کسی بھی چیز کا جب شوق چڑھتا ہے تو انسان خیر وشر اور حق وباطل کی تمییز کیے بنا اس کو حاصل کرنے کی جستجو میں اپنی تمام تر کوششیں جھونک دیتا ہے اور جنون کی حد تک اس کو پانے کی سعی کرتا ہے۔
موجودہ دور میں ہر چیز میں تیزی اور ترقی آگئی ہے،اس لیے بعض ڈاکٹر، وکیل، انجینئر وغیرہ کو مفتی بننے کا شوق اٹھا اور انھوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی ٹھانی اور ایک سے دو سال کے اندر اردو یا انگلش زبان میں بعض کتابوں کو پڑھا، نوٹ بنایا اور اسٹیج شو کرنے لگے۔ اور خود کو شریعت کا اتنا ماہر سمجھنے لگے کہ اس چیز کی جرأت کرنے لگے جس کی جرأت پوری تاریخ اسلام میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے زمانے سے لے کر آج تک کسی بھی عالم نے نہیں کی، چنانچہ اسٹیج سجا کر ندا لگانے لگے dare to ask جس میں دم ہے وہ مجھ سے سوال پوچھے، کوئی ہر شرعی سوالات کا حل لیے ایسے بیٹھ جاتا ہے جیسے اس نے کتب ستہ اور مذاہب اربعہ کی فقہ یاد کر رکھی ہو اور دنادن فتوے کا انبار لگا دیتا ہے۔
جب کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور امام مالک اور دیگر سلف کا قول ہے کہ جو ہر سوال کا جواب دیتا ہے وہ مجنون اور پاگل ہے، اور امام مالک کے سے منسوب ہے کہ ان سے تقریبا چالیس سوالات کیے گئے تھے جن میں سے صرف چار کے جوابات دیے، اور باقی میں کہتے گئے کہ میں نہیں جانتا، بلکہ یہی امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے اس وقت تک فتوی دینا شروع نہیں کیا جب تک مدینہ کے ستر فقہاء، علماء اور محدثین نے مجھے فتوی دینے کا حکم نہیں دیا۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین فتوی دینے میں اس قدر تورع اختیار کرتے تھے کہ مسئلہ کا جواب معلوم ہونے کے بعد بھی وہ سائل کی رہنمائی اپنے ہی جیسے یا اپنے سے بڑے اہل علم کی طرف کرتے تھے۔
لیکن آج صورت حال یہ ہے کہ مسئلہ کا علم نہیں ہے اس کے باوجود لوگوں کی رہنمائی اپنی طرف کر رہے ہیں۔بلکہ یہاں تو عالم بننے کی بھی ضرورت نہیں، ڈائریکٹ ہاسپٹل، عدالت یا بلڈنگ کا کام چھوڑ کر فتوے ہانکنے لگ جاتے ہیں اور ’جحاد‘ کو ’جہاد‘ بتاکر لوگوں کی واہ واہی لوٹتے ہیں، کبھی ’کفارہ‘ کو ’کفر‘ میں تبدیل کرکے سمجھتے ہیں کہ ہم نے بہت ہی دقیق اور پیچیدہ مسئلہ کو چٹکیوں میں حل کردیا، قرآن وحدیث کا ترجمہ ایسی بے باکی سے کرتے ہیں مانو انھوں نے ہی اردو اور عربی دونوں زبان کی بنیاد رکھی ہو، مطلب مارو گھٹنا پھوٹے سر۔
عوام کی اکثریت اور بعض خواص کی اقلیت کا معیار بھی کافی اونچا ہو گیا ہے، وہ ٹی وی والے اور یوٹیوب والے مفتی کو ہی کتاب وسنت کا علمبردار اور اجتہاد وفتوی کا حق دار سمجھتے ہیں، مطلب اگر آپ ٹی وی میں نہیں آتے تو کم از کم آپ کو یو ٹیوب پر آنا تو ضروری ہے، تبھی آپ کا فتوی عوام وخواص کے نزدیک قابل اعتبار ہوگا۔
کتاب وسنت کی دھجیاں اڑتا دیکھ کر جب بعض غیرت مند علماء ان کی نکیل کسنے کی کوشش کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ وہ حسد اور جلن کی بنیاد پر ایسا کر رہے ہیں۔
مطلب اپنے منہ میاں مٹھو بننے کی بھی ایک حد ہوتی ہے، ارے بھائی جلن اور حسد اس سے کیا جاتا ہے جس کے پاس کچھ ہو، اگر وہ خود محتاج ہو تو اس سے جلن کیسی، فاقد الشی لا یعطی۔ اس چیز کو ایک مثال سے سمجھیں کہ اگر کوئی فقیر کہے کہ فلان مالدار مجھ سے بہت جلتا ہے اور حسد کرتا ہے تو یہ اپنے آپ میں ایک مضحکہ ہوگا، اسی طرح اگر کوئی شرعی علم کا فقیر شرعی علوم کی دولت سے مالا مال شخص کو کہے کہ وہ مجھ سے جلتا ہے تو یقینا یہ اس کا مسخرہ پن ہی ہوگا۔
قارئین کرام!
اگر کسی سے ایک دو بار غلطی ہو اور پھر وہ اس سے اعلانیہ رجوع کرلے تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ شخص حق کا متلاشی ہے، لیکن کوئی کثرت سے غلطی کرے اور غلطی پر بس نہیں کرے بلکہ غلطی معلوم ہو جانے کے بعد اس کو چھپائے اور اپنی غلطی سے رجوع بھی نہ کرے تب تو وہ اپنے ساتھ ہر کسی کا بیڑا غرق کرے گا، کیوں کہ کثرت سے غلطی کرنے والے کو محدثین کی اصطلاح میں مُنْکَر کہتے ہیں، اور مُنْکَر ایسا شخص ہوتا ہے جو کسی کو فائدہ نہیں پہنچا سکتا اور نہ ہی وہ خود دوسرے سے فائدہ اٹھا سکتا ہے، البتہ جہاں جائے گا صافی کو مکدر کردے گا، یہی حال بعض فتوی کے شوقین کا ہے۔
دوسری بات جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ انھیں اکیلے میں سمجھانا چاہیے عوام کے سامنے ان کی حقیقت واضح نہ کی جائے تو جوابا عرض ہے کہ آپ کی نصیحت سر آنکھوں پر لیکن شریعت ہمیں کہتی ہے کہ ایسے شخص کو طشت از بام کیا جائے، لوگوں کو ان سے متنبہ کیا جائے اور جو فتوی دینے کے لائق نہیں ان سے عوام کو دور رہنے کی تلقین کی جائے۔
جیسے دوران جنگ ایک صحابی زخمی ہوگئے، اسی حالت میں وہ جنبی بھی ہو گئے، تو انھوں نے بعض صحابہ سے سوال کیا کہ میں ایسی حالت میں غسل کروں یا تیمم، تو انھوں نے کہا کہ تمھیں تو غسل ہی کرنا ہوگا، حالانکہ وہ غسل کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے ، نتیجتاً پانی کے استعمال سے ان کی وفات ہو گئی۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی خبر ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کے سامنے کہا کہ فتوے دینے والے نے انھیں مار ڈالا، اللہ انھیں غارت کرے، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ اگر فتوی دینے والے کو نہیں معلوم تھا تو اپنے سے زیادہ جانکار سے پوچھ لیتے۔
اسی طرح ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ سے میراث کا ایک مسئلہ دریافت کیا گیا جس میں ان سے غلطی ہوئی، جب عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا تو انھوں نے سب کے سامنے فرمایا کہ اگر میں وہی فتوی دوں جیسا کہ ابو موسیٰ الاشعری نے دیا ہے تو میں گمراہ ہو جاؤں گا اور ہدایت سے دور ہوجاؤں گا۔
ابو موسی الاشعری رضی اللہ عنہ کو جب پتہ چلا کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اتنی سخت بات کہی ہے تو انھوں نے آج کے بردرس کی طرح یہ واویلا کرنا شروع نہیں کیا کہ وہ مجھ سے حسد کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ، بلکہ انھوں نے فرمایا کہ فتوی عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ہی دریافت کیا کرو۔
جو لوگ بردرس کو اکیلے میں نصیحت کرنے کی صلاح دیتے ہیں انھیں شریعت کے مزاج کو سمجھنا چاہیے۔مثال کے طور پر اگر کوئی اچھا ڈاکٹر آپ کے اہل خانہ میں سے کسی فرد کا آپریشن کرتا ہے اور وہ آپریشن میں غلطی کرتا ہے اور مریض کی جان پر بن آتی ہے تو کیا آپ ایسے ڈاکٹر کو اکیلے میں نصیحت کریں گے اور چپ چاپ اپنے گھر چلے جائیں گے اور کہیں گے چلو غلطی سب سے ہوتی ہے؟
بلکہ اپنے گھر کے افراد کی جان کی حفاظت کی خاطر آپ زمین وآسمان ایک کردیں گے اور نہ جانے ڈاکٹر کو کیا کیا کہیں گے اور اپنے تمام احباب واقارب کو ایسے ڈاکٹر کے پاس جانے سے روکیں گے۔
جب اچھے ڈاکٹر سے غلطی ہو جائے تو آپ آپے سے باہر ہو جاتے ہیں تو اگر وہیں پر کوئی جھولا چھاپ ڈاکٹر زبردستی آپ کے گھر میں گھس کر علاج کرے اور مریض کی حالت کو تہس نہس کردے تو آپ ایسے جھولا چھاپ ڈاکٹر کے خلاف کون سا رویہ اختیار کریں گے؟
ٹھیک اسی طرح اگر کوئی عالم لوگوں کے دین وایمان کی حفاظت کی خاطر غیرت وحمیت کا مظاہرہ کرے جس طرح آپ نے اپنے گھر کے فرد کی جان کی حفاظت کی خاطر کیا تھا تو اس میں برائی کیا ہے؟
اور آپ نے تو اچھے ڈاکٹر کی غلطی پر واویلا کیا تھا اور یہاں علماء جھولا چھاپ متعالم (زبردستی کے مفتی) اور متفیہق کے خلاف شریعت کی حفاظت اور لوگوں کے دین وایمان کی صیانت کی خاطر آواز بلند کر رہے ہیں تو اس میں چین بہ جبین ہونے کی کیا ضرورت ہے؟
مطلب آپ اپنے گھر کے افراد کے لیے فکر مند رہیں تو عین حق اور انصاف ہے اور اگر ہم امت مسلمہ کے لیے فکرمند رہیں تو ظلم وزیادتی ہے؟
نیز کیاجسم اور صحت کا نقصان آپ کے نزدیک دین اور ایمان کے نقصان سے بڑا ہے؟
آپ اس اچھے ڈاکٹر کی ایک غلطی پر اپنے تمام جاننے والوں کو اس کے پاس جانے اور اس سے علاج کرانے سے روکیں تو بہت اچھا، اور اگر ہم زبردستی کے عالم اور جھولا چھاپ مفتی کی بات سننے اور ان سے علم حاصل کرنے سے منع کریں تو بہت برا؟
قارئین کرام!
آپ ہر گز یہ پسند نہیں کریں گے کہ آپ کے بچوں کو ایسا شخص انگریزی پڑھائے جسے ایک لائن انگریزی پڑھنی نہیں آتی ہو تو پھر آپ ہی بتائیں کہ ہم یہ کیسے پسند کرلیں کہ ملت اسلامیہ کے فرزندوں کو ایسا شخص فتوی دے جسے عربی کی سمجھ تو درکنار قرآن کی ایک آیت دیکھ کر صحیح سے پڑھنا نہیں آتا؟
اس لیے دین کو سیکھنے کے لیے جاگرکتا اور بیداری کا ثبوت دیں، جیسے اسٹیشن پر آپ کو بار بار آگاہ کیا جاتا کہ ہر کسی سے ٹکٹ نہیں خریدیں کیوں کہ یہ اپرادھ اور جرم ہے، حالانکہ اسٹیشن پر جو غیر قانونی طور پر ٹکٹ بیچنے والے ہوتے ہیں ان کے پاس زیادہ تر صحیح ٹکٹ ہوتی ہے اس کے باوجود آپ کو روکا جاتا ہے، تاکہ آپ کو نقصان سے بچایا جاسکے، اسی طرح آپ ہر ایسے شخص سےسے فتویٰ نہ پوچھیں جن کی حالت اوپر بیان کی گئی، حالانکہ ان کے پاس صحیح فتاوے بھی ہوتے ہیں، لیکن جو فتوی کا اہل نہ ہو اس سے پوچھنااللہ کی مخالفت ہے اور بہت بڑا جرم ہے، اللہ رب العالمین نے ہر کسی سے پوچھنے کے لیے نہیں کہا بلکہ اہل ذکر یعنی کتاب وسنت کے عالم سے پوچھنے کے لیے کہا ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ اپنے دین، ایمان اور جان کی حفاظت خود کریں، الٹے سیدھے فتاوے سن کر اور اس پر عمل کرکے اپنے آپ کو ہلاکت کی ڈگر پر نہ ڈالیں۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ
شیخ ابو کلیم الدین یوسف صاحب کا واٹس ایپ نمبر مطلوب ہے، عین نوازش ہوگی۔