دارالعلم ممبئی کی چند نئی مطبوعات

رفیق احمد رئیس سلفی تعارف و تبصرہ

[مرکزی جمعیۃ اہل حدیث ہند کے سابق امیر اور جامعہ محمدیہ منصورہ مالیگاؤں کے موسس مولانا مختار احمد ندوی رحمہ اللہ کی شخصیت محتاج تعارف نہیں۔انھوں نے سماجی ،تعلیمی ،دعوتی ،تصنیفی ،صحافتی اور انتظامی ذمہ داریوں سے بھرپور زندگی گزاری ہے۔اللہ ان کے درجات بلند کرے اور ان کی تمام خدمات کو شرف قبولیت عطا فرمائے ،آمین۔الحمد للہ مولانا ندوی کے چھوٹے صاحب زادے شیخ ارشد مختار حفظہ اللہ تمام تعلیمی اداروں کی ذمہ داری بہ حسن وخوبی انجام دے رہے ہیں جب کہ ان کے منجھلے صاحب زادے شیخ اکرم مختار حفظہ اللہ اپنے تعلیمی پس منظر کی وجہ سے خاص ذوق اور صلاحیت کے مالک ہیں۔اپنی کاروباری اور تجارتی مصروفیات کے علاوہ انھوں نے ممبئی میں کئی سالوں پہلے ’’دارالعلم‘‘ کے نام سے کتابوں کی اشاعت کا ایک ادارہ قائم کیاہے جس سے اب تک کئی سو کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔اپنی توفیق کے مطابق راقم بھی اس ادارے کے ساتھ علمی تعاون کرتا رہاہے،اس کی کئی ایک کتابیں ادارے سے شائع بھی ہوچکی ہیں۔برادرگرامی شیخ اکرم مختار صاحب کی علم دوستی اورذرہ نوازی ہے کہ وہ ایک گوشہ نشین اور گم نام شخص کو بھی اپنے بعض علمی کاموں کے لیے یاد کرتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس مخلصانہ تعلق کو برقرار رکھے اور ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم اللہ کی عطاکردہ صلاحیتوں کے مطابق اس کے دین متین کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرتے رہیں۔خاکسارملازمت اور خانگی مصروفیات سے تھوڑا بہت وقت بچاکر ترجمہ وتصنیف کا کوئی نہ کوئی کام کرتا رہتا ہے۔ گزشتہ سالوں میں کئی ایک عربی کتابوں کے اردو ترجمے میں نے کیے تھے جو ’’دارالعلم ممبئی‘‘ سے شائع ہوچکے ہیں۔ذیل میں ان کتابوں پر راقم نے جو مقدمے؍پیش لفظ لکھے ہیں ،ان کو پیش کیا جارہا ہے ۔ان میں کتاب اور صاحب کتاب کا تعارف بھی ہے اور کتاب جس موضوع پر مشتمل ہے،اس کی ضرورت اور اہمیت پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔مہینوں پہلے لکھی گئی ان تحریروں پر میں نے نظر ثانی کی ہے،کہیں کچھ حذف کیا ہے تو کئی ایک مقامات پر بعض اضافے بھی کیے ہیں۔امید ہے کہ دی فری لانسر کے باذوق قارئین اور نوجوان سلفی اہل قلم اپنے تبصروں سے مستفید ہونے کا موقع فراہم کریں گے۔رفیق احمدرئیس سلفی]
مکارم الأخلاق
از: امام طبرانی رحمہ اللہ(متوفی۳۶۰ھ)
حسن ادب اور حسن اخلاق اسلام کی جملہ تعلیمات کاعطر اور اس کا خلاصہ ہے۔ اسلام صرف انسانوں ہی سے نہیں بلکہ اللہ کی تمام مخلوقات سے محبت کرنے اوران کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی تاکید کرتا ہے۔شرافت،محبت اور نرمی انسانیت کا جوہر ہیں۔ ایک بھلے انسان کی شناخت اس کے کردار وگفتار ہی سے کی جاتی ہے۔انسان اپنی فطرت اور طبیعت کے اعتبار سے حسن اخلاق کو پسند کرتا ہے اور وہ لوگ اسے انتہائی محبوب ہوتے ہیں جو اعلی اخلاق وکردار کے حامل ہوتے ہیں۔اسلام کے دونوں بنیادی ماخذ قرآن مجید اور حدیث شریف میں اخلاق کی اہمیت وفضیلت پر کافی زور دیا گیا ہے۔ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ایک سائل کے جواب میں فرمایا تھا کہ نبی اکرم ﷺاپنے اخلاق کریمانہ کے اعتبار سے قرآن کا پیکر تھے۔سیرت نبوی کی اس خصوصیت اور امتیاز کو وہ احادیث بطور خاص نمایاں کرتی ہیں جن میں آپ ﷺ نے زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق اخلاق فاضلہ اور خصائل حمیدہ اپنانے کی تاکید فرمائی ہے۔محدثین کرام نے اپنی ترتیب فرمودہ کتب احادیث میں آداب واخلاق کے خصوصی ابواب قائم کیے ہیں اور اخلاقی زندگی کے ہر پہلو کو اس میں ابھارنے کی کوشش کی ہے۔اس کے علاوہ کئی ایک محدثین کرام نے اسلامی اخلاق وآداب پر مستقل کتابیں ترتیب دی ہیں۔ان کتابوں میں سب سے اہم کتاب امام بخاری رحمہ اللہ کی ’’الأدب المفرد‘‘ہے ۔اسی طرح امام بیہقی رحمہ اللہ کی کتاب’’الآداب ‘‘ہے،جو اپنے مضامین کی جامعیت اور وسعت کے اعتبار سے کئی ایک کتابوں سے فائق ہے ۔ان دونوں کتابوں کا اردو ترجمہ بھی مشہور ومتداول ہے اور اردو دنیا ان سے استفادہ کرتی ہے۔الحمد للہ امام بخاری رحمہ اللہ کی ’’الأدب المفرد‘‘ کی خدمت کرنے کا خاکسار کو موقع ملا ہے ۔اس کے ایک اردو ترجمے پر میں نے نظر ثانی کی ہے اور ہر حدیث پر علامہ البانی کا حکم لگادیاہے ،ان شاء اللہ اس سے عوام وخواص برابر استفادہ کرسکیں گے۔یہ کتاب آداب زندگی کے نام سے مکتبہ نوائے اسلام ،دہلی سے شائع شدہ ہے۔علامہ البانی رحمہ اللہ نے ’’الأدب المفرد‘‘کی صحیح اور ضعیف احادیث کو الگ الگ کردیا ہے۔دارالعلم،ممبئی کے لیے’’ صحیح الأدب المفرد‘‘ کے نام سے بھی راقم نے ایک کتاب مرتب کی ہے ،اس میں ترجمہ عبدالقدوس ہاشمی کا ہے ،اس پر نظر ثانی خاکسار نے کی ہے۔
ان کے علاوہ امام ابن ابی شیبہ،امام ابن ابی الدنیا اور امام خرائطی وغیرہ نے بھی اس موضوع پر کتابیں مرتب کی ہیں۔اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی زیر مطالعہ کتاب بھی ہے جو مشہور محدث امام طبرانی رحمہ اللہ کی ترتیب دادہ ہے ۔
مذکورہ بالا تمام کتابوں کا امتیازیہ ہے کہ ان کی تمام احادیث سندوں کے ساتھ ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ان میں صحابہ کرام اور تابعین عظام کے آثار واقوال بھی موجود ہیں جو اخلاق وآداب کے بعض عملی پہلووں کی نشان دہی کرتے ہیں۔اس طرح کی کتابوں میں ہمیں احادیث کی تکرار بھی نظر آتی ہے اور ایک ہی متن کوکئی کئی سندوں کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے ۔ اردو قارئین کو شاید اس سے الجھن ہو لیکن محدثین کرام نے ایسایہ بتانے کے لیے کیا ہے کہ ہمیں یہ حدیث کئی ایک اساتذہ سے ملی ہے اور اسے کئی ایک صحابہ کرام نے بیان کیا ہے۔اس سے حدیث کو تقویت پہنچتی ہے اور اس کا درجۂ استناد بلند ہوجاتا ہے۔
ان کتابوں میں درج احادیث کے سلسلے میں علمائے اسلام کا موقف یہ رہا ہے کہ ممکن ہے فنی لحاظ سے کسی حدیث کی سند میں کوئی کمزوری ہو لیکن مجموعی اعتبار سے ان کے متون اسلام کے عمومی مزاج سے ہم آہنگ ہیں اور ان میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں،ان کی تائید دوسری صحیح احادیث سے ہوتی ہے۔ متابعات وشواہد کی بنیاد پر احادیث کو صحیح اور حسن کے درجے پر پہنچانا اصول حدیث میں تسلیم شدہ ہے اور مصطلح الحدیث میں اس کی پوری گنجائش موجود ہے۔زیر مطالعہ کتاب کی احادیث کی سندوں پر ایک نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ فنی لحاظ سے ان کی بعض سندوں پر گفتگوکی جاسکتی ہے اور کسی سند پر ضعف کا حکم لگایا جاسکتا ہے لیکن متون احادیث سے جو مفہوم سامنے آتا ہے ،اس میں کوئی ایسی بات نہیں جو اسلام کے کلی اصولوں اور اس کی تعلیمات سے متعارض ہو۔اخلاق وآداب سے متعلق جو کتابیں اسلامی تراث کی ہم تک پہنچی ہیں،ان کے طرز تالیف سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان کے مولفین نے شرعی احکام وقوانین سے متعلق احادیث کی طرح ان احادیث کی تحقیق وتنقید میں سختی نہیں برتی ہے بلکہ قدرے نرمی سے کام لیا ہے۔اس کی نمایاں مثال امام بخاری رحمہ اللہ کی’’الأدب المفرد‘‘ہے۔ علامہ البانی رحمہ اللہ اور بعض دوسرے اہل علم کی تحقیق کے مطابق اس میں بھی ضعیف احادیث موجود ہیں۔اس کے باوجود امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کو اپنی کتاب کا حصہ بنایا ہے جب کہ صحیح بخاری میں انھوں نے فنی لحاظ سے کسی کمزور حدیث کو جگہ نہیں دی۔امام بخاری اور بعض دوسرے محدثین کا یہ طرز عمل بتاتا ہے کہ فضائل کے ابواب میں اس نوع کی احادیث کی گنجائش ہے ۔حافظ ابن حجر عسقلانی اور بعض دوسرے ممتاز محدثین نے ضعیف احادیث پر مفصل اور مدلل گفتگو کی ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ کس نوع کی ضعیف احادیث قبول کی جاسکتی ہیں اور کس نوع کی قبول نہیں کی جاسکتیں۔ علمی دنیا میں ان اصولوں کی کافی اہمیت ہے ،ان کو نظر انداز کرنے سے کئی ایک خرابیاں لازم آتی ہیں۔
ایک انسان کا رویہ اپنی ذات کے ساتھ کیا ہو،دوسروں کے ساتھ اس کا برتاؤ کیسا ہو،عام آدمی کی حیثیت میں اس کی شخصیت میں کیا خوبیاں مطلوب ہیں اور جب وہ کسی ذمہ دارانہ منصب پر فائز ہو تو اس کا طرز عمل کیا ہو،اپنے متعلقین اور قریبی عزیزوں کے ساتھ وہ کیسا سلوک کرے اور عام انسانوں کے ساتھ اس کا کیا رویہ ہو،یہی سب مسائل ہیں جو اخلاق وآداب کے موضوع میں زیر بحث آتے ہیں۔انسان کی شخصیت اور اس کے کردار کا مطالعہ اب ایک مستقل مضمون بن چکا ہے اور فلسفۂ اخلاق علوم وفنون کے ایک اہم حصے کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ لیکن چونکہ بیشتر فلسفے مذہب اور اس کی بنیادی حقیقتوں کو تسلیم نہیں کرتے ،اس لیے ان میں اعتدال وتوازن نہیں ہے۔دنیا اور اس کی راحتیں چوں کہ اصل مقصود کی حیثیت رکھتی ہیں ،اس لیے اپنے اور اپنی قوم کے مفادات ترجیحی طور پر سامنے رہتے ہیں اور اپنوں اور غیروں میں واضح فرق دکھائی دیتا ہے ۔آج کی دنیا میں یہی وہ فساد ہے جو جگہ جگہ پھیلا ہوا ہے اور آزادی فکر وعمل کے نام پر بے حیائی اور جنسی انارکی کا بول بالا ہے بلکہ مادہ پرست دنیا نے اسے ایک خوبصورت نام بھی دے دیا ہے ۔ فنون لطیفہ میں سے کوئی بھی چیز اگر انسان کے بنیادی اقدار کی روح پر منفی اثرات ڈالتی ہے تو اسے قابل قبول بنانے کی کسی کو اجازت نہیں دی جاسکتی۔
نبی اکرم ﷺ نے اخلاق کا جو تصور پیش کیا ہے ،اس میں جو وسعت،جامعیت اور گہرائی ہے ،وہ ایسی تمام کمزوریوں سے پاک ہے ۔اسلام کا فلسفۂ اخلاق انسان کے نفس کا تزکیہ کرتا ہے ،اسے دوسروں کے لیے قربانی دینے پر ابھارتا ہے اور کسی طرح کے ظلم وزیادتی کی کلی نفی کرتا ہے۔مزید یہ کہ اسلامی فلسفۂ اخلاق زندگی کے تمام شعبوں کا احاطہ کرتا ہے ،صرف انسانوں ہی کے نہیں بلکہ حیوانات ،نباتات اور جمادات کے حقوق کی بھی تعیین کرتا ہے ۔وہ فرد کی اصلاح کرکے ایک ایسے معاشرے کی تشکیل چاہتا ہے جس میں انسان اپنی ذہنی اور فکری آزادی کا جائز استعمال کرکے اپنی شخصیت کو ان عظمتوں سے ہم کنار کرسکے جسے بجا طور پر انسانیت کی معراج کہا جاسکتا ہے۔
مجھے انتہائی خوشی ہے کہ میرے چھوٹے بھائی اشتیاق احمد رئیس مدنی سلمہ نے ترجمے پر تفصیلی نظر ڈالی ہے اور بعض تعبیرات کے سلسلے میں مفید مشورے دیے ہیں ۔برادر عزیز جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے فاضل ہیں،حدیث کی تعلیم انھوں نے عرب اساتذہ سے حاصل کی ہے ،ان دنوں سعودی عرب کے شہر دمام میں شعبہ ٔ جالیات سے وابستہ ہوکر دعوتی اور علمی خدمات انجام دے رہے ہیں۔وہ دعوت وتبلیغ کے ساتھ ساتھ تصنیف وتالیف کا بھی ستھرا ذوق رکھتے ہیں اورحدیث کے سلسلے میں ان کا علم تازہ اور وسیع ہے ۔ اللھم زد فزد۔
اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ حدیث کی اس اہم کتاب کے اردو ترجمے کو مقبولیت عطا فرمائے اور اس کے جملہ معاونین کو اجر وثواب میں برابر کا شریک بنائے ۔قارئین ذی احترام سے درخواست ہے کہ دوران مطالعہ ترجمے وتخریج میں کوئی غلطی نظر آئے تو اس سے باخبر کریں ۔علم وتحقیق کے میدان میں انسان کی کوئی کوشش حرف آخر نہیں کہی جاسکتی اور نہ اسے خطا ونسیان سے پاک قرار دیا جاسکتا ہے۔
علم اور اہل علم:عظمت وفضیلت، آداب اور تقاضے
از:حافظ ابو خیثمہؒ (متوفی۲۳۴ھ)
اسلام کی حقانیت اور صداقت کا ایک اہم ثبوت یہ بھی ہے کہ اللہ کی آخری وحی قرآن مجید انسانی تلبیسات سے محفوظ ہے اور آخری رسول محمد عربی ﷺ کی سیرت پاک ، آپ کے اقوال،افعال اور تقریرات اپنی اصلی صورت میں ہم تک پہنچی ہیں اور قیامت تک ان شاء اللہ ان میں کوئی مداخلت نہیں کی جاسکے گی۔اسلامی تراث اپنی کمیت اور کیفیت کے اعتبار سے قابل رشک ہے ۔امت میں اختلاف اور انتشار بھی ایک زندہ حقیقت ہے اور افراد امت میں گمراہیوں اور ضلالتوں کا بھی ایک سلسلہ ہے لیکن اطمینان کی بات یہ ہے کہ حق کی روشنی موجود ہے جب بھی کوئی انسان اپنے ذہنی اور فکری تحفظات سے بالا ترہوکر اس پر غور کرے گا تو اسے روشنی دکھائی دے گی اور وہ صراط مستقیم بآسانی پاسکے گا۔امت میں حزبیت اور مسلکی تعصبات ایک وقتی اور عارضی چیز ہے،دین اسلام میں چوں کہ اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے ،اس لیے اسے کبھی پائیداری نہیں مل سکتی ،جب بھی کوئی شخص اخلاص کے ساتھ اسلامی تراث پر نظر ڈالے گا ،وہ وہیں پہنچے گا جہاں اسلام اسے پہنچانا چاہتا ہے۔ تحقیق وتلاش کا داعیہ ابھر جائے تو صرف بھولا بھٹکا مسلمان ہی نہیں، اسلام کا بدترین دشمن بھی قبول اسلام کے لیے بے چین ہوجاتا ہے اور اسلام کے سایے میں آکر عافیت محسوس کرتا ہے۔
اسلامی تراث کے دور اول کا لٹریچراسلامی تہذیب وثقافت کی ترجمانی جس سادگی اور بے لاگ انداز میں کرتا ہے ،وہ انداز ہمیں بعد کے ادوار کے لٹریچر میں دکھائی نہیں دیتا جو عجمی تہذیب وثقافت کے غیر شعوری اثرات کے نتیجے میں وجود میں آیا اور جس میں یونانی منطق وفلسفہ اور الٰہیات کی آمیزش ہوچکی تھی۔بعد کی صدیوں میں جن مصنّفین اسلام نے اپنا تعلق دور اول کے اسلامی تراث سے مضبوط رکھا، ان کے یہاں بھی اسلام کی سادہ اور بے لاگ ترجمانی موجود ہے اور ان کی تصانیف آج بھی اسلام کی تفہیم میں معاون ہیں ۔یہ اللہ کا بڑا فضل وکرم ہے کہ اس وقت عالم اسلام خصوصاً عالم عرب کے محققین دنیا کے مختلف کتب خانوں میں موجود دور اول کے اسلامی تراث کو بطور خاص اپنے مطالعہ وتحقیق کا موضوع بنائے ہوئے ہیں اور ہزاروں کتابیں تحقیق وتخریج سے مزین ہوکربڑی تیزی کے ساتھ منصۂ شہود پر آرہی ہیں۔ تقلیدی بندشوں اور مسلکی تحفظات سے پاک دور اول کا یہ علمی سرمایہ عہد سلف کے اسلام کو پیش کرتا ہے ۔
زیر مطالعہ مختصر کتاب ’’کتاب العلم‘‘کا تعلق اسی دور اول کے اسلامی تراث سے ہے ،جس کی تحقیق اور اشاعت کا شرف اس دور کے عظیم محدث علامہ محمد ناصرالدین البانی رحمہ اللہ کو حاصل ہے۔ کتاب کے مصنف مشہور محدث حافظ ابو خیثمہ زہیر بن حرب النسائی رحمہ اللہ ہیں جوامام بخاری،امام مسلم، امام ابوداود،امام ابن ماجہ،امام ابویعلی احمد بن علی موصلی،امام بقی بن مخلد اندلسی،امام جعفر بن ابی عثمان طیالسی،امام ابوزرعہ رازی،امام ابوحاتم رازی جیسے مشہور وممتازمحدثین کے استاذ ہیں اور جنھوں نے حسین بن محمد مروزی، سفیان بن عیینہ، عبدالرحمن بن مہدی، عبدالرزاق بن ہمام، ابو نعیم فضل بن دکین، وکیع بن جراح، ولید بن مسلم، یحییٰ بن سعید قطان جیسے عظیم محدثین سے استفادہ کیا ہے۔ کتاب کا موضوع علم ہے۔عہد سلف میں علم کی اہمیت اور عظمت کیا تھی، اہل علم کو کیا مقام حاصل تھا اور علم کے آداب کیا تھے، یہ کتاب احادیث نبویہ، اقوال صحابہ کرام اور آثار تابعین وتبع تابعین کی روشنی میں ان پہلووں کو واضح کرتی ہے۔خاص طور پر عہد سلف میں احادیث کو زبانی روایت کرنے اور پھر اسے قلم بند کرنے کی مکمل کیفیت بیان کرتی ہے۔منکرین حدیث جو بڑی حد تک مستشرقین کے خوشہ چیں ہیں، وہ احادیث نبویہ پر بار بار یہ اعتراض کرتے ہیں کہ وہ تو بہت بعد میں زیر قلم لائی گئی تھیں، اسی لیے ان میں خطا کا بہت امکان ہے اور اسلام کے لیے ان کو حجت تسلیم کرنا مشکل ہے۔ دوسری اور تیسری صدی ہجری کے اوائل میں لکھی جانے والی یہ کتاب ہمیں بتاتی ہے کہ منکرین حدیث اور مستشرقین کے یہ خیالات باطل ہیں، ان کے پیچھے کوئی دلیل نہیں ہے۔ دور اول کے اہل علم نے پوری دیانت داری کے ساتھ حدیث رسول لکھنے کا فریضہ انجام دیا ہے اور اس سلسلے میں انھوں نے اپنی زندگیاں وقف کیے رکھی ہیں۔
آج اگر مسلمان علم میں پیچھے ہیں تو یہ قصور ان کا ہے،اسلام کا نہیں ،اسلام نے تو اپنے سفر کا آغاز ہی علم سے کیا تھا اور اس کی پہلی وحی میں علم، تعلیم اور قلم کا حوالہ موجود ہے۔ یہ کتاب علم کے سلسلے میں اسلام کے نقطۂ نظر کو بھی تفصیل سے پیش کرتی ہے۔ اس کے مطالعہ سے یہ غلط فہمی ان شاء اللہ دور ہوجائے گی کہ اسلام علم کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتا ،اسی لیے مسلم امہ دوسروں کے مقابلے میں علم کے میدان میں پیچھے ہے۔
علامہ البانی رحمہ اللہ نے کتاب کی تحقیق فرمائی ہے،ان کی بعض تصحیحات ان کے ایڈیشن میں ہمیں ملتی ہیں۔ اسی طرح بعض راویان حدیث کے بارے میں ان کی وضاحتیں بھی ہیں اور بعض آثار کی انھوں نے استنادی حیثیت بھی واضح کی ہے۔ان کی تعلیقات کا جو حصہ مجھے اردو قارئین کے لیے مفید نظر آیا، اسے میں نے کتاب کے حاشیہ میں درج کردیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ کتاب کو شرف قبول عطا فرمائے اور مصنف، محقق، مترجم اور ناشر کے لیے اسے ذخیرۂ آخرت بنائے۔آمین
اَلْمَصْنُوْعُ فِیْ مَعْرِفَۃِ حَدِیْثِ الْمَوْضُوْعِ
از:علی بن سلطان محمد معروف بہ ملا علی قاری حنفیؒ(متوفی۱۰۱۴ھ)
عصر حاضر میں اسلامیات پر تحقیق وتصنیف کا دائرہ کافی وسعت اختیار کرگیا ہے ۔ نئی نسل اور جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اسلام کو اس کے بنیادی مآخذ سے سمجھنا چاہتی ہے اور امت میں فکر ونظر کا جواختلاف وانتشار پایا جاتا ہے ،اس کی وجوہات کی تہہ تک پہنچ کر امت کو ملت واحدہ کی شکل میں دیکھنے کی خواہش مند ہے۔وہ مختلف فرقوں اور مسلکوں میں بٹے ہوئے مسلمانوں کو ایک لڑی میں پرونے کا پاکیزہ جذبہ رکھتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ عجمی ممالک کے نوجوان عربی زبان سیکھنے میں اپنا قیمتی وقت صرف کررہے ہیں تاکہ اسلام کو براہ راست کتاب وسنت کی روشنی میں سمجھ سکیں۔وہ اسلام کے بنیادی علوم تفسیر،اصول تفسیر،حدیث وعلوم حدیث اور فقہ واصول فقہ سیکھنے میں مصروف ہیں۔سائنس کے طلبہ اپنے فارغ اوقات میں اہل علم کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرتے ہیں اور ان علوم کی مبادیات سے خود کو واقف کرارہے ہیں۔آج جب کہ پوری دنیا میں اسلام زیر بحث ہے اور اسلام دشمن طاقتیں اس کو نیست ونابود کرنے کے درپے ہیں، مسلمانوں کی نئی نسل میں یہ ذہنی انقلاب اللہ کا بہت بڑا انعام ہے۔اپنے محبوب ترین دین کی حفاظت کے لیے جو انتظامات اللہ تعالیٰ دنیا میں کرتا رہتا ہے ،یہ اسی کا ایک حصہ ہے۔اسی سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اسلام ان شاء اللہ کبھی نہیں مٹے گا بلکہ اس کے مٹانے والے خود مٹ جائیں گے۔یہی اللہ کا وعدہ ہے اور اللہ کا وعدہ پورا ہوکر رہے گا۔
اسلامیات پر مطالعہ وتحقیق کے موجودہ انقلاب کا تقاضا ہے کہ اسلامی تراث کے ایک معتد بہ حصے کو دنیا کی مختلف زندہ زبانوں میں منتقل کیا جائے تاکہ اس سے استفادہ آسان ہوسکے ۔فہم اسلام کے لیے ہمارے اسلاف نے جو بیش قیمت ذخیرہ چھوڑا ہے ، وہی آج کے حالات میں ہماری صحیح رہنمائی کرسکتا ہے اور ہم اسلام کو اس کی صحیح اور اصلی شکل میں دیکھ سکتے ہیں۔ہمیں یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ قرآن مجید اور حدیث رسول توأم ہیں،دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور اسلام کی تشریح وتعبیر ایک ساتھ مل کر کرتے ہیں۔ایک کو آگے دوسرے کو پیچھے یا ایک کو مقدم اور دوسرے کو موخر کردینے سے جو فکری انحرافات پیدا ہوئے ہیں ،ان کی وجہ سے ملت دولخت ہوگئی ہے۔قرآن کو صاحب قرآن اور ان کے اصحاب نے جس طرح سمجھا ہے اور زمین پر جس طرح اس کا نفاذ کیا ہے ،اس کی تشریح کا نام ہی حدیث وآثار صحابہ ہے۔ان سے بے نیاز ہوکر یا ان کو نظر انداز کرکے اسلام کی صحیح تصویر نہیں بنائی جاسکتی۔
علوم حدیث کا ایک شعبہ ان احادیث کی معرفت بھی ہے جو فنی لحاظ سے ضعیف اور موضوع ہیں۔بعض بدخواہوں اور کچھ سادہ لوح حضرات نے اپنے مخصوص مقاصد کی تکمیل کے لیے حدیث رسول میں رطب ویابس کی آمیزش کررکھی ہے۔عقیدہ وفکر میں اضطراب وانحراف کے شکار بعض لوگ آج بھی بغیر سوچے سمجھے ان کا پرچار کرتے رہتے ہیں اور مسلم معاشرے میں درآنے والی رسومات اور بدعات کو صحیح ثابت کرنے کے لیے ان کا سہارا لیتے ہیں جب کہ اسلام کے احکام ومسائل میں ضعیف اور موضوع احادیث کو دلیل کے طور پر پیش کرنا درست نہیں ہے۔آج جب اسلام کے فنی علوم کے سلسلے میں عام بیداری دیکھنے کو مل رہی ہے تو کیوں نہ علوم حدیث کے اس شعبے کی بھی صحیح طور پر تفہیم کرائی جائے اور اس مضمون کی اصطلاحات سے جدید تعلیم یافتہ حضرات کو واقف کرایا جائے۔یہی جذبہ زیر مطالعہ کتاب کی اشاعت کا محرک بنا ہے۔مجھے امید ہے کہ اس کے مطالعہ سے ایسی بہت سی احادیث کا علم ہوسکے گا جو کم پڑھے لکھے واعظین عوام کے سامنے بیان کرتے رہتے ہیں اور بعض کمزور مصنّفین اپنی کتابوں میں بغیر کسی تحقیق کے ان کو درج کرتے رہتے ہیں ،جو حقیقت میں منکر اور موضوع ہیں۔
بعض حضرات کو شکایت ہے کہ اسلامی تراث کی بنیادی کتابوں کے ترجمے سے دینی حلقوں میں تشویش پیدا ہورہی ہے ۔یہ تشویش کوئی نئی نہیں ہے، جب شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے قرآن مجید کا فارسی ترجمہ کیا تو اس وقت بھی ہنگامہ کیا گیا،اسی طرح جب نواب صدیق حسن خاں قنوجی رحمہ اللہ نے کتب ستہ کا اردو ترجمہ نواب وحید الزماں حیدر آبادی اور نواب بدیع الزماں حیدرآبادی سے کرایا اور ان کی اشاعت زیرعمل آئی تو یہ طعنہ دیا گیا کہ اب ہر کوئی حدیث کی کتاب پڑھ کر مجتہد بن جائے گالیکن ہمیں معلوم ہے کہ قرآن اور کتب احادیث کے اردو زبان میں سامنے آنے کے بعد علم اور عمل میں اضافے ہوئے ،فرسودہ خیالات اور آباء واجداد کی غیر شرعی رسومات سے دامن چھڑائے گئے اور کتاب وسنت کی اساسی تعلیمات کی طرف واپسی ہوئی ۔اسلام کے بنیادی مآخذ سے استفادہ کرنے کا معاملہ کسی ایک طبقے تک محدود نہیں ہے اور نہ اسلام میں اس بات کی کوئی گنجائش ہے کہ آیت یا حدیث کا کوئی جملہ کسی کان میں پڑجائے تو اس میں سیسہ پگھلا کر ڈال دیا جائے ۔یہ تو برہمنی نظام کا ایک جبر ہے جس سے کسی حد تک ہم مسلمان بھی متاثر ہوئے ہیں۔ اللہ کا دین سب کے لیے ہے اور ہر انسان کو حق حاصل ہے کہ اپنے رب کے آخری پیغام کو جو قرآن اور محمد ﷺ کی سیرت وسنت کی شکل میں موجود ہے، براہ راست پڑھ سکے۔
یہی وجہ ہے کہ اب دنیا کی کئی ایک زبانوں میں اسلامی تراث کا سرمایہ منتقل کیا جارہا ہے اور ہر زبان میں اس کے تراجم پیش کیے جارہے ہیں۔موجودہ اسلامی بیداری کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ نئی نسل اسلام کو کسی حدتک سمجھنے لگی ہے اور وہ ان الجھنوں سے دور ہے جو بعض اہل بدعت نے پیدا کررکھی ہیں کہ اسلام کو سمجھنے کے لیے کسی مخصوص مسلک یا حلقے سے وابستگی ضروری ہے ۔جو لوگ اس قسم کی جتھا بندی کرکے دین کے نام سے دنیا کمانے میں مصروف ہیں،ان کے اضطراب کی وجہ سمجھنا مشکل نہیں ہے۔اندھی تقلید اور بے جاتعصب دو ایسی بیماریاں ہیں جن کی موجودگی میں کسی صحت مند اسلام کا تصور محال ہے۔
اسلامی تراث اور علمائے متقدمین کی کتابوں کا کسی بھی زبان میں ترجمہ کرتے وقت اس بات کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے کہ ترجمہ یا ترجمانی درست ہو،مصنف نے جو کچھ لکھا ہے،اسی کو ترجمہ میں پیش کیا جائے ۔کوئی بھی اضافہ متن میں ہرگز نہ کیا جائے ۔اگر کہیں کسی تعلیق یا حاشیہ کی ضرورت ہے تو اسے علاحدہ تحریر کیا جائے ۔مترجم کی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی ایسی کتاب کا زبردستی ترجمہ نہ کرنے بیٹھ جائے جس کے موضوع اور جس کی خاص اصطلاحات سے اسے واقفیت نہ ہو۔ناشرین کی اخلاقی اور دینی ذمہ داری ہے کہ وہ اسلاف کی کتابوں کے ساتھ کھلواڑ نہ کریں اورزیادہ نفع کمانے کی خواہش میں کسی ایسے مترجم کی خدمات حاصل نہ کریں جو کتاب کے ساتھ پورا انصاف کرنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو۔
زیر مطالعہ کتاب میں عربی متن کو صحت کے ساتھ محفوظ کیا گیا ہے تاکہ عربی زبان سمجھنے والے اہل علم بھی اس سے مستفید ہوسکیں اور اردو ترجمے میں سلاست اور روانی کو ترجیح دی گئی ہے تاکہ اردو ادب کا ستھرا ذوق کسی پہلو سے متاثر نہ ہو۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ متن کی رعایت میں کوئی کمی کی گئی ہے،ہرگز نہیں،ایسا ترجمہ کسی بھی حال میں مناسب نہیں ہے جس میں عربی متن کی پوری رعایت نہ کی جائے ۔قارئین زیر مطالعہ ترجمے کو ان شاء اللہ متن کتاب سے ہم آہنگ پائیں گے۔
میں شکریہ ادا کرتا ہوں ،دارالعلم،ممبئی کے اپنے بلند حوصلہ اور باذوق مدیرشیخ اکرم مختار حفظہ اللہ کا کہ انھوں نے اس کتاب کو اپنے روایتی انداز میں دیدہ زیب اور خوبصورت شائع کیا ہے ۔اللہ ان کے عزائم کو تازہ اور جوان رکھے اور وہ اسی طرح اسلامیات کی ترسیل اردو داں حلقے میں کرتے رہیں۔مادیت کے اس دور میں جب کہ پیسے کی بھوک کسی طرح کم نہیں ہورہی ہے، ضرورت کی دینی کتابیں شائع کرنا اور مناسب قیمت پر بازار میں پہنچانا ایک بڑی دینی خدمت ہے۔اللہ ایسے لوگوں کی مدد فرمائے اور ان کی تجارت کو نفع بخش بنائے۔آمین
الأربعون التیمیۃ
از:شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ(متوفی۷۲۸ھ)کی اپنی سند سے ۴۲؍احادیث کا مجموعہ
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں،اسلامی فکر پر ان کے گہرے اثرات ہیں جن کا مشاہدہ آج بھی کیا جاسکتا ہے۔اسلام کی ابتدائی تین صدیوں کے بعد جس طرح عجمی افکار اور دوسرے مذاہب نے اسلامی تہذیب وثقافت کے چشمۂ صافی کو گدلا کرنے کی منظم سازشیں کیں اور بعض نام نہاددنیا پرست علماء، رہبانیت سے متاثرصوفیاء ،یونانی الٰہیات سے متاثرفلاسفہ اور متکلمین نے ان اثرات کو خوش آمدید کہا بلکہ نصوص کتاب وسنت کی باطل تاویلات کے ذریعے ان پر اسلام کا لیبل لگانے کی کوشش کی ،اس طوفان بلاخیز کو اگر کسی نے پوری جرأ ت اور ہمت کے ساتھ روکا تو وہ امام ابن تیمیہ ؒہیں۔شیخ الاسلام نے اللہ کی تائید ونصرت سے ہر باطل کو زیر کیا اور اعدائے اسلام کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گفتگو کی۔رسول کریم ﷺ سے محبت اور بزرگان دین سے عقیدت کے نام پر اسلام کے سادہ ،بے آمیز اور خالص تصور توحید کو گدلا کرنے کی ناروا سعی کا انھوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا ۔فقہی تعصبات اور جمود سے مقاصد شریعت کو جو خطرات لاحق تھے اور جس طرح فروعی اختلافات میں امت کو الجھا کر اس کی اجتماعی قوت کو نقصان پہنچایا جارہا تھا ،اپنے دور میں شیخ الاسلام نے اس کا بھرپور علاج کیا۔عام معاصرین کی روش کے خلاف انھوں نے موجودہ حکم رانوں کو ان کی ذمہ داریاں یاد دلائیں اور انھیں اسلامی سیاست کے اصول وآداب کی تلقین کی ۔وہ اگر چاہتے تو اپنے زہد وتقوی کی بنیاد پر مرجع خلائق بن جاتے اور مسند نشیں ہوکر اپنے مریدوں سے دست بوسی کراتے لیکن قدرت نے انھیں جہاد اور مجاہدہ کے لیے پیدا کیا تھا اور اس راہ پر چلتے ہوئے پھولوں سے نہیں کانٹوں سے گزرنا ہوتا ہے ۔ان کی زندگی کا ایک بڑا حصہ پس دیوار زنداں گزرا ہے ،قید ومشقت کی زندگی گزارنا اسی کا مقدر ہوتا ہے جسے قدرت نے کارہائے تجدید کے لیے پیدا کیا ہو ۔مجدد کا لقب حاصل کرپانا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ علامہ شبلی ؒنے بالکل صحیح لکھا ہے کہ پوری اسلامی تاریخ میں اگرکسی شخصیت پر مجددکا لقب پھبتا ہے تو وہ صرف شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی ذات گرامی ہے ۔
شیخ الاسلام نے اسلامی علوم وفنون پر جو ذخیرہ چھوڑا ہے ،اب اس کی اشاعت شب وروز ہورہی ہے۔دنیا بھر کے قدیم کتب خانوں سے ان کی تصانیف کے مخطوطے تلاش کیے جارہے ہیں ،ان کو جدید تحقیقی اصولوں کے مطابق ایڈیٹ کیا جارہا ہے ،جو کتابیں شائع شدہ تھیں ،ان کی تحقیق وتخریج ہورہی ہے اور اس طرح ان کے افکار وخیالات عام ہورہے ہیں۔عدل وانصاف سے محروم دنیا ان کے خیالات سے متاثر ہورہی ہے اور انسانی لاشوں کے سوداگر ان کے افکار کو مبنی بر تشدد بتاکر عام مسلمانوں کو گمراہ کررہے ہیں۔ جہالت اور جاہلیت کی فضا میں پرورش پانے والی ہماری نئی نسلیں بڑی حد تک ان کے پروپیگنڈے کا شکار ہورہی ہیں۔ضرورت ہے کہ اس نازک وقت میں دنیا کو بتایا جائے کہ جس اسلام کی آج دنیا کو ضرورت ہے اور جو صحیح اسلام ہے ،وہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے یہاں ملتا ہے ۔اسلام ایک نظام زندگی ہے،وہ اس دنیا سے بحث کرتا ہے اور دنیا میں پیدا ہونے والے ہر مسئلے کا حل پیش کرتا ہے۔ جن حضرات نے دنیا کو دنیا پرستوں اور موت کے سوداگروں کے حوالے کردیا ہے ،جو سیاست حاضرہ سے دوری بنائے رکھنے کو زہد وتقوی کی معراج اور بزعم خویش منہج سلف سمجھتے ہیں ،جن کی گفتگو زمین کے نیچے کے احوال پر یا آسمان کے اوپر رونما ہونے والا حالات پر مرکوز ہوتی ہے ،ان کا اسلام وہ نہیں ہے جسے محمد بن عبداللہ ﷺ نے پیش فرمایا تھا بلکہ اسلام کے اس جدید ایڈیشن کو چرچ اور رہبانیت نے تیار کیا ہے ،جس کا اللہ کی بنائی ہوئی دنیا سے کوئی تعلق نہیں۔
یورپ کے سیاسی عزائم اور تیسری دنیا کو غلام بنائے رکھنے کی اس کی کوششوں کو دورحاضر میں کسی نے اگر قریب سے دیکھا اور اس کا تجزیہ کیا ہے تو وہ مولانا ابوالکلام آزاد تھے،جو نہ صرف امام ابن تیمیہ کی کتابوں کے عاشق تھے بلکہ ان کے اپنے افکار وخیالات پر ابن تیمیہ کے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ ملک کی تقسیم کی وجہ سے برصغیر کے بارے میں ان کی فکر اور ان کے سیاسی عزائم شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکے ،ورنہ آج یورپ کی کوئی طاقت برصغیر کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی بھی جرأت نہ کرتی اور یہ خطہ ٔ ارضی اپنے وسائل کے لحاظ سے دنیا کا ایک سپر پاور ہوتا۔ملک کی تقسیم صرف ملت اسلامیہ ہی کا خسارہ نہیں بلکہ پاک وہند اور بنگلہ دیش کے ہر فرد کا خسارہ ہے خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔
زیر مطالعہ مختصر کتاب شیخ الاسلام کی اربعین ہے ،جس میں انھوں نے اپنی سند سے تمام احادیث بیان کی ہیں۔اپنے مشائخ کے سلسلے میں انھوں نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ انھوں نے اس حدیث کی سماعت ان سے کس سنہ میں کی۔اس اربعین میں ان کے مشائخ میں بعض خواتین محدثات کا بھی نام سامنے آتا ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ احادیث رسول کی تبلیغ واشاعت میں ان کا کردار بھی کچھ کم نہیں ہے اور یہ کہ اسلام نے تعلیم کے سلسلے میں مردوں اور عورتوں کے درمیان کوئی تفریق روا نہیں رکھی ہے۔
اربعین کے سلسلے میں یہ بات معروف ومشہور ہے کہ اس کے تعلق سے ایک فضیلت یہ بیان کی جاتی ہے کہ جو شخص میری امت کے لیے چالیس احادیث کو یاد کرے گا اور اسے دوسروں تک پہنچائے گا، قیامت کے دن اسے نبی اکرم ﷺ کی شفاعت حاصل ہوگی۔لیکن معتبر محدثین کی اکثریت اس حدیث کو صحیح نہیں سمجھتی بلکہ اسے ضعیف قرار دیتی ہے۔اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی تراث میں اربعین بے شمار ملتی ہیں اور بڑے بڑے محدثین نے اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔قارئین ذی اکرام کی معلومات میں اضافہ کرنے کے لیے ذیل میں ان بڑے مصنّفین کی ایک فہرست دی جارہی ہے جن کے قلم سے اربعین نکلی ہیں:
عبد اللہ بن مبارک حنظلی (اربعین کے اولین مصنف)، محمد بن اسلم طوسی،حسن بن سفیان نسائی،ابو بکر آجری، ابو بکر محمد بن ابراہیم اصبہانی،ابو بکر محمد بن عبد اللہ جوزقی،ابو نعیم اصبہانی، ابو عبد الرحمن سلمی، ابو بکر بیہقی،ابو الحسن دارقطنی ،ابو عبد اللہ حاکم ،ابو طاہر سلفی ،ابو القاسم بن عساکر ، ابوسعداحمد بن محمد بن حفص بن خلیل انصاری مالینی،ابوالفتوح محمد بن محمد بن علی بن محمد طائی ہمذانی،ابو بکر تاج الاسلام محمد بن اسحاق بخاری کلاباذی ،ابوعثمان اسماعیل بن عبد الرحمن بن احمد بن اسماعیل بن ابراہیم صابونی ،ابوعبد اللہ محمد بن اسماعیل بن عبد اللہ بن ابی الصیف یمنی مکی شافعی ،ابوالقاسم حمزۃ بن یوسف سہمی ،رضی الدین ابی الخیر احمد بن اسماعیل ، ابومحمد عبد القاہر بن عبد اللہ بن عبد الرحمن رہاوی ،ابوعبد اللہ اسماعیل بن عبد الغافر بن عبد الغافرفارسی، تقی الدین محمد بن احمد بن عبد الرحمن بن علی بن عبد الرحمن فاسی ۔
اربعین کے سلسلے میں پائی جانے والی حدیث کے ضعف کی وجہ سے بعض محدثین نے صرف چالیس احادیث پر اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ اس میں دوچار احادیث کا اضافہ بھی کردیا ہے۔شیخ الاسلام نے بھی یہی طرز عمل اپنایا ہے اور انھوں نے اپنی اس اربعین میں بیالیس احادیث کا تذکرہ کیا ہے۔
قارئین کی سہولت کے لیے احادیث کی تخریج بھی کردی گئی ہے اور کوشش کی گئی ہے کہ ان کا درجۂ استناد بھی متعین کردیا جائے۔احادیث کی تخریج اور ان پر حکم لگانے میں میں نے اس میدان کے ماہرین کی تحریروں اور ان کی کتابوں سے استفادہ کیا ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ حدیث کی اس خدمت کو قبول فرمائے اور مصنف ،مترجم اور ناشر کو اس کا اجروثواب عطا فرمائے۔آمین
کِتَابُالصَّلاۃ عَلَی النَّبِیِّﷺ
از:أبی بکر أحمد بن عمر بن أبی عاصم النبیل(متوفی۲۸۷ھ)
درود وسلام کی عظمت وفضیلت ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے۔اس کا تعلق نبی اکرم ﷺ کی ذات گرامی سے ہے ،آپ ہی کا فیضان ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوئی اور زندگی کے مقاصد سامنے آئے اور اس کا نصب العین واضح ہوا۔ آپ ﷺ نے اپنی حیات طیبہ کا ایک ایک لمحہ انسانیت کی اصلاح وفلاح کے لیے صرف کیا۔ توحید اور اتباع سنت کی بنیاد پر ایک ایسے سماج کی بنیاد رکھی جس میں چاروں طرف امن وسکون تھا،کوئی طاقت ور کسی کمزور پر ظلم کرنے کی ہمت نہیں کرسکتا تھا ،آپ نے سماج کے کمزور طبقات کو مکمل تحفظ فراہم کیا۔ اس طرح پوری امت کے لیے ہمیشہ آپ شفیق ورحیم بنے رہے اوران شاء اللہ آپ کی لائی ہوئی دائمی شریعت تا صبح قیامت بنی نوع انسان کے لیے رحمت بنی رہے گی۔ آپ کی ظاہری اور مادی حیات ایک خاص عرصے تک اگر چہ دنیا میں لوگوں کے سامنے رہی لیکن آپ کی روحانی زندگی کا تسلسل قائم ہے اور ہر صبح وشام فضاؤں میں اللہ کے نام کے ساتھ آپ کا اسم گرامی گونجتا ہے۔ایک بندہ مومن کی ہر سانس کے ساتھ آپ کا وجود گرامی وابستہ ہے ،وہ کسی لمحے آپ سے بے نیاز نہیں ہوسکتا ہے اور نہ آپ کے ذکر کے بغیر اللہ کی کوئی عبادت کرسکتا ہے۔ درود شریف ذکر مصطفیﷺ کا ایک مظہر ہے جو ہماری زندگی کی ہرسانس سے متعلق ہے۔ قرآن مجید اور حدیث شریف میں درود شریف کی اہمیت، فضیلت اور اس کی برکتوں پر اتنا مواد موجود ہے کہ اس کو کسی ایک کتاب کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا۔
درود شریف کی عظمت اور اس کی اہمیت کو صحیح تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔نبی اکرم ﷺ کی ذات گرامی سے والہانہ عقیدت اور محبت کے ساتھ ساتھ آپ کی لائی ہوئی پاکیزہ شریعت سے وابستگی ضروری ہے۔اسلامی شریعت میں عبادت صرف اللہ تعالیٰ کی ہوتی ہے اور رسول اکرم ﷺ کی اتباع اور اطاعت کی جاتی ہے ۔عجمی افکار اور تصوف کے زیراثر نبی اکرم ﷺ اور آپ پر درود شریف بھیجے جانے کے مسئلے میں عجیب وغریب پیچیدگیاں پیدا کردی گئی ہیں۔جو امیدیں صرف اللہ سے باندھی جاسکتی ہیں ،وہ نبی اکرم ﷺ اور درود شریف سے متعلق کردی گئی ہیں۔منکر اور موضوع روایات کی بھرمار ہے اور طرح طرح کے وضعی درود تیر بہ ہدف بتائے جارہے ہیں۔درود تاج اور درود لکھی جیسی بے سند باتیں جاہل صوفیاء نے معاشرے میں عام کررکھی ہیں۔اتباع سنت کے بجائے تقلید ائمہ پر زور صرف کیا جاتا ہے اور درود شریف کے مسئلے میں اوہام وبدعات کی ایک ایسی دنیا آباد کردی گئی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہ گئی ہے اور لہک لہک کر یہ شعر گنگنایا جاتا ہے:
اللہ کے پلے میں وحدت کے سوا کیا ہے
جو کچھ ہمیں لینا ہے لے لیں گے محمد سے
ایک دوسرے شاعر کا کفر ملاحظہ فرمائیں:
وہی جو مستوی عرش تھا خدا بن کر
اتر پڑا ہے مدینے میں مصطفی بن کر
علمائے اسلام اور صلحائے امت نے ہر دور میں اپنی اپنی صلاحیتوں کے مطابق درود شریف کے موضوع پر اعلیٰ درجہ کی کتابیں تصنیف فرمائی ہیں ۔اولین دور کی تصانیف میں ہمیں درود شریف سے متعلق تمام روایات سندوں کے ساتھ ملتی ہیں ،جن سے یہ معلوم کرنا آسان ہے کہ کس روایت کی سند قابل اعتبار ہے اور کون غیر معتبر ہے۔ہمارے اسلامی تراث میں درود شریف کی سب سے اہم اور بیش قیمت کتاب ’’جلاء الافہام‘‘ہے جو امام ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ کی تصنیف ہے۔ علمائے متقدمین اور محدثین کرام نے اس موضوع پر جو وسیع ذخیرہ چھوڑا ہے،اسی کا ایک حصہ زیر مطالعہ کتاب ہے جو اپنے دور کے ایک عظیم محدث کی تصنیف فرمودہ ہے۔
کتاب کا پورا نام ’’کتاب الصلوۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ہے۔ مصنف کا اسم گرامی احمد بن عمرو بن ضحاک بن مخلد شیبانی ہے ،کنیت ابوبکر ہے اور علمی دنیا میں اپنے مختصر نام ابن ابی عاصم کے نام سے جانے جاتے ہیں ،ان کو ابن نبیل بھی کہا جاتا ہے۔۲۰۶ ھ مطابق۸۲۲ء میں ان کی ولادت بصرہ کے ایک علمی خانوادے میں ہوئی ۔اصبہان میں تیرہ سال تک منصب قضا پر فائز رہے ۔بھرپور علمی زندگی گزاری ۔ بعض تذکرہ نگاروں نے ان کی تصانیف کی تعداد تین سو بیان کی ہے۔ ان میں ’’المسند الکبیر‘‘، ’’کتاب السنۃ‘‘،’’الآحاد والمثانی‘‘، الأوائل‘‘ اور ’’کتاب الصلوۃ علی النبیﷺ‘‘ کافی نمایاں اور مشہور ہیں۔ صاحب کرامات اور عابد وزاہد تھے ۔ان کی وفات۲۸۷ھ مطابق۹۰۰ء میں ہوئی۔ جنازے میں تقریباً دولاکھ لوگوں نے شرکت کی۔ اللھم اغفرلہ وارحمہ۔
زیر مطالعہ کتاب کی تمام احادیث ان کی اپنی سند سے ہیں ۔یہ کتاب ’’حمدی بن عبدالمجید السلفی‘‘کی تحقیق وتخریج کے ساتھ شائع ہوچکی ہے۔اردو کتاب میں ہر حدیث کے بعد حوالے اسی سے مستفاد ہیں۔اللہ تعالیٰ اس خدمت کو شرف قبول عطا فرمائے اور مصنف، مترجم اور ناشر کو اس کے اجر وثواب سے نوازے۔آمین
والدین اور قرابت داروں کے حقوق
از:أبوعبداللہ الحسین بن حرب السلمی المروزی (متوفی۲۴۶ھ)
دنیا میں ہمارے مادی وجود کو جن رشتوں سے تقویت ملتی ہے اور جن کی پرورش، تربیت اور شفقت ومحبت کے سہارے ہم بھر پور زندگی میں قدم رکھتے ہیں ، وہ نہ صرف ہمارے حسن سلوک کے مستحق ہیں بلکہ حسب حیثیت ان کی خدمت اور نگہ داشت ہمارے بنیادی دینی اورسماجی فرائض کا حصہ ہے ۔ ان رشتوں میں اولین مقام والدین کا ہے ، جن کو اللہ نے ہمارے وجود کے لیے منتخب کیا ہے ، یہ انتخاب ہمارا نہیں بلکہ صرف اللہ کا ہے جس کے ہر فیصلے کے آگے سر جھکا دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ۔ پھر ہمارے وہ بھائی بہن ہیں جن کی رگوں میں بھی وہی خون دوڑ رہا ہے ، جو ہماری رگوں میں ہے ۔ اس کے بعدذرا اوپر جائیں تو ہمارا دادیہال آتا ہے جس میں دادا ، دادی ، تایا ، چچا ، پھوپھی اور ان کی اولاد آتی ہے ۔ یہ ہمارے وہ عزیز واقارب ہیں جن سے ہمارا نسبی تعلق ہے اور جو ہمارے باپ کے واسطے سے ہمارے قریبی رشتے دار ہیں ۔ ایک قدم مزید بڑھائیں تو وہ رشتے دار ہمارے سامنے آتے ہیں جن سے ہمارے رشتے کی بنیادہماری والدہ ہیں ۔ اس فہرست میں نانا نانی ، ماموں ، خالہ اور ان کی اولاد شامل ہے ۔ یہ ہمارے ننہالی رشتے دار کہلاتے ہیں ۔ ہمارے عزیز و اقارب میں وہ حضرات بھی شامل ہیں ، جن کا تعلق ہماری بیوی کی وجہ سے ہے ۔ ان رشتے داروں میں ساس سسر، سالے ،سالی اور ان کے بچے شامل ہیں۔
اسلامی تعلیمات میں جب صلہ رحمی کی بات آتی ہے تو اس سے درجہ بدرجہ یہی مذکورہ بالا ہمارے عزیز واقارب مراد ہوتے ہیں ۔ اسلام کے اصولوں کے مطابق ان کی فطری ترتیب وہی ہے جو اوپربیان کی گئی ہے ۔حسن سلوک میں تقدیم وتاخیر،ترجیح اور اولیت میں اس ترتیب کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے ۔ اسلامی تعلیمات سے عدم واقفیت اور بعض دوسری وجوہات کی بنا پربسا اوقات اس فطری ترتیب کو ہم الٹ دیتے ہیں ۔ تیسرے نمبر کے رشتے دار نمبر اول بن جاتے ہیں اور نمبر اول تیسرے نمبر پر پہنچ جاتا ہے ۔ ترجیح کی یہ نوعیت اسلام کے لیے قابل قبول نہیں ۔ اسلام اپنے چاروں شعبوں یعنی عقائد ، عبادات ، معاملات اور اخلاقیات کو ایک ساتھ متحرک کر کے جس طرح ایک انسانی سماج کو ایک اسلامی معاشرے میں تبدیل کرتا ہے ، اس میں ان چاروں شعبوں میں اعتدال و توازن ضروری ہے بلکہ اسلامی تعلیمات میں یہ چیز بھی نمایاں نظر آتی ہے کہ عقائد اور عبادات کا تعلق انسان کے اپنے اندرون سے ہے اور اللہ اور اس کے بیچ کا معاملہ ہے ،جب کہ آخری دونوں شعبوں کا تعلق اس کی اپنی روز مرہ کی زندگی اور اللہ کے دوسرے بندوں سے ہے اور یہی دونوں شعبے ہماری شخصیت کو سماج کے لیے اہم یا غیر اہم بناتے ہیں بلکہ اسلام کے یہ آخری دونوں شعبے ، اول الذکر دونوں شعبوں میں موجود اخلاص و استحکام کا مظہر بھی ہیں ۔ اگر ہماری نمازمحمود و ایاز کے در میان پیدا شدہ جاہلی فاصلے نہیں مٹاتی ، اگر ہماری زکوۃ ہمیں بندوں کے حقوق کی ادائیگی پر آمادہ نہیں کرتی ، اگر ہمارے روزے ہمیں بھوک پیاس کی شدت کا احساس نہیں دلاتے اور اگرہمارا حج ہمارے اندر ایک عالم گیرامت ہونے کا جذبہ نہیں پیدا کرتا تو ان عبادات کی معنویت پر ایک سوالیہ نشان لگ جائے گا ۔ اسی طرح اسلام کا اولین شعبہ عقائد جو بنیادی طور پر توحید و رسالت اور آخرت پر مشتمل ہے ، اس کے اثرات بھی اسلام کے آخری دونوں شعبوں پر پڑتے ہیں بلکہ عقائد کی صداقت اور درستگی کو جانچنے کا معیار بھی یہی شعبے ہیں ۔ بھلا یہ کیوں کر ممکن ہے کہ ایک موحد مسلمان جواللہ کی صحیح معرفت رکھتا ہے ، وہ اس کی رب العالمینی کو فراموش کردے اور دنیا میں ایسا کام کرے جس سے اللہ کے بندوں کی روزی محدود یا ختم ہوجائے ۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک شخص اللہ کی غفاریت اور ستاریت کاعقیدہ بھی رکھتا ہو اور وہ معمولی غلطیوں پر اللہ کے بندوں کو تختہ دار پر چڑھادے اور ان میں پوشیدہ عیوب کو طشت از بام کر کے انھیں دنیا کی نگاہوں میں ذلیل و رسوا بھی کرے ۔ رحمۃ للعالمین کی محبت کا دعوی بھی کرے اور اس کا وجود انسانیت کے لیے عذاب بن جائے ۔ شب وروز طوطے کی طرح جنت وجہنم بھی رٹتا رہے اور آخرت کی جواب دہی سے بے نیاز ہو کر زندگی گزارے اور وہ سارے کام کرے جو معصیت اور گناہ کبیرہ کے ذیل میں آتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ہماری صاف ستھری دینی زندگی کو اسی وقت گہن لگ گیا تھا جب عہد بنوعباسیہ میں اسلامی عقائد کے حوالے سے کئی ایک باطل فرقوں نے جنم لیا تھا ، شاعر مشرق علامہ اقبال کی زبان میں الہیات کے ترشے ہوئے ان لات ومنات نے ہمارے اسلامی عقائد کی بنیادیں متزلزل کردی تھیں جن کو آج تک اجتماعی طور پر ہم مستحکم نہیں کر سکے اور آفتاب سے زیادہ روشن عقیدۂ اسلامی کہیں بادلوں میں چھپ کر رہ گیا ہے ۔
اب مسلم معاشرے کی صورت حال یہ ہے کہ عام بندوں کے حقوق تو جانے دیں ، اپنے عزیزوں اور رشتے داروں کے حقوق پامال کیے جارہے ہیں ، والدین کی ضعیفی بے سروسامانی کے عالم میں گزرتی ہے ، پھوپھیوں ،بہنوں اور بیٹیوں کے حق وراثت کوختم کر کے اسے اپنی نسلوں کو منتقل کر کے ان کے لیے تباہی کا سامان کیا جارہا ہے ۔ جن عزیزوں نے ہمیں شفقت ومحبت سے پروان چڑھایا ہے ، ہم انھی کے خلاف جنگ چھیڑ دیتے ہیں اور ان سے قطع تعلق کر کے اپنے گھر بیٹھ جاتے ہیں ۔ ان کی خوشیوں کو چار چاند لگانے کی بجائے ، ان کو گہن لگانے کی سازش کرتے ہیں ، ان کے غموں میں ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے ، ان پر نمک چھڑ کتے ہیں ۔ یہ سب کچھ کرتے ہوئے ہمیں پیارے نبی کی وہ احادیث پاک نہیں یاد آتیں جن میں والدین کی رضا کو جنت کا اور ان کی ناراضگی کو جہنم میں جانے کا سبب بتایا گیا ہے ، صلہ رحمی سے متعلق وہ تمام احادیث ہم نظر انداز کر دیتے ہیں جن میں ان کی اہمیت واضح کی گئی ہے ۔ ہمارا ذہن تاویل کر کے ہمیں مطمئن کر دیتا ہے کہ اسلام کی یہ تمام ہدایات اور تعلیمات’’اضافی‘‘ ہیں،نجات کے لیے ہمارے’’بے اثر‘‘عقائد اور ہماری ’’بے روح‘‘عبادات کافی ہیں۔
فکرونظر کے اس انحراف کو تقویت ہمارے اندرونی مسلکی اختلافات نے بھی پہنچائی ہے۔اب ہماری دعوتی اور تبلیغی سرگرمیوں کا محور اور ان کی کل کائنات ہماری مسلکی ترجیحات ہیں۔عوام تک کتاب وسنت کی جملہ تعلیمات پہنچانے کی بجائے ہم اپنی ترجیحات سمجھانے میں لگے ہوئے ہیں۔مسجدیں غیر آباد ہیں،نئی نسل کی ایک بڑی تعداد روزے کو بار سمجھنے لگی ہے،زکوۃ کو ہمارا صاحب حیثیت اور مال دار طبقہ اپنے لیے تاوان سمجھتا ہے،حساب کتاب کرکے زکوۃ ادا کرنے کی بجائے دس بیس روپے صدقہ خیرات کرکے ہم یقین کرلیتے ہیں کہ ہمارا زکوۃ ادا ہوگئی اور ہم فریضۂ الٰہی سے سبکدوش ہوگئے۔
ملت میں اتحاد قائم کرنے،اسے ایک لڑی میں پرونے اور رسول اللہ ﷺ کی امت کو سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنانے کی بجائے،ہم اسے پارہ پارہ اور منتشر کرنے میں مصروف ہیں۔اپنے ملک کے اندر،عالم اسلام بلکہ ساری دنیا پر ایک نظر ڈالیں،کس طرح اسلام اور اہل اسلام کے خلاف سازشیں ہورہی ہیں،ان کو حرف غلط کی طرح مٹانے کے لیے کس طرح ان کے مذہب اور ان کی تہذیب وثقافت پر حملے ہورہے ہیں اور کس طرح گزشتہ تین چار دہائیوں سے مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جارہا ہے،اس کے مقابلے میں ہمارا یہ کردار وعمل ہے۔یہ وقت سخت محاسبے کا ہے،کیا ہم اپنا احتساب کرنے کے لیے تیار ہیں؟
زیر مطالعہ کتاب تیسری صدی ہجری کے ایک محدث امام ابوعبداللہ بن حسین بن سلمی مروزی رحمہ اللہ کی ترتیب فرمودہ ہے ۔ موصوف امام محمد عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ کے شاگرد ہیں ۔ ہمارے دور اول کے اسلامی تراث کی تمام خوبیاں اس میں موجود ہیں ۔ ہر حدیث امام مروزی نے اپنی سند سے نقل کی ہے ، زیادہ تر احادیث امام عبداللہ بن مبارک ہی کے واسطے سے منقول ہیں ، یہی وجہ ہے کہ بعض تذکرہ نویسوں نے اسے امام عبداللہ بن مبارک ہی کی تصنیف قرار دے دیا ہے جب کہ ایسا نہیں ہے ۔ اس میں بہت سی احادیث بعض دوسرے اساتذہ سے بھی امام مروزی ؒ نے نقل کی ہیں۔
کتاب کا پورا نام ’’البر والصلۃ‘‘ہے جس میں والدین اور دوسرے عزیز واقارب کے حقوق سے متعلق احادیث بیان کی گئی ہیں ۔ کتاب میں مذکور بیشتر احادیث ان امہات کتب حدیث میں موجودہیں جو امت میں متداول ہیں اور جو اکثر دینی مدارس کے نصاب کا حصہ ہیں ۔ پھر بھی اس کتاب کی اہمیت اپنی جگہ موجود ہے ۔کئی ایک احادیث کے علاوہ صحابہ و تابعین کے اقوال و آثار اس میں ہیں ، جن سے بعض احادیث کی تشر یح ہوتی ہے ، ان کا پس منظر اور شان ورود سامنے آتا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ کتاب کی ہر حدیث ایک مستقل سند کے ساتھ ہم تک پہنچ رہی ہے ۔ اس کتاب کی سندوں سے ہماری امہات کتب حدیث کی سندوں کو تقویت ملتی ہے اور یہ پتا چلتا ہے کہ ہمارے دور اول کا دینی لٹریچر کتنی احتیاط کے ساتھ تیار کیا گیا تھا اور بحمداللہ آج بھی وہ ہمارے استفادے کے لیے موجود ہے ۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس کتاب کا اردو ترجمہ پہلے بھی ہوا ہے یانہیں ،ممکن ہے کسی صاحب علم نے مجھ سے پہلے اس کتاب کواردو جامہ پہنایا ہولیکن آج بازار میں عوام وخواص کے استفادے کے لیے یہ کتاب اردو میں موجودنہیں ہے ۔ موضوع کی اہمیت کے پیش نظر یہ خدمت انجام دی گئی ہے ، اللہ تعالی اسے شرف قبول بخشے اور حقوق العباد کے اس شعبے میں جو کوتاہیاں ہم سے ہورہی ہیں ان کو دور کرنے کی ہمیں توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
ترجمے کے وقت عربی کتاب کا وہ ایڈیشن میرے سامنے رہا ہے جو دار الوطن ، ریاض سے ۱۴۱۹ھ میں شائع ہوا ہے۔ اس ایڈیشن کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی ہر حدیث کی سند پر حکم لگا ہوا ہے جوڈاکٹرسعید بخاری کی طرف سے ہے ۔ میں نے اس حکم کو جوں کا توں باقی رکھا ہے ، اس میں کسی طرح کی تبدیلی نہیں کی ہے ۔ احادیث کی سندوں کے جانچنے اور پرکھنے کے اپنے اصول اور ضابطے ہیں، احادیث کا خصوصی ذوق رکھنے والے اہل علم یہ خدمت انجام دیتے ہیں ۔ مجھے امید ہے کہ سندوں پر لگائے گئے حکم سے ہمیں احادیث کا درجہ متعین کرنے میں ان شاء اللہ ضرور مدد ملے گی ۔
محمد عربی ﷺ کی سنتیں
(بعض بھولی بسری اور نظرانداز کی جارہی سنتوں کی یاد دہانی)
تالیف:رفیق احمد رئیس سلفی
قرآن مجید میں کئی ایک مقامات پر نبی اکرم ﷺکی مخلصانہ اور بے لاگ اطاعت کا حکم موجود ہے اوران لوگوں کی سعادت و کامرانی کا تذکرہ کیا گیا ہے جونبی ﷺ کو اپنا ہادی اور رہنما تسلیم کر کے اپنی زندگی کے ہر معاملے میں آپ ﷺکی اتباع اور پیروی کرتے ہیں، اسی کے ساتھ ان لوگوں کو طرح طرح کی وعیدیں سنائی گئی ہیں جو نبی ﷺکی مخالفت کرتے اور آپ کے احکام کی خلاف ورزی کرتے ہیں ۔ قرآن مجید نبی اکرم ﷺکی حیات طیبہ کو ایک اسوہ اور نمونہ بنا کر پیش کرتا ہے اور اپنی زندگی کے روز وشب کواسی اسوے اورنمونے کے مطابق گزارنے کی تاکید کرتا ہے ۔
اس اسوے اور نمونے کی ایک جھلک صحابہ کرام ، تابعین عظام اورسلف صالحین کی سیرت میں دیکھی جاسکتی ہے جو آپ کی جان، عزت و آبرو اور آپ کی لائی ہوئی شریعت کی اشاعت ، تحفظ ، بقا اور استحکام کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے ، آپ کے چہرۂ انورکو دیکھ کر اپنے ایمان و یقین کو تازہ کرتے تھے اور آپ سے نسبت رکھنے والی ہر ہر چیز کو سینے سے لگا کر رکھنا اپنا دینی فریضہ سمجھتے تھے ۔ اسی طرح آپ کا حسن اخلاق ، شب وروز کی زندگی اور سفروحضر ، قیام و طعام اور سلوک وطرزعمل کی بھی تصویر ان احادیث میں دیکھی جاسکتی ہے جن کومحدثین کرام نے دواوین سنت میں جمع کردیا ہے ۔
محدثین کرام کے طرز فکر وعمل سے یہ کہیں نہیں معلوم ہوتا کہ نبی اکرم ﷺکی سنتوں کو اہم اورغیراہم، ضروری اور غیرضروری کے دو الگ الگ خانوں میں تقسیم کیا جائے بلکہ وہ آپ ﷺکی زندگی کو خواہ وہ اجتماعی ہو یا انفرادی ایک ہی انداز اور اسلوب میں بیان کرتے ہیں ۔بعض دانش ور قسم کے حضرات اورعظیم انقلاب کے بعض داعی اور دعویدار سنتوں کے معاملے میں بے راہ روی کے شکارنظرآتے ہیں ۔ اپنی ذاتی زندگی کو اسو ۂ رسول سے آراستہ کرنے کا مطلب یہ کہاں ہے کہ ایک مسلمان اسلام کے اجتماعی تقاضوں سے دست بردار ہوگیا ہے اور اسے اسلام کے سیاسی ، معاشی اور معاشرتی نظام سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یہ شدید غلط فہمی ہے جو آج کے بہت سے دین پسند جدید تعلیم یافتہ حضرات کو لاحق ہوگئی ہے اور اپنی اسی غلط فہمی کی وجہ سے وہ اپنی ذاتی زندگی میں کئی ایک سنتوں سے محروم ہیں بلکہ انھیں یہ احساس بھی نہیں ہے کہ غیر شعوری طور پر وہ اسوۂ نبوی کی کہاں کہاں مخالفت کرتے نظر آتے ہیں ۔
محبت رسول کے اہم تقاضوں میں سے ایک بڑا تقاضا یہ ہے کہ یہ ضرور دیکھا جائے کہ رسول اکرم ﷺکی ذاتی زندگی ، آپ کے سونے جاگنے ، اٹھنے بیٹھنے ، کھانے پینے، سفر اورحضر کے معمولات ، اہل خانہ ، دوست احباب اور ساتھیوں سے تعلقات اور حسن معاملہ کے سلسلے میں آپ کا طرزعمل کیا رہا ہے اور کس طرح آپ اپنی زندگی کے ان گوشوں کو اعتدال واحتیاط کے ساتھ روشن اور تابناک رکھتے تھے ۔ حیات طیبہ کے یہ پہلو ہمارے لیے مینار ہدایت ہیں ۔ رسولﷺ کی ان عظمتوں کو تو ہم نہیں پہنچ سکتے لیکن حسب توفیق و استطاعت آپ کے اسو ے کو اپنانے کی کسی حدتک کوشش تو کر سکتے ہیں ۔
آج مسلمانوں نے محبت رسول کا مفہوم ہی بدل کر رکھ دیا ہے ، وہ قوالی ، نعت خوانی اور آپ ﷺکی تعریف میں مبالغہ آرائی کو محبت رسول کا نام دے بیٹھے ہیں ۔ نبی اکرمﷺ کی تمام تر تنبیہ اور تاکید کے باوجود نصاری کی طرح رسول اکرمﷺ کو انسان کی بجائے خدا بنانے پر آمادہ ہیں ۔سماعتوں کو جو بھی آواز اچھی لگتی ہے ، اس پر سردھنے جاتے ہیں ، یہ نہیں دیکھا جاتا کہ عقیدۂ توحید اور شرک کی سرحدوں سے ناواقف شاعر نے کس قدرغلو سے کام لیا ہے ۔ بعض ثقہ حضرات بھی ایسی مجلسوں میں موجود ہوتے ہیں لیکن وہ بھی کسی مصلحت کی وجہ سے خاموش رہنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں ۔ ایک عالم دین کی ذمہ داری ہے کہ عقیدہ کے باب میں کسی طرح کی مد اہنت قبول نہ کرے اور جہاں کہیں خلاف توحید و سنت کوئی بات دیکھے،فوراً اس پر تنبیہ کرے اور افہام وتفہیم کا طریقہ اپناتے ہوئے محبت رسول کے تقاضوں سے عوام کو واقف کرائے ۔ رسولﷺ کی حیات طیبہ اور آپ کی سیرت پاک کا یہ پہلو شریعت کا ایک مستقل حصہ ہے کہ آپ کوئی بات سنیں یا کسی کام کو دیکھیں اور اس پر خاموشی اختیار کریں تو یہ آپ کی تقریری سنت قرار پاتی ہے اور شریعت میں حجت و دلیل سمجھی جاتی ہے ۔ کوئی ایساعالم دین جورسول ﷺسے محبت کرتا ہو ،کسی خلاف شرع کام پرخاموش کیسے رہ سکتا ہے ، یہ خاموشی اسوہ ٔرسول کے خلاف ہے ۔
زیر مطالعہ مختصر کتابچہ نبی اکرم ﷺکی بعض بھولی بسری سنتوں کی نشان دہی کرتا ہے، ان سنتوں پرعمل کرنا ذرا بھی مشکل نہیں ہے ۔ شرط صرف یہ ہے کہ ہمیں ان کا علم ہو اورنبی اکرم ﷺکی محبت سینوں میں موجزن ہو ۔
میں انتہائی شکر گزار اور احسان مند ہوں،برادر گرامی شیخ اکرم مختار حفظہ اللہ کا کہ انھوں نے اس موضوع پر کسی مختصر کتاب کی خواہش کا اظہار کیا اور بعض ترجیحات کی نشان دہی کی ۔اب وہی اپنے ادارے سے اس کی اشاعت بھی فرمارہے ہیں۔اللہ جزائے خیر عطا فرمائے ۔اللہ تعالی سے یہ بھی دعا ہے کہ ہمیں اپنے رسول کی سنتوں کا شیدائی بنائے اور ہماری زندگیوں کو سنت کے اجالوں سے روشن کر دے۔ آمین

آپ کے تبصرے

3000