مختار بن ابی عبید الثقفی کے نام سے مسلمانوں کی اکثریت واقف ہے، یہ شخص جھوٹا بدبخت تھا، مگر اسے رب العالمین کی حکمت کہیں کہ یہ ایک جلیل القدر صحابی ابو عبید بن مسعود الثقفی رضی اللہ عنہ کا بیٹا تھا جو جنگ ’جسر‘ میں شہید ہوئے تھے، نیز اس شخص کے مراسم عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بہت گہرے اور اچھے تھے، کیوں کہ اس کی بہن عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی زوجیت میں تھیں، اس شخص کی شروعات بڑی اچھی تھی، اہل فضل وخیر میں شمار کیا جاتا تھا، پھر اس کے اندر خوارج کی صفت پیدا ہوئی، پھر یہ زیدی ہوگیا، پھر رافضی بنا اور اخیر میں نبوت کا دعوی کر بیٹھا۔قبحہ اللہ
معلوم یہ ہوا کہ ’پدرم سلطان بود‘ کے نعرے سے کچھ نہیں ہوتا اور نہ ہی حسب ونسب کسی کام کا ہوتا ہے، کیوں کہ ’’من بطأ به عمله لم يسرع به نسبه‘‘ یعنی اگر عمل پر ’صالح‘ کی مہر نہیں لگی ہو تو نبی کے بیٹے اور بیوی کو بھی ہلاکت کے گڑھے میں ڈال دیا جاتا ہے جیسا کہ نوح علیہ الصلاۃ والسلام کا بیٹا اور نوح اور لوط علیہما الصلاۃ والسلام کی بیویاں،تو پھر صحابہ کے غیر صالح بیٹے کی کیا حیثیت؟
اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کثرت سے دعا کیا کرتے تھے:’’يا مُقلِّبَ القلوبِ ثبِّت قلبي على دينِكَ‘‘( اے دلوں کے پھیر نے والے رب دو جہاں میرے دل کو تو اپنے دین پر ثابت رکھ) جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کثرت کی وجہ پوچھی گئی تو آپ نے فرمایا: انسانوں کا دل اللہ رب العالمین کی دو انگلیوں کے درمیان ہے وہ جس کے دل کو چاہتا ہے ہدایت پر قائم رکھتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمراہی پر ڈال دیتا ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ اپنے ایمان وعمل صالح پر غرور اور اترانے سے بچنا چاہیے، بلکہ رب العالمین سے ہر دم ایمان اور عمل صالح کی توفیق مانگنا چاہیے اور دین پر دائمی ثبات قدمی کی دعا کرتے رہنا چاہیے۔
واللہ اعلم بالصواب
جزاک اللہ خیرا
بہت ہی عمدہ نصیحت
اللہ تعالی ہمیں دونوں جہاں میں کامیاب کرے
وأنتم فجزاكم الله خيرا وبارك فيكم
رفع اللہ قدرکم فی الدنیا والاخرۃ ونفع اللہ بکم الاسلام والمسلمين
آمين. جزاكم الله خيرا وبارك فيكم