علم حدیث دو مرحلوں سے گذرا ہے، پہلا مرحلہ ‘عصر الروایۃ’ یعنی جس زمانے میں روایت غالب رہی اور تدوین کا کام کم مقدار میں ہوا۔ اور دوسرا مرحلہ ‘عصر التدوین’ جس میں تدوین غالب رہی، کیوں کہ اکثر وبیشتر رواۃ پر نقاد کا کلام موجود تھا۔
‘عصر الروایۃ’ میں محدثین نے فرداً فرداً ہر راوی کی جانچ پڑتال کی، ان کی پوری زندگی کے حالات کی چھان بین کی، ان کی بیان کردہ احادیث کے ایک ایک لفظ کی تحقیق کی، میزان جرح ونقد پر پرکھا، پھر جاکر صحیح وضعیف کی تمیز ہوئی، نیز کون ثقہ ہیں، کون صدوق ہیں، کون ضعیف ہیں، کن سے روایت لینی ہے اور کن سے نہیں لینی ہے ان تمام باتوں کو محدثین کرام نے تفصیل سے بیان کیا۔
پھر دوسرے مرحلے میں باضابطہ تدوین کا کام شروع ہوا، چنانچہ ثقہ راویوں کے لیے الگ تالیفات وجود میں آئیں، ضعفاء کے لیے الگ مصنفات منظر عام پر آئیں، کذابین و وضاعین کو بھی الگ کتابوں میں جمع کیا گیا۔
ایسی کتابیں بھی معرض وجود میں آئیں جن میں صرف صحیح احادیث کو جمع کیا گیا، بعض ایسی کتابیں بھی تالیف کی گئیں جن میں صحیح وضعیف دونوں قسم کی احادیث جمع کی گئیں اور بعض ایسی کتابیں بھی لکھی گئی جن میں صرف ضعیف اور موضوع روایات کو اکٹھا کیا گیا۔
خلاصہ یہ کہ تدوین سے قبل کا مرحلہ ‘عصر الروایۃ’ روایت کا زمانہ کہلاتا ہے، جس میں احادیث اور اس کے راویوں کی تحقیق ہوتی رہی اور ساتھ ہی تھوڑا بہت تدوین کا کام بھی چلتا رہا۔ اور دوسرا مرحلہ ان تمام راویوں کے حالات اور ان کی مرویات کی تدوین وتالیف کا ہے۔
دوسرے مرحلے کی تکمیل کے بعد آنے والے محدثین ومحققین انھی مصنفات سے اعتنا کرتے رہے، انھوں نے ان مؤلفات کے رواۃ اور ناقلین کے لیے وہ معیار قائم نہیں کیا جو محدثین نے رواۃ حدیث کے تعلق سے کیا تھا، اگر ناقلِ کتاب تحمل وسماع کا اسی طرح اہتمام کرتا جیسا کہ محدثین نے ضابطہ بنایا ہے تو وہ کافی ہوتا، ناقل کی توثیق اور ضبط واتقان کی کوئی حاجت نہیں ہوتی، کیونکہ کتاب کے نقل کرنے میں ناقل کی حالت کو نہیں دیکھا جاتا، بلکہ تحمل، سماع اور اجازہ وغیرہ کا اعتبار کیا جاتا ہے۔ (عنایۃ المحدثین بتوثيق المرویات:ص١٠، بتصرف یسیر)
قارئین کرام! اس سلسلے میں ہم محدثین کی رائے بھی معلوم کرنے کی کوشش کریں گے کہ کتابوں کی اسناد کے تعلق سے ان کا کیا موقف تھا؟
محدثین رواۃِ حدیث اور رواۃِ کتاب میں فرق کرتے ہیں جیسا کہ مندرجہ بالا سطور میں گذرا، چنانچہ حافظ ابن الصلاح کہتے ہیں: اس زمانے میں مجرد سند کا اعتبار کرکے کسی روایت پر صحیح کا حکم لگانا مشکل امر ہے، کیوں کہ اسناد میں موجود اکثر رواۃ جن کا اعتماد کتاب کی روایت پر ہوتا ہے ان میں حفظ وضبط اور اتقان کے وہ شرائط نہیں پائے جاتے جو رواۃ حدیث میں پائے جاتے ہیں۔ (مقدمہ ابن الصلاح:ص ١٧)
گرچہ ابن الصلاح رحمہ اللہ کا کلام روایت کا زمانہ ختم ہونے کے بعد حدیث کی صحت پر حکم لگانے کے تعلق سے ہے، لیکن اس قول سے اتنی بات تو واضح ہے کہ کتابوں کی تدوین وتالیف کے بعد جو ان کتابوں کو سماعا یا اجازۃ روایت کرتے ہیں ان کے اندر حفظ اور ضبط واتقان کا وہ معیار تلاش نہیں کیا جاتا جو محدثین نے رواۃِ حدیث کے تعلق سے قائم کیا ہے۔
حافظ ذہبی ‘میزان الاعتدال’ کے مقدمہ میں کہتے ہیں: بعض متاخرین رواۃ بھی متکلم فیہ ہیں، میں ان میں سے انھی کو اس کتاب میں ذکر کروں گا جن کا ضُعف بالکل واضح ہوگا، کیوں کہ ہمارے زمانے میں رواۃ پر اعتماد نہیں ہوتا، بلکہ ان محدثین (حدیث بیان کرنے والے) اور مقَیِّدین (مقیدین انھیں کہا جاتا ہے جو مجلس سماع میں شریک ہونے والے کے بارے میں معلومات رکھتے تھے یعنی فلاں شخص فلاں محدث کی مجلسِ سَماع میں حدیث سننے کے لیے حاضر ہوا تھا) پر اعتماد ہوتا ہے جن کی صداقت وثقاہت معروف ہو…………. اگر میں نے (متاخرین) میں تضعیف کا باب کھول دیا تو بہت کم ایسے ہوں گے جو ضعفاء کی لسٹ میں شامل ہونے سے بچیں گے، کیوں کہ اکثر لوگ جو روایت کرتے ہیں انھیں پتا ہی نہیں ہوتا کہ وہ کیا روایت کر رہے ہیں اور نہ ہی انھیں علم حدیث کی معرفت ہوتی ہے، کیوں کہ ان میں سے بعض ایسے ہوتے جنھیں (سن تمییز سے قبل) بچپن میں (کسی مجلسِ سماع میں اپنے والدین وغیرہ کے ساتھ وہ شریک ہوتے) احادیث سنایا جاتا، (کیوں کہ صغر سنی کی وجہ سے ان کے اندر ضبط وإتقان کی صلاحیت نہیں ہوتی تھی) اور جب وہ بڑے ہو جاتے تو ان کی سند عالی ہو جاتی اور لوگوں کو ان کے سند کی ضرورت پڑتی، اس لیے اعتبار انھی لوگوں کا ہوگا جنھوں نے انھیں پڑھ کر سنایا اور ان سے حدیث بیان کی، یا جنھوں نے سَماع کے رجسٹر میں ان کا نام درج کیا۔ (میزان الاعتدال: ١/ ٤)
حافظ ابن حجر کہتے ہیں: جو کتابیں مشہور ومعروف ہوتی ہیں ان کے لیے مصنف تک اسناد کی حاجت وضرورت نہیں ہوتی، مثال کے طور پر ‘سنن نسائی’ کو ہی لے لیں، اس کتاب کی نسبت امام نسائی تک ثابت کرنے کے لیے مصنف تک کتاب کے رواۃ کا حال جاننا ضروری نہیں۔(النکت علی کتاب ابن الصلاح:١/ ٢٧١)
شیخ البانی کہتے ہیں: جو کتابیں علماء کے درمیان، مشہور ومتداول ہوں اور علماء نے اس کتاب پر اعتماد بھی کیا ہو تو پھر کتاب کے اسناد کی کوئی حاجت نہیں رہتی، ہاں اگر کتاب کی اسناد ثابت ہوجائے تو نور علی نور ہے، اسناد کے ثبوت سے اس کتاب کو اضافی قوت حاصل ہوگی اور اگر اس کتاب کی اسناد نہیں ملتی تو کتاب کے ثبوت پر اثر نہیں پڑے گا اور نہ ہی کوئی نقصان ہوگا، (کیوں کہ وہ کتاب علماء کرام کے درمیان پہلے سے مشہور ہے)۔ (فضل الصلاۃ علی النبی: ص ١٣)
محترم قارئین: کسی کتاب کو اس کے مؤلف کی طرف نسبت کرنے کا جو پیمانہ محققین نے بنا رکھا ہے وہ بہت ہی صاف ستھرا اور عدل پر مبنی ہے، جیسا کہ آپ نے مذکورہ سطور میں ائمہ کے اقوال کی روشنی میں ملاحظہ کیا، عصر حاضر میں عالمی جامعات بالخصوص اسلامی یونیورسٹیوں میں کسی کتاب کو مؤلف کی طرف منسوب کرنے کا جو طریقہ رائج ہے وہ مندرجہ ذیل ہے:
١- مؤلف خود کہیں کہ میں نے فلاں کتاب لکھی ہے، یا مؤلف کے شاگرد اس کی کتاب کی نسبت اپنے استاد کی طرف کریں، یا اہل علم اس کتاب کو اس مؤلف سے منسوب کریں۔
٢- اس فن کے اہل علم اس کتاب کے مواد سے اندازہ لگا کر کہیں کہ یہ فلاں عالم کی کتاب ہے۔
٣- مؤرخین کسی کی سوانح لکھتے وقت یہ ذکر کریں کہ انھوں نے فلاں عالم سے فلاں کتاب سنی ہے، یا فلاں شیخ کے توسط سے فلاں مؤلف کی کتاب سنی ہے۔
٤- اس مؤلف کے بعد آنے والے علماء اس مؤلف کا نام لے کر اس کتاب سے نقل کریں اور استفادہ کریں۔
٥- علماء کی سوانح پر لکھی گئی کتابوں میں اس کتاب کو اس مؤلف سے منسوب کیا گیا ہو۔
٦- جتنے بھی قلمی نسخے ہوں سب پر مؤلف کا نام ہو۔
اگر کسی کتاب کے تعلق سے مذکورہ تمام شروط پائے جائیں اور ایک ہی مؤلف کی طرف اشارہ کریں تو یقینا یہ کتاب اسی مؤلف کی طرف منسوب ہوگی، اس کی نسبت کی صحت میں تشکیک پیدا کرنا درست نہیں۔
خوانندگان کرام: امام لالکائی رحمہ اللہ کی کتاب ‘شرح اصول اعتقاد أهل السنہ’ کی شہرت اہل علم کے درمیان بالکل ویسے ہی ہے جیسے ہمارے درمیان سورج کی ہے، اہل علم میں سے کسی نے بھی امام لالکائی سے اس کتاب کی نسبت میں شک نہیں کیا ہے، بلکہ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ جس امر کی جرأت خطیب بغدادی، ابن تیمیہ، ابن القیم، ذہبی، ابن حجر وغیرہ جیسے مشہور اور اس فن کے ماہرین نہیں کرسکے، اس کی جسارت آج کے زمانے میں بعض لوگ بالکل آسانی کے ساتھ کرتے نظر آرہے ہیں، ایسی کتاب جس کے ثبوت اور شہرت پر امت مسلمہ کا اتفاق رہاہے اسے زبان کی ایک حرکت سے کالعدم قرار دینے کا کام جاری ہے، اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو آنے والے وقت میں تراثِ اسلامی کے نام پر شاید ایک کتاب بھی نہ بچے، کیوں کہ بہت سی ایسی مشہور کتابیں ہیں جن کی سند مؤلف تک موجود نہیں، یا پھر اس کی سند میں ایسے رواۃ ہیں جن کے حالات کا کچھ پتا نہیں یا وہ ضعیف ہیں، اس لیے ایسے مسئلہ میں تسَرُّع سے پرہیز کرنا از حد ضروری ہے، بلکہ امام احمد کا ایک قول ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے “إياك أن تتكلم في مسألة ليس لك فيها سلف” جس مسئلہ میں ہم سے ما قبل کے ماہرین نے زبان کو جنبش نہ دی ہو ہمیں بھی اس مسئلہ میں حد درجہ احتیاط کرنا چاہیے۔
قارئین کرام: آپ خود سوچیں کہ جس مسئلہ میں سلف کا کلام نہ ہو اس میں خاموشی بہتر ہے، تو پھر جس مسئلہ میں علماء اسلام کا اتفاق ہو اس مسئلہ میں ان کی مخالفت کرنا اور شذوذ کی راہ اختیار کرنا کس قدر سنگین ہے؟!!!
اب ہم آئندہ سطور میں امام لالکائی رحمہ اللہ کی مشہورِ زمانہ کتاب ‘شرح اصول اعتقاد اھل السنۃ’ کے ثبوت کے تعلق سے گفتگو کریں گے ان شاء اللہ۔
اس کتاب کی نسبت امام لالکائی کی طرف ان کے شاگرد خطیب بغدادی (ت: ٤٦٣ھ) نے ‘تاریخ بغداد’ (١٦/ ١٠٨) میں کی ہے، گویا کہ یہ کتاب مؤلف کے زمانے میں ہی شہرت پا گئی تھی، نیز خطیب بغدادی کے بعد آنے والے اہل علم ہر زمانے میں اس کتاب کو امام لالکائی کی طرف منسوب کرکے استفادہ کرتے رہے ہیں۔
جیسے: یحیی بن ابی الخیر سالم العمرانی (ت: ٥٥٨ھ) نے ‘الانتصار فی الرد علی المعتزلۃ القدریۃ الاشرار’ (٢/ ٤٩٠) میں، ابن الجوزی رحمہ اللہ (ت: ٥٩٥ھ) نے ‘المنتظم فی تاریخ الملوک والامم’ (١٨/ ١٥٤) میں، بلکہ ابن الجوزی نے اس کتاب کو اسناد کے ساتھ روایت بھی کیا ہے، عبد الغنی المقدسی رحمہ اللہ (ت: ٦٠٠ھ) نے ‘عقیدۃ المقدسی’ (ص: ٣٣-٣٤) میں، ابن نقطہ رحمہ اللہ (ت: ٦٢٩ھ) نے ‘التقیید لمعرفۃ السنن والمسانید’ (ص: ١٧٨) میں اور انھوں نے ذکر کیا ہے کہ امام لالکائی کی اس کتاب کو محمد عبد القادر الرُّھاوی اور عبد الغنی بن عبد الواحد المقدسی نے حافظ ابو طاہر السِّلفی سے اسناد کے ساتھ سنا ہے، ابن ابی شامہ رحمہ اللہ (ت: ٦٦٥ھ) نے ‘الباعث علی انکار البدع والحوادث’ (ص: ١٧)، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (ت: ٧٢٨ھ) نے ‘الفتوی الحمویۃ الکبری’ (ص: ٣٢٨) میں اور دیگر تصانیف میں بھی، بدر الدین بن جماعۃ (ت: ٧٣٣ھ) نے ‘ایضاح الدلیل فی قطع حجج اھل التعطیل’ (ص: ٤٠) میں، ذہبی (ت: ٧٤٨ھ) نے ‘سیر أعلام النبلاء’ (١٣/ ١٣٦) میں، ابن رجب الحنبلی (ت: ٧٩٥ھ) نے ‘جامع العلوم والحکم’ (١/ ١٥٠) میں، ابن المقلن (ت: ٨٠٤ھ) نے ‘التوضيح لشرح الجامع الصحیح’ (٢/ ٤٥٢) میں، ابن حجر (ت: ٨٥٢ ھ) نے ‘الإصابة فی تمییز الصحابۃ’ (٣/ ٥) میں، عینی (ت: ٨٥٥ھ) نے ‘عمدۃ القاری’ (١/ ١٠٧) میں، سیوطی (ت: ٩١١ھ) نے ‘الدر المنثور’ (١/ ٤١٢) میں، مرعی بن یوسف الحنبلی (ت: ١٠٣٣ھ) نے ‘أقاویل الثقات فی تاویل الأسماء والصفات’ میں، محمد بن احمد السفارینی (ت: ١١٨٨ھ) نے ‘لوامع الانوار البھیۃ’ (٢/ ٢٤٣) میں، شوکانی (ت: ١٢٥٠ھ) نے ‘فتح القدیر’ (٥/ ٤٠٩) میں، نعمان آلوسی (ت: ١٣٧١ھ) نے ‘جلاء العینین فی محاکمۃ الأحمدین’ (ص: ٤٢٦) میں اس کتاب سے استفادہ کیا ہے اور صراحت کے ساتھ اس کی نسبت مؤلف کی طرف کی ہے۔
قارئین کرام: امام لالکائی رحمہ اللہ کی وفات ٤١٨ھ میں ہوئی، ان کے زمانے سے لے کر آج تک ہر زمانے اور صدی کے علماء وفضلاء ان کی کتاب ‘شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ’ سے استفادہ کرتے رہے اور اس کی نسبت امام لالکائی کی طرف کرتے رہے ہیں، جیسا کہ مندرجہ بالا سطور میں حوالے نقل کیے گئے، ان میں سے کسی ایک عالم نے بھی امام لالکائی کی طرف اس کتاب کی نسبت میں شک نہیں کیا اور نہ ہی سوالیہ نشان قائم کیا۔
اس کے باوجود یہ کہنا کہ یہ کتاب مؤلف سے ثابت ہی نہیں، کیوں کہ مؤلف سے روایت کرنے والا راوی کذاب ہے، اس لیے ہم اس کا اعتبار نہیں کر سکتے، تو یہ بات درست نہیں، کیوں کہ مخطوطات کی دنیا میں کسی محقق نے یہ پیمانہ نہیں بنایا ہے کہ کسی کتاب کی نسبت اس کے مؤلف کی طرف صحیح ہونے کے لیے اس کتاب کی اسناد کا مؤلف تک صحیح ہونا ضروری ہے، جیسا کہ اس تعلق سے ابن حجر اور شیخ البانی وغیرہ کا کلام گذرا۔
معزز قارئین: اگر بات چلی ہے اسناد کی تو اس کی بھی تحقیق ہوجائے تاکہ حقیقت حال آشکارا ہوسکے، در اصل جو لوگ اس کتاب کو غیر ثابت کہتے ہیں وہ اس کتاب کے راوی ابو بکر احمد بن علی بن الحسین الطُرَیْثِیْثِی کو متروک اور جھوٹا مانتے ہیں، کیوں کہ ابن ناصر نے اسے کذاب کہا ہے، جب کہ دیگر ائمہ کے اقوال سے وہ صرفِ نظر کر جاتے ہیں، ذیل میں ہم طُرَیْثِیْثِی کے متعلق علماء کرام کے جرح وتعدیل کے اقوال نقل کریں گے۔
ابو بکر احمد بن الحسین الطُرَیْثِیْثِی امام لالکائی کے شاگرد ہیں۔
ابن الجوزی کہتے ہیں: اہل بغداد کا ان کے ضعیف ہونے پر اجماع ہے۔ (الضعفاء والمتروكون:١/ ٨١) حافظ ذہبی کہتے ہیں: وہ امام، زاہد اور مسنِد (جو سند کے ساتھ روایت کرے اسے مسنِد کہتے ہیں گرچہ اس کے پاس حدیث کا علم نہ ہو) تھے۔ (سیر أعلام النبلاء:١٨/ ١٦٩)
نیز فرماتے ہیں: ان کے اندر ضُعف ہے اور ابن ناصر نے انھیں کذاب کہا ہے۔ (المغنی فی الضعفاء:١/ ٤٨)
ابن الانماطی کہتے ہیں: ابو علی الکرمانی کی وجہ سے وہ اختلاط کا شکار ہو گئے تھے۔ (لسان المیزان:١/ ٥٤٧)
کیوں کہ آخری عمر میں ان کی نگاہ چلی گئی تھی اور ان کے لیے لکھنے کا کام یہی ابو علی کیا کرتے تھے اور ابو علی نے ان کے سماع میں ایسی چیزیں داخل کردی تھیں جو طُرَیْثِیْثِی نے کسی سے نہیں سنی تھی اور ابو علی سے حسن ظن کی وجہ سے ان پر اعتماد کرتے ہوئے ان کی لکھی ہوئی چیزیں بیان کیا کرتے تھے۔ (طبقات الشافعیۃ الکبری:٤/ ٤٠)
یہی وجہ ہے کہ انھوں نے ابن زرقویہ سے سماع کا دعویٰ کیا جب کہ ابن زرقویہ سے ان کا سماع ثابت نہیں تھا۔
چنانچہ سمعانی کہتے ہیں: انھوں نے ابن زرقویہ سے سماع کا دعوی کرکے (محدثین کی نگاہ میں) خود کو خراب بنا لیا۔ (لسان الميزان:١/ ٥٤٧)
صلاح الصفدی کہتے ہیں: ان کی سماعات صحیح ہیں، سوائے ان چیزوں کے جو ابو علی الکرمانی نے داخل کردیا۔ (الوافی بالوفیات:٧/ ١٣٤)
حافظ ابو طاہر السلفی نے انھیں ثقۃ کہا ہے۔ (لسان المیزان:١/ ٥٤٧)
حافظ ابن الصلاح کہتے ہیں کہ (ابو علی الکرمانی کا ان کے سماعات میں اپنی جانب سے داخل کرنا، نیز طُرَیْثِیْثِی کا ابن زرقویہ سے سماع کا دعوی کرنا) اس سے ان کی دیانت داری مطعون نہیں ہوتی، نیز طُرَیْثِیْثِی کی جو روایتیں ابو علی الکرمانی کے طریق سے نہ ہوں اس پر بھی کوئی اثر نہیں پڑتا۔ (طبقات الفقہاء الشافعیۃ:١/ ٣٥٣)
اور تقی الدین سبکی کہتے ہیں: ابن ناصر کا طُرَیْثِیْثِی کو کذاب کہنا ان کے ابن زرقویہ سے سماع کے دعوی کی وجہ سے ہے، حالانکہ ابن ناصر نے انھیں کذاب کہہ کر مبالغہ سے کام لیا ہے، کیوں کہ طُرَیْثِیْثِی نے یہ دعوی ابو علی الکرمانی کی وجہ سے کیا ہے، کیوں کہ طُرَیْثِیْثِی جھوٹے نہیں تھے، اس لیے صرف ابن زرقویہ سے سماع کا دعوی کرنے کی وجہ سے وہ جھوٹے نہیں ہوں گے اور نہ ہی اس بنا پر ان کی ان تمام مرویات کو رد کیا جائے گا جس میں ان کا سماع صحیح ہے، نیز ابو طاہر السلفی طُرَیْثِیْثِی کے اسی سماع سے نقل یا روایت کرتے ہیں جو اصل اور صحیح ہوتی ہے، اگر طُرَیْثِیْثِی جھوٹے ہوتے تو ابو طاہر السلفی ان سے کبھی روایت نہ کرتے، جیسا کہ خود ابو طاہر السِّلفی نے کہا ہے: طُرَیْثِیْثِی کے جس سماع سے میں نقل کرتا ہوں یا روایت کرتا ہوں وہ بالکل سورج کی طرح واضح اور صحیح ہوتی ہے۔ (طبقات الشافعیۃ الکبری:٤/ ٤٠)
اور حافظ ابن حجر کہتے ہیں: ابو طاہر السِّلفی احمد بن علی بن الحسین طُرَیْثِیْثِی سے جو بھی روایت کرتے ہیں ہم اس کے بارے میں پختہ یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ وہ بالکل صحیح ہیں، کیوں کہ ابو طاہر السلفی نے طُرَیْثِیْثِی کے اصل اور صحیح سماع سے روایت کیا ہے۔ (لسان الميزان:١/ ٥٤٧)
اس لیے ابو طاہر کہتے تھے: حدثنا من اصلہ۔ (المصدر السابق)
طُرَیْثِیْثِی کے بارے میں خلاصہ یہی ہے کہ:
✺ ان سے ابو طاہر السِّلفی جو بیان کرتے ہیں وہ صحیح ہے، کیوں کہ ابو طاہر السِّلفی ان سے وہی بیان کرتے ہیں جو ان کے اصل اور صحیح سماع سے ہوتا ہے۔
✺ اور امام لالکائی کی کتاب ‘شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ’ ابو طاہر السِّلفی نے احمد بن علی بن الحسين طُرَیْثِیْثِی سے بیان کیا ہے، چنانچہ اس کتاب کی سند صحیح ہے۔
✺ اور اس کے صحیح ہونے کی صراحت حافظ ابن حجر نے کی ہے، نیز ابن الصلاح، سبکی اور صفدی کا قول بھی اسی پر دلالت کرتا ہے، اور تمام علماء وفضلاء اور عقیدے کے ماہرین کا اتفاق بھی اس کتاب کی سند کو درست قرار دیتا ہے۔
✺ کیوں کہ ان میں سے کسی نے بھی امام لالکائی کی طرف اس کتاب کی نسبت میں شک نہیں کیا ہے۔
✺ اسی طرح اس کتاب کے جتنے بھی قلمی نسخے ہیں ان سب پر امام لالکائی کا ہی نام ہے جو اس بات کا بَیِّن ثبوت ہے کہ یہ کتاب امام لالکائی کی ہے اور ان سے ثابت ہے۔
✺ اور رہی بات ابن ناصر کا طُرَیْثِیْثِی کو کذاب کہنا تو وہ درست نہیں جیسا کہ سبکی نے اس کا جواب دیا ہے، نیز ابو علی کرمانی کی وجہ سے ان کی تمام مسموعات کو مسترد کرنا بھی درست نہیں جیسا کہ ابن الصلاح، ذہبی اور صفدی نے کہا ہے۔
✺ خلاصہ کلام یہ کہ: صرف ابن ناصر کے قول کو بنیاد بنا کر اس کتاب کو کالعدم قرار دینا بالکل انصاف کے خلاف ہے۔
☜ نیز ان علماء کرام کی ثقاہت پر سوالیہ نشان بھی جنھوں نے اس کتاب کو امام لالکائی کی کتاب مان کر ان کے زمانے سے آج تک اس سے استدلال کرتے آئے ہیں۔
☜ اس لیے کسی کتاب کو مؤلف کی طرف نسبت کرنے کا جو معیار ہے اس کو مد نظر رکھنا چاہیے، اگر اس میں کوئی کمی ہو تب کتاب پر سوالیہ نشان قائم کیا جا سکتا ہے۔
☜ بصورت دیگر کتاب کی سند کے کسی راوی کو بنیاد بناکر اس کتاب کے ثبوت کا انکار کرنا محققین کے منہج کے خلاف ہے۔
چند سوالات:
☜ کیا متقدمین ومتاخرین علماء میں سے کسی نے کتاب کے ثبوت کے لیے مؤلف تک سند کے صحیح ہونے کی شرط لگائی ہے؟
☜ کتب ستہ اور دیگر کتب کی جو طویل اسناد کا سلسلہ ہم تک پہنچا ہے کیا ہم سے لے کر امام بخاری تک اگر اس سند میں کوئی ایک بھی ایسا راوی ہو جس کی توثیق نہیں ملتی تو کیا اس کی وجہ سے پوری صحیح بخاری ضعیف ٹھہرے گی؟
☜ اسناد کی ضرورت کسی حدیث کو تصحیح وتضعیف کے اعتبار سے پرکھنے کے لیے ہوتی ہے، جب ایک کتاب تالیف ہو کر منصہ شہود پر آگئی اور علماء کرام کے درمیان متدوال ہوگئی کہ یہ فلاں کی تالیف ہے تو مؤلف کی کتاب روایت کرنے والے راوی کے ضعیف ہونے سے اس کتاب پر کوئی اثر نہیں پڑتا، اگر مؤلف کے بعد کے رواۃ کی بھی تحقیق کی ضرورت ہے تو پھر مؤلف کے بعد جتنے رواۃ آج تک اس سند میں موجود ہیں ان سب کی تحقیق کی جانی چاہیے اور اگر آج کے زمانے میں کسی کے پاس صحیح بخاری کی سند ہے تو سب سے پہلے اسی شخص کو جرح وتعدیل کے میزان پر پرکھا جائے گا اور اسی طرح اس کے اوپر والے کے ساتھ بھی معاملہ کیا جائے گا اور یہی سلسلہ مؤلف تک جائے گا۔
اب یہ بتائیں کہ کتنی کتابیں اسناد کے ساتھ محفوظ رہیں گی؟
☜ نیز آج کے دور میں کس کی تعدیل و تجریح کا اعتبار کیا جائے گا اور کس بنیاد پر؟
☜ اگر کوئی یہ کہے کہ نہیں صرف مؤلف کے راوی کو پرکھا جائے گا آج کے زمانے کی سند کو نہیں پرکھا جائے گا، تو پھر سوال یہ ہوتا ہے کہ اس تخصیص کی دلیل کیا ہے؟
مختصر ایں کہ بلا وجہ امت کے اعتماد کو متزلزل کرنے کی سعی نہ کی جائے، ہاں جس کتاب کے ثبوت میں حقیقتاً تردد ہو اس کو تحقیقی انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی جائے، البتہ جس کتاب کے ثبوت پر امت کے کبار علماء نے اتفاق کیا ہو اور اہل علم کے درمیان وہ مشہور ومتداول رہی ہو اس کو زبردستی کالعدم قرار دینے کی کوشش کرنا یقیناً فتنے کا سامان ہے۔
اللہ المستعان وعلیہ وحدہ التکلان
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ اللہ تعالی اجر جزیل دے اور صحت وعافیت سے نوازے۔گرچہ موصوف نے امام اللالکائی کی مشہور زمانہ کتاب”شرح اصول اعتقاد اہل السنہ”کے نسبت کی توثیق میں یہ مختصر اور جامع مقالہ لکھا ہے،تاہم اس کا ابتدائیہ معلومات سے بھرپور اور ہم طلبہ علم کے لیے بہت ہی مفید ہے۔ آپ نے تمہیدا تدوین حدیث کے مراحل کو بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ ذکر کیا ہے،نیز باضابطہ تدوینی عمل کب شروع ہوا،اور محققین نے توثیق کے لیے کن اصولوں کو سامنے رکھا،عصر تدوین کے مرحلہ کو اہل علم کس نام سے موسوم کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ بعد… Read more »
ہمت افزائی کا بہت بہت شکریہ، جزاکم اللہ خیرا وبارک فیکم ورفع قدركم
بہت خوب جناب… بصیرت افروز تحریر.. اللہم زد فزد