تعبیر کا اختلاف تو ممکن ہے لیکن تضاد بیانی ممکن نہیں۔
اہل بدعت کی کتابوں سے استفادے کے سلسلے میں سلف صالحین کے یہاں کچھ ضابطے ہیں۔
اولا- اگر اہل بدعت کی کتابوں میں صرف ضلالت وگمراہی، بدعات وخرافات، بدعقیدگی، ہوا پرستی، نصوص شرعیہ اور اہل سنت والجماعت کے اصول کی مخالفت ہو تو سلف صالحین ایسی کتابوں سے استفادہ کرنے سے منع کرتے ہیں اور ان سے دور رہنے کی تلقین کی ہے، بلکہ بعض سلف نے ان کی کتابوں کو پھاڑنے یا جلانے کا بھی حکم دیا ہے، تاکہ لوگ ان مؤلفین کے افکار باطلہ سے متاثر ہو نے سے محفوظ رہیں۔
ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وكل هذه الكتب المتضمنة لمخالفة الكتاب والسنَّة غير مأذون فيها، بل مأذون في محقها وإتلافها، وما على الأمة أضر منها، وقد حرَّق الصحابة – رضي الله عنهم – جميع المصاحف المخالفة لمصحف عثمان، لما خافوا على الأمة من الاختلاف، فكيف لو رأوا أكثر هذه الكتب التي أوقعت الخلاف والتفرق بين الأمة؟

ترجمہ: جو کتابیں سنت کی مخالف ہوں ان تمام کو برباد کردیا جائے، کیوں کہ ملت اسلامیہ کے لیے ان کتابوں سے زیادہ نقصان دہ کوئی چیز نہیں، اس لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے ان تمام مصاحف کو جلا دیا تھا جو مصحف عثمانی سے مختلف تھا تاکہ امت اختلاف کا شکار نہ ہو جائے، اگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ان کتابوں کو دیکھ لیتے جو امت کے اتحاد و اتفاق کے شیرازہ کو بکھیر رہی ہیں اور ان کے درمیان اختلاف وانتشار کا سبب بن رہی ہیں تو کیا کرتے؟
محمد بن زيد المستملي کہتے ہیں کہ امام احمد رحمہ اللہ سے ایک شخص نے پوچھا: کیا میں اہل رائے کی کتابوں سے نقل کرسکتا ہوں؟ تو امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا کہ نہیں، ایسا نہ کرو، اس شخص نے کہا کہ ابن مبارک رحمہ اللہ تو ایسا کرتے ہیں، تو امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ابن مبارک آسمان سے نہیں اترے ہیں، ہمیں صرف اوپر کا علم لینے کا حکم دیا گیا ہے، یعنی جو عرش والے نے نازل کیا ہے کتاب وسنت کی شکل میں۔
معلوم یہ ہوا کہ جھوٹ اور بدعات پر مشتمل کتابوں کو برباد کرنا یا جلا دینا واجب ہے، کیوں کہ جتنا نقصان امت محمدیہ کو اہل بدعت کی کتابوں سے ہوا ہے اتنا نقصان تو آلات لہو ولعب اور موسیقی سے بھی نہیں ہوا ہے(7)۔
ثانیا: اب رہی بات کہ چند کتابیں ایسی ہیں جو علماء کے نزدیک معتمد علیہ کتابوں میں سے ہیں، لیکن ان کے مؤلفین کے یہاں کچھ بدعتیں پائی جاتی ہیں، ايسی کتابوں سے استفادہ کرنے کا ضابطہ یہ ہے کہ جو شخص علومِ شرعیہ کے زیور سے آراستہ ہو، حق وباطل اور ہدایت وگمراہی کے درمیان تفریق کرنے کا ملکہ رکھتا ہو، عقیدہ صحیحہ کے ساتھ فرق باطلہ کے گمراہ کن عقائد کی جانکاری ہو اگر ایسے شخص کو مذکورہ کتابوں سے استفادے کی ضرورت پیش آجائے، جیسے اس میں سے کچھ حق باتیں نقل کرنا ہو، یا پھر اس کتاب پر رد کرنا ہو اور اس میں موجود بدعات و خرافات کو طشت از بام کرنا مقصود ہو، تو مذکورہ صفات کے حاملین بلا شبہ ان کتابوں کو پڑھ سکتے ہیں۔
لیکن اگر کسی کے پاس حق وباطل کے مابین تمییز کرنے کی اہلیت نہ ہو تو اس کے لیے ان کتابوں کا مطالعہ صحیح نہیں ہے، اس کے لیے ان کتابوں سے دوری میں ہی عافیت ہے۔
قارئین کرام! یہاں ایک بات سمجھنا از حد ضروری ہے کہ ہم ان علماء کی کتابوں سے استفادہ کرنے کی بات کر رہے ہیں جنھوں نے شرعی علوم وفنون میں سے کسی فن کی خدمت کی ہو اور اس میں مہارت رکھتے ہوں، لیکن عقیدے کے بعض مسائل میں ان سے لغزش ہوئی ہو، جیسے امام سیوطی رحمہ اللہ وغیرہ۔
سیوطی رحمہ اللہ علوم حدیث کے ماہرین میں سے ہیں اور انھوں نے باضابطہ اس فن کی خدمت کی ہے، اسی طرح سے وہ تمام علماء جنھوں نے علوم شرعیہ کی خدمت کی ہو لیکن عقیدے کے بعض مسائل میں ان سے خطا ہوئی ہو ان سے مذکورہ شروط وضوابط کو مد نظر رکھتے ہوئے صرف اسی فن میں ان کی کتب سے استفادہ کیا جاسکتا ہے جس میں وہ مہارت رکھتے ہوں۔
نیز یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ اگر یہی فوائد جو ان اہل علم کی کتابوں میں پائے جاتے ہیں دیگر صحیح العقیدہ اہل علم کے یہاں پائے گئے تو پھر ان کی کتابوں سے استفادہ کرنا درست نہیں ہوگا جن کے یہاں عقیدے میں لغزش پائی جاتی ہے۔
البتہ جو کسی فن کا ماہر نہ ہو، بلکہ اسلام میں انھوں نے فتنے برپا کیے ہوں تو ان کی کتابوں سے بالکلیہ استفادہ نہیں کر سکتے، اس لیے آپ دیکھیں گے کہ اہل علم میں سے کوئی بھی ذوالخویصرۃ التمیمی، عبد اللہ بن سبا، معبد الجہنی، واصل بن عطاء، عمرو بن عبید، بشر المریسی، ابو منصور ماتریدی، ابن عربی وغیرہم سے کچھ بھی نقل نہیں کرتے، حالانکہ ان میں سے اکثر فرقہ ضالہ وباطلہ کے بانی تھے، فصاحت و بلاغت اور علم کلام کے ماہر تھے،دین اسلام کے نام پر ہی اپنے مقالات وتالیفات نشر کرتے تھے اور کتاب وسنت کا دم بھرتے تھے، لیکن اہل علم نے ان کی طرف التفات ہی نہیں کیا۔
اسی طرح آج کے زمانے میں بھی بعض حضرات نے اسلام کے نام اپنے مسمومہ افکار و نظریات کو اسلام کا جامہ پہنایا اور کتاب وسنت کی خدمت کے نام پر ان کی نشر واشاعت کرنے لگے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انکار سنت کا شجر زقوم پھل دار ہونے لگا، خوارج ومعتزلہ اور اشاعرہ وصوفیہ کے عقائد کی نشاۃ ثانیہ ہوئی، تکفیر کا بازار پھر سے گرم ہوا، اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت و ثقاہت کو مشکوک ہوتی نظر آنے لگی۔
محترم قارئین! بعض لوگ ایسے ہیں جو آج کے زمانے کے ان لوگوں کو امام نووی، سیوطی، ابن حجر رحمہم اللہ وغیرہ پر قیاس کرتے ہیں جو کسی بھی اعتبار سے درست نہیں، بلکہ اس قیاس پر ہمارے یہاں کا ایک مقولہ فٹ آتا ہے، کہاں راجہ بھوج کہاں گنگو تیلی، کیوں کہ جس طرح امام نووی، ابن حجر اور سیوطی رحمہم اللہ وغیرہ نے علم حدیث کی خدمت کی ہے اس سے کہیں زیادہ آج کے زمانے کے علم کے دعویداروں نے سنت کے تعلق سے لوگوں کو بدظن کیا ہے اور تشکیک پیدا کی ہے۔
قارئین کرام! ایسے اشخاص کی تالیفات کے سلسلے میں بھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ان میں سے حق لے لو اور جو باطل ہے اس کو چھوڑ دو، کیوں کہ ان کے یہاں جو کچھ بظاہر حق نظر بھی آتا ہے اس پر باطل کا گرہن لگا ہوتا ہے، نیز ان کے یہاں ملاوٹ کے ساتھ جو حق موجود ہے وہی حق خالص صورت میں صحیح العقیدہ علماء کے پاس بدرجہ اکمل واتم موجود ہے، تو پھر ہمیں ان کے یہاں سے زہر آلودہ حق لینے کے بجائے صاف وشفاف حق سلفی علماء کے پاس سے لینا چاہیے۔
اس لیے مذکورہ اشخاص کے شبہات وتلبیسات سے مسلمانوں کے عقیدہ، افکار اور منہج کی حفاظت کی خاطر ان کی کتابوں سے بالکلیہ تحذیر کرنا اور ان سے دور رہنے کی تلقین کرنا نہایت ضروری ہے۔
ذیل میں ایک مثال سے سمجھیں کہ ایک بدعتی اپنی بدعت کو کس قدر فصاحت و بلاغت سے بین السطور داخل کردیتا ہے کہ قاری کو اس کی ذرا سی بھنک تک نہیں لگتی۔
ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الكشاف لأبي القاسم الزمخشري كتاب معروف متداول، وهو جيد في اللغة والبلاغة، لكنه على أصول المعتزلة مثل ما قال الشيخ، ولا تكاد تعرف كلامه في ذلك إلا إذا كان عندك علم بمذهب المعتزلة ومذهب أهل السنة والجماعة؛ لأنه رجل جيد وبليغ، يدخل عليك الشيء وأنت لا تشعر به، حتى كأنك تظن أن هذا هو الكلام الصحيح السداد، لكن فيه بلاء، فمثلا: قال: (فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ) (آل عمران: ۱۸۵) ، قال أي: فوز أعظم من دخول الجنة والنجاة من النار؟ ! وهذا كلام طيب. لكنه يريد نفي رؤية الله عز وجل؛ لأن رؤية الله عز وجل أعلى شيء، كما قال تعالى: (لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَى وَزِيَادَةٌ) (يونس: 26) ، فأنت إذا قرأت هذا الكلام فستجده صحيحا، فليس هناك فوز أعظم من دخول الجنة والنجاة من النار، ولن تدري أن هذا الرجل يشير إلى أنه لا رؤية، وأن الله لا يرى

مفہوم: زمخشری فصیح اللسان اور بلیغ الکلام ہیں، اپنی بد عقیدگی کو ایسے خفیہ طور پر پیش کرتے ہیں کہ کسی کو اس کا احساس تک نہیں ہوتا، بلکہ سمجھنے والا یہ سمجھتا ہے کہ یہی بات درست اور عین صواب ہے، حالانکہ اس کے اندر گمراہی کا آتش فشاں چھپا ہوتا ہے، مثال کے طور پر اللہ رب العالمین نے فرمایا:
فمن زحزح عن النار وأدخل الجنة فقد فاز

ترجمہ: جو جہنم سے دور کردیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا یقینا وہ کامیاب ہوگیا۔
زمخشری اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ :’’جہنم سے نجات اور جنت میں داخلہ سے بڑھ کر اور کون سی کامیابی ہو سکتی ہے؟ یعنی سب سے عظیم کامیابی جنت کا حصول اور جہنم سے نجات ہے۔‘‘
زمخشری کا یہ کلام بہت عمدہ ہے، لیکن اس عمدہ کلام کے ذریعے سے وہ در اصل دیدار الٰہی کا انکار کرنا چاہتے ہیں، کیوں کہ جنت سے بھی عظیم نعمت اور کامیابی اللہ کا دیدار ہے اور معتزلہ اللہ کے دیدار کو مانتے ہی نہیں ہیں(8)۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ومن هؤلاء من يكون حسن العبارة فصيحا ويدس البدع في كلامه وأكثر الناس لا يعلمون كصاحب الكشاف ونحوه حتى إنه يروج على خلق كثير ممن لا يعتقد الباطل من تفاسيرهم الباطلة ما شاء الله

ترجمہ: اہل بدعت میں سے بعض لوگ فصاحت و بلاغت میں مہارت تامہ رکھتے ہیں، چنانچہ اپنے کلام میں بدعت کی آمیزش اس انداز سے کرتے ہیں کہ اکثر لوگ اس کا احساس ہی نہیں کرپاتے، جیسے زمخشری وغیرہ(9)۔
شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
بعض نوجوانوں کا تعامل دیکھ کر مجھے بڑا تعجب ہوتا ہے، جہاں کوئی فصیح اللسان، بلیغ الکلام دیکھتے ہیں ان کی باتوں کو سننے لگتے ہیں اور ان سے متاثر ہونے لگتے ہیں، حالانکہ یہ صحیح نہیں، سلف اہل بدعت کی مجلس میں جانے سے روکتے تھے، بلکہ اس مسئلہ میں سلف بہت سختی کیا کرتے تھے اور ان کی یہ سختی مجھے بہت پسند ہے اور سب سے زیادہ تعجب تو اس بات پر ہے کہ وہ خود اپنے آپ پر بدعت سے خوف کھاتے تھے۔

بعض حضرات ’خذ ما صفا ودع ما كدر‘ پر عمل کرنے کا مشورہ دیتے ہیں، یعنی ان کتابوں میں جو اچھی باتیں ہیں انھیں لے لو اور جو باتیں مخالف شریعت ہیں انھیں چھوڑ دو۔
محترم قارئین: عوام الناس یا نچلے درجے کے طالب کو ایسا مشورہ دینا بالکل خطرے سے خالی نہیں، کیوں کہ ایسے لوگوں کے پاس تو حق وباطل کے مابین تمییز کی صلاحیت ہی نہیں ہوتی تو اس قاعدہ پر عمل کیسے کریں گے؟
مثال کے طور پر یوں سمجھ لیں کہ مذکورہ مشورہ دینے والے نے سونے کی دکان کھول رکھی ہے جس میں اصلی سونا، جعلی سونا اور تھوڑے سے پیتل کا کاروبار چلاتے ہیں، بس مشکل یہ ہے کہ وہ دونوں قسم کے سونا اور پیتل کو ایک ساتھ ملا کر لوگوں کے سامنے رکھ دیتے ہیں، اب لوگ اسے سونا ہی سمجھ کر اس کا بھاؤ کرتے ہیں، کوئی کم علم ان پر جب اعتراض کرتا ہے کہ بھائی ایسا لگ رہا ہے کہ اس میں ملاوٹ ہے ، تو یہ طالب علم کہتے ہیں کہ بھائی جو اصلی سونا ہے وہ لے لو اور جو نقلی سونا یا پیتل ہے اسے چھوڑ دو، اب بیچارا خریدار اس شش و پنج میں مبتلا ہے کہ مجھے جب اصلی سونے کی پرکھ نہیں تو میں جعلی سونا اور پیتل کی پہچان کیسے کروں؟
صفا وکدر کا نعرہ لگا کر سلفیوں کو اہل بدعت کی کتاب پڑھنے کی ترغیب دینا بالکل ویسے ہی ہےجیسے کوئی شہد میں زہر ملا کر دے اور کہے کہ اللہ رب العالمین نے شہد میں شفا رکھی ہے، تم کو شہد سے مطلب ہونا چاہیے زہر سے نہیں۔
محترم قارئین! آخر وہ کون سا ایسا موضوع ہےجس پر سلف نے اور منہج سلف کے پیروکار وں نے سیر حاصل بحث نہ کی ہو کہ ہمیں ایک خارجی و معتزلی فکر کے حامل سے اس کو سمجھنے کی ضرورت پڑ گئی؟
قارئینِ کرام! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے فتنے کی پیشن گوئی کی ہے جس کا ظہور ان دعاۃ کی شکل میں ہوگا جو لوگوں کو جہنم کی طرف بلا رہے ہوں گے، وہ ہم میں سے ہی ہوں گے اور ہماری زبان ہی بولیں گے، اپنی باتوں کو اسلام کے نام پر ہی پیش کریں گے،ان کی باتیں اوپر سے بڑی سنہری ہوں گی لیکن اندر سے ہلاکت وگمراہی کا ذخیرہ ہوں گی، جس طرح راکھ اوپر سے ٹھندی ہوتی ہے لیکن اس کے اندر چھپی ہوئی چنگاری بڑا دھماکہ کر سکتی ہے۔
سلف صالحین، ائمہ دین اور فقہاء صالحین سے محبت کرنے والے غیرت مند مسلمان بھائیو!منہج سلف کو خود ساختہ افکار کے حاملین کے سپرد کرنے سے بچیں اور کسی کی بھی بات قبول کرنے سے قبل دیکھیں کہ وہ منہج سلف صالحین کے مطابق اپنی بات پیش کر رہا ہے یا اس سے ہٹ کر۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) شرح حلیۃ طالب علم: ص۱۳۸
(2) حديث حسن، الإرواء:۶/۳۳۸-۳۴۰
(3) مجموع الفتاوى:۱۷/۴۱
(4) هداية الأريب الأمجد: ص۳۸
(5) الابانۃ لابن بطہ :ص۱۴۰، رقم الاثر۳۹۴
(6) مجموع فتاوى ورسائل فضيلة الشيخ محمد بن صالح العثيمين رحمه الله:۵/۸۹، بتصرف یسیر، اور بریکٹ کے درمیان کا کلام راقم کی اپنی توضیح ہے۔
(7) الطرق الحكمية في السياسة الشرعية:۲/۷۱۱
(8) شرح مقدمة التفسير لشيخ الإسلام بن تيمية – رحمه الله۔:۱/۱۰۱
(9) مجموع الفتاوی:۱۳/۳۵۸

4
آپ کے تبصرے

3000
3 Comment threads
1 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
4 Comment authors
newest oldest most voted
عبد الرحمن صدیقی

اہل حق علماء جب اہل بدعت (اس مضمون کی روشنی میں ) کی کتابوں کے حوالے اپنی تفاسیر اور کتابوں اور تحریروں میں لکھیں ۔یا،ان اہل بدعت پر مضامین لکھیں ۔۔جیسے مرحوم اسحاق بھٹی۔عبدالرحمان کیلانی محدث عبیداللہ رحمانی رح ۔۔تو ایک عام اہل حدیث یا قاری کیا تاثر لیگا ۔۔ہم دوسری کی علمی غلطیوں پر تو سیکڑوں صفحات کالے کر رہے ہیں ۔پر آپسی رنجش ۔جماعتی کشمکش اور بچوں نوجوانوں کی تربیت کا کیا نظم ہے ۔۔؟؟ پھر یہی نوجوان عالم انجنیئر اہل حدیث مسلک میم رہتے ہوے کئ تنظیمی نظام کا،حصہ بنتا ہے تو ہمارے لکھاڈی میدان میں نکل… Read more »

عبيد سيد

Ye apke L sahab kon hain bhai…

شيرخان جميل احمد عمرى

ماشاءالله تبارك الله ! نہایت مدلل مضمون ہے۔ جاندار اور شاندار بھی ہے۔ بیک وقت علماء وعوام کے لئے رہنما تحریر فجزاکم الله خيرا. اللهم زِد فزد وبارك

Faiyaz alam

ما شاء
بہت ہی مفید ارو وقت کی ضرورت کے مطابق عنوان ہے
کتنے لوگ بدعتی کے پاس علم حاصل کر کے گمراہ ہو گئے
اللہ آپ کو دنیا و آخرت میں بہتر بدلا دے آمین