سنن ابو داود کے چند مشہور رواة: مختصر حالات زندگی(قسطِ اول)

آصف تنویر تیمی تاریخ و سیرت

ڈاکٹر محمد اسحاق محمد آل ابراہیم(پروفیسرجامعہ امام محمد بن سعود اسلامیہ،ریاض) کی معروف کتاب ’الأصول الستة رِوایاتھا ونسخھا‘ کے مطابق ’سنن ابو داود‘ کے رواة کی مجموعی تعداد۱۰۷ ہے،جن میں سب سے مشہور لؤلوی ہیں۔لؤلوی سے روایت کرنے والے دو ہیں؛ قاسم بن جعفر ہاشمی اور حسین بن بکر وزّان۔اور پھر قاسم سے ۴۱ راویوں نے اور وزّان سے چھ نے سنن کو روایت کی ہے۔
لؤلوی کے بعد امام ابو داود سے سنن کو روایت کرنے والوں میں ابن داسہ اور ابو عیسی رملی کا نام آتا ہے۔پھر ابن داسہ سے ۱۷راویوں نے اور رملی سے ۱۳ نے سنن کو روایت کی ہے۔
امام ابو داود سے براہ راست سنن روایت کرنے والوں میں ابو سعید اعرابی،ابو الحسن بن العبد،احمد بن ابراہیم اشنانی،ابو عمرو احمد بصری اور ابو اسامہ محمد روّاس کا نام آتا ہے۔اور پھر ان لوگوں سے سنن کو روایت کرنے والوں کی ایک معتد بہ تعداد ہے۔جیسے اعرابی سے روایت کرنے والے۲۱؍ افراد،اور ابو الحسن بن العبد سے روایت کرنے والے ۸؍افراد۔اس طرح سنن ابو داود کے رواة کی مجموعی تعداد ایک سو سات۱۰۷ پہنچتی ہے۔
ذیل کے سطور میں ان رواة میں سے چند مشاہیر کی زندگی کے اہم واقعات ذکر کیے جائیں گے تاکہ علماء اور طلبہ ان واقعات سے سبق حاصل کریں۔
(۱)لؤلوی:
آپ کا مکمل نام محمد بن احمد بن عمرو بصری لؤلوی ابو علی ہے۔ابو عمرو ہاشمی نے ان سے متعلق کہا کہ انھوں نے ابو داود رحمہ اللہ سے سنن کو بیس سال تک پڑھا۔ان کو ابو داود کے ورّاق سے موسوم کیا جاتا تھااور بصریوں کے یہاں ورّاق اس کو کہا جاتا ہے جو لوگوں کو پڑھ کر سنائے۔ان کی وفات ۳۳۳ھ میں ہوئی۔
(۲)ابو عمر ہاشمی:
آپ کا پورا نام قاسم بن جعفر بن عبد الواحد بن عباس بن عبد الواحد ہاشمی بصری ابو عمر ہے۔آپ کی پیدائش سنہ ۳۲۲ ھ میں اور وفات ۴۱۴ھ میں ہوئی۔آپ نے سنن کو لؤلوی سے اور ابو بکر خطیب بغدادی سے سنا اور پھر خطیب بغدادی سے اہل علم کی بڑی جماعت نے ابو داود کی سنن کو سنا۔
ابو عمرو قاضی کہتے ہیں کہ میں اپنے ابو کے ساتھ ابو عمرو ہاشمی سے سنن سننے آٹھ سال کی عمر میں گیا، میں تو حاضر ہوا لیکن ٹھیک سے سننا نصیب نہ ہوا جس کی بھرپائی کے لیے ہاشمی کے پاس دوبارہ دس سال کی عمر میں گیا۔آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہمارے اسلاف میں حدیثوں کے سننے کا کس قدر شوق پایا جاتا تھا۔والدین بھی اپنے بچوں کو کم عمری میں محدثین کی مجلس میں شریک کیا کرتے تھے تاکہ وہ علم،ادب اور عبادت سیکھیں۔
(۳)خطیب بغدادی:
آپ کا مکمل نام احمد بن علی بن ثابت بن احمد بن مہدی ابو بکر ہے۔آپ کی ولادت ۳۹۲ ھ میں اور وفات ۴۶۳ھ میں ہوئی۔آپ کی تعلیم وتربیت علم وعمل اور نیکی وبھلائی والے گھر اور خاندان میں ہوئی۔خطیب بغدادی کے والد نیک اور علم وعلماء کے بڑے قدر داں تھے۔شروع سے انھوں نے اپنے بیٹے خطیب کی اسلامی اور دینی نہج پر تعلیم وتربیت کی۔ابتدائی تعلیم کے بعد باضابطہ سماع حدیث کا آغاز خطیب بغدادی نے ۴۰۳ھ میں کیا۔خطیب نے اپنے شہر اور دیگر علمی مراکز کے حدیث،فقہ اور ادب عربی کے اساتذہ سے بھر پور استفادہ کیا۔آپ نے اپنے مشہور اساتذہ کے علاوہ مکہ میں کریمہ سے پانچ دنوں میں صحیح بخاری کو پڑھا۔
خطیب بغدادی معرفت،حفظ،اتقان،علل واسناد،صحیح وضعیف کے ماہر اور بقول امام سمعانی با وقار عالم دین تھے۔
خطیب نے حدیث وعلوم حدیث،تاریخ،علم رجال،فقہ واصول فقہ، رقائق وادب جیسے اہم موضوعات پر تقریبا ۸۶ کتابیں لکھیں۔ان میں ۳۷ حدیث اور علوم حدیث پر، ۲۵ تاریخ اور علم رجال پر،۱۴ فقہ اور اصول فقہ پر،۳ ؍رقائق پر،۲ عقیدہ کے موضوع پر اور ۳؍ ادب کے موضوع پر لکھیں۔
آپ کی اہم کتابوں میں:
تاریخ بغداد
الکفایة فی علم الروایة
الرحلة في طلب الحديث
السابق واللاحق
الأسماء المبهمة في الأنباء المحكمة
الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع،وغیرہ ہیں۔
(۴)ابو بدر الکرخی:
آپ کا مکمل نام ونسب اس طرح ہے:ابراہیم بن محمد بن منصور بن عمر بن علی الکرخی ابو البدر ہے۔آپ کی سال ولادت ۴۵۰ھ اور وفات ۵۳۹ ھ ہے۔ابو سعد سمعانی کہتے ہیں کہ میں نے ان سے بڑا علمی استفادہ کیا۔آپ بغداد کے شہر کرخ میں رہتے تھے۔آپ عمر رسیدہ،نیک،دین پسند اور تنہائی پسند تھے۔ابن نقطہ کہتے ہیں کہ اللہ نے آپ کو مال واسباب سے بھی نوازا تھا۔
(۵)ابو الفتح الرومی:
آپ کا پورا نام مفلح بن احمد بن محمد بن علی بن عثمان بن القاسم الرومی الوراق ابو الفتح ہے۔آپ کی پیدائش ۴۵۷ ھ اور وفات ۵۳۷ ھ کو ہوئی۔آپ نے سنن ابو داود ابو بکر خطیب سے سنا۔
(۶)علی بن سعید العبدری:
آپ کی کنیت ابو الحسن ہے۔آپ نے خطیب بغدادی سے سنن اور ابن حزم سے حدیث کی دیگر کتابیں سنیں۔بغداد آنے کے بعد ابن حزم کے مسلک کو چھوڑ کر ابو بکر شاشی کے فقہی مسلک پر گامزن ہوگئے۔آپ کی وفات ۵۳۷ ھ میں ہوئی۔
(۷)الفضل بن سہل بن بشر بن احمد بن سعید الاسفرائینی ابو المعالی بن ابی الفرج:

آپ کی ولادت سنہ ۴۶۱ ھ کو اور وفات ۵۴۸ھ کو ہوئی۔آپ مصر میں پیدا ہوئے، فلسطین میں نشو ونما پایا،آپ کے والد مشہور محدث تھے اس لیے انھوں نے دِمشق کے بڑے محدثین بالخصوص ابو القاسم علی بن محمد مصیصی سے حدیثیں سنوائیں۔
ابن السمعانی کہتے ہیں: فضل بن سہل نے بذات خود عراق اور شام کا سفر کیا،وہ وہاں تجارت اور شعر کہتے تھے۔ میں نے بغداد میں ان سے سن کر حدیثیں لکھیں۔بعض اہل علم نے ان پر حدیث میں جھوٹ بولنے کی تہمت بھی لگائی ہے،لیکن عمر بن علی قرشی کے بقول فضل بن سہل کی بہت ساری مرویات تقات سے منقول ہیں۔
(۸)عمر بن محمد بن معمر:

آپ کا پورا نام عمر بن معمر بن احمد بن یحیی بن حسان بن طبرزد موفق الدین ابو حفص ہے۔آپ کی سنہ ولادت ۵۶۱ھ اور سنہ وفات ۶۰۷ھ ہے۔
حافظ ابو عبد اللہ محمد بن سعید دبیثی نے آپ کے اساتذہ پر مشتمل دو جلدوں میں کتاب لکھی ہے،جن میں ۸۳؍ اساتذہ کا تذکرہ ہے۔آپ نے سنن ابو داود کرخی ابو بدر اور جامع ترمذی ابو الفتح کروخی سے سنا۔
صحیح حدیثوں پر بڑا ذخیرہ ان کے پاس تھا،ان کے بعض شاگرد ان کو دھوکہ میں رکھ کر ایک جزء کی جگہ حدیث کا دو جزء پڑھنا چاہتے تھے جس پہ شدید ناراض ہوتے اور اپنے ایسے شاگردوں کو اپنے درس سے نکال دیتے تھے،جیسا کہ ابن نقطہ نے اپنی کتاب ’التقیید‘ میں ذکر کیا ہے۔
ابن النجار کہتے ہیں کہ یہ خوش خط تھے،نادان قسم کے اپنے شاگردوں کی گوش مالی بھی کرتے تھے۔دینی امور میں کچھ متساہل(کمزور) بھی تھے۔
(۹)المنذری:
آپ کا پورا نام عبد العظیم بن عبد القوی بن عبد اللہ بن سلامہ بن سعد بن سعید ابن المنذری زکی الدین ابو محمد ہے۔آپ کی ولادت مصر میں سنہ۶۸۱ھ میں اور وفات ۶۵۶ھ میں ہوئی۔
آپ نے اپنے والد کی اچھی تربیت کی بنا پر دس سال کی عمر سے حدیث سننا شروع کردیا تھا۔چیف جسٹس تقی الدین ابن دقیق العید جیسے اعاظم کا شمار آپ کے شاگردوں میں ہوتا ہے۔
حافظ عز الدین کہتے ہیں کہ ہمارے استاد زکی الدین علوم حدیث کے مختلف فنون میں امامت کا درجہ رکھتے تھے۔آپ جیسا ذی علم بہت کم نظر آتا ہے۔
ڈاکٹر بشار عواد نے آپ کی تالیفات کی تعداد۲۵ بتلائی ہے،جن میں الترغیب والترہیب،مختصر صحیح مسلم،مختصر سنن ابو داود،التذکرہ فی وفیات النقلہ معروف ہے۔
(۱۰)ابو العباس الجوخی:
آپ کا پورا نام احمد بن محمد بن احمد بن محمد بن ابو القاسم المسند بدر الدین ہے۔آپ ابن الجوخی اور ابن الزقاق کی کنیت سے مشہور ہیں۔آپ سنہ ۶۸۳ھ کو پیدا ہوئے اور سنہ ۷۶۴ھ کو وفات پائی۔آپ کے بڑے شاگردوں میں حافظ عراقی کا شمار ہوتا ہے۔آپ پہلے فوج میں تھے پھر علم حدیث کی خدمت پر معمور ہوگئے۔
(۱۱)یونس بن ابراہیم بن عبد القوی بن قاسم بن داود الکنانی العسقلانی الدبابیسی فتح الدین ابو النون:

آپ کی سالِ ولادت ۶۳۵ھ اور سالِ وفات ۷۲۹ھ ہے۔آپ کے ہونہار شاگردوں میں امام مزی،بِرزالی، ابن نباتہ،ابو العلاء الفرضی،ام سُبکی اور ابن رافع کا شمار ہوتا ہے۔واضح رہے کہ امام برزالی، امام ابن تیمیہ کے چہیتے شاگرد ہیں اور ان کی کتاب امام ابن تیمیہ کے سوانح پر مرجع کی حیثیت رکھتی ہے۔
حافظ ابن حجر ابو النون سے متعلق کہتے ہیں کہ آپ نہایت دیندار،خاموش مزاج اور علم حدیث اور دوسروں تک پہنچانے کے شوقین تھے۔ابن العماد کے بقول اللہ نے انھیں ذہانت وفطانت کا غیر معمولی حصہ عطا کیا تھا۔
(۱۲)ابو علی التستری:
آپ کا مکمل نام علی بن احمد بن علی بن ابراہیم بن بحر التستری البصری السقطی ہے، ابو علی کنیت تھی۔آپ نے سنن ابو داود قاضی ابو عمر قاسم بن جعفر ہاشمی سے سنا۔آپ کے اساتذہ میں حافظ ابو الفضل محمد بن طاہر مقدسی ،موتمن بن احمد ساجی اور عبد اللہ بن احمد سمر قندی کا ذکر جمیل ہوتا ہے۔اور آپ کے قابِل فخر شاگرد ابو غالب محمد بن حسن ماوردی بصری اور عبد الملک بن عبد اللہ حربی ہیں۔آپ سے ان گنت لوگوں نے سنن ابو داود سنا۔
(۱۳)نصر بن ابو الفرج محمد بن علی حنبلی حصری بغدادی ابو الفتح:
آپ رمضان ۵۳۶ھ میں پیدا ہوئے اور ربیع الآخر ۶۱۹ ھ کو وفات پاگئے۔آپ نے قرآن کریم، قرأت کے ساتھ ابو بکر محمد بن عبید اللہ زاغونی،ابو الکرم مبارک ابن شہرزوری اور ابو المعالی ابن السمین سے پڑھا۔حدیثیں ابو الوقت عبد الاول سجزی اور ابو زرعہ طاہر بن محمد بن طاہر مقدسی وغیرہ سے پڑھیں۔ خاص طور سے سنن ابو طالب محمد بن محمد بن ابو زید علوی سے سنا۔آپ کے شاگردوں ابن النجار،زکی الدین منذری،برزالی اور ضیاء الدین مقدسی کا نام ملتا ہے۔
آپ علوم وفنون کے ماہر اور دین اسلام کے شہسوار تھے۔روزہ اور تلاوتِ کلام پاک کے بڑے پابند تھے۔تقریبا تیس سالوں تک مکہ کے پڑوس میں زندگی گزاری۔
(۱۴)ابو عبد اللہ بن مرزوق:
آپ کا مکمل نام محمد بن احمد بن محمد بن محمد بن محمد بن ابو بکر بن مرزوق تلمسانی شمس الدین ابو عبد اللہ ہے۔آپ کی ولادت سنہ۷۱۱ھ اور وفات ۸۸۱ھ میں ہوئی۔آپ نے تلمسان کے بڑے اساتذہ فن سے کسبِ فیض کیا،جن میں الزبیر بن علی أسوانی،عبد اللہ بن محمد ابن فرحون، الخطیب الحسن بن علی واسطی اور ایمن تونسوی کے اسماء قابل ذکر ہیں۔آپ کے مکی اور دیگر شہروں کے اساتذہ کی بھی ایک فہرست ہے جس کو’عجالہ المستوفی‘ نامی کتاب میں ذکر کیا گیا ہے۔آپ کی مشہور کتاب شرح العمدہ(پانچ جلد میں)، شرح الشفاء اور شرح الأحکام الصغری ہے۔
(۱۵)ابو بکر محمد بن ھشام القیسی:
آپ کا مکمل نام ونسب اس طرح ہے محمد بن ھشام بن محمد بن عثمان بن عبد اللہ بن سلمہ بن عباد بن یونس القیسی القرطبی ابو بکر۔آپ کے اساتذہ میں ابو الفتوح ثابت بن محمد جرجانی، ابو الحسن علی ابن ابراہیم تبریزی اور ابو عبد اللہ فتحون کا نام شامل ہے۔آپ کے شاگرد ابو علی غسّانی کہتے ہیں کہ قیسی ادبِ عربی کے ماہر اور اپنے طلبہ کے خیر خواہ تھے۔ذہانت،اخلاق،نرم گفتگو اور مطالعہ کے بے حد شوقین تھے۔بڑھاپے میں بھی کتابوں کا ساتھ نہ چھوڑا۔

آپ کے تبصرے

3000