فضیلۃ الشیخ محمد امین امان اللہ خان صاحب ریاضی

سرفراز فیضی روبرو

یہ انٹرویو میرے اس مقالے کا حصہ ہے جو میں نے جامعہ رحمانیہ کاندیولی سے عالمیت کی سند کے حصول کے لیے لکھا تھا، اس وقت دس سے زائد علماء کو سوالات بھیجے تھے،سات علماء کی طرف سے جوابات موصول ہوئے تھے جن کو اس مقالے میں شامل کیا گیا تھا۔
مقالے میں جن سات علماء کے انٹرویو شامل ہیں سب الحمد للہ باحیات ہیں (اللہ ان کا سایہ علم وعرفاں ہم پر طویل فرمائے) زندوں کی قدر کرنا مردوں کی تعریف سے زیادہ ضروری ہے لیکن ہم الگ طرح کی مردہ پرست قوم ہیں، اہل علم کی قدر شناسی ہمارے یہاں موت کے بعد ہی ہوتی ہے، ہم اعتراف خدمات اور تعریف وتحسین کے لیے علماء کی وفات کا انتظار کرتے ہیں، اس لیے لگتا تھا کہ ابھی اگر مقالہ شائع کیا جائے تو اس کی قدر نہیں ہوگی۔ ایڈیٹر صاحب کے سامنے ایک بار مقالے کا ذکر نکلا، انھوں نے اشاعت کی خواہش ظاہر کی تو مقالہ ان کے سپرد کردیا، اس مقالے کا پہلا انٹرویو آپ کے سامنے ہے۔
انٹرویو آج سے۱۴ سال پہلے۲۰۰۶ میں لیے گئے ہیں، اس وقت میری عمر ۲۰ سال کی تھی اور میں چھٹی جماعت کا طالب علم تھا، انٹرویو پڑھتے ہوئے یہ باتیں ذہن میں رکھی جائیں۔

(سرفراز فیضی)


سرفراز احمد:آپ کا مکمل نام کیا ہے؟(کنیت، لقب، تخلص یا تاریخی نام ہوتو وہ بھی بتائیں)

شیخ امین ریاضی:میرا پورا نام محمد امین امان اللہ خان ہے، مدرسہ کی طرف نسبت کرتے ہوئے نام کے ساتھ ریاضی لکھتاہوں۔
سرفراز احمد: آپ کی جائے ولادت کہاں ہے؟ اور تاریخ ولادت کیا ہے؟
شیخ امین ریاضی:میری جائے پیدائش موضع ککرا پوکھر تحصیل ڈومریا گنج ضلع سدھارتھ نگر ہے۔ تاریخ ولادت ۱۰؍اگست ۱۹۳۵ء ہے۔
سرفراز احمد:کچھ خاندانی پس منظر کے متعلق بتائیں، کیا آپ کے آبا واجداد میں کوئی عالم بھی گذرے ہیں؟
شیخ امین ریاضی:میری جانکاری میں خاندان میں کوئی عالم تو نہیں گذرا ہے لیکن خاندانی وجاہت ودینداری گاؤں میں مسلم تھی خاص کر میرے والد امان اللہ خان علاقہ ہی نہیں بلکہ پورے ضلع میں لاٹھی کی ہنرمندی اور جرأت وبہادری میں معروف ومشہور تھے۔
سرفراز احمد:آپ کی نشونما کہاں ہوئی اور کس نے کی؟
شیخ امین ریاضی:ہماری نشونما ککرا پوکھر گاؤں ہی میں ہوئی اور ہمارے والدین ہی نے ہماری پرورش کی ہے۔
سرفراز احمد:آپ کی تعلیم کی ابتدا کب اور کہاں سے ہوئی؟ اپنے تعلیمی مراحل کے بارے میں بتائیں۔
شیخ امین ریاضی:تعلیم کی ابتدا تقریباً آٹھ سال کی عمر سے گاؤں ہی کی مسجد سے ہوئی۔ اس وقت مولانا سلامت اللہ رحمہ اللہ کسمی والے مسجد میں پڑھاتے تھے۔ ایک ہی سال کے اندر بفضلہ تعالیٰ اردو کی تیسری کتاب تک پڑھ لیا، اس کے بعد سرکاری مکتب ترکولیا جو ہمارے گاؤں سے شمال جانب تقریباً دوکلومیٹر کی دوری پر ہے داخل کیا گیا ۔ترکولیا اسکول کے ہیڈ ماسٹر ہمارے گاؤں کے ماسٹر تعلقدار تھے، ان کی نگرانی میں صرف دوسال کے اندر چار کلاس پاس کرلیا۔ اس کے بعد والد صاحب نے کھیتی باڑی کے کام میں لگالیا مگر میں مطمئن نہیں تھا، والدہ سے کہتارہا کہ میں پڑھوں گا۔ آخر والدہ صاحبہ کی سفارش پر والد صاحب راضی ہوگئے اور خاندان کے ایک طالب علم مولانا محمد یعقوب برق کے ساتھ مجھے مئو بھیج دیا گیا اور مدرسہ محمدیہ کھیدو پورہ میں داخل کرادیا۔ وہاں میں ذی الحجہ تک فارسی کی ابتدائی کتابیں پڑھتارہا (فارسی کی پہلی تیسیرالمبتدی، آمدنامہ وغیرہ) ذی الحجہ کی رخصت میں گھر آگیا پھر مئو جانا نہ ہوا اور والد صاحب نے مدرسہ سراج العلوم بونڈیہار (جہاں وہ لاٹھی سکھاتے تھے) داخل کرادیا، جہاں مولانا محمد اقبال صاحب رحمانی رحمہ اللہ ، مولانا محمد خلیل صاحب رحمانی اوردیگر اساتذہ کی نگرانی میں دوسال کے اندرگلستاں، بوستاں، اخلاق محسنی اور میزان جدید وغیرہ کتابیں پڑھیں۔ پھر ۱۹۴۸ء کے آخر میں دوبارہ والد صاحب کے ہمراہ مئو ناتھ بھنجن مدرسہ فیض عام میں گیا جہاں عربی کی پہلی جماعت میں داخلہ ہوا اور مسلسل پانچ سال تک مدرسہ فیض عام مئو مدرسہ رحمانیہ دہلی کی موجودگی میں تعلیمی اعتبارسے اپنی جماعت میں دوسرے نمبر پرتھا۔ اور مدرسہ رحمانیہ دہلی ۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند کے وقت تباہ کر دیاگیا تھا، اسی ۱۹۴۷ء میں، میں سراج العلوم بونڈیہار میں داخل بھی ہوا تھا۔ مدرسہ فیض عام مئو میں مسلم العلوم،تلخیص المفتاح، ملا حسن،مخصوص المعانی ،مشکوۃ المصابیح جلد ثانی وغیرہ کتابیں پڑھیں۔ آخر سال ماہ شعبان المعظم میں خاص طورپر ایک استاذ مولانا محمد سلیمان مئوی کی وجہ سے احتجاجاً زبردست اسٹرائک کی گئی اور پھر سارے طلباء ناظم مولانا محمد احمد صاحب مئوی کی سفارش کے باوجود نکل گئے۔
چونکہ ناظم مدرسہ نے طلباء کے مطالبات پورے نہیں کیے پھر بعد رمضان ہمارے کچھ ساتھی مولانا عبدالسلام بستوی کے مدرسہ ریاض العلوم دہلی گئے اور وہاں میں نے چھٹی جماعت میں داخلہ لیا لیکن دوتین ماہ پڑھنے کے بعد شیخ الحدیث نے فرمایا کہ ہمارے یہاں ایسے استاذ نہیں ہیں کہ تم جیسے طلباء کو پڑھاسکیں اس لیے آخری سال والے لڑکوں کے ساتھ جو دورہ کررہے ہیں ان کے ساتھ ہوجاؤ اور تم ان سے اچھے ہو مطالعہ سے حدیث کی ساری کتابیں پڑھ سکتے ہو، چنانچہ دورہ کرنے والے لڑکوں کے ساتھ میں بھی شامل ہوگیا اور صحیحین کو مکمل ختم کیا اور بفضلہ تعالیٰ اچھے نمبروں سے کامیاب ہوا۔ شیخ الحدیث مولانا عبدالسلام بستوی کے ساتھ ساتھ ہمارے ایک استاد مولانا سید تقریظ احمد سہسوانی ایڈیٹر اخبار اہل حدیث باڑہ ہندو راؤ دہلی بھی جو بڑے متوکل وصابر انسان تھے اور بہت ہی باصلاحیت تھے، ابن احمد نقوی انھی کے صاحبزادے ہیں۔
سرفراز احمد: زمانۂ طالب علمی کا کوئی یادگار واقعہ ؟
شیخ امین ریاضی:میرے طالب علمی کے زمانے میں کئی ایک واقعات ہوئے لیکن سب سے اہم واقعہ مدرسہ فیض عام کے آخری سال کی اسٹرائک ہے جس میں میرا رول منتہی طلباء سے بھی زیادہ تھا اور سب میرے پیچھے رہتے تھے۔ یہ اسٹرائک دراصل مولانا محمد سلیمان مئوی کی ناقص تعلیم کی وجہ سے ان کے خلاف اور شیخ الحدیث مولانا عبداللہ شائق مئوی اور مولانا عبدالرحمان نحوی کی حمایت میں کی گئی تھی۔ ناظم مدرسہ مولانا محمد احمد تعلیمی نقصان ہونے کے باوجود مولانا سلیمان مئوی کو نہیں نکالتے تھے جبکہ وہ کتابیں نہیں پڑھاپارہے تھے اور جو اساتذہ علمی اعتبارسے ماہر تھے انھی کی مخالفت کرنے لگے۔ اسٹرائک اتنی شدید تھی کہ طلباء نے کھلے عام چوراہے پر اجلاس عام کی شکل میں لوگوں کو حقیقت حال سے آگاہ کرایا، چونکہ مئو کی کمیونسٹ پارٹی کی حمایت بھی طلباء کو حاصل تھی اس لیے پولس فورس جو طلباء کو مرعوب کرنے کے لیے بلائی گئی تھی اور اس کے ذریعے الگ الگ طلباء کو بلاکر دھمکاکر اسٹرائک ختم کرنے کی اپیل کی گئی تھی طلباء نے مسترد کردیا اور صاف کہہ دیا کہ جب تک ہمارے مطالبات تحریری شکل میں پورے نہیں کیے جائیں گے اس وقت تک اسٹرائک ختم نہیں ہوگی، چونکہ مطالبات پورے نہیں ہوئے اس لیے سارے طلباء نکل گئے۔ بعد رمضان المبارک مختلف مدارس میں داخل ہوکر اپنی تعلیم مکمل کی۔ اس اسٹرائک کے نتیجے میں جامعہ اثریہ مئو کا وجود ہوا جسے شیخ الحدیث مولانا عبداللہ شائق مئوی نے قائم کیا جو آج تک قائم ہے اور ان شاء اللہ ہمیشہ قائم رہے گا۔
سرفراز احمد:آپ کی فراغت کب اور کہاں سے ہوئی؟
شیخ امین ریاضی:میری فراغت ۱۹۵۴ء میں مدرسہ ریاض العلوم اردو بازار مچھلی والان دہلی سے ہوئی۔
سرفراز احمد:آپ اپنے چند اساتذہ کے اسماء گرامی بتائیں؟
شیخ امین ریاضی:میرے چند خاص اساتذہ کرام مندرجہ ذیل ہیں:
(۱) مولانا محمد اقبال رحمانی رحمہ اللہ

(۲) مولانا محمد خلیل رحمانی

(۳) مولانا عبدالرحمان مئوی نحوی

(۴) مولانا عبداللہ شائق مئوی

(۵) مولانا جمیل احمد مئوی

(۶) شیخ الحدیث مولانا عبدالسلام بستوی

(۷) مولانا سید تقریظ احمد سہسوانی ایڈیٹر اخبار اہل حدیث باڑہ ہندو راؤ دہلی۔
سرفراز احمد: کس کی شخصیت سے آپ سب سے زیادہ متاثر ہوئے؟
شیخ امین ریاضی: سب سے زیادہ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبداللہ شائق مئوی اورحضرت مولانا محمد اقبال رحمانی گونڈوی سے متاثر ہوا۔
سرفراز احمد: زمانۂ طالب علمی میں کس فن سے زیادہ شغف رہا؟
شیخ امین ریاضی: طالب علمی کے زمانے میں نحو صرف اور علم منطق سے زیادہ شغف رہا۔
سرفراز احمد: آپ نے صحیحین کس سے پڑھی؟
شیخ امین ریاضی: میں نے صحیحین شیخ الحدیث مولانا عبدالسلام بستوی سے پڑھی۔
سرفراز احمد: فراغت کے بعد آپ کا کیا مشغلہ رہا؟
شیخ امین ریاضی: فراغت کے بعد درس وتدریس کا سلسلہ رہا۔
سرفراز احمد: آپ نے تدریس کے فرائض کن مدارس میں انجام دیے؟
شیخ امین ریاضی: فراغت کے معا بعد پانچ سال تک مدرسہ اہل حدیث ٹانڈہ بادلی ضلع رامپور یوپی میں پڑھایا، اس کے بعد تین سال تک مدرسہ مصباح العلوم جھوم پورہ اڑیسہ اور اس کے بعد ایک سال مدرسہ سبل السلام پھاٹک حبش خاں دہلی، بعدہٗ اپنے ہی ضلع بستی (جواب سنت کبیر نگر ہوا ہے) کے مدرسہ مدینۃ العلوم لوہرسن بازار میں سات سال تک درس وتدریس کا فریضہ انجام دیا۔ اس کے بعد ۱۹۷۲ء میں تجارت کی غرض سے ممبئی آگیا، بزنس کے ساتھ ساتھ دعوتی کام بھی انجام دیتا رہا۔
سرفراز احمد: آپ کے زیر تدریس کون کون سی کتابیں رہیں؟ طریقۂ تدریس کیا اختیار کیا؟
شیخ امین ریاضی: میرے زیر درس مکتب میں دینیات درجہ پنجم، چمن اسلام، حساب وجغرافیہ اور درس نظامی میں ہدایۃ النحو اور کافیہ، نحو میر، میزان و منشعب، تہذیب و مرقات، علم الصیغہ،منہاج العربیہ، تلخیص المفتاح، قدوری، قصص النبیین، قراۃ الراشدہ اور گلستاں وبوستاں وغیرہ کتابیں تھیں۔
سرفراز احمد: آپ کے مشہور تلامذہ؟
شیخ امین ریاضی: میرے مشہور تلامذہ میں شیخ عبدالباری فتح اللہ، شیخ عتیق اثر دریا آبادی، شیخ ابوالمکرم عبدالجلیل رحمہ اللہ (شیخ محمد اسماعیل جوراس الخیمہ میں کام کررہے ہیں)۔
سرفراز احمد: کیا آپ خطابت کا بھی شوق رکھتے ہیں؟ خطابت کی ابتدا کیسے ہوئی؟
شیخ امین ریاضی: جی ہاں! خطابت کا شوق رکھتاہوں۔ اس کی ابتدا جمعہ کے خطبوں سے ہوئی۔
سرفراز احمد: اچھے خطیب کے لیے کون سی چیزیں اہم ہوتی ہیں؟
شیخ امین ریاضی: ایک اچھے خطیب کے لیے ضروری ہے کہ وہ جس موضوع پر خطاب کرنا چاہے پہلے اس سے متعلق قرآنی آیتوں اور اسی کے مطابق احادیث صحیحہ کا انتخاب کرلے پھر نظیروں اورمثالوں نیز صحیح واقعات کو بیان کرکے مؤثر بنائے اور جوبھی بیان کرے صاف وسادہ اورعام فہم زبان استعمال کرکے مخاطبین کے ذہنوں میں اتارنے کی کوشش کرے۔
سرفراز احمد: آپ نے کن کن مقامات پر تبلیغی کام انجام دیا ہے؟
شیخ امین ریاضی: میں نے جن مقامات پر درس وتدریس کا کام انجام دیا وہاں خاص طورسے تبلیغی کام انجام دیا۔ ساتھ ہی اس کے اطراف وجوانب میں بھی دعوتی کام اپنی طبیعت سے کرتا رہا، چند جگہوں کے نام حسب ذیل ہیں: جیت گڈھ سنگھ بھوم بہار، گڈاو چمپوا-ارسلہ-گوجیددہ، کیونجیر (صوبہ اڑیسہ) اور اپنے ضلع بستی کے مختلف گاؤں اورقریوں میں دعوت کا کام کیا ہے ممبئی آنے کے بعد مضافات ممبئی خاص کرعلاقہ کوکن کے ضلع رائے گڈھ کے دسیوں گاؤں اورقصبوں میں دعوتی کام کرکے شافعیوں کو اہل حدیث سے قریب کیا اور لوگ تقلید شخصی چھوڑ کر اہل حدیث ہوئے۔
سرفراز احمد: کیا کبھی کہیں مناظرہ بھی ہوا؟
شیخ امین ریاضی: جی ہاں کئی بار ایسا اتفاق ہوا ہے خاص کر دیوبندیوں تبلیغیوں سے مختلف موضوعات پر گفتگو ہوئی ہے۔
سرفراز احمد: آپ کن کن اداروں سے منسلک رہے ہیں؟

شیخ امین ریاضی: میں نے جن مدارس میں پڑھایا ان سے منسلک رہا، مدرسہ سراج العلوم بونڈیہار، مدرسہ فیض عام مئوناتھ بھنجن، مدینۃ العلوم لوہرسن بازار اور جمعیت اہل حدیث سے منسلک ہوں اور ان شاء اللہ رہوں گا۔
سرفراز احمد: کیا آپ کو سیاحت کا شوق ہے؟
شیخ امین ریاضی: سیاحت کا شوق تو بہت ہے مگر کسی دوسرے ملک جانے کا اتفاق نہیں ہوا، ہاں بغرض حج سعودی عرب جانا ہوا ہے اور یہ ملک مجھے بے حد پسند ہے اور اپنا ملک ہندوستان سب سے زیادہ پسندیدہ ملک ہے۔
سرفراز احمد: کن کی اور کس قسم کی تحریریں پڑھنا پسند کرتے ہیں؟
شیخ امین ریاضی: حضرت مولانا عبدالرؤف رحمانی جھنڈا نگری اور حضرت مولانا عبدالحمید رحمانی کی تحریریں زیادہ پسندیدہ ہیں جو علماء اہل حدیث کے کارناموں اور سلفی منہج سے تعلق رکھنے والی تحریریں ہیں۔
سرفراز احمد: کیا آپ نے کبھی رفاہی کاموں میں حصہ لیا ہے؟
شیخ امین ریاضی: جی ہاں! بہت بار رفاہی کاموں میں حصہ لیا ہے۔
سرفراز احمد: آپ کے پسندیدہ رسالے کون سے ہیں؟
شیخ امین ریاضی: میرے پسندیدہ رسالے مجلہ اہل حدیث، محدث، التبیان، البلاغ، نوائے اسلام، جریدہ ترجمان، الاسلام اورالفرقان وغیرہ۔
سرفراز احمد: آپ کے پسندیدہ شاعر کون ہیں؟
شیخ امین ریاضی: میرے پسندیدہ شاعر بہت سے ہیں، چند کے نام لکھتاہوں:
(۱)حامد الانصاری انجم (۲) ذاکر ندوی (۳) عتیق اثر (۴) حیرت بستوی
سرفراز احمد: کوئی خواہش جو پوری نہ ہوسکی؟
شیخ امین ریاضی: خواہش تھی کہ لڑکوں میں کوئی بھی اچھا باصلاحیت عالم بنے اور دین کی خدمت کرے مگر یہ خواہش پوری نہ ہوسکی۔
سرفراز احمد: حلقۂ احباب؟
شیخ امین ریاضی: حلقہ احباب کی ایک لمبی فہرست ہے خاص کر جو عالم وتاجر کے اعتبار سے دعوت وتبلیغ کا مزاج رکھتا ہے اور اس کے لیے جدوجہد کرتاہے۔
سرفراز احمد: پسندیدہ مشغلہ؟
شیخ امین ریاضی: پسندیدہ مشغلہ درس وتدریس اور دعوت وتبلیغ ہے۔
سرفراز احمد: فی الحال کیا مصروفیات ہیں؟
شیخ امین ریاضی: فی الحال مدرسہ تعلیم القرآن اورکلیہ ام سلمہ الاثریہ کی نگرانی اور درس وتدریس ہے۔
سرفراز احمد: مستقبل کے لیے کیا عزائم ہیں؟
شیخ امین ریاضی: مستقبل کے عزائم کلیہ ام سلمہ الاثریہ کی تعلیمی وتعمیری ترقی ہے۔
سرفراز احمد: آپ کے اہل خانہ میں کون کون ہیں؟
شیخ امین ریاضی: میرے اہل خانہ میں پانچ لڑکے اور ایک لڑکی ہے۔ پانچوں لڑکے مجھ سے الگ ہیں اور سب شادی شدہ ہیں، لڑکی شادی شدہ ہے جو فی الحال اپنے خاوند کے ہمراہ شارجہ میں رہتی ہے۔
سرفراز احمد: مسلمانوں کی موجودہ دینی، سیاسی معاشی اور علمی بحران کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ اور اس کی اصلاح کس طرح ممکن ہے؟
شیخ امین ریاضی: اس کی بنیادی وجہ بے علمی وجہالت ہے۔ اگر کچھ باشعور اور علم وعمل میں ممتاز حضرات اس طرف توجہ دیں اور ایک ٹیم ورک کریں تو دھیرے دھیرے ممکن ہے بہت حدتک کچھ اصلاح ہوجائے۔
سرفراز احمد: مغرب پرستی اور جاہلی رسومات وبدعات کے اس دور میں علماء کرام کی کیا ذمہ داری بنتی ہے؟
شیخ امین ریاضی:ایسے ماحول اور ایسی صورت حال میں ہمارے علماء کرام کی سب سے اہم ذمہ داری یہ ہے کہ اپنا قیمتی وقت نکال کر ایثار وقربانی کا جذبہ پیدا کرکے اپنے حلقوں کے ہر شہر ہر قصبہ اور ہرگاؤں میں گھوم گھوم کر ان کے ذہنوں کو اچھائیوں کی طرف موڑیں اور آخرت کے محاسبے سے ڈرائیں۔
سرفراز احمد: اختلاف کے اس دور میں فروعی مسائل سے چھیڑ چھاڑ کہاں تک درست ہے؟
شیخ امین ریاضی: موجودہ دور میں فروعی مسائل سے چھیڑ چھاڑ مناسب نہیں ہے۔
سرفراز احمد: کیا عالمی اور ملکی سطح پر مسلم اتحاد ممکن ہے؟ اگر نہیں تو کیوں؟ اور اگر ہاں تو کن بنیادوں پر؟
شیخ امین ریاضی: عالمی سطح پر مسلم اتحاد ممکن توہے مگر اختلاف عقائد کی بنیاد ایسی مضبوط ہے کہ ناممکن نظر آتاہے۔ ہاں اگر ہر مسلک ومشرب کے علماء متحد ہوجائیں تو مسلم اتحاد ممکن ہے۔
سرفراز احمد: علیحدہ مسلم سیاسی پارٹی کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے، اس کی تشکیل کہاں تک ممکن ہے؟
شیخ امین ریاضی: علیحدہ مسلم سیاسی پارٹی سے موجودہ مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ نقصان ہوگا۔
سرفراز احمد: کیا غیر مسلموں میں اسلام کی تبلیغ کماحقہ ہوپارہی ہے؟ اگر نہیں تو کیوں؟
شیخ امین ریاضی: غیر مسلموں میں اسلام کی تبلیغ کچھ نہیں ہورہی ہے خاص کر اپنی جماعت کی طرف سے، اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ ہم اپنی قوم مسلم ہی کو صحیح دین کی تبلیغ نہیں کرپارہے ہیں تو دوسروں کی طرف کیا توجہ دیں گے۔
سرفراز احمد: ملکی سطح پر جمعیت اہل حدیث جس طرح کام کررہی ہے کیا آپ اس سے پوری طرح مطمئن ہیں؟ یا کسی اصلاح کی گنجائش محسوس کرتے ہیں؟
شیخ امین ریاضی: ملکی سطح پر جمعیت اہل حدیث جو دعوت کا کام کررہی ہے میں اس سے بالکل مطمئن نہیں ہوں جب تک ذمہ داران جماعت یا ان کے نمائندے جو ٹرینڈ ہوں ہر شہر وضلع قصبہ وگاؤں جاجاکر دعوتی کام انجام نہیں دیں گے۔
سرفراز احمد: ممبئی میں سلفی تحریک کس حد تک اطمینان بخش ہے؟
شیخ امین ریاضی:ممبئی میں سلفی تحریک ہندوستان کے دوسرے صوبوں کے مقابلے کچھ حد تک اطمینان بخش ہے۔
سرفراز احمد: کیا ہندوستانی اسلامی مدارس کی کارکردگی سے آپ مطمئن ہیں؟
شیخ امین ریاضی: میں بالکل مطمئن نہیں ہوں۔
سرفراز احمد: سلفی علماء وطلبہ کے لیے آپ کے پیغامات کیا ہیں؟
شیخ امین ریاضی: ان کے لیے میرا خاص پیغام یہ ہے کہ آخرت کی جوابدہی کو مدنظر رکھ کر عام مسلمانوں کی عقیدۂ توحید کی درستگی کے لیے برابر کوشش کرتے رہیں تاکہ اپنے اوپر عائد ہونے والی ذمہ داریوں سے کسی حدتک عہد برآ ہوسکیں۔

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
ارشادالحق روشاد

ماشاءاللہ بہترین۔۔
خوشی ہوئی یہ جان کر کہ شیخ نے ہمارے ہاں مدرسہ ” مدینۃ العلوم” لوہرسن بازار سنت کبیر نگر میں سات برس تک تدریسی خدمات انجام دی ہیں۔
ادام اللہ علیہ نعمۃ الصحۃ والعافیۃ

عبدالغفار زاہد

طالب علمی کے دور کے اعتبار سے بہترین انٹرویو ہے، زیادہ تر سوالات اہم ہیں اور شیخ نے بھی مختصر لیکن جامع جوابات دیے ہیں، جزاکم اللہ خیرا