آج جب میں نے بی بی سی ہندی کی ویب سائٹ کھولی تو ایک خبر پر نظر پڑتے ہی کچھ دیر تک رب العالمین کی قدرت کے بارے سوچتا رہا۔ خبر کی سرخی تھی:
बांग्लादेश का सरकार परिवार, जिसके पुरुष सदस्यों के पास फिंगरप्रिंट नहीं होते
”بنگلہ دیش کا سرکار پریوار، جس کے پوروش سدسیوں کے پاس فنگر پرنٹ نہیں ہوتے“۔
اس میں بتایا گیا ہے کہ بنگلہ دیش میں ایک خاندان ہے جس کے مرد حضرات کے ہاتھوں کی انگلیاں سَپاٹ ہیں، ان میں کوئی لکیر نہیں ہے۔ جس وجہ سے انھیں سم کارڈ خریدنے، ڈرائیونگ لائسنس اور پاسپورٹ بنوانے جیسے متعدد سرکاری کاموں میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کیونکہ جب بھی مشین پر وہ اپنی انگلیاں رکھتے ہیں ان میں لکیریں نہ ہونے کی وجہ سے مشین کام نہیں کرتی۔ یہ ایک ایسی نادر بیماری ہے، جس کے پوری دنیا میں گنے چنے صرف چند لوگ شکار ہیں۔
آج کل بینک لاکر سے لے کر آفس کی حاضری تک فنگر پرنٹ ایک چابی کی شکل میں استعمال کیا جانے والا اہم آلہ بن گیا ہے، بلکہ بعض جگہوں پر آنکھوں کا ریٹینا (پردۂِ بصارت) بھی لیا جاتا ہے تاکہ تالا اتنا مضبوط ہو جو کسی صورت میں ہیک نہ کیا جا سکے۔
اسے تالے کی شکل میں استعمال کیے جانے کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ اللہ تعالی نے انسانوں کی ساخت ایسی بنائی ہے جس میں ہر شخص کا چہرہ، فنگر پرنٹ اور آنکھوں کا ریٹینا دوسروں سے مختلف ہوتا ہے۔
کسی جرم کا پتہ لگانے کے لیے پولیس بھی موقع واردات سے سب سے پہلے فنگر پرنٹ کو بطور ثبوت اکٹھا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
مذکورہ خبر پڑھنے کے بعد کچھ دیر کے لیے میں سوچنے لگا کہ جس دن سے یہ دنیا بنی ہے آج تک کتنے لاتعداد لوگ اس دنیا میں آئے اور اپنی حیات مستعار گزار کر سفر آخرت پر جا چکے، جن کی تعداد کا کسی کو علم ہی نہیں، لیکن مجال ہے کہ کسی کا فنگر پرنٹ یا آنکھوں کا ریٹینا کسی دوسرے سے ملتا ہو۔
کیا یہ اللہ رب العالمین کے وجود کی ایک بہت بڑی دلیل نہیں؟
کیا یہ کام کسی مخلوق کے بس کا ہے؟
کیا قادر مطلق کے سوا یہ کوئی اور کرسکتا ہے؟
نہیں، اور قطعا نہیں!!! یہ صرف اسی کا کمال ہو سکتا ہے جوحقیقی مُصَوِّر ہے۔:
هُوَ اللَّهُ الْخالِقُ الْبارِئُ الْمُصَوِّرُ [سورة الْحَشْرِ:۲۴]
جس کا ہر کام نہایت ٹھوس اور پختہ ہوتا ہے۔:
صُنْعَ اللَّهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ [سورة النَّمل:۸۸]
جو رحم مادر میں ہی جیسے چاہتا بچے کو شکل وصورت عطا کردیتا ہے:
هُوَ الَّذِي يُصَوِّرُكُمْ فِي الْأَرْحَامِ كَيْفَ يَشَاءُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمَُ[سورة آل عمران: ۶]
دنیا کے کسی بڑے سے بڑے آرٹسٹ سے اگر خیالاتی تصویروں کی فرمائش کی جائے تو ایک مخصوص عدد کے بعد اس کی قوت جواب دے جائےگی اور وہ کوئی نئی شکل کی ڈیزائنگ سے عاجز آجائےگا۔
لیکن اللہ تعالی روزانہ بے شمار انسانوں کو پیدا کرتا ہے، جن میں سے کسی کی شکل کسی سے نہیں ملتی۔ سب ”فِي أَيِّ صُورَةٍ مَا شَاءَ رَكَّبَكَ“ کی عملی تصویر پیش کرتے ہیں۔
اگر کسی کی شکل کسی سے مل بھی جائے تو انگلیوں کے نشان اور پردۂِ بصارت ضرور مختلف ہوتے ہیں۔
کیا اس میں عقل والوں کے لیے دلیل نہیں؟
کیا یہ ان کی ہدایت کے لیے کافی نہیں؟
اللہ ہمیں ان لوگوں میں سے بنائے جن کے بارے میں اس کا ارشاد ہے:
يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ
لیکن اللہ تعالی روزانہ اربوں کھربوں انسانوں کو پیدا کرتا ہے،
شاید بے خیالی میں یہ لغزش قلمی ہوگئی ہے ، اور ایڈیٹنگ کی گرفت میں بھی نہ آسکی۔