کیا موزہ (جراب) اتار دینے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟ یا موزے کا مسح باطل ہوجاتا ہے؟
المسمی بـ
الإنصاف في مسألة نقض الوضوء وبطلان المسح بنزع الخِفَاف
اللہ رب العالمين نے دین کو نہایت آسان اور انسانی فطرت کے عین مطابق بنایا ہے، حالات اور وقت کے حساب سے شریعت کے احکام مقرر کیے ہیں جس کے لیے جو مناسب ہو اسے اختیار کرلے، اگر کوئی کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کی استطاعت نہیں رکھتا تو وہ بیٹھ کر پڑھ لے، اگر کسی کو مسجد میسر نہیں تو اللہ نے پوری زمین کو نماز کے لیے پاک بنایا ہے سوائے چند مخصوص جگہوں کے، اگر وضوکے لیے پانی موجود نہیں تو تیمم کر لے، اسی طرح اگر کسی نے موزہ (جراب) پہن رکھا ہے تو بوقت وضو اسے اتار کر پاؤں دھلنے کے بجائے وہ موزہ (جراب) کے اوپر ہی مسح کرلے، سفر میں مشقت زیادہ ہوتی ہے اس لیے مسافر کے لیے موزہ (جراب) پر تین دن اور تین رات مسح کرنے کی سہولت دی گئی، اور جو مسافر نہیں ہیں ان کے لیے ایک دن اور ایک رات کی سہولت دی گئی۔
قارئین کرام!
سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ ناقض وضو کا مطلب وضو توڑنے والی چیزیں ہیں، جیسے پیشاب، پاخانہ وغیرہ، اور بطلانِ مسح کا مطلب وضو کرنے والا موزہ (جراب) پر جو مسح کرتا ہے اسے ختم کرنے والی چیزیں، اور یاد رہے کہ جو ناقض وضو ہے وہی بطلانِ مسح کا سبب بھی ہے۔
موزہ (جراب) کا اتارنا ناقض وضو ہے یا نہیں اس سلسلے میں علماء کرام کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے۔
✺ ائمہ اربعہ کا (مختلف شروط ضوابط کے ساتھ) اس بات پر اتفاق ہے کہ موزہ (جراب) کا اتارنا ناقض مسح ہے۔[تبيين الحقائق، للزيلعي :۱/۵۰، حاشية الدسوقي:۱/۱۴۵، المجموع للنووي:۱/۵۱۴، المغني لابن قدامة:۱/۲۱۲]
ان کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ایک صحابی سے سوال کیا گیا:
الرجل يمسح على خفيه، ثم يبدو له أن ينزع خفيه، قال: يغسل قدميه
یعنی اگر کوئی شخص موزہ (جراب) پر مسح کرتا ہے، لیکن کسی وجہ سے موزہ (جراب) اتارنے کی نوبت آجاتی ہے تو اس کا کیا حکم ہے؟ اس صحابی نے کہا کہ: موزہ اتار کر اپنے دونوں پاؤں دھل لے گا۔
ابن ابی شیبہ نے اس اثر کومصنف]۱/۱۷۰،رقم:۱۹۸۵] میں یزید الدالانی کے طریق سے، انھوں نے یحییٰ بن اسحاق سے، انھوں نے ایک صحابی سے بیان کیا ہے۔
لیکن اس اثر کی سند میں تین علتیں ہیں:
۱:یزید الدالانی: ان کے بارے میں ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: صدوق یخطئ کثیرا [تقریب التهذیب:رقم۸۹۸۲]یعنی وہ ضعیف ہیں۔
ب: نیز وہ تدلیس بھی کرتے تھے اور ان کا شمار مدلسین کے تیسرے طبقہ میں ہوتا ہے۔ [تعریف أهل التقدیس:ص۴۸]اور انھوں نے اپنے شیخ سے سماع کی صراحت بھی نہیں کی ہے۔
ج: یحییٰ بن اسحاق اور صحابی کے درمیان انقطاع ہے، کیوں کہ بیہقی نے یحییٰ بن اسحاق اور اس صحابی کے درمیان سعید بن ابی مریم کا واسطہ ذکر کیا ہے۔[السنن الکبری:۱/۴۳۲، رقم:۱۳۷۰]
امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں: یحییٰ بن اسحاق نے سعید بن ابی مریم سے سنا ہے یا نہیں اس کا ہمیں علم نہیں اور نہ ہی سعید بن ابی مریم کا کسی صحابی سے سماع کا علم ہے۔[السنن الکبری:۱/۴۳۲]
خلاصہ یہ کہ یہ سند ضعیف ہے، کیوں کہ یزید دالانی کا تفرد مقبول نہیں، مزید یہ کہ وہ مدلس ہیں اور سند میں انقطاع بھی ہے، بلکہ امام بخاری رحمہ اللہ کے مطابق سند میں دو جگہ انقطاع ہے۔اس لیے اس اثر سے استدلال صحیح نہیں۔
۲۔البتہ امام بیہقی نے اپنی سند سےابو بکرۃ رضی اللہ عنہ کا عمل نقل کیا ہے جس میں ابو بکرۃ رضی اللہ عنہ کے بیٹے عبد الرحمن بن ابی بکرۃ کہتے ہیں:
وكان أبي ينزع خفيه ويغسل رجليه[السنن الکبری:۱/۴۳۳،رقم:۱۳۷۲]
یعنی میرے والد موزہ (جراب) اتارنے کے بعد دونوں پاؤں کو دھلتے تھے۔
شیخ البانی رحمہ اللہ اس اثر کے بارے میں کہتے ہیں:
رجالہ ثقات غیر علی بن محمد القرشی فلم اعرفہ [تمام النصح فی احکام المسح:ص۲۸]
یعنی اس سند کے تمام رواۃ ثقہ ہیں سوائے علی بن محمد القرشی کے، اس کے بارے میں مجھے علم نہیں۔
شاید اسی راوی کی جہالت کی وجہ سے شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس اثر کو بھی ضعیف کہا ہے۔
لیکن علی بن محمد بن الزبير القرشی کو خطیب بغدادی نے ثقہ کہا ہے۔ [تاریخ بغداد:۱۳/۵۵۵]
اور ذہبی نے بھی انھیں ثقہ کہا ہے۔ [سیر اعلام النبلاء:۱۵/۵۶۷]
مختصر یہ کہ مذکورہ راوی ثقہ ہے اور یہ اثر صحیح ہے۔
۳۔اصل حکم دونوں قدم کو دھلنے کا ہے اور جرابوں پر مسح بدل (Substitute) ہے، اگر موزہ (جراب) نکالنے دیتے ہیں تو وہ اپنے اصل حکم کی طرف لوٹ جاتا ہے، یعنی پاؤں کا دھلنا، اس لیے موزہ (جراب) کا اتارنا ناقض مسح ہے اور اگر موزہ (جراب) اتارنے کے بعد دونوں پاؤں کے دھلنے کا حکم نہ دیا جائے تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ نماز ایسے وضو سے پڑھی جائے جس میں قدم نہیں دھلے گئے ہیں، حالانکہ یہ جائز نہیں۔
✺ اس سلسلے میں دوسرا قول یہ ہے کہ: موزہ (جراب) اتارنے سے نہ وضو ٹوٹتا ہے اور نہ ہی مسح ٹوٹتا ہے، یعنی اگر کسی نے وضو کرتے وقت موزہ (جراب) پر مسح کیا ہے اور کسی وجہ سے اسے موزہ (جراب) اتارنے کی نوبت آگئی اور اس کا وضو باقی ہے تو اسے نہ دوبارہ وضو کرنے کی ضرورت ہے اور نہ پاؤں دھلنے کی حاجت ہے۔
اس کے قائل سلف میں سے ابراہیم نخعی، حسن بصری، عطاء، ابو العالیہ، قتادۃ اور سلیمان بن حرب رحمہم اللہ وغیرہم ہیں۔[الأوسط لابن المنذر:۲/۱۱۱]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ بھی اسی کے قائل ہیں۔ [الاختيارات الفقهية:ص۱۵]
اور معاصرین میں سے شیخ البانی اور ابن عثیمین رحمہما اللہ اسی قول کی طرف گئے ہیں۔[تمام النصح فی احکام المسح:ص۲۸،الشرح الممتع:۱/۲۶۴]
اس قول کے دلائل درج ذیل ہیں:
۱۔شریعت نے جن اشیاء کو نواقض وضو قرار دیا ہے ان میں سے موزہ (جراب) اتارنا نہیں ہے، جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا ينفتل – أو لا ينصرف – حتى يسمع صوتا أو يجد ريحا[صحيح بخاری:رقم۱۷۷]
یعنی ریاح خارج ہونے کے سلسلے میں اگر کسی کو شک ہو کہ پیٹ سے ریاح نکلی یا نہیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ اس وقت تک وضو کرنے کے لیے نہ جائے جب تک کہ وہ ریاح کی آواز نہ سن لے یا اس کی بو نہ پائے۔
مذکورہ حدیث میں موزہ (جرابیں) اتارنے کو ناقض وضو یا بطلان مسح نہیں بتایا گیا۔
۲۔موزہ (جراب) کا اتارنا ناقض وضو یا بطلان مسح کا سبب نہیں ہے، اس کی دلیل ہمیں خلیفہ راشد علی رضی اللہ عنہ کے عمل سے ملتی ہے:
دعا بماء فتوضأ فمسح على نعليه، ثم قام فنزعهما، وصلى الظهر[مصنف عبد الرزاق:۱/۲۰۱، رقم۷۸۴]
یعنی علی رضی اللہ عنہ نے پانی منگوایا، وضو کیا اور جوتے پر مسح کیا، پھر جب اقامت ہوئی جیسا کہ ابن ابی شیبہ کی روایت میں ہے: ثم أقام المؤذن [مصنف ابن ابی شیبہ:۱/۱۷۳، رقم۱۹۹۸] تو انھوں نے اپنے جوتے کو اتار دیا اور ظہر کی نماز پڑھائی۔
اس اثر کی سند صحیح ہے۔
مذکورہ اثر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ موزے (جراب) یا جوتے پر مسح کرنے کے بعد اسے اتارنے سے وضو یا مسح نہیں ٹوٹتا۔
۳۔نیز کوئی بھی دلیل ایسی نہیں جو موزہ (جراب) اتارنے کو ناقض وضو قرار دیتی ہے، چونکہ وضو عبادت ہے اور عبادات توقیفی ہوتی ہیں، اس لیے اس کا باقی رہنا یا ٹوٹنا دلیل پر موقوف ہے اور جب ٹوٹنے کی کوئی دلیل موجود نہیں تو بات واضح ہے کہ موزہ (جراب) اتارنا ناقض وضو نہیں ہے۔
۴۔اس سلسلے میں علماء کرام نے ایک قیاس کا بھی ذکر کیا ہے: مثال کے طور پر اگر کسی نے وضو کرنے کے بعد سر کا بال حلق کروا لیا، تو کیا اسے پھر سے سر کا مسح کرنا ہوگا؟ کیوں کہ اس نے بال پر مسح کیا تھا، اب سر پر بال نہیں رہا تو کیا وہ اب سر پر مسح کرے گا، تمام علماء اس بات پر متفق ہیں کہ بال پر کیا گیا مسح ہی کافی ہے بال اتروانے کے بعد دوبارہ مسح کی ضرورت نہیں ہے، ٹھیک اسی طرح جب موزہ (جراب) پر مسح کرلیا اور اسے اتار دیا تو موزہ (جراب) پر کیا گیا مسح ہی کافی ہے پاؤں دھلنے کی ضرورت نہیں ہے۔
قارئین کرام!
☚ موزہ (جراب) اتارنے پر پاؤں دھلنے یا نہ دھلنے کا صریح حکم شریعت میں موجود نہیں ہے،لیکن دو صحابہ کرام کا دو مختلف عمل صحیح سند سے ثابت ہے، ایک سے موزہ (جراب) اتارنے پر پاؤں دھلنا ثابت ہے، جبکہ دوسرے سے نہ دھلنا ثابت ہے، اور علماء کرام نے کہا ہے کہ جب صحابہ کرام کے قول میں تعارض ہو جائے تو ان میں سے کسی ایک قول کو دوسرے پر ترجیح نہیں دی جا سکتی، جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے اور اس پر علماء کا اتفاق بھی نقل کیا ہے۔[مجموع الفتاوى:۱۴/۲۰]
البتہ شریعت کے عمومی دلائل کو مد نظر رکھتے ہوئے جو بات راجح سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ موزہ (جراب) اتارنا ناقض وضو یامسح کے بطلان کا سبب نہیں ہے، کیوں کہ:
✺ شریعت نے جن چیزوں کو ناقض وضو قرار دیا ہے اگر اس کے سلسلے میں شک اور تردد ہو جائے تو شریعت نے یقین کی بنیاد پر فیصلہ کرنے کو کہا ہے، جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا ينفتل – أو لا ينصرف – حتى يسمع صوتا أو يجد ريحا
ریاح خارج ہونے کے سلسلے میں اگر کسی کو شک ہو کہ پیٹ سے ریاح نکلی یا نہیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ اس وقت تک وضو کرنے کے لیے نہ جائے جب تک کہ وہ ریاح کی آواز نہ سن لے یا اس کی بو نہ پائے۔[صحيح بخاری:رقم۱۷۷]
تو پھر جس چیز کو شریعت نے ناقض وضو قرار ہی نہیں دیا اسے ناقض وضو یا مسح کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟
✺ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسافر ومقیم کے لیے مسح علی الخفین کی مدت کی مکمل تفصیل بیان کی:
جعل رسول اللہ صلی الله عليه وسلم ثلاثة أيام ولياليهن للمسافر، ويوما وليلة للمقيم[صحيح مسلم:رقم الحديث۲۷۶]
یعنی مسافر کے لیے تین دن اور تین رات مسح کرنے کی رخصت ہے اور مقیم کے لیے ایک دن اور ایک رات۔
✺ جو چیزیں بطلان مسح کا سبب ہوتی ہیں اس کی بھی وضاحت فرمادی:
أن لا ننزع خفافنا ثلاثة أيام ولياليهن إلا من جنابة، ولکن من غائط، وبول، ونوم[جامع الترمذی:رقم الحدیث۹۶]
یعنی جنابت کی صورت میں موزہ اتارنا ہے، البتہ پیشاب، پاخانہ اور سونے کے بعد وضو ٹوٹ جاتا ہے، اس لیے موزہ (جراب) اتارنا نہیں ہے بلکہ وضو کے بعد اس پر مسح کرلینا ہی کافی ہے۔
☚ قارئین آپ غور فرمائیں کہ اس حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جن چیزوں سے موزہ (جراب) کا مسح ٹوٹ جاتا ہے ان کو بیان فرمایا، لیکن..
موزہ (جراب) کا اتارنا ناقض وضو یا ناقض مسح ہے یا نہیں اس کی وضاحت نہیں فرمائی، مطلب یہ ہوا کہ نزع الخفين یعنی موزہ (جراب) اتارنا ناقض وضو یا ناقض مسح نہیں ہے، کیوں کہ اگر وہ ناقض وضو یا ناقض مسح ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے موزے (جرابوں) پر مسح کے احکام جتنی تفصیل سے بیان کیا ہے اس میں موزہ (جراب) اتارنے کا حکم بھی ضرور بیان فرما دیتے جیسا کہ قاعدہ ہے:لا یجوز تاخیر البیان عن وقت الحاجة یعنی جس وقت جس مسئلہ کی وضاحت کی لوگوں کو ضرورت ہو اس وقت سے مسئلہ کو تاخیر کرکے بیان کرنا صحیح نہیں۔
واللہ أعلم، وعلمہ أتم واحکم
ماشااللہ،بہت بہت شکریہ
جزاكم الله خيرا وبارك فيكم