ہر زمانے میں اہل سنت والجماعت کے معاندین ان کے خلاف بر سرِ پیکار اور اہل سنت کو بدنام کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہے ہیں، انھی کوششوں میں سے ایک کوشش اہل سنت والجماعت کو مختلف ناموں سے پکارنا بھی ہے۔ یہ کفار مکہ کی سنت تھی جسے اہل بدعت ہر زمانے میں زندہ کرتے آئے ہیں، چنانچہ کفار مکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ساحر، مجنون، مذمم، شاعر، کاہن وغیرہ پکارتے تھے، حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان تمام القاب سے بالکل بری تھے۔ لیکن ان القاب کے ذریعے کفار مکہ کا مقصد لوگوں کو ان سے متنفر کرنا تھا اور ایمان لانے سے دور کرنا تھا، بعینہ یہی مقصد فرق باطلہ اور گمراہ کن افکار ونظریات کے حاملین کا ہے، وہ اہل سنت والجماعت کو برے القاب سے پکارتے ہیں تاکہ عوام الناس ان سے متنفر ہوں اور ان کی بات نہ سنیں۔
جیسے بر صغیر میں بریلوی اور دیوبندی وغیرہما اہل حدیث کو ’وہابی‘ یا ’وکٹورین‘ کے نام سے پکارتے ہیں، مقصد اپنی عوام کو متنفر کرنا اور انھیں اہل حدیث سے دور رکھنا ہوتا ہے، اسی طرح خلیجی ممالک میں اخوان المسلمین سلفیوں کو ’جامیہ‘، ’مدخلیہ‘ ، ’علماء سلاطین‘، ’علماء حیض ونفاس‘ وغیرہ کا نام دیتے ہیں۔ یہاں بھی مقصد وہی ہوتا ہے کہ لوگ ان سلفی علماء سے متنفر ہوجائیں اور ان سے دور رہیں، جب کہ یہ طریقہ خالص اہل بدعت کی پہچان ہے، چنانچہ امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: اہل بدعت نے کچھ بدترین اور قبیح قسم کے اسماء والقاب ایجاد کیے ہیں، وہ انھی نام اور القاب سے اہل سنت کو پکارتے ہیں، اس کے ذریعے ان اہل بدعت کا مقصد اہل سنت پر طعن وتشنیع کرنا اور جہلاء کے نزدیک ان کو معیوب بناکر پیش کرنا ہوتا ہے۔[طبقات الحنابلہ:۱/۳۵]
امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: زنادقہ کی علامت یہ ہے کہ وہ اہل سنت کو ’حَشْوِیَّہ‘ کے نام سے پکارتے ہیں، جہمیہ کی پہچان یہ ہے کہ وہ اہل سنت کو ’مُشَبَّہَہ‘ کا نام دیتے ہیں،قدریہ اہل سنت کو ’مُجَبِّرَہ‘ کے نام سے پکارتے ہیں، مرجئہ اہل سنت کو ’مخالف اور نقصانیہ‘ کے نام سے بلاتے ہیں اور روافض اہل سنت کو ’ناصبی‘ کہتے ہیں۔[شرح اصول اعتقاد اہل السنہ والجماعہ:۱/۱۹۷]
امام صابونی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اہل بدعت کی یہ پہچان ہے کہ وہ اہل سنت کو مختلف نام دیتے ہیں، جیسے ’حَشْوِیَّہ‘،’جَہلۃ‘،’ظاہریۃ‘ اور ’مُشَبَّہَہ‘۔[عقیدۃ السلف وأصحاب الحدیث:ص۲۹۹]
ابو اسحاق بن دِرباس الشافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں: اہل بدعت کے تمام گروہوں کی یہ عادت ہے کہ اہل سنت کو اپنی جانب سے لقب دے دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ القاب ان کے لیے صحیح ہیں، چنانچہ روافض اہل سنت کو ناصبی کہتے ہیں، قدریہ اہل سنت کو ’مُجَبِّرَہ‘ کہتے ہیں، مرجئہ انھیں ’شُکَّاک‘ کہتے ہیں، جہمیہ انھیں ’مُشَبَّہَہ‘ کہتے ہیں اور اہل کلام انھیں ’حَشْوِیَّہ‘، ’نَوابِت‘، ’غُثاء‘ اور ’غُثَر‘کہتے ہیں۔[الفتوی الحمویہ الکبری:ص۵۱۳-۵۱۵]
محترم قارئین!
آج بھی اس قسم کے لوگ موجود ہیں جیسا کہ مضمون کی تمہید میں بات گذری اور افسوس تو یہ ہے کہ پہلے یہ اہل بدعت کی پہچان تھی، لیکن اب تو بعض اپنوں کا بھی یہی حال ہے، اگر آپ ان سے منہج پر گفتگو کریں اور ان کی غلطی پر انھیں متنبہ کریں تو کم از کم آپ کو ’متشدد‘ کا لقب ضرور ملے گا، ورنہ جامی، مدخلی وغیرہ کا طعنہ تو راکٹ سی تیزی سے آپ پر داغا جانا طے ہے۔
اللہ رب العالمين ہم سبھوں کو صحیح سمجھ عطا فرمائے اور منہج سلف صالحین پر ثابت قدم رکھے۔
آپ کے تبصرے