بے حیائی کا عوامی مظاہرہ اور ہماری بزدلی

شمس الرب خان

اس تحریر کی شروعات کسی اور طرح کرنا چاہتا تھا، لیکن پھر میرے اندر کا قانون پسند شہری بیدار ہوگیا۔ اس لیے چلیے، کچھ قانونی جانکاری کے ساتھ اس مضمون کا آغاز کرتے ہیں۔
تعزیرات ہند، دفعہ 294 کے مطابق:
“جو کوئی بھی، دوسروں کی پریشانی کا باعث بنتے ہوئے؛
(الف) کوئی فحش کام کسی عوامی جگہ میں کرے، یا
(ب) کوئی فحش گانا، گیت یا الفاظ کسی عوامی جگہ میں یا اس کے نزدیک گائے، پڑھے یا بولے،
اسے یا تو تین مہینہ تک کی قید ہوگی، یا جرمانہ ادا کرنا ہوگا، یا دونوں سزائیں بھگتنی پڑیں گی۔”
یہ ہے ہندوستانی قانون کی ایک شق۔ کیا اس پر عمل ہو رہا ہے؟ تنفیذِ قانون کی ذمہ داری جن اداروں پر ہے، کیا وہ اپنا کام کماحقہ ادا کر رہے ہیں؟ روز مرہ کا مشاہدہ تو یہی کہہ رہا ہے کہ تنفیذ قانون کے لیے مکلف ادارے اپنا کام نہیں کر رہے ہیں۔
فحاشی و بے حیائی کے مناظر عام ہوتے جا رہے ہیں۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ یہ فحاشی و بے حیائی چھپ چھپاکر کونوں کھدروں میں نہیں بلکہ برسرعام ہو رہی ہے۔ بسیں، ٹرینیں ہوں، یا عوامی پارک و تفریح گاہیں، کچھ بےحیا جوڑے (شادی شدہ یا غیر شادی شدہ) شرم و حیا کو بالائے طاق رکھ کر ایک دوسرے میں پیوست نظر آ ہی جائیں گے۔ بچوں اور جوانوں کی بات ہی چھوڑدیں، یہ آبروباختہ لوگ بزرگوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتے اور انہی کے بغل میں بیٹھ کر بوس و کنار میں مشغول رہتے ہیں۔ یہ کسی بھی باحیا انسان کے لیے اذیت و عذاب کا باعث ہے۔ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ایسی جگہوں پر جانا کسی بھی شریف انسان کے لیے سوہان روح ہے۔ عوامی جگہوں پر بے حیا مخلوق نے قبضہ جما لیا ہے۔ یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا یہ بے حیا مخلوق ہم پر اس قدر غالب آ چکی ہے کہ ہم اس نومولود کلچر کے سامنے ہتھیار ڈال دیں اور اس کو معمول کی بات سمجھ کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ بے حیائی اور اس کا برملا اظہار مغربی تہذیب کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے۔ میڈیا کی مختلف شکلوں، اسکولوں اور ذہن سازی کے دوسرے ذرائع سے جو تہذیب ہمارے سماج میں زہر کی طرح پھیل رہی ہے وہ نئی نسل کے خام اذہان پر بری طرح اثرانداز ہو رہی ہے یا ہو چکی ہے۔۔۔لیکن یہ آدھی ادھوری حقیقت ہے۔۔۔۔
سکے کا دوسرا رخ یہ ہے کہ اس گئے گزرے زمانے میں بھی ہماری اکثریت اخلاق و دین پسند ہے اور اپنی تہذیب کے تحفظ کو لے کر سنجیدہ بھی۔ اس اکثریت کے لیے یہ حیاسوز مناظر پریشان کن ہیں۔ لیکن اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ وہ کیا کرے؟ اس حیرانی و پریشانی کا فائدہ اپنی جڑوں سے اکھڑی ہوئی یہ مخلوق اٹھا رہی ہے۔ ہم اس مسئلے کو لاکھ مشکل سمجھیں لیکن میرے خیال سے اس کا حل زیادہ پیچیدہ نہیں ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیں اپنے ذہن سے یہ سوچ نکالنی ہوگی کہ یہ حیاسوز تہذیب اب ہمارے سماج کا حصہ بن چکی ہے اور اس کو ہمیں برداشت کرنا ہوگا یا اس کے ساتھ ایڈجسٹ کرنا ہوگا۔ یہ تہذیب نہ ہماری ہے، نہ ہمارے سماج کا حصہ اور نہ ہی اسے برداشت یا ایڈجسٹ کرنا ہے۔
اس تہذیب کے تعلق سے اس نظریے کو بحال کرنے کے بعد دوسری تدبیر ذہن سازی کے ذرائع و عوامل پر اپنا قبضہ ممکنہ حد تک بڑھانا ہے۔ یہ سب سے اہم کام ہے اور ہماری آخری و مکمل کامیابی کا انحصار اسی پر ہے۔ موجودہ دور میں ذہن سازی کے ذرائع و عوامل کیا کیا ہیں، ان پر ہماری پکڑ کتنی اور کیسی ہے، اس پکڑ کو کیسے وجود میں لایا جا سکتا ہے یا مضبوط و معیاری بنایا جا سکتا ہے؟ یہ اور ان جیسے دیگر موضوعات ہماری اجتماعی کوشش، تفصیلی توجہ، عرق ریزی اور دقت نظر کے طالب ہیں۔
تیسری تدبیر ہے بالمشافہ مکالمہ قائم کرنا، پرامن طور پر سمجھانا بجھانا اور والدین یا سرپرستوں کو خبر کرنا۔ اس سے خاطر خواہ نتائج نکل سکتے ہیں اور حالات میں کافی سدھار کی امید ہے۔
پھر بھی کچھ ڈھیٹ بچیں گے جو اپنی بے حیائی پر مصر رہیں گے۔ ان کا علاج ہے مناسب گوشمالی۔۔۔خنزیروں کی عادات سے لیس اس مسخ شدہ مخلوق کی اسی طرح برسرعام پٹائی ہونی چاہیے جیسی برسرعام ان کی کرتوت ہے۔ دو تین دیں کان کے نیچے، ساری مجنوں گیری ہاتھ میں آجائے گی۔ ہم سب کو بیحد خوشی ہوگی اگر یہ کام قانون کے رکھوالے خود کریں۔ لیکن اگر وہ یہ کام کسی وجہ سے خود نہ کرسکیں، تو کیا عوام قانون اپنے ہاتھ میں لے سکتی ہے؟ قلمکار یہاں خاموش ہے۔ہاں، کبھی کبھی قلمکار کی خاموشی کا مطلب اتفاق ہوتا ہے۔ قانون اور سماج کے درمیان تعلق کی نوعیت کیا ہے؟ کن امور میں سماج قانون کی حدود نہیں پھلانگ سکتا؟ کن حالات میں سماج کے تعاون کے بغیر قانون کامیاب نہیں ہو سکتا؟ ایک مخصوص سماج اپنے اوپر تھوپے ہوئے کسی بھی قانون سے کیسے لڑ کر اسے شکست دے سکتا ہے؟ موجودہ پس منظر میں ہمیں ان سوالات کا جواب ڈھونڈھنا ہوگا کیونکہ سماج اور قانون کی ناگزیر کشمکش میں یہ ہمارے لیے بیحد کارآمد ثابت ہوں گے۔
نظریہ کو عملی شکل میں دیکھتے ہوئے بہت خوشی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر، مجھے بیحد خوشی ہوئی جب میں نے کچھ حساس لوگوں کو اس بے حیا مخلوق کی گوشمالی کی شروعات کرتے ہوئے دیکھا۔ ممبرا میں جہاں میری رہائش ہے، اس کے نزدیک ایک تالاب ہے۔ تالاب کے کنارے بیٹھنے کے لیے نشستیں لگی ہوئی ہیں اور بچوں کی تفریح کا بھی کچھ انتظام ہے۔ تالاب سے تھوڑی دور جا کر ایک اسٹیڈیم واقع ہے۔ اسٹیڈیم سے متوازی دو لین کی ایک سڑک ہے جس کے کناروں پر بیٹھ کر کچھ ملعون لڑکے لڑکیاں بوس و کنار میں مشغول رہتے تھے۔ کچھ دنوں پہلے ایک غیرت مند خاتون کی قوت برداشت جواب دے گئی اور اس نے برقع میں ملبوس لیکن حیاباختہ لڑکی کی جم کر پٹائی کی۔ اتنی مرمت کی کہ حرارت بوسہ سوزش نالہ میں تبدیل ہوگئی۔ لڑکے نے جب بیچ بچاؤ کرنے کی کوشش کی تو کچھ مردوں نے اس کی بھی جم کر دھنائی کی۔ شہوت پرستوں کی اس رسوائی پر ابلیس بھی رویا ہوگا۔۔۔۔
وہ دن ہے اور آج کا دن! یہ حیاسوز مخلوق اب ادھر بھولے سے بھی نہیں بھٹکتی۔ یہی کام تالاب پر بیٹھ کر بے حیائی پھیلانے والوں کے ساتھ بھی ہونا چاہیے۔ اس سے آگے بڑھ کر بشرط طاقت و استطاعت بسوں، ٹرینوں اور دیگر عوامی جگہوں پر ملنے والے ایسے لوگوں کے ساتھ بھی ایسے ہی نپٹیں۔
بے حیائی کے ان عوامی واقعات کے تعلق سے یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ عموما لوگ شرافت کی وجہ سے ایسے واقعات دیکھ کر چپ رہتے ہیں۔ اس سے ان آبروباختہ لوگوں کی ہمت مزید بڑھ جاتی ہے۔ اکثر و بیشتر ایسا ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ اس عمل کو روکنا چاہتے ہیں لیکن پہل کرنے سے ڈرتے ہیں۔ اگر ایک شخص بھی پہل کر کے ان کو ٹوک دے تو بہت سے لوگ اس کی مدد کرنے کے لیے آجاتے ہیں۔ اس لیے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ عوامی جگہوں پر بے حیائی کا مظاہرہ کرنے والوں کو برسرعام ٹوکیں اور اگر ڈھٹائی دکھائیں تو ان کے ساتھ برسرعام وہی کریں جو “سرف ایکسیل” کپڑے کے ساتھ کرتا ہے۔۔۔
برائی کو برائی سمجھنا ناگزیر ہے۔ پھر ذہن سازی کے ذرائع و عوامل پر کنٹرول کرنا ضروری ہے۔ برائی پر گامزن لوگوں کو افہام و تفہیم کے ذریعے سیدھے راستے پر لانا فرض ہے۔ اس کے بعد جہاں یہ سب کام نہ کرے، وہاں مجبوری سمجھتے ہوئے مناسب مقدار میں “سرف ایکسیل” استعمال کریں۔

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Kashif Shakeel

ماشاء اللہ بہترین مضمون
آئین ہند کی جو شق ذکر کی گئی ہے وہ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے
ممبرا والا واقعہ بھی دلچسپ اور قابل تقلید یے

ممبرا میں ایک مسجد کے سامنے پارک ہے وہاں بھی حیا باختہ جوڑے آپ کے بقول “ایک دوسرے میں پیوست” نظر آتے ہیں