شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا دعوتی مشن

آصف تنویر تیمی تاریخ و سیرت

گزشتہ چند صدیوں میں جن شخصیات پر بہت زیادہ لکھا اور پڑھا گیا ان میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ بھی ہیں۔ اس سے قبل بھی کئی مختصر اور مطول مضامین میں نے مختلف رسالوں میں شیخ الاسلام کی زندگی پر تحریر کیے ہیں۔خاص طور سے امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ نے ان کی زندگی سے متعلق اپنی مایہ ناز کتاب” تذکرہ“ میں جو سنہرے پھول گلدستہ کی شکل میں جمع کیے ہیں ان کو میں نے سلسلہ وار سوشل میڈیا کے توسط سے پیش کرنے کی سعادت حاصل کی ہے۔شیخ الاسلام کی زندگی اس قدر پہلو دار اور علم وعمل کی خوشبو سے بھرپورہے کہ کبھی سیرابی نہیں ہوتی،جتنا پڑھو اور لکھو تشنگی باقی رہتی ہے۔گزشتہ دنوں معروف عرب عالم دین عائض القرنی کی کتاب’سیماھم فی وجوھھم‘ہاتھ لگ گئی، پورا پڑھ گیا،اچھا لگا،سوچا اس اچھائی کو اپنے دوستوں میں بھی تقسیم کیا جائے، اس لیے چلتے چلاتے عربی کو اردو کا جامہ پہنادیا اور کچھ اپنا حاصل مطالعہ تحریر میں شامل کردیا۔امید ہے کہ اخوان اسے پسند کی نگاہ سے دیکھیں گے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ علم کے شہنشاہ، مجدد،عابد،زاہد اور عالم باعمل تھے۔ آپ ’ابن تیمیہ‘کی کنیت سے علمی دنیا میں شہرت رکھتے ہیں۔پورا نام ’احمد بن عبد الحلیم ابن تیمیہ الحرانی‘ ہے۔آپ کی ولادت ۶۶۶/۶۶۷ھ میں اور وفات۷۲۸ھ میں ہوئی۔
علماء ودعاة کی زندگیوں کو پڑھنے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ علماءہی دعاة ہوتے ہیں اور دعاة ہی علماءہوتے ہیں،دعوت دین بلا علم کے اور علم بلا دعوت کے بے سود ہے۔اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کے ان علماءکی سرزنش کی جنھوں نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کو ترک کردیا،اللہ تعالی نے فرمایا”انھیں ان کے عابد وعالم جھوٹ باتوں کے کہنے اور حرام چیزوں کے کھانے سے کیوں نہیں روکتے،بے شک برا کام ہے، جو یہ کررہے ہیں“(المائدہ: ۶۳) دوسری جگہ فرمایا:”اور اللہ تعالی نے جب اہل کتاب سے عہد لیا کہ تم اسے سب لوگوں سے ضرور بیان کروگے اور اسے چھپاؤگے نہیں،تو پھر بھی ان لوگوں نے اس عہد کو اپنی پیٹھ پیچھے ڈال دیا اور اسے بہت کم قیمت پر بیچ ڈالا۔ان کا یہ بیوپار بہت برا ہے“۔(آل عمران:۱۸۷)
وہ علم جس کی نشر واشاعت لوگوں کے بیچ نہیں ہوتی وہ اس خزانے کی طرح ہے جو اپنے مالک کے لیے وبال جان ہوتا ہے۔دعوت کے میدان میں علماءکی تکاسلی کی وجہ سے اس امت کو بڑا خسارہ پہنچا۔امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ علم ودعوت دونوں کے ہیرو تھے۔دین وشریعت کا جو حصہ انھوں نے حاصل کیا تھا وہ اس کے داعی بھی تھےان کے قول وعمل میں تضاد نہ تھا۔اللہ تعالی نے فرمایا:”اور ان لوگوں کو اس شخص کا حال پڑھ کر سنائیے کہ جس کو ہم نے اپنی آیتیں دیں پھر وہ ان سے بالکل ہی نکل گیا، پھر شیطان اس کے پیچھے لگ گیا سو وہ گمراہ لوگوں میں شامل ہوگیااور اگر ہم چاہتے تو اس کو ان آیتوں کی بدولت بلند مرتبہ کردیتے لیکن وہ تو دنیا کی طرف مائل ہوگیا اور اپنی نفسانی خواہش کی پیروی کرنے لگا سو اس کی حالت کتے کی سی ہوگئی کہ اگر تو اس پر حملہ کرے تب بھی ہانپے یا اس کو چھوڑ دے تب بھی ہانپے،یہی حالت ان لوگوں کی ہے جنھوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایاسو آپ اس حال کو بیان کردیجیے شاید وہ لوگ کچھ سوچیں“۔(الاعراف:۱۷۶-۱۷۷)
گویا ایسا عالم جس نے خود کو یا امت کے دوسرے لوگوں کو فائدہ نہ پہنچایا اس کی بھی مثال کتے جیسی ہے،کتا چاہے دھوپ میں رہے یا سائے میں وہ اپنی زبان نکالتا ضرور ہے۔
نشو ونما:
آپ کا گھرانہ دین پسند اور عبادت گزارتھا۔گھر کے تمام افراد عابد وزاہد اور آخرت پسند تھے۔آٹھ سال کی عمر سے آپ نے فجر کی جماعت کی پابندی شروع کردی تھی۔آپ کی دعاؤں میں سے ”یا معلم إبراھیم علمنی یامفھم سلیمان فھمنی“(اے ابراہیم کے سکھانے والے مجھے بھی سکھا،اے سلیمان کے سمجھانے والے مجھے بھی سمجھا)اس دعا کی برکت سے اللہ نے آپ کو علم وفہم کی ایسی دولت سے نوازا جس کی بدولت آپ نے شرک وبدعات کے سیاہ بادلوں کو دور کیا اور تالیفات وتصنیفات کا ایسا عظیم سرمایہ چھوڑ گئے جس سے اب تک لوگ ہدایت پارہے ہیں اور ان شاءاللہ قیامت تک لوگ علم وعمل کی روشنی حاصل کرتے رہیں گے۔آپ اپنی عظیم علمی، دعوتی، تصنیفی اور سماجی خدمات کی وجہ سے مجدد وقت قرار پائے،مسلمانوں اور غیر مسلموں نے آپ کے علم وفن اور تقوی وطہارت کا لوہا مانا۔
آپ کی سیرت وسوانح پر خامہ فرسائی کرتے ہوئے ایک فرنچ مستشرق لکھتا ہے”ابن تیمیة وضع ألغاما فی الأرض، فجر بعضھا ابن عبدالوھاب وبقی بعضھا لم یفجر“(ابن تیمیہ نے (علم وفن کے) ایسے تابندہ نقوش چھوڑے جن میں سے بعض کو محمد بن عبدالوہاب(رحمہ اللہ) نے روشن کیا اور بعض اب تک روشن نہ ہوسکے)
دعوتی لیاقت وصلاحیت:
دعوتی لحاظ سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ اللہ نے آپ کو چھ اہم دعوتی خوبیوں سے نوازا تھا،جن سے آپ نے دعوت کے میدان کو بہ آسانی سَر کیا۔
(۱)اخلاص،یکسوئی،خیر خواہی،رضا جوئی،آخرت کی فکر مندی:
یہ وہ امور ہیں جن پر شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی نگاہ رہتی تھی۔آپ دوسروں کو بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث”تین چیزوں کی وجہ سے مسلمانوں کادل صاف ستھرا ہوتا ہے؛ جو بھی کام کرے اخلاص کے ساتھ کرے، شاہانِ وقت کے لیے خیر خواہ ہو اور مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ رہے“۔(مسند احمد:۵۱۸۳)علامہ البانی نے اس کو مشکاة میں صحیح قرار دیا ہے)
ابن تیمیہ کہتے ہیں:
”بعض الناس یتعصب لہوی، أو مذہب، أو طائفة، أو لحزب، فیجعلہا ھي المقصودة بالدعوة، وهذا خطأ بین،فإن المقصود بالدعوة، هو: اللہ سبحانہ وتعالی، ولیس الحزب، ولیست الفرقة، ولیس الرأی الذی یدعو إليه“
(بعض لوگ اپنی خواہش، اپنے مذہب، یا کسی گروہ یا پارٹی کے تعصب کا شکار ہوجاتے ہیں اور اپنی دعوت کا مقصد اول اسی(تعصب) کو سمجھتے ہیں،جو کہ واضح غلطی ہےدعوت کا مقصد محض اللہ تعالی کی خوشنودی ہے نہ کہ کسی پارٹی، کسی جماعت، کسی فرقہ یا کسی کی رائے کی طرف لوگوں کو بلانا)
ابن تیمیہ مزید لکھتے ہیں:
”من أراد المنصب فلیعلم إنه لا یحصل علی منصب أعلی من فرعون، ولکن أین فرعون؟أنه یعرض علی النار غدوا وعشیا.{ویوم تقوم الساعة أدخلوا آل فرعون أشد العذاب}. و إن کنت ترید المال، فاعلم إن قارون حصل علی مال کثیر، لا تحصل علیہ أنت، فخسف بہ اللہ الأرض، فماذا نفعل؟ فعلیک بإخلاص العمل لوجہ اللہ، فإن وجہہ ہو الباقی وما سواہ فانی“۔
(جو عہدہ کا متمنی ہو اسے جاننا چاہیے کہ فرعون سے بڑا عہدہ اسے نہیں مل سکتا ہے،لیکن فرعون کہاں ہے؟ صبح وشام وہ جہنم کی آگ پر پیش کیا جاتا ہے،اللہ تعالی نے فرمایا:
النَّارُ یُعرَضُونَ عَلَیہَا غُدُوّا وَعَشِیّا وَیَومَ تَقُومُ السَّاعَةُ أدخِلُوها آلَ فِرعَونَ أشَدَّ العَذَابِ
(المومن: ۴۶) (آگ ہے جس کے سامنے یہ ہر صبح شام لائے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہوگی(فرمان ہوگا کہ) فرعونیوں کو سخت ترین عذاب میں ڈالو)اگر آپ مال کے خواہش مند ہیں تو آپ کو قارون سے زیادہ مال نہیں مل سکتا،لیکن اللہ نے اس کو اسی کے ذریعہ زمین میں دھنسادیا۔تو ایسی صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ ہر عمل میں اللہ کے لیے اخلاص کو لازم قرار دیں اس لیے کہ اللہ ہی کی ذات کو بقا ہے بقیہ ساری چیزیں فانی ہیں)
(۲)عمل کی دولت:
ابن تیمیہ رحمہ اللہ عالم باعمل تھے۔ہر وہ علم جو عمل، خشیت الٰہی اور رب کی بجا آوری سے خالی ہو وہ مجرد معلومات کا پلندہ ہے جس کو انسان اپنے ذہن میں رکھتا ہے اور کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔
ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی زندگی میں عمل کے مختلف گوشے تھے:
زہد وورع: زہد کے باب میں آپ بے نظیر تھے،پوری زندگی کسی منصب پر فائز نہ ہوئے۔ایک سفید کپڑا،ایک سفید عمامہ اور کبھی کبھار ٹھنڈی میں دو عدد کپڑا زیب تن کرتے تھے۔
دمشق میں ایک سائل ابن تیمیہ کے پاس آیا اور کچھ پیسوں کا سوال کیا، ابن تیمیہ نے اپنی جیب میں ہاٹھ ڈالا تو کچھ نہ نکلا،پھر ایک دیوار کی اوٹ میں جاکر اپنا اوپر والا کپڑا نکالا اور سائل کو تھما دیا۔
صاحب”الأعلام العلیة“رقمطراز ہیں:
”تأتيه الدنیا؛ الذهب والفضة والخیول والجواری، إلى غیر ذلک، فینفقہا فی ساعتہا، ولا یدخل ولو درهما عندہ“
(سونے چاندی، گھوڑے اور باندیوں وغیرہ کی شکل میں دنیا ان کے پاس آتی، مگر آن کی آن میں آپ سب کو خرچ کردیتے اپنے پاس ایک درہم بھی نہیں رکھتے)
(۳)شجاعت وبہادری:
مغولی بادشاہ جب دمشق میں داخل ہوا تو ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے پوری جرأت اور بہادری سے اس سے گفتگو کی،ایسی بے باکی کا مظاہرہ کیا جس کی نظیر مشکل ہے۔جب تاتاری اسلامی شہروں میں داخل ہوئے اور اس کو تہ وبالا کرنا چاہا تو شیخ الاسلام نے لوگوں کو اکٹھا کیااور خود تلوار سوت کر میدان جنگ میں کود پڑے اور لوگوں کو بھی ان الفاظ میں ابھارا: اے لوگو! آج روزہ توڑ دو تاکہ جنگ میں قوی رہو،پھر خود بھی ایک گلاس پانی پی کر افطار کرلیا،آپ کو دیکھ کر لوگوں نے بھی ایسا ہی کیا،پھر مسلمانوں کے حاکم سے گویا ہوئے: آپ فوج کے ایک دستہ کو جنگ کے لیے میدان میں بھیجیں، حاکم نے تاتاریوں سے جنگ کے لیے ایک دستے کو کھڑا کیا، جنگ شروع ہوئی، شیخ الاسلام معرکہ کی اگلی صف میں تھے۔ ساتھ ہی کہہ رہے تھے : اللہ کی قسم، آج ہم لوگ فتح یاب ہوں گے۔تلامذہ نے کہا: جناب! ان شاءاللہ بھی کہہ لیں.تو فرمایا: ہمیں یقین کامل ہے کہ ہم فتح یاب ہوں گے۔
آپ شجاعت کے ساتھ اخلاق حسنہ کے بھی دھنی تھے۔عجیب وغریب قسم کی صبر وشکیبائی آپ میں موجود تھی۔ابن قیم الجوزیہ کہتے ہیں: ان کے ایک حریف عالم کا انتقال ہوا تو میں نے ان کو اس کے انتقال کی خوش خبردی (میرے خبر دینے کے بعد) ان کا چہرہ لال پڑ گیا، آنسو جاری ہوگیااور کہا: تم مجھے ایک مسلمان کی وفات کی خبر دے رہے ہو،اس کے بعد وہ اٹھے،ہم لوگ بھی اٹھے، ہم سارے اس حریف کے گھر پہنچے،انھوں نے میت کے گھر والوں سے تعزیت کی، گھر والے رونے لگے اور امام ابن تیمیہ کی اس ادا سے بڑے متاثر ہوئے۔
(۴)کتاب وسنت، زندگی کا محور ومرکز:
دعوت کے میدان میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا تیسرا بڑا ہتھیار کتاب وسنت کو مضبوطی کے ساتھ تھامنا تھا۔اس تعلق سے ان کا مشہور قول ہے: طالب علم کو ہر مسئلہ میں کتاب وسنت کی روشنی میں گفتگو کرنی چاہیےاور مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کے آگے ہر قسم کی دلیل اور رائے کو ترک کردینی چاہیے،اس لیے کہ انبیاءمعصوم ہوتے ہیں۔ جب شیخ الاسلام نے کتاب وسنت کو اپنی علمی وعملی زندگی کا محور ومرکز بنایا تو اللہ نے انھیں حق وباطل میں فرق کی صلاحیت، ذہانت اور سوچ بوجھ کی دولت سے مالا مال کیا۔
ابن تیمیہ خود خود فرماتے ہیں:
”أهل السنة والجماعة وسط فی الأسماءوالصفات، ووسط فی الوعد والوعید، ووسط فی الإيمان، ووسط فی القدر، ووسط فی الأمر بالمعروف، ووسط فی الفقه“
( اہل سنت والجماعت اسماءوصفات، جزا وسزا،ایمان،تقدیر، امر المعروف اور شرعی مسائل میں اعتدال پسند ہوتے ہیں)
(۵)انابت و توکل:
امام ابن تیمیہ کی دعوتی زندگی کا پانچواں محور انابت الی اللہ اور وحدہ لاشریک پر کامل بھروسہ تھا۔ فجر کے بعد مسلسل اوراد ووظائف کرتے اور اس کو صبح کی(روحانی) خوراک سے تعبیر کرتے۔اور برملا اظہار کرتے:”اگر یہ خوراک مجھے حاصل نہ ہو تو میری طاقت کمزور پڑ جائے گی“۔انھی کا قول ہے : ”دنیا میں بھی ایک جنت ہے ،جو دنیاوی جنت میں داخل نہ ہوا وہ اخروی جنت میں بھی داخل نہ ہوگا۔دنیاوی جنت سے مراد اللہ کی یادیں اور عبادتیں ہیں“۔کہتے ہیں :”جب کوئی مسئلہ مشکل سمجھ میں آتا ہے تو تقریبا۱۰۰ مرتبہ استغفار کرتا ہوں، اللہ تعالی اس کی برکت سے مسئلے کو آسان بنادیتا ہے“۔ابن القیم اپنے استاد ابن تیمیہ کے بارے میں اپنی کتاب”مدارج السالکین“میں لکھتے ہیں کہ ایک دن میں وہ:”یا حی یا قیوم، لا إله لا أنت برحمتک أستغیث“تقریبا چالیس سے زائد مرتبہ پڑھتے تھے۔
امام ذہبی کہتے ہیں : اگر میں مقام ابراہیم اور رکن یمانی کے پاس حلفیہ کہوں کہ میں نے ابن تیمیہ کے مثل کسی کو نہیں پایا،نہ انھوں نے خود اپنے جيسا کسی کو دیکھا تو میں جھوٹا قرار نہیں پاؤں گا۔ان کے تلامذہ نے کہا: ہم دیکھتے ہیں کہ ذکر واذکار سے آپ کی زبان نہیں تھکتی تو ابن تیمیہ نے کہا: میرا دل مچھلی کی مانند ہے،جب اسے پانی سے نکالا جاتا ہے تو مرجاتی ہے اور میرا دل بھی ویسے ہی اگر اس سے ذکر نہ کیا جائے تو مردہ ہو جائے گا۔
ابن القیم کہتے ہیں:”میں نے ان(ابن تیمیہ) کو جیل میں سجدے میں روتے اور”اللھم أعنی علی ذکرک وشکرک وحسن عبادتک“ کو بار بار دہراتے پایا۔
آپ کی نماز کے خشوع وخضوع کا یہ عالم تھا کہ جب کبھی دمشق کے مسجد ”بنی امیہ“میں امامت فرماتے اور”الله اکبر“ کہتے تو لگتا دل نکل گیا۔
ابن القیم اپنی کتاب”روضة المحبین“میں تقی الدین بن شقیر کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ انھوں نے دیکھا کہ شیخ الاسلام نے مسجد بنی امیہ میں عصر کی نماز پڑھی اور تن تنہا میدان کی طرف نکل پڑے۔تقی الدین( جو ابن تیمیہ کے شاگرد بھی تھے) کہتے: میں ان کے پیچھے آنکھ بچا کر لگ گیا، جب وہ میدان کے درمیان پہنچے تو اپنی نگاہ آسمان کی طرف اٹھائی اور”لا إله إلا أنت سبحانک إنی کنت من الظالمین“ کا ورد کیا اور رونے لگے۔ ابن رجب کہتے ہیں: ”ابن تیمیہ کو دشمنوں سے بچانے میں ان کے اوراد ووظائف نے اہم کردار ادا کیا“۔
(۶)حالات وظروف پر نگاہ:
بعض لوگ داعی تو ہوتے ہیں مگر زمانے کے تقاضوں سے بالکل بے خبر ہوتے ہیں۔حالات وظروف پر ان کی نگاہ نہیں ہوتی۔چنانچہ دعوتی میدان میں انھیں جگہ جگہ ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں۔امام ابن تیمیہ کی جس طرح گہری نگاہ کتاب وسنت پر تھی اسی قدر نگاہ زمانے کے حالات وضروریات پر تھی اور اس کی واضح دلیل ان کی کتابیں ہیں۔
شیخ الاسلام کے دعوتی وسائل:
ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بہت سارے دعوتی وسائل اختیار کیے جن میں دو اہم ہیں:
۱۔تالیفات وتصنیفات
۲۔ملاقاتیں
تالیفات تین طرح کی ہیں:
۱۔رسالے
۲۔ردود
۳۔ضخیم کتابیں
رسالوں کے ذریعے آپ نے پوچھے گئے بعض اہم سوالوں کا جواب دیامثلا الحمویہ، الواسطیہ،التدمریہ۔
ردود کے توسط سے آپ نے اپنے زمانے میں پائے جانے والے باطل افکار وخیالات اور شکوک وشبہات کی تردید کی جیسے ”کتاب الصارم المسلول علی شاتم الرسول“، ”الرد علی الأخنائی“، اور”منھاج السنہ“ وغیرہ۔
اور ضخیم کتابوں میں ابن تیمیہ کی”درءتعارض العقل والنقل“معروف ہے۔ابن القیم کے بقول اس طرح کی کتاب کسی اور نے نہیں لکھی اور اس کا مطالعہ بھی دنیا کے ذہین لوگ ہی کرسکتے ہیں۔
دعوتی اعتبار سے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے لوگوں سے میل جول کو بھی جاری رکھا۔آپ دعوتی مقصد کی خاطر علماءسے ملے،ان سے علمی مباحثہ ومناظرہ کیا، سلاطین وملوک سے مل کر حق کی دعوت سنائی جیسے شام کے بادشاہ اور تاتاریوں کے بادشاہ سے ملاقات کی، مساجد میں عام لوگوں کے سامنے اسلام کی مفید باتیں اور فتاوے پیش کیے۔سب کا ہدف صرف تبلیغ دین وشریعت تھا۔
ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی راہ میں آنے والی اہم مشکلات:
آدمی کا ہدف جتنا بڑا ہوتا ہے،اسی کے مطابق اسے ابتلا وآزمائش سے بھی گزرنا پڑتاہے۔ اسی اعتبار سے جانی ومالی قربانیاں بھی پیش کرنی پڑتی ہیں۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے مد مقابل بڑی شخصیات اور بڑی رکاوٹیں تھیں پھر بھی انھوں نے ہار نہیں مانی اور دعوتی وتعلیمی وژن کو لے کر آگے بڑھتے رہے۔
شیخ الاسلام کا راستہ وقت کے سلاطین نے روکنے کی کوشش کی،اپنے بے گانے ہوتے گئے،عدلیہ بھی مخالفت ومعاندت پر آمادہ تھی، شیعیت،اشعریت، یہودیت،نصرانیت،صوفیت،تقلدی ذہنیت سب آپ کے خلاف بر سر پیکار تھی، قید وبند کی صعوبتیں آپ کے سامنے تھیں،کوڑے اور جلا وطنی کی پریشانیاں در بام تھیں،لیکن ان تمام الجھنوں اور دقتوں کے باوجود آپ نے مخالفین کو چاروں شانے چت کرکے کتاب وسنت کی بالادستی کو ثابت کیا،دنیاوی مفاد یا شخصی منفعت کے لیے کبھی کسی کے آگے جھکنا گوارا نہ کیا۔آپ کی یہی وہ خوبیاں ہیں جس کی وجہ سے آپ وقت کے امام بنے، اللہ نے آپ کی محبت کو لوگوں کے دلوں میں ڈالااور آپ کی خدمات کو وہ محبوبیت حاصل ہوئی جو اس دنیا میں بہت کم کو نصیب ہوتی ہے۔آپ حق وباطل کے خلاف سینہ سپر رہے یہاں تک کہ موت بھی قید خانے میں ہوئی،جنازے میں اس قدر ہجوم تھا کہ امام اہل السنہ احمد بن حنبل کی یاد تازہ ہوگئی۔آپ کی وفات کے بعد لوگ آپ کی کتابوں اور منہج سے استفادہ کرتے رہے،جو اب تک باقی ہے اور ان شاءاللہ حق کے سپاہی کی یہ پُر خلوص آواز قیامت تک دنیا کے طول وعرض میں سنائی دیتی رہے گی۔

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Osama muhammdi

ماشااللہ مختصر اور جامع انداز میں معلومات حاصل ہوئ۔۔۔
اللہ آپ کے علم و عمل میں برکت عطاء فرمائے آمین یا رب العالمین۔۔⚘⚘⚘