کرسمَس، دیوالی اور ان جیسے دیگر مشرکانہ تیوہار پر غیر مسلموں کی جانب سے تحفہ تحائف قبول کرنے کا حکم

ابو احمد کلیم الدین یوسف عقائد

اللہ رب العالمین کی نازل کردہ آخری شریعت ہر زمان ومکان کے لیے بالکل مناسب اور موزوں ہے، چودہ صدیاں گذرنے کے بعد بھی اس کے ہر احکام پر بالکل ویسے ہی عمل کیا جا سکتا ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کیا جاتا تھا، کیوں کہ یہ دین فطرت ہے اور فطرت میں تغیر پیدا نہیں ہوتا۔
شریعت اسلامیہ نے یہود ونصاری کے کفریہ وشرکیہ عقائد اور باطل عادات ونظریات کی مخالفت پر بہت زور دیا ہے اور اس موضوع پر شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ایک بہترین کتاب “اقتضاء الصراط المستقيم…” تالیف فرمائی ہے۔
مسئلہ کی نوعیت یہ ہے کہ اگر کوئی نصرانی، یہودی یا مشرک اپنے اس تیوہار کی مناسبت سے جس کی بنیاد شرک پر ہے اگر کسی مسلمان کو کوئی ہدیہ دے تو کیا اس ہدیہ کا قبول کرنا جائز ہوگا؟
مذکورہ مسئلہ کے جواز اور عدم جواز میں علماء کرام کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے، اس اختلاف کی طرف شیخ ابن عثیمین اور دیگر باحثین نے بھی اشارہ کیا ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اقتضاء الصراط المستقيم (٢/ ٥١) میں کفار کی جانب سے پیش کیے گئے ہدیہ کو قبول کرنا جائز قرار دیا ہے اور اس کے جواز پر انھوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے آثار سے استدلال کیا ہے۔
✺ سب سے پہلا اثر علی رضی اللہ عنہ کا ہے جو دو سند سے مروی ہے:
☜ پہلی سند: امام بیہقی نے السنن الكبرى (٩/ ٣٩٢، رقم: ١٨٨٦٥) میں محمد بن سیرین رحمہ اللہ کی سند سے روایت کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ:
أتي علي رضي الله عنه بهدية النيروز فقال: ما هذه؟ قالوا: يا أمير المؤمنين هذا يوم النيروز، قال: فاصنعوا كل يوم فيروز
ترجمہ: علی رضی اللہ عنہ کو نیروز کی مناسبت سے ہدیہ پیش کیا گیا گیا، علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ کیا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ امیر المؤمنین یہ نیروز کا تحفہ ہے، علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہر دن کو نیروز بناؤ۔
☜ یہ سند منقطع ہے، کیوں کہ محمد بن سیرین رحمہ اللہ کا سماع علی رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں، لہذا یہ اثر انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے۔
☜ دوسری سند: امام بخاری نے “التاريخ الكبير” (٤/ ٢٠١) میں علی بن زید بن جدعان کے طریق سے، وہ سِعْر التمیمی سے روایت کرتے ہیں کہ:
أتي على بفالوذج قال: ما هذا؟ قالوا: اليوم النيروز، قال: فنيروزا كل يوم
ترجمہ: علی رضی اللہ عنہ کے پاس فالوذج نامی ڈش (جو گھی اور شہد میں ملا کر بنائی جاتی ہے) لائی گئی، علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ کیا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ آج نیروز کا دن ہے (اس لیے اسپیشل یہ آپ کو پیش کی گئی ہے)، علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نیروز تو ہر دن ہے۔
☜ اس سند میں علی بن زید بن جدعان اور سعر التمیمی ہیں۔
☜ علی بن زید بن جدعان ضعیف ہیں، “التقریب” (رقم: 4734)
☜ سعر التمیمی کو امام بخاری نے “التاريخ الكبير” (٤/ ٢٠١) میں اور امام ابن ابی حاتم نے “الجرح والتعديل” (٤/ ٢٠٨) میں ذکر کیا ہے اور کسی بھی قسم کی جرح وتعدیل اس راوی کے باری میں نقل نہیں کی ہے۔
ابن حبان نے اس راوی کو “الثقات” (٤/ ٣٤٥) میں ذکر کیا ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ یہ سند بھی علی بن زید بن جدعان کے ضعیف ہونے کی وجہ سے اور سعر التمیمی کے سلسلے میں کوئی معتبر توثیق نہ ملنے کی وجہ سے ضعیف ہے۔
☜ تیسری سند: خطیب بغدادی تاریخ بغداد (١٣/ ٣٢٧) میں مکرم بن احمد بن عبید اللہ کی سند سے روایت کرتے ہیں، انھوں نے اپنے والد سے، انھوں نے اپنے دادا سے، انھوں نے اسماعیل بن حماد بن ابی حنیفہ سے، وہ کہتے ہیں کہ ان کے دادا نعمان بن المرزبان نے علی رضی اللہ عنہ کو نیروز کے دن فالوذج بطور ہدیہ پیش کیا تھا، تو علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہر دن ہمارے لیے نیروز ہے۔
☜ اس سند میں مکرم بن احمد کو چھوڑ کر کچھ ضعیف ہیں اور کچھ مجاہیل ہیں “میزان الاعتدال” (١/ ٢٢٦)، چنانچہ یہ سند بھی حد درجہ ضعیف ہوئی۔
✺ اس کے بر عکس علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ نیروز کے دن کا ہدیہ قبول نہیں کیا کرتے تھے، چنانچہ امام بخاری نے “التاريخ الكبير” (١/ ٤١٤) میں ایوب بن دینار کی سند سے، انھوں نے اپنے والد دینار سے روایت کی ہے کہ:
أن عليا رضي الله عنه كان لا يقبل هدية النيروز
ترجمہ: علی رضی اللہ عنہ نیروز کے دن کا ہدیہ قبول نہیں کیا کرتے تھے۔
☜ لیکن یہ اثر بھی ضعیف ہے، کیوں کہ ایوب بن دینار اور ان کے والد کے متعلق کوئی معتبر توثیق نہیں مل سکی۔
✺ دوسرا اثر ام المؤمنين عائشہ صدیقہ عفیفہ رضی اللہ عنہا کا ہے: چنانچہ ابن ابی شیبہ نے اپنی “مصنف” (٦/ ٤٣٢، رقم: ٣٢٦٧٣) میں جریر بن حازم سے، انھوں نے قابوس بن ابی ظبیان سے، انھوں نے اپنے والد ابو ظبیان سے، وہ فرماتے ہیں کہ: ایک خاتون نے عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا:
إن لنا آظارا من المجوس، وإنهم يكون لهم العيد فيهدون لنا، فقالت: أما ما ذُبِح لذلك اليوم فلا تأكلوا، ولكن كلوا من أشجارهم
ترجمہ: ہمارے پاس مجوسیوں کی ایک جماعت رہتی ہے، وہ اپنی عید میں ہمیں تحفے دیتے ہیں، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اس دن بطور خاص جو جانور ذبح کیا جائے اسے نہ کھاؤ، البتہ پھل وغیرہ کھا لو۔
☜ اس اثر کی سند ابو قابوس کی وجہ سے ضعیف ہے، ابن سعد، ابن معین، احمد بن حنبل، ابو حاتم الرازی، نسائی، ابن حبان، دارقطنی اور ابن حجر وغیرہ نے انھیں ضعیف کہا ہے، “الطبقات الکبیر” (٨/ ٤٥٩)، “العلل” لأحمد (٣/ ٢٩)، “الجرح والتعديل” (٧/ ١٤٥)، الضعفاء والمتروكين (ص: ٢٧٧)، “المجروحین” (٢/ ٢١٦)، “سؤالات البرقانی” (ص: ٥٨)، “تہذیب الکمال” (٢٣/ ٣٢٨)، “تقریب التہذیب” (رقم: ٥٤٤٥)
✺ تیسرا اثر ابو برزہ الاسلمی رضی اللہ عنہ کا ہے: ابن ابی شیبہ نے “مصنف” (٥/ ١٢٦، ٢٤٣٧٢) میں حسن بن الحکیم کی سند سے، وہ اپنی والدہ سے، وہ ابو برزہ الاسلمی رضی عنہ سے روایت کرتی ہیں:
أنه له سكان مجوس، فكانوا يهدون له في النيروز، والمهرجان، فكان يقول لأهله: ما كان من فاكهة فكلوه، وماكان من غير ذلك فردوه
ترجمہ: ابو برزہ الاسلمی رضی اللہ عنہ کے کچھ مجوسی پڑوسی تھے جو انھیں نیروز کے دن تحفے دیا کرتے تھے، ابو برزہ رضی اللہ عنہ اپنے گھر والے سے کہتے کہ پھل کھا لیا کرو اور اس کے علاوہ کوئی دوسری چیز ہو تو اسے واپس کردیا کرو۔
☜ اس اثر کی سند میں حسن بن الحکیم کی والدہ مجہول ہیں، جس بنا پر یہ سند ضعیف ہے۔
محترم قارئین: جن آثار کی بنیاد پر شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کفار ومشرکین کی عید کے موقع پر ان کی جانب سے دیے گئے تحفے کو قبول کرنے کے جواز پر استدلال کیا ہے، وہ تمام کی تمام ضعیف ہیں اور استدلال کے قابل نہیں۔
☜ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے جواز پر تعلیق لگاتے ہوئے کہتے ہیں کہ: شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے جواز کا فتوی بہت عجیب ہے، کیوں کہ ان کے تحفے قبول کرنا ان سے رضامندی کی دلیل ہے، لیکن آثارِ صحابہ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ لوگ ہدیہ قبول کرتے تھے، البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین جس وقت کفار ومشرکین کی جانب سے ہدیہ قبول کیا کرتے تھے اس وقت اسلام پوری قوت میں تھا، جس کی وجہ سے لوگ دھوکے میں نہیں آسکتے تھے اور کفار خود جانتے تھے کہ اسلام غالب ہے، لیکن موجودہ دور میں اگر مسلمان کفار کا ہدیہ قبول کرنے لگیں تو وہ لوگ خوش ہوں گے اور کہیں گے کہ مسلمانوں نے ہماری عید کو مان لیا ہے اور اس کی موافقت کی ہے، چنانچہ اگر ہدیہ قبول کرنے سے کفار رفعت وبلندی محسوس کریں اور یہ سمجھیں کہ مسلمان بھی ہماری اس عید کے قائل ہیں تو ایسی صورت میں ان کا ہدیہ قبول کرنا جائز نہیں۔
(شرح اقتضاء الصراط المستقيم ص348 – 349)
قارئین کرام: یاد رہے کہ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے جو محدود دائرے میں جواز کا فتوی دیا ہے وہ آثار صحابہ کے صحیح ہونے کی صورت میں ہے، ویسے شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کفار کے تیوہار پر ہدیہ قبول کرنے کے سلسلے میں عدم جواز کے قائل ہیں، جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ پر ان کے تعجب کے اظہار سے یہ عیاں ہے اور جب تمام آثار ضعیف اور ناقابل استدلال ہیں تو کرسمس، دیوالی اور ان جیسے مشرکانہ تیوہار کے موقع پر کفار کی جانب سے ہدیہ قبول کرنا بالکلیہ جائز نہیں۔
خود شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: اس قسم کی عید کے موقع پر اگر کسی غیر مسلم نے مسلمانوں کو ایسا تحفہ دیا جو عام دنوں میں دیے جانے والے تحفہ و تحائف سے مختلف ہو، بالخصوص ایسا تحفہ جو ان کے مذہب کی عکاسی کرتا ہو، جسے لینے سے تشبہ کا خطرہ ہو تو قبول کرنا جائز نہیں ہوگا….. نیز اگر صرف عید کی وجہ سے ہدیہ دیا جا رہا ہے تو وہ بھی لینا درست نہیں…(اقتضاء الصراط المستقيم:2/ 12)
☜ جو لوگ ہدیہ لینے کے جواز کے قائل ہیں ہیں انھوں نے اس کے لیے متعدد شرطیں رکھی ہیں:
١- مشرکانہ عید کے موقع پر غیر مسلموں کی جانب سے کسی بھی قسم کا ایسا ذبیحہ قبول کرنا جائز نہیں جو بطور خاص عید کے لیے ذبح کیا جائے۔
٢- ہدیہ ان چیزوں پر مشتمل نہ ہو جن کا استعمال وہ عید کے دن کرتے ہوں، یا وہ اشیاء ان کے عید کا شعار اور پہچان ہوں۔
٣- ہدیہ قبول کرنے والے مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو عقیدہ ولاء اور براء کی تعلیم دیں تاکہ ان کے دلوں میں ان کے عید اور تیوہار کی محبت نہ گھر کر جائے، یا ہدیہ دینے والے سے تعلقات نہ بن جائیں۔
٤- ہدیہ قبول کرنے کا مقصد تالیف قلب ہو اور اسلام کی دعوت دینا ہو، نہ کہ آپسی مراسم کو مضبوط کرنا ہو۔
محترم قارئین: موجودہ دور میں مذکورہ شرائط کی پابندی کے ساتھ کتنے لوگ کرسمَس اور دیوالی وغیرہ کے موقع پر ہدیہ قبول کرتے ہیں؟
مطلب یہ کہ اگر مذکورہ شرائط کی پابندی نہ کی جائے تو ان کے یہاں بھی ہدیہ قبول کرنا جائز نہیں ہے۔
✺ ابن النحاس رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: نصاریٰ کی عید کے موقع پر مسلمانوں کا خورد ونوش، اقوال و افعال میں ان کی مشابہت اختیار کرنا اور تحفے تحائف کا آپس میں تبادلہ کرنا سب سے بدترین اور قبیح بدعت ہے، یہ بدعت مصر میں موجود تھی، نصاریٰ کی عید کے موقع پر ان کے ساتھ اس قسم کا تعامل دین کی جڑیں کھوکھلی کرتا ہے، نصرانیت کی نشر واشاعت کا سبب بنتا ہے اور ان سے مشابہت بھی ہوتی ہے، تحفے تحائف کے تبادلہ سے الفت ومحبت کا رشتہ قائم ہوتا ہے، جبکہ اللہ رب العالمین نے فرمایا:
لا تَجِدُ قَوْماً يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ [المجادلة الآية:٢٢]
آیت کا مفہوم: جو لوگ اللہ رب العالمین اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ ایسے لوگوں سے محبت نہیں کرتے جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہوں، گرچہ مخالفت کرنے والے ان کے والدین، اولاد، بھائی بہن اور قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔ (تنبيه الغافلين لابن النحاس ص ٥٠٠)
✺ سعودي فتوى كميٹی سے سوال کیا گیا کہ: اہل کتاب یا مشرکین اپنی اپنی عید کی مناسبت سے جو کھانا تیار کرتے ہیں کیا مسلمان کے لیے اس کا تناول کرنا جائز ہے؟
اسی طرح اس مناسبت سے ان کی جانب سے دیے گئے تحفے تحائف قبول کرنے کا کیا حکم ہے؟
فتوی کمیٹی کا جواب: اہل کتاب یا مشرکین عید کی مناسبت سے جو کھانا تیار کرتے ہیں مسلمان کے لیے اس کا تناول کرنا جائز نہیں ہے اور نہ ہی اس مناسبت سے ان کی جانب سے دیے گئے تحفے تحائف کا قبول کرنا جائز ہے، کیوں کہ ان کی عید کے موقع پر ان کا کھانا تناول کرنا، یا ان کا ہدیہ قبول کرنا ان کی عزت وتکریم میں اضافہ کا سبب ہوگا، نیز ان کے مذہبی شعائر کے اظہار اور اس میں انجام دیے جانے والے بدعات وشرکیات کی ترویج واشاعت میں ان کا تعاون ہوگا اور ان کی عید کی خوشیوں میں شریک ہونے کے مترادف ہوگا۔
اور اس قسم کے تعامل سے دھیرے دھیرے ان کی عیدوں کے موقع پر ان کی مشابہت اختیار کرنے لگتے ہیں، یا کم از کم عید کی مناسبت سے ایک دوسرے کو دعوت دینے اور تحفے تحائف کے تبادلے کا چلن عام ہوتا ہے، یہ فتنے ہیں اور دین نت نئی ایجادات ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد
ترجمہ: جس نے ہماری شریعت میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی جس کی دلیل موجود نہیں تو وہ باطل ہے۔ (فتاویٰ اللجنة الدائمة: ٢٢/ ٣٩٩، رقم الفتوى ٢٨٨٢)
یہ فتویٰ شیخ عبد اللہ قعود، شیخ عبد الرزاق العفیفی اور شیخ ابن باز رحمہم اللہ نے دیا تھا۔
✺ قارئین کرام: یہ تو یقینی بات ہے کہ تحفے تحائف کے تبادلے سے نفرت وعداوت ختم ہوتی ہے اور محبت وقربت میں اضافہ ہوتا ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «تَهَادُوا تَحَابُّوا»(الأدب المفرد:٥٩٤) اس کی سند حسن ہے۔ (ارواء الغلیل:٦/ ٤٤)
ترجمہ: ایک دوسرے کو تحفے تحائف دیا کرو، کیوں کہ اس سے محبت بڑھتی ہے۔
اور انس رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹوں سے کہا:
«يا بَنِيَّ، تبادلوا بينكم؛ فإنه أوَدُّ لما بينكم» (الأدب المفرد:٥٩٥) شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
ترجمہ: ہدیے اور تحفے تحائف کا تبادلہ کیا کرو، اس سے تمھارے درمیان مودت والفت میں بڑھے گی۔
✺ آخری بات:
محترم قارئین: کوئی بھی غیر مسلم اگر ہمیں اپنی عید یا تیوہار کی مناسبت سے کچھ ہدیہ دیتا ہے تو اس کا مقصد عید کی خوشی کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔ اور ظاہر سی بات ہے کہ ہم ان سے ہدیہ قبول کرکے ان کو خوش کریں گے اور ایسے مشرکانہ عید کے موقع پر انھیں خوشی پہنچانا عقیدہ ولاء اور براء کے بالکل خلاف ہے۔
دوسری بات یہ کہ عید میلاد النبی کے موقع سے، یا پندرہویں شعبان کی مناسبت سے، ہمارے یہاں جو مٹھائیاں تحفے میں بھیجی جاتی ہیں اس کے کھانے میں کیا مضائقہ ہے؟
لیکن جو لوگ کرسمَس اور دیوالی کے موقع پر مشرکین اور یہود ونصاری کے ہدیہ کو قبول کرنے کے جواز کے قائل ہیں وہی حضرات عید میلاد النبی اور پندرہویں شعبان کی بدعات کے موقع ہر مسلمان کی جانب سے پیش کیے گئے ہدیہ کے قبول کرنے کے عدم جواز کے قائل ہیں!
ایک طرف کفار ومشرکین شرکیہ مناسبت سے ہدیہ پیش کریں تو وہ جائز؟
اور دوسری طرف مسلمان بدعی مناسبت سے تحفہ دے تو وہ حرام؟
ہے نا یہ عجیب بات؟
اس لیے کفار ومشرکین کے تیوہار کے موقع پر ان کے تحائف کو قبول کرنے سے گریز کریں اور رب کی خاطر ان کے شرکیہ عید اور اس میں انجام پانے والے امور سے نفرت کریں۔

آپ کے تبصرے

3000