سنن ابو داود کے چند مشہور رواة: مختصر حالات زندگی(قسط دوم)

آصف تنویر تیمی تاریخ و سیرت

[پہلی قسط میں سنن ابو داود کے پندرہ(۱۵) رواة کے مختصر سوانح کو قارئین نے پسند کیا، دوسری اور آخری قسط حاضر ہے، امید ہے اہل علم اس کڑی کو بھی پسند کی نگاہ سے دیکھیں گے]
(۱۶)علی ابن احمد بن خلف الانصاری المقرئی:
آپ کی کنیت ابو الحسن اور ابن الباذش سے مشہور ہیں۔آپ شہر غرناطہ میں ۴۴۴ھ میں پیدا ہوئے اور ۵۲۸ھ میں وفات پائی۔آپ کے شاگردوں میں ابن بشکوال اور ابن عطیہ مشہور ہیں۔ابن بشکوال کہتے ہیں کہ آپ ادب،لغت،علم قرأت، علم حدیث اور رجال میں مہارت رکھتے تھے۔
(۱۷)طرطوشی الفہری:
آپ سنہ ۴۵۱ھ میں پیدا ہوئے،۵۲۰ھ میں اسکندریہ میں وفات پائی۔آپ کے اساتذہ میں ابو الولید الباجی،ابو بکر الشاشی،احمد الجُرجانی اور ابو علی التستری مشہور ہیں۔ اورشاگردوں میں ابو بکر ابن العربی، ابو علی الصُّدفی اور ابو طاہر ابن عوف کا تذکرہ ہوتا ہے۔آپ عالم،متقی،پرہیز گار،متواضع اور دنیاداری سے دور نیک انسان تھے۔آپ کی تصنیفات میں سراج الملوک،کتاب بر الوالدین اور کتاب الفتن مشہور ہیں۔
(۱۸)ابن داسہ:
آپ کا مکمل نام محمد بن بکر بن محمد بن عبد الرزاق بن داسہ البصری التمارہے۔ابو بکر کنیت اور ابن داسہ سے شہرت رکھتے ہیں۔آپ نے امام ابو داود، ابو جعفر محمد بن الحسن بن یونس الشیرازی اور ابراہیم بن فہد الساجی سے سنن ابو داود کو سنا۔آپ کے شاگردوں میں ابو سلیمان احمد الخطابی اور عبد اللہ بن محمد ابن عبدالمومن القرطبی(جو امام ابن عبد البر کے استاد ہیں) مشہور ہیں۔
حافظ ذہبی، ابن داسہ سے متعلق کہتے ہیں کہ یہ آخری شخص ہیں جنھوں نے ابو داود سے مکمل سنن کو روایت کیا ہے۔
ابن داسہ کی وفات سنہ۳۴۶ھ میں ہوئی۔
(۱۹)محمد بن عبد الرحمن بن علی بن عبد الرحمن النمیری:
آپ غرناطہ کے رہنے والے تھے۔آپ کے اساتذہ میں ابن عطیہ،عیاض بن موسی اور ابن العربی کا نام آتا ہے۔
ابن فرحون کہتے ہیں کہ آپ حدیث کے ماہر،علل کے جانکار اور اسماء ورجال کی باریکیوں سے واقف تھے۔آپ کے زمانے میں کوئی آپ کا مد مقابل نہ تھا۔
(۲۰)ابو عیسی الرملی:
آپ کا پورا نام اسحاق بن موسی بن سعید بن عبد اللہ بن ابو سلمہ الرملی ہے۔آپ کی کنیت ابو عیسی ہے۔آپ کے اساتذہ میں محمد بن عوف الحمصی اور شاگردوں میں ابو حفص بن شاہین شہرت رکھتے ہیں۔امام الدار قطنی نے آپ کو ثقہ قرار دیا ہے۔آپ کا سال وفات ۳۲۰ھ ہے۔
(۲۱)احمد بن سعید بن حزم بن یونس الصُدفی:
آپ کی کنیت ابو عمر تھی۔آپ سنہ۲۸۴ ھ میں پیدا ہوئے اور ۳۵۰ ھ میں وفات پائی۔آپ کے اساتذہ میں سعید بن عثمان الاعناقی، سعید بن حمیر،محمد بن عمر بن لبابہ اور محمد بن حیّون،ابو جعفر العقیلی،ابو بکر ابن المنذر،ابن الاعرابی وغیرہ کا نام کافی مشہور ہے۔اور آپ کے سب سے خاص شاگرد ابن عبد البر ہیں۔
حُمیدی کہتے ہیں کہ آپ علم وادب میں ید طولی رکھتے تھے خاص طور سے علم بلاغت میں آپ کو کامل دسترس حاصل تھا۔امام ذہبی نے آپ کو علم حدیث کے ساتھ بڑا مورخ قرار دیا ہے۔
(۲۲)احمد بن محمد بن زیاد بن بشر بن درہم بن الاعرابی:
آپ کی کنیت ابو سعید ہے۔آپ نے مکہ میں سکونت اختیار کی اور حرم کے استاد رہے۔آپ کی ولادت سنہ۲۴۳ یا۲۴۶ھ میں ہوئی اور ۳۴۰ ھ میں مکہ ہی میں وفات پائی۔
آپ کے اساتذہ میں الحسن بن محمد بن الصباغ الزعفرانی،محمد بن عبد الملک الدقیقی اور محمد بن اسماعیل الترمذی وغیرہ شمار ہوتے ہیں۔اور شاگردوں میں ابو بکر ابن المقری،ابو عبد اللہ بن مندہ،عبد اللہ بن یوسف الاصبہانی اور عبد اللہ بن محمد القطان بکثرت ذکر ہوتے ہیں۔
امام ذہبی کہتے ہیں کہ ابن الأعرابی کے سنن ابو داود کی روایت میں سند اور متن کے لحاظ سے کچھ اضافے بھی ہیں۔آپ نے مختلف شہروں کا سفر کرکے اپنے مشائخ سے حدیثیں سنیں اور احادیث پر مشتمل معجم بھی تیار کیا۔
امام ذہبی مزید ان سے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ امام،محدث،صادق،حافظ اور شیخ الاسلام تھے۔آپ کا شمار علماء صوفیہ میں بھی ہوتا ہے۔عظیم المرتبت انسان دنیا کی ہنگامہ آرائی سے بالکل دور تھے۔آپ کا اکثر وبیشتر وقت خدمت حدیث اور عبادت میں بسر ہوتا تھا۔
(۲۳)ابو عمر الحذاء:
آپ کا پورا نام احمد بن محمد بن یحی بن احمد بن محمد بن عبد اللہ بن محمد بن یعقوب بن داود التمیمی ہے۔ آپ ابن الحذاء سے مشہور تھے اور ابو عمر کنیت ہے۔ولادت ۳۸۰ھ اور وفات۴۶۷ ھ میں ہوئی۔
آپ نے بچپن سے حدیثوں کو سننا شروع کردیا تھا،آپ کی اکثر مرویات آپ کے والد سے ہیں۔نیز اپنے زمانے کے مشاہیر محدثین سے کسب فیض کیا۔آپ نے اللہ کی توفیق کے بعد اپنی کد وکاوش سے وہ علمی مقام حاصل کیا جو آپ کے والد کو حاصل تھا اور تاحیات مختلف شہروں میں آپ قضا کے منصب پر فائز رہے۔
ابو علی غسّانی کہتے ہیں: ابو عمر لوگوں میں سب سے زیادہ اخلاق مند اور خوش مزاج تھے۔لوگوں کی ضروریات کی تکمیل میں پیش قدمی کرتے تھے۔
(۲۴)ابن العبد:
آپ کا مکمل نام علی بن محمد بن العبد الوراق ہے۔ ابن العبد اور ابو الحسن کی کنیت سے معروف ہیں۔ آپ نے سنن ابو داود کو براہ راست امام ابو داود اور عثمان بن خرزاد الانطاکی سے سنا۔آپ کے شاگردوں میں امام الدار قطنی اور ابن الثلاج کا نام کافی مشہور ہے۔آپ کی وفات۳۲۸ ھ میں ہوئی۔
(۲۵)ابو طاہر السِّلفی:
آپ کا پورا نام احمد بن محمد بن احمد بن محمد بن ابراہیم السلفی الاصبہانی ہے۔آپ کی کنیت ابو طاہر ہے۔ آپ سال۴۷۵ ھ میں اصبہان میں پیدا ہوئے اور ۵۷۶ھ میں وفات پائی۔
آپ کے مشہور اساتذہ میں محمد ابن محمد بن عبد الرحمن المدینی،سعید بن محمد الجوہری،حافظ احمد بن محمد مردویہ اور ابو القاسم الخرقی کا شمار ہوتا ہے۔اور تلامذہ میں سند بن عنان بن ابراہیم الأزدی، ابو محمد عبدالغنی بن عبد الواحد الجمّاعیلی، ابو الحجاج یوسف المعروف بابن الشیخ، ابو اسحاق ابراہیم بن محمد الاشبیلی اور ابو محمد الرُّھاوی کے اسماء ملتے ہیں۔
ابو سعد السمعانی کہتے ہیں کہ ابو طاہر السلفی ثقہ،ماہر اور متقی، حافظ حدیث، عربی زبان کے ماہر اور بابصیرت انسان تھے۔
حافظ ابن نقطہ کہتے ہیں کہ ابو طاہر نے بہ کثرت علمی اسفار کیا،حافظ اور ثقہ تھے۔آپ سے آپ کے دوستوں اور مشائخ کو کافی علمی فائدہ پہنچا۔
ابن الآبار اور امام ذہبی نے بھی ابو طاہر السلفی کے علمی مقام ومرتبہ کا اعتراف کیا اور ان کی شان میں اچھے کلمات قلمبند کیے ہیں۔
(۲۶)علی بن محمود بن احمد بن علی بن احمد بن عثمان بن موسی المحمودی الصابونی:
آپ کی کنیت ابو الحسن ہے۔ولادت تقریبا۵۵۶ھ میں ہوئی اور وفات کا سال ۶۴۰ ھ ہے۔۸۴ سال کی کل عمر پائی۔آپ کے اساتذہ میں آپ کے والد محمود، ابو طاہر السلفی، ابو جعفر الصیدلانی اور ابو عیسی المدینی وغیرہ کا نام ملتا ہےاور آپ کے مشہور شاگرد زکی الدین المنذری ہیں۔امام ذہبی اور امام المنذری نے علی بن محمود کا تزکیہ کیا ہے۔آپ علم وعمل کے اعلی رتبے پر فائز تھے۔

آپ کے تبصرے

3000