امام ابو داود سلیمان بن اشعث سجستانیؒ: ایک سرسری مطالعہ

آصف تنویر تیمی تاریخ و سیرت

خالص فقہ الحدیث پر لکھی گئی اسلامی تاریخ کی اول کتاب امام ابو داود رحمہ اللہ کی ’سنن‘ ہے۔فقہ اسلامی سے دلچسپی رکھنے والے علماء وطلبہ کو اس کتاب سے استفادہ کرنا چاہیے۔امام ترمذی رحمہ اللہ کی جامع اور امام بخاری رحمہ اللہ کی صحیح بھی فقہ الحدیث پر کام کرنے والوں کے لیے بے حد معاون ہے۔لیکن افسوس ان لوگوں پر جو فقہ اسلامی پر کمال وعبور کا دعوی کرتے ہیں اور شریعت کے احکام کی دلیلوں کے لیے کتب حدیث کو ترک کرکے ادھر ادھر کا چکر لگاتے ہیں۔شرعی مسائل کے بنیادی دلائل کتاب وسنت ہیں اور اسی پر غور وخوض اور مسائل کے استنباط کا اصل نام فقہ ہے۔فقہ کے نام پر الم غلم دلیلوں اور مسائل کو جمع کرنا، سادہ لوح لوگوں کے سامنے پیش کرنا کہیں کی عقل مندی نہیں۔آج مسلمانوں کو اسی فقہ الحدیث سے متعارف کرانے کی ضرورت ہےاور اس کے لیے کتب ستہ کی حدیثیں اصلِ اول کی حیثیت رکھتی ہیں۔جس دن سے فقہ کا یہ طریقہ مسلمانوں میں رائج ہوگا،فقہ کے نام پر بنائے گئے سارے چور دروازے بند ہوجائیں گے۔مسلک ومشرب کے نام پر رونما ہونے والے اختلافات ختم ہوں گےاور مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد واتفاق پیدا ہوگا۔جس کی اس وقت مسلمانوں کو سب سے زیادہ ضرورت ہے۔
ذیل کے سطور میں امام ابوداود رحمہ اللہ کی زندگی سے متعلق چند اہم معلومات قلمبند کی گئی ہیں:
امام ابو داود کا زمانہ:
امام ابو داود رحمہ اللہ تیسری صدی ہجری کے شروع۲۰۲ھ میں پیدا ہوئےاور ۲۷۵ ھ میں وفات پائی۔اس طرح ان کی ساری زندگی تیسری صدی ہجری ہی میں گزری۔یہ پورا دور عباسی حکمرانوں کا تھا۔ مامون، معتصم، واثق، متوکل، منتصر، مستعین باللہ، معتز باللہ، مہتدی اور معتمد علی اللہ سب اسی زمانے میں حکومت کی کرسی پر براجمان ہوئے۔یہ علم کی نشر واشاعت کا بھی شاندار زمانہ تھا۔اس عہد میں علوم اسلامیہ کو بڑا فروغ حاصل ہوا۔ بغداد سمیت تمام اسلامی ریاستوں میں علمی مراکز کا قیام عمل میں آیا۔اسی دور میں فقہی مذاہب کی تدوین ہوئی۔تفسیر،سیرت،مغازی،تاریخ،طبقات،عربی زبان وادب سے متعلق کثیر تعداد میں کتابیں لکھی گئیں۔ نیز دوسری زبانوں سے عربی میں کتابیں کے ترجمے ہوئے۔
علوم حدیث پر بھی بڑا کام ہوا۔کتب حدیث اور مصطلح کی بے شمار کتابیں منظر عام پر آئیں۔اس زمانے کے علماء نے علم حدیث کی جو خدمات انجام دیں اس کو جاننے کے لیے محمد بن جعفر کتانی کی معروف کتاب’الرسالة المستطرفة لبيان مشهور كتب السنة المشرفة‘ کا مطالعہ فائدے سے خالی نہ ہوگا۔
امام ابو داود رحمہ اللہ کے زمانے میں امام احمد بن حنبل،یحیی بن معین،امام بخاری،امام مسلم،امام نسائی وغیرہ بھی موجود تھے۔
نام ونسب اور نسبت:
آپ کی کنیت بالاتفاق ابو داود،نام سلیمان بن اشعث بن اسحاق بن بشیر بن شداد بن عمرو ہے۔
آپ کی نسبت ازدی اور سجستانی ہے۔
ولادت:
آپ ۲۰۲ھ میں پیدا ہوئے۔بصرہ کو جائے سکونت بنایااور بغداد ایک سے زائد مرتبہ آتے جاتے رہے۔
علمی اسفار:
آپ نے مختلف اسلامی شہروں کا علمی سفر کیا۔خراسان،شام،جزیرہ،طرطوس، مصراور حجاز کے مختلف شہروں میں موجود اساتذہ سے کسب فیض کیا۔اس کی صراحت خطیب بغدادی اور حافظ ابن کثیر نے اپنی کتاب میں کی ہے۔
اساتذہ:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے سنن میں موجود اساتذہ کی مجموعی تعداد تین سو(۳۰۰) بیان کی ہے،جن میں مشہور اساتذہ کی بھی طویل فہرست ہے۔ذیل میں چند مشاہیر کے اسماء قلمبند کیے جاتے ہیں:
(۱)احمد بن محمد بن حنبل شیبانی
(۲)یحیی بن معین ابو زکریا
(۳)اسحاق بن راھویہ ابو یعقوب
(۴)عثمان بن محمد بن ابی شیبہ ابو الحسن عبسی کوفی
(۵)مسلم بن ابراہیم ازدی فراہیدی
(۶)ابو عبد الرحمن عبد اللہ بن مسلمہ بن قعنب قعنبی مدنی
(۷)حافظ ابو الحسن مسدد بن مسرھد ابن مسربل بصری اسدی
(۸)ابو سلمہ موسی بن اسماعیل تمیمی تبوذکی
تلامذہ:
مشرق اور مغرب سے کثیر تعداد میں طلبہ آپ سے کسب علم کے لیے حاضر ہوئے۔روز بروز طلبہ کی تعداد بڑھتی گئی،یہاں تک کہ کبھی کبھار آپ کے درس میں شامل ہونے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہوتی۔عام طلبہ کے علاوہ بڑے بڑے اساتذہ فن نے بھی آپ سے حدیثیں سنیں۔مثلا امام ترمذی،امام نسائی اور امام احمد بن حنبل نے بھی آپ سے حدیثوں کو سنا اور لکھا۔
فضل وکمال کا اعتراف:
اللہ نے امام ابو داود کو بڑی خوبیوں سے نوازا تھا،علم حدیث وفقہ کے آپ امام تھے۔عبادت وبندگی میں بھی آپ کا کوئی نظیر نہ تھا۔درجنوں علمی کتابوں کے آپ مصنف تھے۔اساتذہ اور طلبہ کے علاوہ عام مسلمان بھی آپ کو قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔سنن کے موضوع پر سب سے پہلے آپ ہی کو حدیثوں کے اکٹھا کرنے کا شرف حاصل ہوا۔
آپ کے زمانے اور بعد کے ادوار کے متخصصین اور ماہرین نے آپ کے کمالات کو سراہا ہے۔
ذیل کے سطور میں مشہور محدثین کے تعریفی جملے لکھے جاتے ہیں:
(۱)ابو بکر خلال کہتے ہیں: آپ کو اپنے زمانے میں علم حدیث میں اولیت حاصل تھی۔ علومہ دینیہ اسلامیہ میں آپ کا ہمسر اور ہم پلہ اس وقت کوئی نہ تھا۔
(۲)حافظ موسی بن ہارون کہتے ہیں: اللہ نے دنیا میں آپ کو حدیث اور آخرت میں جنت کے لیے پیدا کیا تھا۔میں نے ان سے بہتر کسی کو نہ پایا۔
(۳)ابراہیم حربی کہتے ہیں: اللہ نے آپ کے لیے حدیث کو اسی طرح آسان بنادیا تھا جس طرح داود علیہ السلام کے لیے لوہا کو۔
(۴)امام حاکم کہتے ہیں: آپ اپنے زمانے میں بلا اختلاف اہل حدیثوں کے امام اور مقتدی تھے۔
(۵)امام ذہبی کہتے ہیں: آپ حدیث،فقہ،قدر ومنزلت اور ورع وتقوی میں سب سے بلند تھے۔
(۶)امام نووی کہتے ہیں: آپ کے حفظ،علم،ورع،دین داری اور فہم پر سب کا اتفاق تھا۔
(۷)ابن مندہ کہتے ہیں: آپ ان چار لوگوں میں تھے جن کو صحیح اور ضعیف حدیث کی پرکھ پر عبور کامل تھا۔آپ کے علاوہ اس میدان کے اعاظم امام بخاری،امام مسلم اور امام نسائی تھے۔
عقیدہ:
آپ منہج سلف پر کار بند تھےاور اس پر آپ کی کتاب’سنن‘،آپ کے اقوال،بعض رواة پر آپ کی جرح دلالت کرتے ہیں۔
فقہی مذہب:
اس تعلق سے اہل علم کا اختلاف ہے۔بعض نے آپ کو حنبلی اور بعض نے شافعی قرار دیا ہے۔لیکن صحیح یہ کہ آپ حنبلی المسلک تھے۔اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ آپ مقلد تھے،بلکہ آپ مجتہد تھے۔امام احمد کی شاگردی اور ان کے بہت سارے اقوال میں موافقت کی وجہ سے لوگوں نے آپ کو مسلکا حنبلی قرار دیا ہے۔اسی بات کی صراحت نواب صدیق حسن خان،امام ابن تیمیہ اور ان کے شاگرد ابن القیم جوزیہ نے کی ہے۔
تالیفات وتصنیفات:
آپ کی بے شمار کتابیں ہیں۔سب سے مشہور کتاب’سنن‘ ہے۔اس کے علاوہ چند کتابوں کے نام ذیل کے سطور میں تحریر کیے جاتے ہیں:
(۱)المراسیل
(۲)الرد علی القدریہ
(۳)الناسخ والمنسوخ
(۴)مسائل الإمام آحمد
(۵)كتاب الزهد
(۶)رسالته في وصف كتاب ’السنن‘
(۷)تسمية الإخوة الذي روي عنهم الحديث
(۸)كتاب البعث والنشور
(۹)دلائل النبوة
(۱۰)أخبار الخوارج

آپ کے تبصرے

3000