ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
شاعر مشرق علامہ اقبال ؒکا یہ شعراپنی صداقت اور واقعیت کے اعتبار سے آج بھی اتنا ہی نیا اور تازہ ہے جتنا اپنے وجود میں آنے کے وقت تھا بلکہ شاید موجودہ دور میں اس کی معنویت میں مزید اضافہ ہوا ہے ۔ آج ہم حکیم امت کے اس کرب و اضطراب کوزیادہ محسوس کر سکتے ہیں جس کے زیراثریہ لافانی اور کثیرالجہات شعر ان کے صفحۂ ذہن پرا بھرا تھا ۔ مغرب کے عروج و ترقی اور مشرق کے زوال و انحطاط کے اسباب وعلل کی مکمل داستان اس شعر میں پوشیدہ ہے ۔ ملت اسلامیہ دیدہ وروں سے نہ پہلے کبھی تہی دامن تھی اور نہ آج اس کے یہاں ان کی کوئی کمی ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ اہل مغرب اپنے دیدہ وروں کی قدر و منزلت کا شعور رکھتے ہیں اور ہم اپنے دیدہ وروں کو پرخطر راستوں پر چلنے کے لیے تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔
اقبال کے اس شعر کا پیغام یہ ہے کہ چمن میں دیدہ ور روز روز نہیں پیدا ہوتے بلکہ برسوں کے طویل انتظار کے بعد ان کا ظہور ہوتا ہے ، وہ قدرت کا خاص عطیہ ہوتے ہیں ، عزم و ہمت کی مخصوص صلاحیتیں لے کر میدان عمل میں اترتے ہیں ، ان کا احترام کیجیے ، ان کے لیے وسائل فراہم کیجیے اور ان کی بصیرت و بصارت سے اپنے فکر وعمل کی دنیا آباد کیجیے۔
عصر حاضر میں جب سے فکر اسلامی یا اسلامی نظام ہائے زندگی کی تشکیل جدید کا شعور بیدار ہوا ہے ، ہم نے فکری اورعملی ہر دو اعتبار سے ایک مثبت ،تعمیری اور خوش آیند پیش رفت کی ہے۔ اس کا ایک نمایاں مظہر یہ ہے کہ آج ملت کے اندر قرآن ، حدیث اور فقہ کے ماہرین کے ساتھ ساتھ سیاسیات اور سماجیات کے ماہرین بھی دیکھے جا سکتے ہیں ۔ ان ماہرین کا تعلق عالم اسلام سے بھی ہے اور ان ممالک میں بھی ان کی خاصی تعداد پائی جاتی ہے جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں ۔ ان کی خدمات تعلیمی اداروں کو بھی حاصل ہیں اور اکیڈمیوں کو بھی جو کہ مخصوص علم وفن پر ریسرچ وتحقیق کے لیے قائم کی گئی ہیں۔ علم و تحقیق کی دنیا میں ان کا وزن بھی محسوس کیا جا رہا ہے اور عالمی جرائد و رسائل میں ان کی تحقیقات و نگارشات کو جگہ بھی ملتی ہے ۔ اسی زمرے میں اسلامی معاشیات کے ماہرین بھی آتے ہیں جن کے حقوق و فرائض سے متعلق ذیل کی سطور میں چند منتشر خیالات پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اسلام اللہ کا آخری ،مکمل اورمحبوب ترین دین ہے۔ اسے مذہب کے اس تصور سے کوئی علاقہ نہیں ہے جس میں چند رسومات کی ادائیگی اور بعض اخلاقیات کی پابندی پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ وہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام پہلوؤں کو زیر بحث لاتا ہے اور ان سے متعلق تفصیلی ہدایات جاری کرتا ہے ان تفصیلی ہدایات کے بارے میں اس کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ان کو اپنا کر انسان اس دنیا میں بھی امن و سکون کی زندگی گزار سکتا ہے اور آخرت میں بھی اس کی زندگی فلاح و سعادت سے ہم کنار ہوسکتی ہے۔ اسلامی زندگی کا ایک اہم شعبہ معاشیات بھی ہے۔ اسلام نے رزق کے جائز اور ناجائز ذرائع اور حلال و حرام اشیاء کی تفصیلات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ حصول رزق کی ترغیب بھی دی ہے اور دولت و سرمایہ کو اللہ کا انعام اور عطیہ قرار دیا ہے۔ علوم وفنون کی وسعت اور تنوع نے آج معاشیات کو بھی ایک علاحدہ علم کی حیثیت دے دی ہے، جس میں دولت، سرمایہ، تجارت، کاروبار، زراعت، ملازمت اور حصول زر کی دیگر تمام شکلیں آپ سے آپ شامل ہو جاتی ہیں۔ اس فن کے ماہرین انسانی معیشت کے تمام پہلوؤں پرنظر رکھتے ہیں اور ان خرابیوں کی نشاندہی کرتے ہیں جن سے معیشت دو چار ہوتی ہے۔ صنعت و تجارت کونفع بخش بنانے کے طریقے بھی وہی بتاتے ہیں اور وہی اس کے لیے منصوبہ بندی کر کے نقصان اور گھاٹے میں جانے سے روکتے بھی ہیں۔ دیگر ماہرین معاشیات کے مقا بلے میں اسلامی معاشیات کے ماہرین کا امتیازیہ ہے کہ وہ قرآن و سنت کے دائرہ میں رہ کر معاشیات کی تنظیم کرتے ہیں، ان کے پیش نظر یہ نہیں ہوتا کہ کسی خاص طبقہ کو فائدہ پہنچائیں بلکہ وہ ظلم واستحصال کی تمام صورتوں کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ تعالی نے حلال و حرام کی جو حد یں مقرر کر دی ہیں، ان سے تجاوز نہیں کرتے بلکہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ انسانی معیشت انھی کے اندر رہ کر پروان چڑھے اور استحکام حاصل کرے۔ اللہ کافضل و کرم اور اس کا احسان ہے کہ آج ملت کے اندر اسلامی معاشیات کے ماہرین موجود ہیں ۔ جدید معاشیات کی خوبیوں اور خامیوں پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ وہ اسلامی معیشت کے مستحکم اصولوں سے بھی براہ راست واقفیت رکھتے ہیں۔ وہ اسلام کے عہد اول سے لے کر آج تک کی مسلم حکومتوں کی معیشت کے نشیب و فراز سے بھی آگاہ ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ اسلام کے مقرر کردہ حلال و حرام کے ضابطوں پر ایمان رکھتے ہیں۔ ان کا حق یہ ہے کہ ان کا اسی طرح احترام کیا جائے جس طرح ہم اسلامی علوم کے دیگر ماہرین کا کرتے ہیں، ان کی قدرومنزلت میں کوئی کوتاہی نہ برتی جائے، ان پر اعتماد اور بھروسہ کیا جائے۔
دین داری کے محدود تصور نے ہمارے عوام بلکہ کسی حدتک خواص کو بھی اس غلط فہمی میں مبتلا کردیا ہے کہ عزت و احترام کے مستحق صرف وہ حضرات ہیں جو ایک خاص وضع قطع کے حامل ہیں ، ایک مخصوص طرز کی گفتگو کر تے ہیں، ہماری عبادات جن کے پیچھے انجام پاتی ہیں اور جن کے ذریعے ہم بعض اسلامی رسومات کی ادائیگی کر پاتے ہیں۔ ان کے علاوہ زندگی کے دوسرے تمام اہم شعبوں میں انسانیت کی خدمت کا فریضہ انجام دینے والے محض دنیادار لوگ ہیں اور خلوص وللہیت سے ان کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے ۔ علماء و مشائخ بلاشبہ قابل تکریم ہیں لیکن اس کایہ مطلب نہیں کہ دیگر پہلوؤں سے اسلام اور اہل اسلام کی خدمت انجام دینے والے اور اسے فکری و عملی غذا فراہم کرنے والے قابل تکریم و احترام نہیں ہیں ۔ جس میدان میں ان کا تخصص ہے، اس میں ان کی آرا بسا اوقات فقہی اعتبار سے حتمی اور قطعی قرار دی جا سکتی ہیں ۔ اسلامی معاشیات کے ماہرین کسی دنیاوی شغل میں خود کو مصروف عمل نہیں رکھے ہوئے ہیں بلکہ ان کی تمام تر جہد ومساعی اسلام کے لیے ہے ۔ ان سے استفادہ کے لیے دلوں کے بند در یچے اس وقت وا ہو سکتے ہیں جب عزت و احترام کا یہ تصور ہم عام مسلمانوں کے اندر پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
اسلامی معاشیات کے ماہرین کا حق بھی ہے کہ ان پر اعتماد کیا جائے ، ان کے ساتھ حسن ظن رکھا جائے اور ان کی نیت کو خلوص پر محمول کیا جائے ۔ معاشیات کے بعض پیچیدہ مسائل اس قدر حساس ہیں کہ ان کی باریکیوں تک پہنچنا آسان نہیں ہوتا ۔ خاصے طویل غور وفکر اور افہام وتفہیم کے بعد ان کی نزاکتیں سمجھ میں آتی ہیں ۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے ہماری بدقسمتی یہ رہی ہے کہ ہم اس طرح کے معاشی مسائل میں حد درجہ عجلت سے کام لیتے رہے ہیں۔ معاشیات کی بعض جدید اصطلاحات اور اس کی بعض نئی صورتوں کے بارے میں ہم ماہرین کی آرا پرتوجہ دینے کی بجائے ان حضرات کے فتووں پر اعتماد کر لیتے ہیں جو اس فن کی مبادیات سے بھی واقف نہیں ہیں ۔ اسلامی معاشیات کے ایک ماہر سے ہم بجا طور پر یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ آخرت کی جواب دہی کے احساس کے ساتھ اپنی کوئی رائے ظاہر کرتا ہے یا حلال و حرام کے تعلق سے زبان کھولتا ہے ۔ پہلے ہی سے بد گمانی اور بے اعتمادی کی فضا بناد یناحق و انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے اور اس اسکالر کی تو ہین ہے جس نے برسہا برس تک کتاب وسنت اور فقہ اسلامی کا مطالعہ کرنے اور جدید معاشیات کو پورے طور پر سمجھ لینے کے بعد اپنی زبان سے کوئی بات ظاہر کی ہے۔ اسلامی معاشیات کے ماہرین کا تیسرا اور سب سے اہم حق یہ ہے کہ اپنی تحقیقات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انھیں تجربہ گاہ فراہم کیا جائے ۔ معاشیات کا مسئلہ نظریاتی سے زیادہ عملی ہے ۔ نظریہ بظاہر قابل قبول اور خوبصورت ہوسکتا ہے لیکن اس بات کا امکان ہے کہ عملی طور پر اسے نافذ نہ کیا جا سکے ۔ افکار ونظریات کی تنفیذ و انطباق کے لیے جو وسائل درکار ہیں ان کی فراہمی ضروری ہے ۔ اسی طرح صنعت، تجارت اور زراعت کے جن شعبوں سے انھیں تعاون کی ضرورت ہے جب تک یہ شعبے ان کے ساتھ تعاون نہیں کرتے وہ اپنی کارکردگی سے نہ مسلمانوں کو مطمئن کر سکتے ہیں اور نہ دنیا پراپنے افکار ونظریات کی صداقت واضح کر سکتے ہیں ۔مسلم ممالک میں غیر سودی بینک کاری کا نظام وسعت نہیں اختیار کر سکا اور نہ اس میں اتنا استحکام پیدا ہو سکا کہ دنیا سودی بینکنگ سسٹم سے خود کو آزاد کرنے کی فکر کر سکے ۔ اس کی واحد وجہ یہ تھی کہ ملت کے افراد اور اس کی حکومتوں نے اس کے ساتھ خاطر خواہ تعاون نہیں کیا ۔ اسی عدم تعاون کا نتیجہ تھا کہ بعض ناعاقبت اندیش افراد نے اسلامی بینک کے سرمایہ کوبھی اسی راستے پر ڈال دیا جس پر سودی بینک کا سرمایہ چل رہا ہے ۔کئی سال پہلے ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی رحمہ اللہ سے مختلف مجلسوں میں اورپروفیسر نجات اللہ صدیقی حفظہ اللہ سے ایک طویل گفتگو کرنے کے بعد میں اسی نتیجے پر پہنچا تھا۔
اسلامی معاشیات کے ماہرین کا ایک حق یہ بھی ہے کہ ان کو ایک انسان تصور کیا جائے ۔ ایک مسلمان مجتہد کی طرح ان کا اجتہاد بھی خطا وصواب دونوں کا حامل ہوسکتا ہے ۔ تمام تر غور وفکر کے بعد تجربہ ناکام بھی ہوسکتا ہے ۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ناکام ہو گئے ، ان کی فکر بے کار ہوگئی یا وہ خدانخواستہ کسی سازش کا شکار ہو گئے ۔ یہ بھی ہماری عجلت پسندی اور سب کچھ ہرا ہرادیکھنے کی بے جا خواہش کا نتیجہ ہے ۔ معاشیات کا مسئلہ زندگی کے کئی شعبوں سے جڑا ہوا ہے ،ہر جگہ کے اپنے حالات و مسائل ہوتے ہیں، کہیں دولت کی فراوانی ہوتی ہے اور کہیں لوگوں کو بقدر کفاف رزق مہیا ہوتا ہے ۔ ممکن ہے کسی معاشی نظریہ کوعملی جامہ پہنانے میں ایک شخص کی نظر چوک جائے اور زندگی کے کسی خاص گو شے تک اس کی نظر نہ پہنچ سکے ۔ ایسی صورت میں اس کا نظر یہ میدان عمل میں نتیجہ خیز نہیں ہوسکتا ۔
ان کا حق ہے کہ انھیں بار بار تجربہ کرنے کے مواقع فراہم کیے جائیں ، ان کی حوصلہ افزائی کی جائے اور حسب سابق انھیں عزت و احترام عطا کیا جائے ۔ تقریباً نصف صدی سے ہمارے ماہرین اس میدان میں سرگرم عمل ہیں ، ان کی تحقیقات عالیہ سے اتنا تو فائدہ ہوا ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت اشتراکیت اور سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلے میں عدل وانصاف پر مبنی اسلامی معاشیات کے نظام کو دل سے چاہنے لگی ہے ۔ اشتراکیت کا عبرت ناک انجام کھل کر اس کے سامنے آچکا ہے اور سرمایہ دارانہ نظام نے جس طرح پوری دنیا کو مٹھی میں لے رکھا ہے اور جسم و روح کی خرید وفروخت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے، اس کی قباحتیں بھی پورے طور پر آشکارا ہو چکی ہیں ۔ معاشیات کے اسلامی نظام کے محدود اثرات کی وجہ بھی یہی سرمایہ دارانہ نظام ہے ، جلد یا بہ دیر جب یہ نظام اپنے منطقی نتیجہ تک پہنچ جائے گا تو ان شاء اللہ اسلامی معاشیات کو اپنا جائز اور واجبی حق ملے گا اور ہمارے ماہرین کو زیا دہ کھل کر کام کر نے اور اپنی بات کہنے کے مواقع دستیاب ہوں گے۔
اسلامی معاشیات کے ماہرین کے حقوق کا یہ تذکرہ شاید نامکمل رہے گا اگر ان کے مشاہرے اور حق خدمت کا تذکرہ نہ کیا جائے ۔ بھلا وہ شخص لاکھوں انسانوں کی معاشی زندگی کی منصوبہ بندی کیوں کر کرسکتا ہے جسے خود اپنی معاش کی فکر ستارہی ہو ۔ زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم شخص کے لیے کوئی بڑا انقلابی کام کرنا آسان نہیں ہے ۔ اب ہمیں یہ تو قع چھوڑ دینی چاہیے کہ اس دنیا میں کوئی شخص بغیر کسی معاوضہ اور بدلے کے اپنا خون جگر جلائے گا ۔ یہ خصوصیت صرف انبیائے کرام کی ہے جواپنی شبانہ روز جدوجہد اور خدمات کے تعلق سے برملا اعلان کرتے تھے کہ ہمیں اس کا کوئی اجرنہیں چاہیے ۔ اسی طرح بقدر کفاف دینے اور لینے کا خیال بھی اب قبول عام حاصل نہیں کرسکتا ۔ دنیا کے ہر شخص کو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے میزان پرتولنادرست نہیں ہے ۔ اقوام مغرب کی ترقی کا ذکر تو ہم کرتے اور سنتے ہیں لیکن ان کا یہ کردار ہمارے سامنے کبھی زیر بحث نہیں آتا کہ ان کے یہاں اگر کوئی سائنس داں کوئی چیز ایجاد کرتا ہے اور اس کے تیار کردہ فارمولے سے کوئی کمپنی کچھ چیزیں بناتی ہے تو ایک مشت معاوضہ کی رقم ادا کرنے کے علاوہ نہ صرف اس سائنس داں کے لیے تا زندگی رائلٹی محفوظ کر دی جاتی ہے بلکہ اس کی موت کے بعد اس کی نسلوں کو بھی اس کا فائدہ پہنچتا ہے ۔ اس کے برعکس ہمارا یہ حال ہے کہ ہم تفسیر ، حدیث اور فقہ کے اپنے ماہرین اورمتخصصین اساتذہ کرام کو ان کی ضعیفی میں چند سو روپے کی پنشن دینے کا بھی حوصلہ نہیں جٹاپاتے ۔ بقدر کفاف مشاہرہ پر تنگی میں زندگی گزارنے والا ایک استاد کہاں سے ہمت لائے گا کہ وہ اپنی نسلوں کو بھی اس فن میں ممتاز بنانے کی کوشش کرے ۔ اسلام کی خدمت سے وابستہ افراد کے بارے میں ہمارے عوام و خواص کا عمومی رویہ حد درجہ تشویش ناک ہے ، اس میں تبدیلی آنی چاہیے ۔ اسلامی معاشیات کے ماہرین تو اپنے ذوق ، مزاج ، ماحول اور ضرورت کے اعتبار سے ملت کی توجہ اورخدمت کے کچھ زیادہ ہی مستحق ہیں۔
اسلامی موضوعات پر تازہ اور جدید مطبوعات کی کمی کا شکوہ ہم سب کرتے ہیں ۔ جدید مسائل پر اردو میں کتابیں کوئی کیسے اور کہاں سے تصنیف کرے گا،آج اردو کا کوئی ناشر حق خدمت دینے کے لیے تیار نہیں بلکہ وہ مصنف پر اپنا احسان سمجھتا ہے کہ ہم نے اس کی کتاب شائع کردی اور وہ توقع کرتا ہے کہ مصنف کمپوزنگ اور پروف کی تصحیح کا فریضہ بھی اپنی طرف سے انجام دے دے گا ۔
مذکورہ بالا چند حقوق کے تذکرے کے بعد آیئے اب ان فرائض کا ذکر کرتے ہیں جو اسلامی معاشیات کے ماہرین پر عائد ہوتے ہیں ۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے ان کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ فکری و عملی اعتبار سے اسلام سے وابستہ رہیں ۔ ان کی وفاداری اور ہمدردی اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ اسی انداز میں رہے جو ایک مرد مومن کا طرۂ امتیاز ہے ۔ زبان سے ادا ہونے والے الفاظ اور دینی رویے ان جذبات کے آئینہ دار ہوتے ہیں جو دل میں موجود ہیں ۔ معاشیات پر گفتگومحبت آمیز اور ہمدردانہ ہوگی تو لازمی طور پر سنی جائے گی اور سامعین پر ان شا ء اللہ اس کے مثبت اثرات ظاہر ہوں گے ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس وقت مسلمان تعلیمی ، سیاسی اور معاشی اعتبار سے کمزور ہیں ۔ ان کی کمزوری اور پس ماندگی دور کرنے کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ ہمارا ایک اعلی تعلیم یافتہ ان کے سامنے گفتگو کرتے ہوئے ان کے مذہبی معتقدات ، ان کے دینی شعائر اور ان کے درمیان متفق علیہ مسائل پر طعن وتشنیع کرے اور انھی باتوں کو ان کے زوال کا سبب قرار دے ۔ قرآن کو اساس قرار دے کر اٹھنے والی بعض تحریکوں اور سیاسی و سماجی استحکام کی خواہش مند بعض تنظیموں سے ملت کو زیادہ فائدہ تو نہیں پہنچالیکن فکری انحراف میں اضافہ ضرور ہوا ہے جس کے نتیجے میں ملت کوبعض ذہین افراد کی خدمات سے محروم ہونا پڑا۔ قرآن کی حقانیت ، حدیث کی حجیت ، اجماع اور قیاس کی شرعی حیثیت، فہم دین میں منہج سلف کی اقتدا اور نصوص شرعیہ سے استخراج مسائل کے اصول وضوابط معروف ومشہور ہیں ۔ان موضوعات پر صدیوں سے کام ہورہا ہے اور یہ تہذیب وتنقیح کے اتنے مراحل سے گزر چکے ہیں کہ ان پر سوال اٹھانا بہت زیادہ آسان نہیں ہے ۔ اصل مسئلہ زیر بحث لائیے، محکمات کتاب وسنت سے استدلال کیجیے ، نظائرتلاش کیجیے ، ان شاء اللہ مسئلہ حل ہوگا اور ملت کے افراد کا تعاون بھی ملے گا ۔پہلی فرصت میں حرام کو حلال اور حلال کو حرام کردینا درست نہیں ہے۔
ماہرین معاشیات کی دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ حرام کمائی اور ناجائز دولت کے تعلق سے اسلام نے جو تفصیلات پیش کی ہیں، ان کوصحیح تناظر میں دیکھیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اسلام کے اصول و قوانین زمان و مکان کی قید سے آزاد ہیں، اسی طرح ان میں عموم ہے اور وہ دائمی اور حتمی ہیں ۔ معاشرہ میں رائج کمائی کا ایک طریقہ ظاہری نگاہ میں محدود سطح پر معصومانہ اور بے ضرر ہوسکتا ہے لیکن وسعت اختیار کر کے وہی آیندہ کی معیشت کے لیے تباہ کن بن سکتا ہے۔ اسلام کا امتیاز یہ ہے کہ وہ اس طرح کے مسائل میں ایک عمومی قانون بناتا اور اسے سماج کے لیے مفید تر قرار دیتا ہے۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے بعض ماہرین کا جو کمزور پہلو مشاہدہ میں آرہا ہے وہ یہ کہ دنیا کے معاشی نظام میں جو کچھ موجود ہے ، ہم دور درازکی تا ویلا ت تلاش کر کے اس کو جائز ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ غیر اسلامی معاشی نظام کو اگر بغیر کسی تحفظ کے قبول ہی کرناہے تو پھر اسلامی معاشیات کے ماہرین کی معنویت اور ضرورت کہاں باقی رہتی ہے ۔ ان کا تو فریضہ یہ تھاکہ رطب ویابس، کھرے کھوٹے، جائز وناجائز اور حلال و حرام کے درمیان حد فاصل قائم کرتے اور اپنی ایمانی بصیرت اورفنی مہارت کے ذریعے اسلامی نظریات کی حقانیت اور معقولیت ثابت کرتے ۔ آج سود ، بیمہ ،شیئرز وغیرہ کے تعلق سے جس گومگو کی کیفیت سے ہم دو چار ہیں ، اس کی خاص وجہ یہی ہے کہ ہمارے ماہرین واضح طور پر ان کو حرام اور ناجائز کہنے سے پہلو تہی کررہے ہیں اور ان کا بدل فراہم کرنے میں بھی ان کو کامیابی نہیں مل رہی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ جدید معاشیات کے افکار ونظریات اور ان کی تنفیذ و انطباق کو مسلسل پڑھنے اور سمجھتے رہنے کے بعد جو ذہن بنتا ہے ، اس کے لیے ممکن نہیں ہے کہ ان کے خلاف سوچے یا ان سے ہٹ کر کوئی نیا طریقہ ایجاد کر سکے ۔ اسلام میں یاس و نا امیدی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے ، آج نہیں تو کل ضرور کوئی سبیل نکلے گی ۔ شرط یہ ہے کہ ہم اخلاص کے ساتھ اپنی کوششیں جاری رکھیں اور اسلام نے حرام اور ناجائز دولت و کمائی کی جو سرحد یں مقرر کی ہیں ، ان کو توڑ کر امت کو مال دار بنانے کا خیال بھی اپنے دل میں نہ لائیں کیوں کہ اسلامی اقدار سے محروم ہو کر ملت کو اگر سیاسی و معاشی بالا دستی حاصل ہو بھی جائے تو وہ اس دنیا میں اپنا بنیادی کردار ادا کرنے میں ناکام رہے گی اوریہ اس کے لیے سب سے زیاد ہ خسارے کا سودا ہوگا۔
معاشیات کے وسیع نظام کی تشکیل اور اس میں حدود شرعیہ کی رعایت کا کام سال دو سال کا نہیں بلکہ ایک تسلسل چاہتا ہے ۔ یہ کام فرد واحد کا نہیں بلکہ اس کے لیے مختلف ٹیموں کی ضرورت ہے ۔ اسلامی معاشیات کے ماہرین کی ایک ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ ریسرچ وتحقیق کے کاموں میں اپنے دوسرے ذہین شاگردوں کو بھی شامل کریں اور ان کی تربیت کریں ۔ جامعات میں بھی یہ کام ہوسکتا ہے اور انفرادی طور پر بھی ہمارے ماہرین ذہن سازی اور تربیت کا یہ فریضہ انجام دے سکتے ہیں ۔ ہمارے ساتھ ایک مشکل یہ ہے کہ ہم اپنے ماہرین اور متخصصین کو ان کے میدان میں مصروف کا رنہیں رکھ پاتے اور کئی ایک ذمہ داریوں سے ان کو وابستہ کردیتے ہیں ۔ ماہرین کی بھی کمزوری یہ ہے کہ وہ عمر کی پختگی کو پہنچنے کے بعد مدح و تعریف سننے اور ہر چھوٹے بڑے ادارے کا سر پرست بننے کی بیماری میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ حالانکہ برسوں کے مطالعہ وتحقیق کے بعد اب وہ اس قابل ہو گئے تھے کہ اپنے موضوع پر پورے اعتماد کے ساتھ لکھ سکتے تھے اور اپنے شاگردوں کی بہتر انداز میں تربیت کر سکتے تھے ۔ ملت کے اندر یہ بیماری صرف شعبہ معاشیات تک محدود نہیں ہے بلکہ آج ہرسطح پر اس کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ ایک کامیاب مصنف تعلیمی ادارے کا سر پرست ہے ، ایک اچھامنتظم تصنیفی اکیڈمی کا چیئر مین ہے اور ایک سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والا دعوتی سینٹر کا ناظم اعلی ہے ۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ ہر جگہ تعطل ہے، کشمکش ہے اور وسائل موجود ہوتے ہوئے بھی خاطر خواہ کام نہیں ہورہا ہے ۔ عصر حاضر میں اسلامی معاشیات کے ماہرین کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ یہ بیماری بھی ہے جو آج دنیا بھر میں عام ہوچکی ہے۔
آپ کے تبصرے