مفتی خنفشار صاحب گوگَلِی یوٹیوبی کا قصہ (پہلی قسط)

ابو احمد کلیم الدین یوسف متفرقات

دنیا میں جتنے بھی علوم وفنون پائے جاتے ہیں ان تمام کے سیکھنے کے ضابطے ہیں، چاہے وہ علم طب ہو، علم ہندسہ (انجینیرنگ) ہو،یا علم اقتصاد وغیرہ ہو، اگر آپ ان علوم کے سکھانے والوں کے پاس اچھا خاصا وقت نہیں گذارتے اس وقت تک آپ کو اس فن کا عشر عشیر بھی نہیں حاصل ہوگا۔ اور عصر حاضر میں تو ہر فن کے لیے کالجز اور یونیورسٹیاں ہیں جہاں کچھ عرصے آپ کو گذار کر اس فن میں مہارت حاصل کرکے اس کی ڈگری حاصل کرنی ہوتی ہے تب آپ اس فن کے جانکار اور ماہر کہے جاتے ہیں۔
اگر کوئی اسکول، کالج، یونیورسٹی وغیرہ جانے کے بجائے گوگل سے سرچ کرکے، یو ٹیوب کی ویڈیو دیکھ کر اور کتابوں کےمطالعے سے ڈائریکٹ ڈاکٹری کی جانکاری شروع کردے، وڈیوز دیکھ آپریشن کرنے کا ہنر سیکھے، دانت نکالنے کی مہارت حاصل کرے، مجروح اعضاء کو سلنے کی جانکاری حاصل کرے اور اس کے بعد بڑے ہاسپٹل میں نوکری کی تلاش میں جائے، تو یقینا ہاسپٹل والے کہیں گے کہ ڈاکٹر صاحب آپ کہاں سے پڑھے ہیں، کون سی ڈگری آپ کے پاس ہے؟
تو یہ گوگَلِی اور یوٹیوبی ڈاکٹر کہے کہ ڈاکٹری کے لیے سرٹیفکیٹ کا ہونا ضروری نہیں بلکہ ’جانکاری‘ کا ہونا ضروری ہے، نئے زمانے کے گوگَلِی اور یوٹیوبی ڈاکٹر کو ہاسپٹل سے جواب ملے گا کہ: جناب کم از کم آپ اپنی ’جانکاری‘ کا ثبوت تو دیں کہ یہ جانکاری آپ نے قانونی طریقے سے حاصل کی ہیں یا غیر قانونی طریقے سے؟
اس پر انٹرنیٹی ڈاکٹر صاحب یہ فرمائیں کہ بھائی یہ قانونی اور غیر قانونی کیا ہوتا ہے؟
ڈاکٹری کے تعلق سے کتابیں انٹرنیٹ کی لائبریری میں موجود ہیں، وڈیوز اور لیکچر یوٹیوب کے کتب (تہ) خانے میں پائے جاتے ہیں، تمام معلومات مشہور زمانہ شیخ ’گوگل‘ کے پاس بدرجہ اتم ملتے ہیں تو پھر قانونی اور غیر قانونی کا فنڈا کہاں سے آگیا؟
آپ لوگ میری صلاحیت اور قابلیت پر حسد کرتے ہیں، میں آپ سے بہتر علاج کر سکتا ہوں، مریض مجھ سے زیادہ خوش ہوں گے اور میرے پاس ان مریضوں کی بھیڑ بھی زیادہ ہوگی، یہی وجہ ہے کہ آپ تمام لوگ مجھ سے جلے بھنے لگ رہے ہیں، آپ لوگوں کو پتہ نہیں عوام کو میری کتنی ضرورت ہے؟
آج سے میں یوٹیوب اور گوگل پر ہی اپنے ہاسپٹل کا افتتاح کروں گا اور زیادہ تر وہیں سے علاج کیا کروں گا، آپریشن بھی وہیں سے کردوں گا، ملین میں ویوز آئیں گے، آپ کے ہاسپٹل اور اس میں موجود آپریشن تھیٹر کو تو کسی نے آج تک دیکھا ہی نہیں، تو ویوز کیسے ملیں گے۔
اس کے بعد وہ گوگَلِی اور یوٹیوبی ڈاکٹر صاحب ہاسپٹل سے مایوس ہو کر آتے ہیں اور اپنی ایک آفس کھول لیتے ہیں اور آفس کے سامنے ایک بورڈ لگاتے ہیں، جس میں لکھا ہوتا ہے کہ دنیا کی تمام بیماریوں کا علاج اس ڈاکٹر صاحب کے پاس ہوتا ہے، بخار، سردی، درد، کینسر، ایچ آئی وی، ٹی بی، وغیرہ وغیرہ۔
اور دیگر ڈاکٹرس اپنے نام کے آگے جیسے ایم بی بی ایس(MBBS)اور ایم ڈی(MD)وغیرہ لگاتے ہیں، یہ ڈاکٹر صاحب اپنے نام کے آگےGoogle اور YouTubeوغیرہ لگاتے ہیں (کیوں کہ انھوں نے MBBS اور MD تو کیا نہیں تو صداقت کا تقاضا ہے کہ وہ اپنے نام کے آگے یہی لکھیں) اور پھر ’بخار‘ کا معنی ’کینسر‘ بتا کر بیماری کا علاج کرتے ہیں۔
جب حکومت وقت کو ایسے ماہر ڈاکٹر کے بارے میں پتہ چلتا ہے تو حکومت ان کے کام سے خوش ہو کر انھیں جیل میں اپنا ڈسپنسری کھولنے کی صلاح دیتی ہے اور پولس پوری عزت وخاطر کے ساتھ انھیں جیل کی روشن کوٹھری میں پہنچا دیتی ہے، جہاں وہ آرام دہ خواب گاہ سے اس قدر متاثر ہوتے ہیں کہ ساری ڈاکٹری بھول جاتے ہیں۔
معزز قارئین: ایسے ڈاکٹر کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ ضرور آگاہ کریں۔
(جاری)

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
مسعود

ایسے ڈاکٹروں کو نمک لال مرچ گول مرچ جمال گوٹہ اور قدرے لیموں پانی میں ملا کر گرم کرکے پلا دینا چاہئے
ایسے ہی ڈاکٹروں کے بارے میں کہا گیا ہے
نیم حکیم خطرے جان نیم ملا خطرے ایمان