فکر کی بات

سرفراز فیضی تعلیم و تربیت

جس طرح کاروباری ذہن رکھنے والا شخص مستقل اپنے کاروبار کی توسیع کے لیے فکرمند رہتا ہے ایسے ہی دینی ذہن ہمیشہ نیکیوں کی نئی راہوں کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے، مادہ پرستانہ ماحول می‍ں جس طرح تکاثرانہ مزاج کے سبب ہر سرمایہ دار اپنے سے اوپر کے سرمایہ دار کو زیر کرنے اور اس سے آگے بڑھ جانے کی کوششوں میں مصروف رہتا ہے ویسے ہی دیندارانہ ماحول میں افراد کا تنافس اپنے سے اوپر کے لوگوں سے دین کے معاملہ میں آگے بڑھ جانے میں ہوتا ہے، نبوی معاشرے میں اس تنافس کے کتنے خوبصورت مظاہر دیکھنے میں آتے ہیں، ایک صحابی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کرتے ہیں کہ “الموذنون یفضلوننا” مؤذن نیکیوں میں ہم سے سبقت لے گئے، اذان دینے کا ثواب بہت عظیم اور مؤذن کا مقام اللہ کے یہاں بہت بلند ہے مگر اذان کوئی ایسی عبادت تو نہ تھی کہ ہر فرد اس کو انجام دیتا، یہ سعادت تو انھی لوگوں کے حصے میں آئی جن کا انتخاب فراست نبوی نے فرمایا تھا، دیگر صحابہ فکر مند ہوگئے کہ یہ فضیلتیں ہم کیسے حاصل کرسکتے ہیں تو نبی ﷺ نے ان کی رہنمائی فرمائی کہ اذان کا جواب دو اور اذان کے بعد اذکار کے ورد کو معمول بناؤ تو کسی حد تک ان نیکیوں کو پہنچ سکو گے۔ مہاجرین کی انصار سے آگے بڑھ جانے کی خواہش کا اظہار اور حضرت عمر کی حضرت ابوبکر کو پیچھے چھوڑنے کی کوشش کی مثالیں مشہور ہیں۔
فکر کی بات یہ ہے کہ ہمارے دین دارانہ معاشرے میں نیکیوں کا یہ تنافس کیوں ختم ہوگیا ہے، اس کا سبب تربیت میں کمی ہے؟ علم سے دوری ہے؟ یا قساوت قلب؟
خود دین سے جڑے فرد کو اپنی ذات کا محاسبہ کرنا چاہیے کہ وہ نیکیوں کو اپنی استطاعت کی آخری حد تک لے جانے کی کوشش میں کتنا سنجیدہ ہے اور امکان کے دائرے میں آنے والی نیکیوں سے خود کو محروم کیوں رکھے ہوئے ہے؟

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
1 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
آفتاب مرزا

سبحان الله. آپ نے قيمتي بات كہي. الله المستعان.

ضمیر احمد

آج دین کے نام پر بھی شہرت پانے میں سبقت کرنے کا مزاج ہے۔