مری ذات ذرہ بے نشاں مگر بزرگوں بطور خاص ڈاکٹر شمس کمال انجم اور مولانا اسماعیل بشیر مدنی کے حکم کی تعمیل اور روایت تعارف نویسی کی پاسداری کرتے ہوئے اپنا تعارف پیش کرنا ضروری ہوگیا ہے۔
سچی بات تو یہ ہے کہ میں خود سے آشنا ہی نہیں کہ اپنا تعارف کراسکوں۔ کہ ابھی اتنا میچیور نہیں کہ خود شناس ہو جاؤں؎
اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے
کچھ اس میں تمسخر نہیں واللہ نہیں ہے
بہرحال زمانے کو حوادث سے چھٹکارا نہیں۔ سو میں ذیل میں ان حوادث کا ذکر کرتا ہوں جو براہ راست مجھ سے تعلق رکھتے ہیں۔
نام و نسب:
محمد کاشف بن شکیل احمد بن نظیر احمد بن دلدار بن محبت علی
ولادت :
۲۱؍ دسمبر۱۹۹۸(بمقام سانتھا ، سنت کبیر نگر، یوپی)
ابتدائی احوال:
جس وقت میں سن تمیز کو بھی نہیں پہنچا تھا وہ ہمارے علاقے کاگولڈن ایج تھا۔ بوالمکرمی تحریک احیائے تعلیم زوروں پر تھی۔ علاقے میں علم دوستی کا ماحول تھا۔ جہالت بہت حد تک آشنائے علم و عرفان ہوچکی تھی۔ مناظر جماعت و شاعر اسلام ڈاکٹر حامد الانصاری انجم کا فیضان جاری تھا۔ آہ وہ برکتوں والا اپنے لافانی تبرکات کے ساتھ اب بھی بہت سے سینوں میں زندہ ہے۔ مولانا ابوالمکرم صاحب امی کے بڑے بھیا تھے کہ رشتے میں چچیرے بھائی تھے۔ ان کی عطا کردہ تفسیر ’احسن البیان‘ آج بھی امی کے زیر مطالعہ ہے۔ رحمۃ اللہ علیہ۔ مولانا انجم کو امی ’انجم خالو‘ کہتی تھیں۔ اس لیے کہ انجم صاحب مولانا ابوالمکرم کے خالو تھے۔ ابو مولانا انجم صاحب کے عقیدت مند تھے۔ میں نے ہوش سنبھالا تو ’نغمہ زار انجم‘ کو ابو کی ان پانچ چھ کتابوں میں سے ایک پایا جو وہ بہت سنبھال کر اپنے بریف کیس میں رکھے رہتے تھے۔ ’گل تو گل خار مسکرائے ہیں‘ میں نے ابو کی زبانی سن کر ہی یاد کی ہے۔مولانا انجم صاحب سے ابو زیادہ متاثر تھے اور مولانا ابوالمکرم سے امی۔ ابو کے متاثر ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس وقت ابو بہت اچھے نظم خواں تھے۔ مولانا انجم کی صدارت میں کئی اجلاس میں آپ نے نغمہ سرائی کی تھی۔ کچھ نظمیں انھوں نے اپنی بھی کہہ رکھی تھیں۔ جو آج بھی ان کی ڈائری میں موجود ہے۔ ابو نے ایک حمد لکھی ہے جس کا مطلع ہے؎
بحمداللہ اے اللہ بسم اللہ کرتا ہوں
ثنا کے ساتھ میں تیری نظم آغاز کرتا ہوں
بچپن میں مجھے بھی لگا تھا کہ واقعی ابو نے شاعری کی ہے۔ مگر اب جب اس شعر پہ غور کرتا ہوں تو لگتا ہے کہ یہاں کوئی قافیہ نہیں، اسی طرح محافظت علی الوزن کی وجہ سے ’نظم‘ کو بھی غلط تلفظ کے ساتھ ادا کرنا پڑتا ہے۔ مجھے مولانا انجم صاحب سے بس ایک ملاقات ذرا ذرا یاد ہے کہ ابو مجھے سائیکل پر بٹھا کر مولانا سے ملنے کرنجوت گئے تھے۔ مولانا انجم صاحب مسجد میں تھے۔ وہیں ملاقات ہوئی تھی۔ باقی محسن جماعت مولانا ابوالمکرم صاحب سے مجھے کوئی ملاقات یاد نہیں، البتہ ان کا جنازہ یاد ہے۔ رحمہما اللہ
خیر یہ ساری باتیں عرض کرنے کا واحد مطلب ہے کہ میں بہت سعادت مند تھا کہ وہ دور مجھے میسر آیا۔ والدین نے شروع سے ہی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا۔
مجموعہ کی بزرگ شخصیت بڑے ابو مولانا اسماعیل بشیر المدنی صاحب بھی اس وقت دادا بشیر مرحوم کے احیاء دین کے خواب کو شرمندہ تعبیر کر رہے تھے۔ مگر مجھ پر یا والدین پر براہ راست یا بالواسطہ کسی طور پر ان کا تاثر نہیں رہا۔ ان سے میری ملاقات یہی کوئی ڈیڑھ دو سال قبل ہوئی تھی تبھی شاید تھوڑی بہت بات ہوئی تھی۔ آپ مجھے مجموعہ کے حوالے سے پہچانتے ہیں۔
ابتدائی تعلیم (مکتب):
دسویں تک کی پوری دینی تعلیم میں نے مدرسہ زید بن ثابت میں حاصل کی۔ مجھے اپنا تعلیمی سفر درجہ تین اور اس کے بعد سے یاد ہے۔ درجہ تین میں مولانا شکیل احمد فیضی انگلش، مولانا ابوہریرہ جغرافیہ، ناظم اعلی عبدالباری صاحب چمن اسلام پڑھاتے تھے۔ ذہن پر زور دینے کے باوجود درجہ چار کی تفصیلات یاد نہیں آرہی ہیں۔
درجہ پانچ میں پہنچا تو کسی حد تک شعور بیدار ہوا۔
درجہ پانچ میں چار لڑکے اور دو لڑکیاں تھیں۔ مولانا ابوالحسن انواری جغرافیہ پڑھاتے تھے۔ میں ہمیشہ ان سے خائف رہا۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ آٹھویں تک مجھے ایک دو کو چھوڑ کر کسی سے محبت نہیں ہوئی۔ ہر ایک سے ڈر لگا رہتا تھا کہ کب کون پیٹ دے۔ نحو و صرف کی مثالوں سے ضرب زید عمروا کو مٹا کر ضرب استاذ تلمیذا لکھ دینا چاہیے۔آٹھویں تک کی تعلیم مکمل جبر کے ماحول میں ہوئی۔ اساتذہ شفقت کے بجائے ’گھوڑ نسیا‘ چھید کر الٹالٹکانے اور دس بیس کے حساب سے ڈنڈے مارنے والے ڈائیلاگ دہراتے۔ یہ ساری چیزیں تعلیم کے لیے کس حد تک ضروری ہیں یہ کوئی ماہر تعلیم بتا سکتا ہے۔ میں یہاں تعارف میں صرف اپنی کیفیت لکھ رہا ہوں۔ خیر مولانا انواری صاحب جغرافیہ، مولانا شکیل فیضی چمن اسلام، ماسٹر طیب حساب، ماسٹر وصی اللہ انگریزی، مولانا عبدالرحمن بلوا مصر فروغ اردو نقل املا پڑھاتے تھے۔ املا کی ایک غلطی پر ایک ڈنڈے یا دو ڈنڈے مقرر ہوتے تھے۔ املا میں قسطنطنیہ ، فلسطین اور مجبور محض جیسے الفاظ بولے جاتے تھے۔
اساتذہ تفہیم کے بجائے تحفیظ کراتے تھے اور یہی چیز آج بھی مجھے کھٹکتی ہے۔ بہر حال اس زمانے میں زید بن ثابت میں مکتب کی تعلیم بہت اچھی تھی۔ بس اساتذہ اور بچوں کے درمیان دوستانہ ماحول یا مشفقانہ انداز کی کمی تھی اور تفہیمی اسلوب پر تحفیظی اسلوب بھاری تھا۔
خیر کچھ بھی ہو درجہ پانچ کے سبھی طلبہ جغرافیہ میں فیل تھے۔ البتہ میرا نمبر کلاس میں سب سے زیادہ تھا۔ چونکہ میں صرف ایک کتاب جغرافیہ میں فیل تھا وہ بھی شاید ایک دو نمبر کی کمی سے۔ اس لیے ترقی مل گئی۔ پھر اللہ کے فضل سے آگے کے درجات میں کبھی فیل نہیں رہا اور اول پوزیشن سے کامیابی ملتی رہی۔
مجھے برادرم فواد کے یاد دلانے سے یاد آیا کہ مکتب میں ماجد دیوبندی کی نظم ’سامان تجارت مرا ایمان نہیں ہے‘ کو میں ہاتھوں کے اشارے کے ساتھ پڑھا کرتا تھا۔ شاید اسی وجہ سے ماجد دیوبندی کی یہ نظم آج تک یاد ہے۔
متوسطہ و ثانویہ:
درسگاہوں کی ایک روایت آج تک مجھے حیران کیے ہے کہ نئی کلاس میں آنے والے طلبہ کی حوصلہ افزائی کے بجائے نہ صرف پرانے طلبہ بلکہ اساتذہ بھی اس کلاس کی صعوبت، مضامین اور سبجکٹس کی مشکلات بیان کرتے ہیں کہ ابھی تک تو آسان تھا اب پتہ چلے گا۔ خیر متوسطہ اولی میں عربی شروع ہوتی تھی۔ استاد نے بسم اللہ ہی ’عربی پساوے چربی‘ والے مقولے سے کی۔
متوسطہ اولی میں آکر سب سے اہم تبدیلی یہ ہوئی کہ ابھی تک میں کلاس میں بھی پینٹ شرٹ پہنتا آ رہا تھا مگر اب درس میں کرتا لازمی ہوگیا۔ اس کلاس میں کبھی فعل فعلا کی گردان یاد کرنے میں سرگرداں، کبھی فارسی کی بودم میں مصروف۔ باکورہ کے مفردات ازبر کرنے اور انگریزی کا حساب اور حساب کی انگریزی میں مصروف تفصیل کچھ یوں کہ مولانا عتیق الرحمن قاسمی فارسی کی ’گلزار دبستاں‘ فارسی گرامر کی ’تسہیل المصادر‘ پڑھاتے تھے۔ مجھے اس نئی زبان سے بہت دلچسپی تھی۔ واقعی ’زبان فارسی عجب شیریں است‘۔ مجھے یہ زبان کبھی دشوار نہیں لگی۔ ہم درس احباب نے فارسی سنانے کا ایک طریقہ یہ ایجاد کیا تھا کہ مولانا کا ترجمہ کا ترجمہ درس کے دوران لکھ لیتے تھے پھر اگلے دن جب اس سبق کو سنانے کی باری آتی تو پورا ترجمہ بلیک بورڈ پر ہندی میں لکھ دیتے تھے اور شیخ سمجھتے تھے کہ بچوں نے بہت اچھی طرح یاد کر رکھا ہے ان کو نہیں معلوم ہوتا تھا کہ وہ ان کو دیکھنے کے بجائے ان کے پیچھے بلیک بورڈ دیکھ کر سنا رہے ہیں۔ فارسی کے سلسلے میں ابھی تک میرا لکھنے یا پڑھنے سے تعلق رہا۔ کبھی کسی فارسی شخص کو بولتے نہیں سنا تھا۔ اب جب ایرانی لوگوں کو فارسی بولتے سنتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ ہم نے فارسی کو فارسی کے لہجےمیں نہیں پڑھا۔
یہیں سے علامہ ڈاکٹر وی (وانمباڑی) عبدالرحیم کی ’دروس اللغۃ العربیہ لغیر الناطقین بہا‘ کا سلسلہ شروع ہوا۔ دروس اللغۃ العربیۃ کی ترکیب ہی پہلا خشک لقمہ ثابت ہوئی جو بہت دنوں بعد حلق سے اترا۔ دکتور ف عبدالرحیم سے یاد آیا کہ ابھی پچھلے سال ممبئی یونیورسٹی میں بی اے کی کلاس کر رہا تھا تو پروفیسر دروس اللغۃ کے کچھ منتخب ابواب پڑھا رہے تھے۔ ڈاکٹر عبدالرحیم صاحب کے بارے میں جو تعارف انھوں نے پیش کیا اس میں کچھ خامیاں تھیں۔ میں نے نشاندہی کی اور بتایا کہ استاد! بارہ سال قبل ان کی کتاب پڑھی ہے تو بہت متعجب ہوئے۔
ہاں ایک چیز جو قابل ذکر ہے وہ یہ کہ ابھی تک ہم نے جو بھی کتابیں پڑھی تھیں ان کے مصنفین کے حالات اساتذہ نے کم ہی بتائے تھے۔ نہ ہی فن کا ابتدائی تعارف کرایا تھا۔ چمن اسلام کس کی تصنیف ہے یہ ہمیں پتہ ہی نہیں تھا۔ دروس اللغۃ کے مصنف ف عبدالرحیم میں ’ف‘ کس کا شارٹ ہے یہ تک ہمیں نہیں معلوم تھا۔ وہ تو اب پتہ چلا کہ تمل ناڈو کے شہر وانمباڑی سے تعلق رکھتے ہیں اور وانمباڑی کو عربی میں فانیامبادی لکھیں گے۔ اور اسی کا مخفف ف ہے۔ ایک چیز جو قابل ذکر ہے وہ یہ کہ شیخ۱۴ زبانیں جانتے ہیں۔ اور جامعہ ازہر سے اصول اللغہ میں پی ایچ ڈی ہیں۔
باکورۃ الادب کے الفاظ معانی اور انک گڑت (mathematics) کے جال میں پوری طرح پھنسے ہوئے تھے۔ Mathematics نے آٹھویں میں جا کر پیچھا چھوڑا، یہ یا تو سمجھ سے بالاتر تھی یا ہم لوگوں کے لیے بیکار کہ اب تک عملی میدان میں اس کی ضرورت نہیں پڑی۔ وگیان (سائنس) ہندی زبان میں تھی، یہ واقعی مفید کتاب تھی بشرطیکہ صحیح سے سمجھا دی جائے۔ تمرین الصرف نامی کتاب میں گردان ہی گردان تھی۔ زید بن ثابت کے عربی درجات میں سب سے برا حال انگریزی کا تھا اور ہے بھی۔ نئے طلبہ سے دریافت کیا تو وہ بھی مجھ سے متفق نظر آئے۔ فن اور مصنف کا تعارف کرانے میں مولانا عبدالباری سلفی تنہا نظر آتے ہیں۔ مولانا عتیق الرحمن قاسمی صاحب کا تفسیر اور فارسی پڑھانے کا انداز بہت اچھا تھا۔ البتہ ثانویہ ثانیہ (رابعہ) کی منطق اور پیغمبر عالم میں شیخ فقط بچوں کا پڑھا سن لیتے تھے۔ جب کہ منطق کی تفہیم بے حد ضروری ہے۔
پہلی پوزیشن کے ساتھ متوسطہ ثانیہ میں ترقی ملی تو نئی کتابوں کا جنجال تیار تھا۔ فارسی کی دوسری اور مفتاح القواعد، امین النحو، سائنس، ریاضی، انگریزی سب کی نئی کتابیں تھیں۔ ماسٹر عبدالآخر کا انگریزی سے اردو ترجمہ کبھی سمجھ نہیں آیا۔ ’نیو لائٹ‘ نامی کتاب سے من و عن بلیک بورڈ پر گرامر لکھوا دیتے تھے۔ متوسطہ ثالثہ میں شرح مائۃ عامل مولانا مطیع الرحمن جامعی سے پڑھی۔ امین الصیغہ مولانا عبدالباری صاحب کے ذمہ تھا۔ اس سال وگیان اور انک گڑت (ریاضی) سے چھٹکارا ملا اور ایک نئے بابرکت فن تفسیر پڑھنے کی سعادت ملی۔ آٹھویں کلاس میں تبارک الذی اور عم پارہ ، نویں کلاس (ثانویہ اولی) میں چار پارے ۲۵-۲۶-۲۷-۲۸ اور ثانویہ ثانیہ میں چھ پارے سورہ فرقان سے چوبیسویں پارے کے آخر تک۔
ثانویہ کا مرحلہ سب سے اہم مرحلہ تھا۔ اب بیشتر اساتذہ بڑی دلچسپی اور محبت سے پڑھاتے تھے۔ مولانا خورشید سلفی سے ہدایۃ النحو، البلاغۃ الواضحۃ اور الروضۃ الندیۃ وغیرہ کتب پڑھیں۔ پڑھانے کا بہت اچھا انداز اللہ نے آپ کو دیا ہے۔ جو پڑھاتے اور جتنا پڑھاتے پوری صفائی سے پڑھاتے۔ بات گول مول کرنے کے بجائے وضاحت سے کہہ دیتے تھے کہ یہ چیز مجھے اتنا ہی سمجھ میں آئی۔ بچوں کو اپنی تدریس میں ساتھ رکھتے تھے یعنی درس میں بچوں سے گفتگو والا انداز تھا نہ کہ خطابانہ۔ ماہانہ ٹیسٹ بھی لیتے تھے۔
مولانا انس فیضی سے القرأۃ الرشیدۃ اور اصول فقہ پڑھی۔ مولانا انس فیضی اصول پسند اور تہذیب شعار استاد تھے۔ بڑی محنت سے پڑھاتے تھے۔ بلوغ المرام ، دیوان الحماسہ ، کلیلہ دمنہ وغیرہ مولانا اسرار صفوی سے پڑھی۔ درسیات کے متن و شرح کی حد تک بڑی محنت سے پڑھاتے تھے۔ مشکاۃ شریف اور تفسیر کے استاد مولانا عبدالباری سلفی تھے۔ تفسیر میں احسن البیان کو من وعن لکھوا دیتے تھے۔ مشکاۃ کی تدریس مرعاۃ کو سامنے رکھ کر کرتے تھے۔ شیخ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ وہ تدریسی دور میں بھی مطالعہ کے پابند تھے۔
ثانویہ ثانیہ کا امتحان جامعہ سلفیہ بنارس میں ہونا تھا۔ یہ سوچ کر خوف و مسرت کا ملا جلا لیکن خوشگوار احساس ہوتا تھا۔ پرانے طلبہ نے بڑے اہتمام سے حوصلہ شکنی کی تھی کہ دیکھو سبھی کتابوں میں آرام سے پاس ہوسکتے ہو مگر منطق اور بلاغہ میں اچھے اچھے فیل ہوجاتے ہیں۔
ایک بات جو بتا دینی مناسب ہے کہ درس کے علاوہ میں صرف امتحان کی تیاری میں ہی پڑھتا تھا اور یہ میری سب سے بڑی غلطی تھی اور شومی قسمت کہ آج بھی اسی غلطی پر قائم ہوں۔ البتہ خود کو بدلنےکا عزم رکھتا ہوں۔ بس اللہ کامیابی دے۔
ثانویہ ثانیہ میں بھی یہی ہوا۔ دراصل میں درسی کتابوں سے کبھی گھبرایا ہی نہیں۔ بڑے اطمینان سے امتحان دے دیتا تھا۔ جس کتاب کا امتحان دینا رہتا میں امتحان والے دن ایک بار ضرور پوری کتاب سرسری طور پر پڑھ لیتا تھا۔
بنارس کا سفر میری زندگی کا پہلا ٹرینکا سفر تھا۔ اس وقت میں بہت چھوٹا تھا۔ سارے مناظر اور سبھی تجربے میرے لیے نئے تھے۔ ششماہی و سالانہ امتحانات ہوچکے تو رزلٹ الحمدللہ بہت بہتر تھا۔ اپنے ہم درسوں میں میرا نمبر سب سے زیادہ تھا۔
کاشف بھائی آگے……… کیا ہوا؟
ماشاء اللہ بہت ادھبھت
بہت مزہ آرہا تھا مگر یہ کیا پڑھتے پڑھتے اچانک بات ہی ختم ہوگئی کم سے کم جاری……. کا کنایہ دے دیتے یار
آب پاشی ترک کرکے پڑھا واقعی بہت مزا آیا
استاد محترم مکمل