کسی بھی عربی کتاب میں بہت سارے ایسے الفاظ اور علمی اصطلاحات ہوتے ہیں جہاں تک بہت سارے قارئین کی رسائی نہیں ہوتی، خصوصًا علمائے متقدمین کی کتابوں میں ایسے بے شمار کلمات اور اصطلاحات ہوتے ہیں جن کا صحیح معنی ہمیں معلوم نہیں ہوتا۔ ان مشکل الفاظ کی معرفت اور تفہیم کے لیے ہمیں ڈکشنریوں کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔
اسی طرح جب ہم کوئی علمی مقالہ لکھتے ہیں تو بہت سارے الفاظ کے معانی بیان کرنے کے لیے ڈکشنریوں کا حوالہ دینا پڑتا ہے، لیکن منہجیت کے فقدان کی وجہ سے بسا اوقات بعض مقالےاہل علم کے مابین معیوب بلکہ مضحکہ خیز شمار کیے جاتے ہیں۔ بعض مقالہ نگارشروحات حدیث یا کتب تفاسیر یا کتب فقہ وغیرہ سے ایسے مشکل الفاظ کا معنی بیان کرتے ہیں جو علمی مقالوں میں ایک معیوب چیز مانی جاتی ہے، الا یہ کہ وہ معنی کتب معاجم یا کتب غریب میں مقالہ نگار کو کہیں نہ ملے تو ان ثانوی مصادر سے بھی مدد لے سکتا ہے۔ہاں اگر اصل مصادر میں اس کا معنی وضاحت کے ساتھ نہ ہو، اجمال کے ساتھ ہو تو پہلے مصادر اصلیہ سے استفادہ کرنے کے بعد مزید وضاحت کے لیے ان ثانوی مصادر کا حوالہ دے سکتا ہے۔
”ڈکشنری“ کے لیے عربی میں ”معجم“ یا ”قاموس“ کا لفظ مستعمل ہے۔ کسی معجم (ڈکشنری) کا انتخاب کرتے وقت یہ خیال رکھنا چاہیے کہ حتی الامکان وہ متقدم ہو۔متقدم معاجم میں مطلوبہ معلومات موجود ہونے کے باوجود متأخر معاجم کی طرف رجوع کرنا مناسب نہیں۔ بلکہ بسا اوقات دیکھا جاتا ہے کہ متأخر معجم کے مصنف نے کوئی چیز اپنے متقدمین سے نقل کی ہے اور مقالہ نگار اصل مصدر کا حوالہ نہ دے کر متأخر معاجم کا حوالہ پیش کرتا ہے۔عام طلبہ کے مابین گرچہ یہ چل جاتا ہو لیکن علمی مقالوں میں یہ مناسب نہیں۔
اس لیے کسی معجم سے کسی مشکل کلمہ کا معنی نقل کرتے وقت یہ دھیان رکھنا چاہیے کہ یہ چیز انھوں نے اپنے کسی متقدم سے نقل کی ہے یا نہیں، کیونکہ اکثر متأخرین مصنفین نے اپنے سابقین کی کتابوں پر کام کیا ہے یا سابقین کی کتابیں ان کا اہم مصدر رہی ہیں۔بطور مثال ملاحظہ فرمائیں:
(۱)ابن فارس فرماتے ہیں کہ مقاییس اللغہ میں ان کا اعتماد علمائے سابقین کی ان پانچ کتابوں پر ہے: كتاب العين للخليل، إصلاح المنطق لابن السكيت، جمهرة اللغة لابن دريد، غريب الحديث اور الغريب المصنف لأبي عبيد۔[مقاییس اللغہ: مقدمہ۵۰۴]
(۲)امام صغانی کی ”العباب“نے گویا سابقہ معاجم کو اپنے اندر سمیٹ لیا ہے، خصوصًا كتاب العين، جمهرة اللغة، الصحاح، تهذيب اللغة اورمقاييس اللغة وغیرہ کو۔ [المعاجم اللغویہ لمحمد احمد ابی الفرج: ص۲۸]
(۳)ابن منظور نے لسان العرب میں پانچ کتابوں پر اعتماد کیا ہے، وہ ہیں:تهذيب اللغة للأزهري، المحكم لابن سيده، الصحاح للجوهري، حواشي ابن بري على الصحاح، والنهاية لابن الأثير۔فرماتے ہیں: ’’میری اس کتاب سے نقل کرنے والا یہ سمجھے کہ گویا وہ انھیں پانچ اصولوں (کتابوں ) سے نقل کر رہا ہے۔‘‘ [لسان العرب:۱/۸]
(۴)فیروز آبادی کی القاموس المحیط کے مراجع میں سے چند اہم مراجع یہ ہیں:العين للخليل، الجمهرة لابن دريد، الصحاح للجوهري، المحكم لابن سيده، تهذيب اللغة للأزهري، العباب للصغاني۔ [المعاجم اللغویہ لمحمد احمد ابی الفرج: ص۲۹]
(۵)فیروزآبادی کی القاموس المحیط پر تاج العروس جیسی ضخیم قاموس کی بنیاد ہے۔ زبیدی نے اس میں القاموس المحیط کی شرح کی ہے اور اس پر کافی استدراک کیا ہے۔
لہذا ان جیسی کتابوں سے کوئی چیز نقل کرتے وقت اصل مصادر کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور حتی الامکان اصل مصادر سے ہی اسے نقل کرنا چاہیے۔
کتب المعاجم سے استفادہ سے پہلے ان معاجم میں الفاظ کی ترتیب کا علم ہونا ضروری ہے۔ متأخرین علما کے یہاں حروف معجم (ا ، ب، ت، ث، ج، ح…) پر ترتیب دینا رائج ومعروف ہے لیکن متقدمین علماکے یہاں بعض کتابوں میں یہ ترتیب موجود نہیں ہے۔ بعض نے اسے مخارج الحروف اور مقلوبات الکلمہ پر مرتب کیا ہے تو بعض نے کلمہ کے آخری حرف پر اسے مرتب کیا ہے۔ اس لیے کسی بھی معجم سے استفادہ سے پہلے اس کی ترتیب کا علم ہونا ضروری ہے تاکہ مطلوبہ کلمہ تک بآسانی پہنچ سکے۔ ذیل میں بطور نمونہ چند مشہور ومعتبر معاجم کی ترتیب بیان کی جارہی ہے۔
حروف حلقیہ اور مقلوبات الکلمہ پر مرتب بعض معاجم یہ ہیں:
(۱)كتاب العين للخليل بن أحمد الفراهيدي (ت۱۷۰ھـوقيل:۱۷۵ھ)
یہ پہلی ڈکشنری ہے جو ہم تک پہنچی ہے۔اسے خلیل نے مخارج الحروف پر مرتب کیا ہے، حلق کے سب سے آخری حصے سے ادا ہونے والے حروف سے شروع کیا ہےاور ہونٹوں سے ادا ہونے والے حروف پر اسے ختم کیا ہے۔ اس لیے اس کی ترتیب اس طرح ہے: ع ح ھ خ غ ق ک ج ش ض ص س ز ط ت د ظ ذ ث ر ل ن ف ب م و ی ا ۔
ان میں سے ہر حرف کو کتاب کا نام دیا ہے۔مثلًا پہلے حرف کا نام کتاب العین ہے۔ اسی سے کتاب کا نام بھی کتاب العین سے مشہور ہے۔
کتاب میں وارد الفاظ کو انھوں نے الٹ پلٹ کرکے ایک لفظ سے متعدد الفاظ تیار کیے ہیں اور ان پر بحث کی ہے، جسے قلب کہا جاتا ہے۔ مثلًا لفظ ’رب‘ کو لیں، اسے قلب (الٹ پلٹ) کر دیا جائے تو یہ ’بر‘ بن جاتا ہے۔لفظ ’حبر‘ کو قلب کیا جائے تو یہ الفاظ بنتے ہیں: ربح، بحر، رحب، حرب، برح۔ وقس علی ھذا۔
اس سے بعض کلمات ایسے تیار ہو سکتے ہیں جن کا کوئی معنی نہیں ہے۔ اسی لیے بعض کلمات کے متعلق خلیل نے کہا ہے کہ عرب نے اسے استعمال نہیں کیا ہے، یہ ایک مہمل لفظ ہے۔ حالانکہ ان کے بعد آنے والے علما نے ان پر استدراک بھی کیا ہےاور بعض جن الفاظ کو خلیل نے مہمل قرار دیا تھا انھیں دلائل کی روشنی میں مستعمل قرار دیا ہے۔
اس طریقے پر علمائے مقتدمین میں سے اور بھی دوسرے علما نے کتابیں لکھی ہیں۔ مثلًا:
(۲)البارع في اللغة لأبي علي القالي (ت۳۵۶ھ)
کتاب العین سے قالی نے کافی استفادہ کیا ہے۔ اوران پر کافی اضافہ بھی کیا ہے خصوصًا جن الفاظ کو خلیل نے مہمل کہا تھا ان میں سے بہت سارے کلمات کے معانی اور کلام عرب سے ان کے شواہد کو ذکر کیا ہے۔ حالانکہ ابو علی القالی پربھی اس حوالے سے ان کے شاگرد ابو بکر الزبیدی نے استدراک کیا ہے اور ”المستدرک من الزیادۃ فی کتاب البارع علی کتاب العین“نامی کتاب لکھی ہے۔کتاب البارع کا اکثر حصہ مفقود ہے اور صرف ایک ٹکڑا مطبوع ہے۔
(۳)تهذيب اللغة لأبي منصور الأزهري (ت۳۷۰ھ)
یہ ایک ضخیم ڈکشنری ہے۔ اس کا مقدمہ بڑا اہم ہے۔ شرعی نصوص سے شواہد کا خوب اہتمام کیا ہے کیونکہ اس کے مؤلف نہ صرف لغوی بلکہ معروف شافعی فقیہ بھی تھے۔ اکثر متأخرین لغویوں کا یہ ایک اہم مصدر رہا ہے۔ مثلًا مختار الصحاح، العباب اور لسان العرب وغیرہ کا۔
(۴)المحكم والمحيط الأعظم لابن سيده الأندلسي (ت۴۵۸ھ)
اس کا مقدمہ بڑا طویل ہے۔ اس میں بھی بہ کثرت شواہد کا استعمال کیا گیا ہے۔ صرفی ونحوی مسائل پر کافی بحث موجود ہے۔اور یہ بعد کی ڈکشنریوں کا ایک اہم مصدر ہے۔
ڈکشنریوں میں الفاظ کی ترتیب کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ انھیں حروف معجم(ا ب ت ث ج ح ..الخ) پر مرتب کیا جائے۔ اس نہج پر بے شمار ڈکشنریوں کو مرتب کیا گیا ہے۔ بعض نمونے ملاحظہ فرمائیں:
(۱)كتاب الجيم لأبي عمرو الشيباني (ت۲۰۶ھ)
یہ بہت مختصر لیکن بہترین ڈکشنری ہے، مگر صرف نوادر لغت پر مشتمل ہے۔
(۲)جمهرة اللغة لابن دريد (ت۳۲۱ھ)
یہ حروف معجم پر مرتب ہے لیکن کتاب العین کی طرح مقلوبات الکلمہ کا اس میں استعمال ہے۔ اس کا اکثر حصہ ابن درید نے اپنے حافظہ سے املا کروایا ہے، اس لیے اس میں کچھ جگہوں پر انھیں وہم بھی ہوا ہے۔
(۳)مقاييس اللغة لابن فارس (ت۳۹۵ھ)
اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں ہر مادے کا اصل بیان کیا گیا ہے۔ ہر مادے کے مفردات کو بیان کرنے کے ساتھ ابن فارس ایک یا زائد ایسا مشترک معنی بیان کرتے ہیں جس میں اس کے تمام مفردات شامل ہوں۔ چھ جلدوں میں شیخ المحققین عبد السلام محمد ہارون کی تحقیق سے مطبوع ہے۔
(۴)مجمل اللغة لابن فارس (۳۹۵ھ)
یہ کتاب مختصر ہے مگر بہت ہی محررانداز میں لکھی گئی ہے۔ غریب القرآن کی خاص رعایت کی ہے۔
دونوں کتابوں میں ابن فارس نے ترتیب میں ہر حرف میں اس کے بعد والے حرف سے ابتدا کی ہے اور اسی ترتیب سے آگے بڑھے ہیں۔ مثلًا را میں اس کلمہ کو پہلےذکر کیا ہے جو را اور زا سے شروع ہوتا ہے، پھر جو را اور سین سے شروع ہوتا ہے، یہاں تک کہ را اور ذال کی باری آجائے، وقس علی ھذا۔
(۵)أساس البلاغة للزمخشري (ت۵۳۸ھ)
اس میں لفظ کے حقیقی معنی اور پھر اس کے مجازی استعمال کا ذکر ہے۔ اُدَبا کے لیے بہت مفید ہے۔
ڈکشنریوں میں الفاظ کی ترتیب کا تیسرا طریقہ یہ ہے کہ کلمہ کے آخری حرف پر انھیں مرتب کیا جائے۔ مثلًا ’کتب‘ کو حرف الباء میں رکھنا، حرف الکاف میں نہیں۔ اس ترتیب کا فائدہ یہ ہے کہ کلمہ کے پہلے حرف میں تصریفات اور قلب کی صورت میں تبدیلی کا ہمیشہ ڈر لاحق ہوتا ہے لیکن آخری حرف میں نہیں۔اس نہج پر بھی بہت ساری ڈکشنریوں کو مرتب کیا گیا ہے۔ بعض نمونے ملاحظہ فرمائیں:
(۱)الصحاح للجوهري (ت۳۹۳ھ-قريبًا)
یہ ایک ضخیم ڈکشنری ہے جس میں چالیس ہزار لغوی مادے موجود ہیں۔ یہ عمدہ ڈکشنریوں میں سے ایک ہے۔ اس کتاب کو جو مقبولیت حاصل ہوئی دیگر کو کم ہی حاصل ہو سکی۔ اسی لیے علمائے کرام کی ایک بہت بڑی جماعت نے اس پر متعدد کتابیں تصنیف کی ہیں جن کی تعداد سو سے زائد ہے۔ کسی نے تعلیق چڑھائی تو کسی نے اس پر تکملہ کا کام کیا، کسی نے استدراک کیا تو کسی نے مقارنہ، کسی نے نقد کیا تو کسی نے دفاع، کسی نے اختصار کیا تو کسی نے اسے منظومہ کی شکل دی۔ ان تمام خدمات کی تفصیلات جاننے کے لیے الصحاح پر استاد عباس محمود العقاد کا مقدمہ (ص۱۵۷-۲۱۲) پڑھیں جس میں انھوں نے ایک سو نو (۱۰۹) کتابوں کا ذکرکیا ہے۔
(۲)العباب الزاخر واللباب الفاخر للصغاني (ت۶۵۰ھ)
اس کتاب کے مؤلف کا تعلق قدیم غیر منقسم ہندوستان سے ہے۔صحیح بخاری کا ان کا نسخہ ’نسخہ بغدادیہ‘ کے نام سے مشہور ہے جس سے حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں کافی استفادہ کیا ہے۔ ان کے سوانح حیات اور علمی خدمات پر خاکسار کا ایک مقالہ بعنوان: ”علامہ صغانی: متحدہ ہندوستان کا ایک راوی صحیح بخاری“فری لانسر میں شائع ہو چکا ہے۔ یہ ایک محدث اور فقیہ کے ساتھ بہت بڑے لغوی تھے۔ ان کی یہ کتاب بڑی اہمیت کی حامل ہے لیکن افسوس کہ غیر مکمل ہے۔ امام سیوطی اس کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
أعظمُ كتابٍ أُلِّفَ في اللغة بعد عَصْرِ الصحاح كتابُ المُحْكَم والمحيط الأعظم لأبي الحسن علي بن سِيدَه الأندلسي الضَّرير ثم كتابُ العُباب للرضي الصَّغاني۔ [المزھر فی علوم اللغہ وانواعہا:۱/۷۶]
(زمانۂ ”الصحاح“کے بعد لغت میں جو سب سے عظیم کتاب لکھی گئی وہ ابو الحسن علی بن سیدہ الاندلسی الضریر کی کتاب المحکم والمحیط الأعظم ہے ، پھر رضی صغانی کی کتاب العباب ہے)
(۳)لسان العرب لابن منظور الأفريقي (ت۷۱۱ھ)
یہ ان کے زمانے تک کی سب سے ضخیم ڈکشنریوں میں سے ایک تھی۔ اس میں اسی ہزار سے زائد لغوی مادے موجود ہیں۔ اس میں نصوص سے شواہد، کلمات پر ضبط، روایات کے مابین ترجیح جیسی سبھی خوبیاں موجود ہیں۔بہت سارے علما نے اس کی علمی خدمت کی ہے۔
(۴)القاموس المحيط للفيروزآبادي (ت۸۱۷ھ)
یہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے استاد ہیں جن سے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کافی استفادہ کیا ہے۔یہ بھی ایک ضخیم ڈکشنری ہے جس میں ساٹھ ہزار لغوی مادے موجود ہیں۔ انھوں نے پہلے ’اللامع المعلم العجاب الجامع بين المحكم والعباب‘ کے نام سے ایک ڈکشنری تصنیف کرنی شروع کی تھی۔ پانچ جلدوں کے بعد انھیں لگا کہ یہ بہت طویل ہو جائےگی اور سو جلدوں تک پہنچ جائےگی جس کا مراجعہ طلبہ کے لیے مشکل ہوگا، پس سابقہ ارادہ ترک کرکے اس سے مختصر یہ کتاب تصنیف کی جو کہ پھر بھی بہت ضخیم ہے۔
یہ بہت ہی مفید ڈکشنری ہے۔ اسی لیے علمائے کرام کی ایک جماعت نے اس پر مستقل کتابیں تصنیف کی ہیں، جن میں سے سب سے مشہور زبیدی کی ”تاج العروس“ہے۔
(۵)تاج العروس من جواهر القاموس للزبيدي (ت۱۲۰۵ھ)
یہ القاموس للفیروزآبادی کی شرح ہے اور اس پر کافی استدراک بھی کیا ہے۔ اس کے مؤلف اگرچہ متأخر الوفات ہیں لیکن ان کی یہ کتاب بہت ہی مفید اور ضخیم ہے، بلکہ یہ اب تک کی سب سے بڑی ڈکشنری ہے۔ اس میں ایک لاکھ بیس ہزار لغوی مادے موجود ہیں جنھیں مؤلف نے چودہ سال سے زائد مدت میں چھ سو مصادر سے جمع کیا ہے۔
اب تک جن معاجم کی بات کی گئی ان کا شمار ’معاجم الالفاظ‘ میں ہوتا ہے۔بہت سارے ایسے معاجم بھی ہیں جن کا تعلق معانی کے ساتھ ہے۔ یعنی ایک معنی اور موضوع سے متعلق الفاظ کو ایک جگہ جمع کردیا گیا ہے۔ چاہے ایک ہی موضوع پر مستقل کتاب میں ہویا ایک کتاب میں کئی ایک موضوعات کو جمع کیا گیا ہو۔بطور نمونہ درج ذیل معاجم ملاحظہ فرمائیں:
(۱)خلق الإنسان للأصمعي (ت۲۱۶ھ)
(۲)كتاب الإبل للأصمعي
(۳)خلق الفرس لمحمد بن زياد الأعرابي (ت۲۳۱ھ)
(۴)كتاب الخيل لمعمر بن المثنى (ت۲۱۰ھ)
اس کتاب کے مختصر تعارف پر خاکسار کا ایک مضمون فری لانسر میں شائع ہو چکا ہے۔
(۵)كتاب الخيل للأصمعي
(۶)كتاب الشاء للأصمعي
(۷)كتاب الوحوش للأصمعي
(۸)كتاب النخل لأبي حاتم السجستاني (ت۲۵۵ھ)
(۹)كتاب السلاح للأصمعي
(۱۰)كتاب البئر لمحمد بن زياد الأعرابي (ت۲۳۱ھ)
(۱۱)كتاب الريح لابن خالويه (ت۳۷۰ھ)
ان تمام کتب میں ایک ہی قسم کے معنی کو موضوع بحث بنایا گیا ہےاور اس کے متعلق الفاظ پر بحث کی گئی ہے۔ جب کہ بعض ایسی کتابیں بھی ہیں جن میں مختلف موضوعات پر بحث کی گئی ہے۔ بطور نمونہ ملاحظہ فرمائیں:
(۱)الغريب المصنف لأبي عبيد القاسم بن سلام (ت۲۲۴ھ)
(۲)كتاب الألفاظ لابن السكيت (ت۲۴۴ھ)
(۳)فقه اللغة وسر العربية للثعالبي (ت۴۲۹ھ)
(۴)المخصص لابن سيده (ت۴۵۸ھ)
(۵)تهذيب الألفاظ للخطيب التبريزي (ت۵۰۲ھ)
مقالہ نگاروں اور مصنفین کو چاہیے کہ مشکل الفاظ کی شرح کے لیے ان مذکورہ معروف ومعتبر متقدم معاجم کی طرف رجوع کریں۔ ان معاجم میں مطلوبہ لفظ موجود ہونے کے باوجود معاصرین کی ڈکشنریوں کی طرف رجوع کرنا صحیح نہیں۔ مثلًا بعض باحثین مذکورہ متقدم ڈکشنریوں کی طرف رجوع نہ کرکے ان درج ذیل ڈکشنریوں کی طرف رجوع کرتے ہیں:
المعجم الكبير، المعجم الوسيط، المعجم الوجيز(انھیں مجمع اللغہ العربیہ مصر نے شائع کیا ہے)، معجم الفرائد للدكتور إبراهيم السامرائي، القاموس الجديد للجنة من اللغويين في تونس، المنجد للويس معلوف، البستان لعبد الله الميخائيل البستاني، الرائد لجبران مسعود، الشامل لمحمد سعيد إسبر وبلال جنيدي، المعجم العربي الحديث لاروس للدكتور خليل البحر وغیرہ ۔
ان کا یہ عمل قابل تعریف نہیں۔ ہاں اگر متقدم ڈکشنریوں میں مطلوبہ معلومات نہ ملیں تو ان جدید ڈکشنریوں کی طرف رجوع کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
ان معاصر ڈکشنریوں میں سب سے معتمد ’المعجم الوسیط‘ ہے۔ شیخ محمد عزیر شمس حفظہ اللہ اس کے متعلق فرماتے ہیں: ’’جدید ڈکشنریوں میں یہ سب سے زیادہ معتمد ہے۔ اسے ماہرین لغت کی ایک ٹیم نے ترتیب دیا ہے۔ اس لیے قابل اعتماد ہے۔ اس کا حال ’المنجد‘ جیسا نہیں۔‘‘
اب تک عام مشکل الفاظ کی بات چل رہی تھی۔ لیکن اگر ان کا تعلق احادیث نبویہ سے ہے تو ان کے لیے غریب الحدیث پر لکھی گئی کتابوں کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ مثلًا:
(۱)غريب الحديث لأبي عبيد القاسم بن سلام (ت۲۲۴ھ)
(۲)غريب الحديث لابن قتيبة الدينوري (ت۲۷۶ھ)
(۳)غريب الحديث لإبراهيم بن إسحاق الحربي (ت۲۸۵ھ)
(۴)غريب الحديث للخطابي (ت۳۸۸ھ)
(۵)تفسير غريب ما في الصحيحين للحميدي (ت۴۸۸ھ)
(۶)الفائق في غريب الحديث للزمخشري (ت۵۳۸ھ)
(۷)مشارق الأنوار على صحاح الآثار للقاضي عياض (ت۵۴۴ھ)
اس میں صحیحین اور موطا امام مالک کی حدیثوں کے غریب الفاظ پر ہی صرف بحث کی گئی ہے۔ اس میں اعلام، انساب اور جگہوں کا بھی ذکر ہے۔ مختلف الفاظ کی روایت میں رواۃ کے اختلافات کا ذکر اور ان کے اوہام کا بھی بیان ہے۔اس کی ترتیب حروف المعجم پر ہے لیکن ہمارے یہاں کے حروف معجم کی معروف ترتیب پر نہیں بلکہ مغاربہ کی ترتیب پر ہے، جو اس طرح ہے: ا ب ت ث ج ح خ د ذ ر ز ط ظ ک ل م ن ص ض ع غ ف ق س ش ھ و ی ۔
اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ امام کتانی کے اس قول سے لگایا جا سکتا ہے:
’’وهو كتاب لو وزن بالجوهر أو كتب بالذهب كان قليلًا فيه۔‘‘ [الرسالہ المستطرفہ: ص۱۵۷]
(اگر اس کتاب کو جواہرات سے تولا جاتا یا سونے سے لکھا جاتا پھر بھی کم تھا)
(۸)غريب الحديث لابن الجوزي (ت۵۹۷ھ)
(۹)النهاية في غريب الحديث والأثر لابن الأثير (ت۶۰۶ھ)
اس موضوع کی یہ سب سے بہترین اورجامع کتاب ہے۔
(۱۰)مجمع بحار الأنوار في غرائب التنزيل ولطائف الأخبار لمحمد بن طاهر الفتني الغجراتي (ت۹۸۶ھ)
اس میں غریب القرآن اور غریب الحدیث دونوں ہیں۔ علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ کی تحفۃ الاحوذی کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کتاب ان کے اہم مصادر میں سے ہے۔ اس کتاب سےانھوں نے تحفہ الاحوذی میں کافی استفادہ کیا ہے۔
جہاں تک مشکل اور غیر معروف اصطلاحات کا معاملہ ہے تو اس کے لیے متعلقہ فن کی امہات کتب کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور اس کا معنی ومفہوم بیان کرنا چاہیے۔ نیز اصطلاحات پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان کی طرف بھی رجوع کرنا چاہیے۔ اگر ان اصطلاحات کا تعلق فقہ سے ہے تو درج ذیل کتابوں کی طرف رجوع کرنا مفید ہوگا:
حنفی مسلک کے لیے:
(۱)طلبة الطلبة لنجم الدين النسفي (ت۵۳۷ھ)
(۲)المُغرِب في ترتيب المُعْرِب للمطرزي (ت۶۱۰ھ)
(۳)أنيس الفقهاء لقاسم القونوي (ت۹۷۸ھ)
شافعی مسلک کے لیے:
(۴)الزاهر في غريب ألفاظ الشافعي لأبي منصور الأزهري (ت۳۷۰ھ)
شروع میں بیان کیا جا چکا ہے کہ یہ بہت بڑے لغوی ہونے کے ساتھ ساتھ علمائے شوافع کے بہت بڑے عالم تھے۔ان کی کتاب تھذیب اللغہ اور الزاھر اس کی بہترین دلیل ہے۔
(۵)حلية الفقهاء لابن فارس (ت۳۹۵ھ)
(۶)تهذيب الأسماء واللغات للنووي (ت۶۷۶ھ)
یہ بہت ہی مفید کتاب ہے۔ اس کا پہلا حصہ شخصیات کے تعارف پر اور دوسرا حصہ مشکل کلمات اور اصطلاحات پر مشتمل ہے۔ اسی کتاب کی وجہ سے امام نووی کو امام جرح وتعدیل بھی کہا جاتا ہے۔
(۷)تحرير ألفاظ التنبيه للنووي
(۸)النظم المستعذب في شرح غريب المهذب للركبي (ت۶۳۳ھ)
(۹)المصباح المنير في غريب الشرح الكبير للفيومي (ت۷۷۰ھ)
مالکی مسلک کے لیے:
(۱۰)شرح غريب ألفاظ المدونة للجبي (توفي في القرن الرابع أو الخامس)
(۱۱)الحدود لابن عرفة المالكي (ت۸۰۳ھ)
اورحنبلی مسلک کے لیے:
(۱۲)المطلع على أبواب المقنع للبعلي (ت۷۰۹ھ)
اور اگر ان مصطلحات کا تعلق شریعت کے دوسرے فنون مثلًا عقیدہ وغیرہ سے ہے تو ان کتابوں کی طرف رجوع کرنا مفید ہوگا:
(۱)غریب الحدیث لابن قتیبہ کا مقدمہ
(۲)الزينة في الكلمات الإسلامية العربية لأحمد بن حمدان الرازي (ت۳۲۲ھ)
(۳)الحدود الأنيقة والتعريفات الدقيقة لزكريا الأنصاري الشافعي (ت۹۲۶ھ)
ساتھ ہی ان کتابوں کی طرف رجوع کرنا بھی مفید ہوگا جو کہ تعریفات اور مصطلحات پر ہی لکھی گئی ہیں، مثلًا:
(۱)التعريفات للجرجاني (۸۱۶ھ)
(۲)التوقيف على مهمات التعاريف للمناوي (ت۱۰۳۱ھ)
(۳)الكليات (معجم في الاصطلاحات والفروق اللغوية) لأبي البقاء الكفوي (ت۱۰۹۴ھ)
(۴)كشاف اصطلاحات الفنون للتهانوي (ت۱۱۵۸ھ)
ہر خاص کلمہ یا اصطلاح کے لیے متخصص اور مناسب مصدر کی طرف رجوع کرنا اور اس کا حوالہ دینا علمی مقالوں میں جان پھونک دیتا ہے اور یہ اس مقالے کی ایک بڑی خوبی مانی جاتی ہے۔ اور اس کی رعایت نہ کرنا اہل علم کے نزدیک خلل تصور کیا جاتا ہے، بلکہ معیوب مانا جاتا ہے اور ایسے مقالوں کو وہ خاص اہمیت نہیں دیتے۔ اس لیے ان امور کی طرف مقالہ نگاروں اور مصنفین کو خصوصی توجہ دینا چاہیے۔ اللہ ہمیں نفع بخش علم کی نشر واشاعت کی توفیق عطا فرمائے۔
ماشاء الله تبارك الله. بهت ہی مفید معلومات
واللہ بہت قیمتی معلومات۔سینکڑوں صفحات کے مطالعے کے بعد بھی مشکل معلوم ہوتا ہے۔
جزاکم اللہ خیرا ومتعکم بالصحۃ والعافیة ونفع بكم للأمة الإسلام.
ماشاء الله، بارك الله فيكم ونفع بكم العباد والبلاد. وجزاكم الله خيرا.
ما شاء الله
بارك الله في علمكم وعملكم