حقیقی اور غیرحقیقی اساتذہ

شمس الرب خان

 

اب تک کی اپنی طالب علمی کی زندگی میں، کم و بیش پچاس اساتذہ سے استفادہ کیا ہے۔ استاذ ہونے کی حیثیت سے سبھی اساتذہ کا احترام کرتا ہوں۔ لیکن سچ کہوں تو حقیقی اور دلی احترام صرف انہی اساتذہ کے لیے ہے جو اپنے کام کے تئیں مخلص تھے اور ایمانداری کے ساتھ تدریس کا فریضہ انجام دیتے تھے۔ اس کے برعکس، وہ اساتذہ جو اپنے کام سے جی چراتے تھے اور باقاعدگی و ایمانداری کے ساتھ لیکچرز نہیں لیتے تھے، میرے دل میں ان کے لیے حقیقی احترام کا جذبہ کبھی پیدا ہی نہیں ہو سکا۔ میرے دل نے انھیں ہمیشہ حرام خور ہی سمجھا۔
مخلص و محنتی اساتذہ کے لیے دلی احترام کا یہ جذبہ اور غیر مخلص و کام چور اساتذہ کے لیے ناپسندیدگی کا یہ جذبہ کسی خارجی عنصر کی وجہ سے کبھی بھی متاثر نہیں ہوا۔ مثال کے طور پر، اول الذکر قسم کے اساتذہ چاہے جتنے گمنام ہوں یا ان کی تصنیفی خدمات چاہے جتنی کم یا معدوم ہوں، اس کی وجہ سے اس دلی احترام پر کبھی کوئی اثر نہیں پڑا۔ جبکہ آخر الذکر قسم کے اساتذہ چاہے جتنے مشہور ہوں یا ان کی تصنیفی یا دیگر خدمات چاہے جتنی ہوں، ان کے لیے ناپسندیدگی کے اس جذبے میں کوئی کمی نہیں آئی۔

اساتذہ قوم کے معمار ہوتے ہیں۔ نئی نسل کو بنانے سنوارنے میں ان کا بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ طلبہ کو علم سے آراستہ و پیراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ یہ اپنے قول و عمل سے بچوں پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں۔ اسی لیے ایک کامیاب استاذ وہی ہوسکتا ہے جو نہ صرف علم کا حامل ہو بلکہ اعلی اخلاق، فرض شناسی، وقت کی پابندی، ایمانداری اور خلوص سے بھی مزین ہو، تبھی وہ اپنا فرض کماحقہ ادا کر سکتا ہے اور سماج کو مہذب، فرض شناس اور ایماندار افراد دے سکتا ہے۔ اس کے برعکس، اگر اساتذہ ہی بد اخلاق، فرض فراموش، کام چور، بے ایمان اور وقت کی پابندی نہ کرنے والے ہوں، تو سماج پر اس کے برے اثرات کا صرف اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے۔
مغربی ممالک میں اساتذہ کی اہمیت اور سماج پر ان کے دوررس اثرات کا حقیقی ادراک پایا جاتا ہے۔ اسی لیے ان کے یہاں اساتذہ کی تقرری اور فرائض کی انجام دہی کا ایک منظم اور کڑا نظام ہے، جس کی وجہ سے نہ ایرا غیرا نتھو خیرا استاذ بن پاتا ہے اور نہ ہی کوئی فرض ناشناس استاذ اپنے منصب پر زیادہ دنوں تک برقرار رہ پاتا ہے۔
اس ضمن میں، گاؤں کے سرکاری اسکولوں کی حالت بطور خاص قابل رحم ہے۔ عموما مستقل اساتذہ اسکولوں سے غیر حاضر رہتے ہیں۔ تھوڑی بہت پڑھائی جو ہوتی ہے، وہ شِچّھا مِتروں (عارضی اساتذہ) کی بدولت ہوتی ہے۔ نتیجتاً، غریب طبقہ کے طلبہ سے بھرے پڑے یہ سرکاری اسکول طلبہ کو پڑھائی کے نام پر صرف کھچڑی کھلاتے ہیں اور تھوڑا بہت جوڑ گھٹانا سکھادیتے ہیں، بس۔ علمی ذوق سے طلبہ یکسر محروم رہتے ہیں اور دھیرے دھیرے ان کا من پڑھائی سے اچاٹ ہوجاتا ہے۔ نتیجتاً، دسویں تک پہنچتے پہنچتے نوے-پچانوے فیصدی طلبہ اسکول چھوڑ دیتے ہیں اور مزدوری کرنے کے لیے شہروں کا رخ کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ مجھے اس پورے نظام میں اعلی طبقے کی ایک منظم سازش دکھائی دیتی ہے تاکہ سماج کا دبا کچلا طبقہ کبھی بھی حقیقی تعلیم حاصل کرکے اس کی ہمسری کا دعوی نہ کرسکے۔ یہ صرف میرا احساس ہی نہیں ہے، بلکہ میرے پاس اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے ٹھوس ثبوت و دلائل بھی موجود ہیں جو اسی موضوع پر آنے والے ایک مفصل مضمون کا حصہ ہوں گے، ان شاء اللہ۔
ایسا نہیں ہے کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سبھی اساتذہ فرض شناس اور ایماندار ہیں۔ آپ کو یہ جان کر افسوس ہوگا کہ لاکھ-ڈیڑھ لاکھ ماہانہ تنخواہ پانے والے ایسے سینکڑوں اساتذہ آپ کو ان کالجوں اور یونیورسٹیوں میں مل جائیں گے جو چھ مہینے کی مدت پر مشتمل ایک سیمیسٹر میں بمشکل دو تین لیکچر لیتے ہیں۔ کچھ ایسے نمونے بھی ہیں جو تدریس کا اولین فریضہ چھوڑ کر اپنا بیشتر وقت سیمیناروں، کانفرنسوں اور دوروں میں گزارتے ہیں۔ لیکچرز چھوڑ کر کرسیوں پر بیٹھ کر گپ شپ کرنے والے یا ہمہ وقت سیاحت میں مشغول رہنے والے ایسے اساتذہ کی حقیقی جگہ مسند تدریس پر نہیں بلکہ قید خانوں کی سلاخوں کے پیچھے ہے۔ سماج کو برباد کرنے میں ایسے اساتذہ گینگیسٹروں، ڈاکؤوں، چوروں، خائنوں، بدکرداروں اور مافیاؤں سے کسی بھی طور پر کم نہیں ہیں۔ گھناونے کردار کے مالک ان سفید پوشوں کو پہچانیں اور ان سے نجات پانے یا ان کو سدھارنے کی کوئی اجتماعی تدبیر کریں، ورنہ یہ دیمک ہمارے سماج کو اندر ہی اندر سے کھوکھلا کرتے رہیں گے۔

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
ارشد

السلام علیکم! شعبہء درس وتدرس کے وابستگان میں انتظامیہ، حکومت متعلم اور معلم میں سےبالخصوص اساتذہ کے کردار کی حقیقی تصویر کشی کرنے والے اس مضمون کےلیے جزاک اللہ! تاہم بہتر ہوتا کے ان میں سے مثبت کردار ادا نہ کرنے والوں کو آخرت میں اللہ خوب بازپرس فرمائے گا تاہم انھیں راہ راست پر لانے کے طریقہ کار یا لایحہءعمل کے لیے بھی نشان راہ کا تعین کردیا جاتاتو بہتر ہوتا !

Saddam Hussain

اساتذۂ کرام ہمارے لئے مشعل راہ ہیں، ان کی رہنمائی ہی کامیابی کے راہ ہموار کرتے ہیں، ہم یہ مانتے ہیں کہ کچھ اساتذہ محنت سے جی جراتے ہیں؛ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم جذبات میں آکر ان کی شان میں نازیبا کلمات کہے، کم از کم ہم ذاتی طور پر کسی اساتذہ کے بارے اس طرح کے الفاظ دہرا بھی نہیں سکتے ایسی بات نہیں ہے کہ ہماری زندگی میں آنے والے تمام اساتذہ کام سے دل چراتے تھے لیکن ہم بھی اس سے بڑھ کر جی چراتے تھے اساتذہ کے دیئے ہوئے سبق کو یاد… Read more »