مشکل کلمات پر علما کا اعراب لگانے کا اہتمام اور اس کی اہمیت

فاروق عبداللہ نراین پوری تنقید و تحقیق

کسی لفظ پر حرکت لگانے کے لیے عربی میں ”ضبط“ اور ”شکل“ کا لفظ معروف ہے، حالانکہ لفظ ”اعراب“ بھی مستعمل ہے جیسا کہ امام سیوطی نے تدریب الراوی (۱/۴۹۶-۴۹۷) میں استعمال کیا ہے، لیکن اکثر وبیشتر لفظ ”اعراب“ سے ترکیب کرنے کا معنی سمجھا جاتا ہے۔
عربی بلکہ اردو میں بھی بعض کلمات ایسے ہوتے ہیں جن میں زبر زیر کے فرق سے معنی میں زمین وآسمان کا فرق پیدا ہوجاتا ہے۔ اگر معنی میں فرق نہ بھی پیدا ہوپھر بھی ہر کلمہ کو صحیح ضبط اور تلفظ کے ساتھ ادا کرنا اس کا علمی تقاضا ہے۔ ایسے مشکل کلمات جن میں یہ شبہ ہو کہ قاری سے پڑھنے میں غلطی ہو سکتی ہے انھیں لکھتے وقت اعراب لگانے کا خصوصی اہتمام ہونا چاہیے ورنہ اچھے خاصے ماہر قاری کے بھی بھٹکنے کا قوی اندیشہ ہوتا ہے، کیونکہ بسا اوقات اس میں کوئی قاعدہ کام نہیں کرتا اور صرف عام قارئین ہی نہیں بلکہ بڑے بڑے علما بھی دھوکہ کھا جاتے ہیں اور غلطیوں کے شکار ہو جاتے ہیں۔
ابھی میں فتح الباری میں ”باب ہجرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم وأصحابہ إلی المدینہ“ کی تحقیق کر رہا تھا، جس میں اسی طرح کے ایک واقعے سے روبرو ہوا۔ سوچا کہ اس کی اہمیت کے متعلق قارئین کی خدمت میں دو چار باتیں پیش کر دی جائیں تاکہ حتی الامکان ہم اس سے بچ سکیں۔ اس میں ایک لفظ ”برک الغماد“ کی تشریح میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسی طرح کا ایک واقعہ نقل فرمایا ہے۔ کہتے ہیں کہ ابن خالَوَیہ جو بہت بڑے لغوی تھے امام مَحَامِلی کے درس میں حاضر ہوئے۔ ہزار کے قریب تلامذہ شریکِ درس تھے۔ پیچھے بیٹھنے والے طلبہ مُسْتَمْلی کی مدد سے لکھ رہے تھے۔ امام محاملی نے ایک حدیث املا کروائی جس میں ایک جملہ یہ تھا: ”فقالتْ الأنصار: «لو دَعَوْتَنَا إلى بَرْكِ الغِمَاد»“۔ لفظ ”غماد“کو انھوں نے غین کے کسرہ کے ساتھ پڑھا، جس پر ابن خالَوَیہ نے مُسْتَمْلی سے کہا: وہ غین کے ضمہ کے ساتھ ہے۔ مستملی نے شیخ تک بات پہنچائی۔ جس پر شیخ نے ابن خالَوَیہ سے پوچھا: یہ برک الغماد کیا ہے جانتے ہو؟ ابن خالَوَیہ نے جواب دیا: ابن دُرَیْد سے میں نے اس کے متعلق پوچھا تھا تو انھوں نے کہا تھا کہ یہ جہنم میں ایک جگہ کا نام ہے۔ پھر محاملی نے کہا کہ یہ لفظ میری کتاب میں بھی غین کے ضمہ کے ساتھ ہی لکھا ہوا ہے۔ ابن خالَوَیہ نے کہا کہ مجھے ابن دُرَید نے اس کے متعلق ایک قصیدہ بھی سنایا تھا جو یہ ہے:
وإذا تَنَكَّرَتِ البِلَا دُ فأَوْلِهَا كَنَفَ البِعَادِ
واجْعَلْ مُقَامَكَ أو مَقَرَّ كَ جانِبَيْ بَرْكِ الغُمَادِ
لَسْتَ ابنَ أمِّ القَاطِنِيـــ ــــنَ ولا ابنَ عَمٍّ للبِلَادِ

[فتح الباری:۷/۲۳۲]
میں نے توثیق کے لیے جب ابن دُرَید کی کتب کی طرف رجوع کیا تو ان کے دیوان (ص۲۱) میں یہ قصیدہ مل گیا، لیکن افسوس کہ محقق نے لفظ غماد کو اس میں غین کے کسرہ کے ساتھ ضبط کیا ہے، ضمہ کے ساتھ نہیں، حالانکہ ابن خالَوَیہ کے مطابق ابن دُرَید نے اسے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے۔
اس طرح کے کلمات کو ضبط کرتے وقت صرف حرکت پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ لفظوں میں بھی وضاحت کے ساتھ بیان کر دینا چاہیے تاکہ اگر آپ کی کتاب سے کوئی نقل کرے اور حرکت نقل کرنا چھوڑ دے تو لفظوں کی وضاحت باقی رہے اور کبھی بھی اس ضبط کے فوت ہونے کا ڈر نہ رہے۔
حافظ ابن حجر نے حافظ ذہبی کی ایک کتاب ”المُشْتَبِہ“ پر اس لیے بھی دوبارہ کام کیا تھا کیونکہ اس میں کلمات کو ضبط کرنے میں حافظ ذہبی نے صرف حرکت پر اکتفا کیا تھا، لفظوں میں انھیں بیان نہیں کیا تھا۔ حافظ ابن حجر نے اس پر بہترین کام کیا ہے اور اس کا نام رکھا ہے’’تبصير المُنْتَبِه بتحرير المُشْتَبِه“۔
لفظ ”برک الغماد“ کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ اس کا ضبط بیان کرتے ہوئے حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:
’’الغِمَادُ: فهو بكَسْر المُعْجَمَة وقد تُضَمُّ… وحَكَى ابن فارِس فيها ضَمَّ الغَيْن‘‘

یہاں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ابن فارس سے اس لفظ کا ضبط غین کے ضمہ کے ساتھ نقل کر رہے ہیں۔ مجھے ابن فارس کی کتب میں یہ ضبط کہیں نہیں ملا۔ ”مجمل اللغہ“ (ص۶۸۵) میں انھوں نے صرف اتنا کہا ہے: ”والغماد: أرض“، اور کوئی ضبط بیان نہیں کیا ہے۔ میرا ظن غالب ہے کہ ابن فارس نے یہاں غین پر ضمہ کی حرکت کے ساتھ اسے لکھا تھا، لیکن مرور ایام کے ساتھ جب یہ ہمارے ہاتھوں میں پہنچا تو محقق کی کرم فرمائی سے ضمہ کسرہ میں بدل چکا تھا۔ مطبوعہ نسخہ میں غین پر کسرہ کی حرکت موجود ہے۔ اگر ابن فارس یہاں لفظوں میں اسے بیان کر دیتے تو اس کے فوت ہونے کا ڈر نہ رہتا جس طرح کہ حافظ ابن حجر نے اسے لفظوں کے ساتھ ضبط کرکے ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا ہے۔
میں نے ظن غالب کی بات اس لیے کی کیونکہ علامہ ابن الملقن، علامہ عینی اور علامہ زبیدی وغیرہ نے بھی ان سے یہی ضبط نقل کیا ہے۔ [دیکھیں: التوضیح لابن الملقن:۲۰/۵۳۸،عمدۃ القاری للعینی: ۱۷/۴۳،تاج العروس للزبیدی:۸/۴۷۰]
بلکہ علامہ ابن الملقن نے ”مجمل اللغہ“ کی ان کی تشریح بھی نقل کی ہے۔ فرماتے ہیں: ’’(الغماد): بكسر الغين، وهو عند ابن فارس بضمها قال: وهو أرض۔‘‘
ان کا ابن فارس سے ضبط کے ساتھ ساتھ مذکورہ الفاظ کے ساتھ اس معنی کا نقل کرنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ”مجمل اللغہ“میں ضمہ کا ضبط موجود تھا۔ واللہ اعلم
اس واقعہ سے جو ہمیں درس ملتا ہے وہ یہ کہ مشکل کلمات پر اعراب لگانے کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ قاری کو پڑھنے میں کوئی دشواری نہ ہو اور وہ کسی طرح کی غلطی کا شکار نہ ہو۔ نیز لفظوں میں اس کا اعراب بیان کرنا اولی وانسب ہے۔ اگر کسی کو یہ بارِ گراں معلوم ہو تو کم از کم حرکت کے ساتھ اعراب لگانے کا اہتمام تو کرنا ہی چاہیے۔خصوصًا نام، لقب اور کنیت وغیرہ میں اشتباہ ہو تو ان پر اعراب لگانا نہایت ہی ضروری ہے کیونکہ ان چیزوں میں کوئی قیاس اور قاعدہ کام نہیں کرتا۔
ابو اسحاق النجیرمی فرماتے ہیں:
’’أولى الأشياء بالضبط أسماء الناس؛ لأنه شيءٌ لا يدخله القياس، ولا قبله شيءٌ يدل عليه، ولا بعده شيءٌ يدل عليه‘‘
[المؤتلف والمختلف لعبد الغنی الازدی :۱/۴۹]
(لوگوں کے ناموں میں حرکت لگانے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، کیونکہ ان میں کوئی قاعدہ کام نہیں کرتا اور نہ سیاق وسباق سے کوئی رہنمائی ملتی ہے)
عبد اللہ بن ادریس فرماتے ہیں کہ مجھے شعبہ نے حسن بن علی سے حوراء والی حدیث بیان کی۔ آپ نے بعدہ لفظ ’’حوراء‘‘ کے نیچے ’’حور عین‘‘ لکھا تاکہ پڑھنے والا غلطی سے اسے جیم اور زا کے ساتھ ’’الجوزاء‘‘ نہ پڑھے۔ [تدريب الراوي :۱/۴۹۷]
اگر ایک شخص کا نام سلَّام ہو اور دوسرے کا سلَام، ایک کا نام عَقِیل ہو اور دوسرے کا عُقَیل تو اعراب کے بغیر ان کے مابین آخر فرق کیسے کیا جا سکتا ہے؟
کتبِ حدیث میں ایسے ناموں سے بارہا سابقہ پڑتا ہے اور ضبط کے ساتھ لکھا ہوا نہ ہو تو اکثر طلبہ سے غلطی ہو جاتی ہے۔ مجھے یاد آرہا ہے جامعہ اسلامیہ فیض عام مئو ناتھ بھنجن میں صحیح بخاری کی قرأت میں اکثر ہم سے حدیثِ عُسَیلَہ کی سند میں واقع عبد الرحمن بن الزَّبِیر رضی اللہ عنہ کو پڑھنے میں غلطی ہو جاتی تھی اور صدر صاحب فضیلۃ الشیخ محفوظ الرحمن فیضی -حفظہ اللہ ومتعہ بالصحۃ والعافیہ- ہمیں تنبیہ کرتے تھے کہ یہ زا کے ضمہ کے ساتھ زُبَیر نہیں، فتحہ کے ساتھ زَبِیر ہے۔ صدر صاحب کی بات بالکل صحیح تھی جیسا کہ ابن ماکولا وغیرہ نے بیان کیا ہے۔[ الاکمال:۴/۱۶۶-۱۶۷]
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس طرح کے کسی مشکل لفظ کا صحیح ضبط معلوم کرنا ہو تو ہمیں کن کتب کی طرف رجوع کرنا چاہیے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ کئی علمائے کرام نے اس موضوع پر بہت ہی نادر اور قیمتی کتابیں تصنیف کی ہیں۔ لہذا ایسے ناموں کے ضبط کے وقت اس فن کی خاص کتب کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور صحیح حرکات کے ساتھ ان ناموں کو ضبط کرنا چاہیے۔ مثلًا:
(۱)المُؤْتَلِف والمُخْتَلِف للدَّارقُطني
(۲)المُتَّفِق والمُفْتَرِق للخطيب البغدادي
(۳)تلخيص المُتَشابِه في الرَّسْم للخطيب البغدادي
(۴)تالِي التلخيص للخطيب البغدادي
(۵)الإكمال لابن ماكُولا
(۶)تهذيب مُسْتَمِرِّ الأَوْهام لابن ماكولا
(۷)تَقْيِيد المُهْمَل وتَمْيِيز المُشْكِل للغَسَّانِي الجَيَّاني
(۸)توضيح المُشْتَبِه لابن ناصر الدين الدمشقي
(۹)تبصير المُنْتَبِه لابن حجر
وغیرہ۔
یہ تمام کتابیں الحمد للہ مطبوع ہیں۔ ان میں سے ابن ماکولا کی الإکمال، حافظ ابن حجر کی تبصیر المنتبہ اور ابن ناصر الدین الدمشقی کی توضیح المشتبہ اس باب کی سب سے اہم ترین کتب ہیں۔
ان کتب کا تعلق شخصیات کےناموں کے ضبط کے ساتھ ہے۔
اسی طرح دیگر فنون کا معاملہ ہے۔ مثلًا:
احادیث نبویہ کے لیے کتب غریب الحدیث مثلًا «مَشَارِقُ الأنوار للقاضي عياض» اور «النهاية لابن الأثير» وغیرہ کی طرف رجوع کیا جائے۔
فقہی اصطلاحات کے لیے نسفی کی طَلِبَة الطَّلَبة، امام نووی کی تهذیب الأسماء واللغات اور فیومی کی المصباح المنير وغیرہ کی طرف رجوع کیا جائے۔
لغوی مباحث کے لیے کتب المعاجم مثلًا البارع لأبي علي القالي، تهذيب اللغة للأزهري، الصحاح للجوهري، المخصص اور المحکم لابن سيده، مختار الصحاح لزين الدين الرازي، لسان العرب لابن منظور اور القاموس المحیط للفیروز آبادي وغیرہ کی طرف رجوع کیا جائے۔
قبائل اور بلدان کے لیے معجم ما استعجم لأبي عبيد البكري، معجم البلدان لياقوت الحموي، مراصد الاطلاع لصفي الدين البغدادي وغیرہ کی طرف رجوع کیا جائے۔
ایک سوال اور: کیا ہر کلمے کو اعراب کے ساتھ لکھنا بہتر ہے یا صرف مشکل کلمات کو اعراب کے ساتھ لکھا جائے؟
بعض علما ہر ہر حرف پر حرکت لگانے کو مستحسن قرار دیتے ہیں۔ معاصرین میں شیخ محمد یعقوب الترکستانی حفظہ اللہ اس کا حد درجہ اہتمام کرتے ہیں۔ در حقیقت زمانۂِ قدیم سے اس میں علما کا اختلاف رہا ہے۔ جہاں بعض علما کا یہ نظریہ رہا ہے وہیں دوسرے بعض علما صرف جن کلمات میں التباس کا خوف ہو ان پر حرکت لگانے کی بات کرتے ہیں۔
راجح یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر اس کا تعلق نصوصِ کتاب وسنت، اشعار، ڈکشنری، یا کسی متن سے ہو تو اسے اعراب کے ساتھ لکھنا اولی وافضل ہے۔ ”الفیۃ العراقی“اور ”نخبۃ الفکر“کے مختلف قدیم قلمی نسخوں میں واضح طور پر میں نے اسے محسوس کیا ہے۔
لیکن عام تحریروں میں ہر ہر حرف پر اعراب لگانا کاتب وقاری دونوں کے لیے باعثِ مَلَل و بارِ گراں ہے۔البتہ جہاں التباس کا خوف ہو وہاں بالاتفاق اعراب لگانا ضروری ہے۔ [تفصیل کے لیے دیکھیں: تدریب الراوی :۱/۴۹۲]
خلاصۂِ کلام یہ کہ ایسے کلمات جو مختلف ضبط کے ساتھ الگ الگ معانی میں مستعمل ہیں انھیں مناسب حرکات کے ساتھ لکھنا نہایت ضروری ہے۔
اللہ تعالی ہمیں اس کی رعایت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
نسیم لعل

حد درجہ علمی اور مفید تحریر جس کی طرف ہم طلبہ کو خصوصی دھیان اور توجہ دینی چاہیے آج کل بہت سے لوگ اسے معمولی اور غیر ضروری عمل سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے اکثرلوگ غلطی میں پڑجاتے ہیں اور وہ غلطی تھوڑی سی سستی سے منتقل ہوتی رہتی ہے اور لوگوں کو اس کی خبر نہیں ہوتی!!
بارک اللہ فیکم