دیہات میں رہنے والے ایک صحابی نے انصار صحابہ کرام کی برائی بیان کی، عمر رضی اللہ عنہ کے پاس انھیں لایا گیا، جب عمر رضی اللہ عنہ کو پتہ چلا کہ یہ بھی صحابی ہیں تو فرمایاکہ : اگر تم شرف صحبت سے باریاب نہ ہوتے تو آج تمھیں صحابہ کرام کو برا کہنے کی جو سزا ملتی وہ تمھارے ساتھ زمانہ بھی یاد رکھتا۔(الاصابہ فی تمییز الصحابہ)
ایک مرتبہ عمر رضی اللہ عنہ کے بیٹے عبید اللہ اور مقداد بن الأسود بدری صحابی رضی اللہ عنہما کے مابین کچھ کہا سنی ہوگئی تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرے بیٹے کو لایا جائے اور ساتھ میں ایک تیز چھری بھی لائی جائے، میں عبید اللہ کی زبان کو کاٹ ڈالوں گا کیوں کہ اس زبان سے ایک جلیل القدر صحابی کو تکلیف پہنچی ہے، لیکن صحابہ کرام نے بچ بچاؤ کا کام کیا اور بہت اصرار کرکے عمر رضی اللہ کے غصے کو ٹھنڈا کیا۔(تاریخ دمشق)
قارئین کرام!
مذکورہ دونوں واقعے سے دو باتیں سمجھ میں آتی ہیں:
پہلی بات: اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے درمیان آپس میں کچھ نزاع ہو جائے تو عمر رضی اللہ عنہ جیسے خلیفہ بھی ایک دوسرے کو ملزم قرار نہیں دیتے، بلکہ یہ کہہ کر معاملہ ختم کردیتے ہیں کہ دونوں صحابی ہیں، تو پھر بعد میں آنے والے لوگوں کو یہ حق کہاں سے ملتا ہے کہ وہ صحابہ کرام کے درمیان فیصلہ کریں اور ایک کو غلط اور دوسرے کو صحیح ثابت کریں؟
دوسری بات: اگر کوئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے تعلق سے بد زبانی کرے تو وہ سزا کا مستحق ہوگا چاہے وہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو، جیسا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کے ساتھ جارحانہ رخ اختیار کیا۔
اگر یہی دو معاملہ ہم بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے متعلق اپنا لیں تو گستاخان صحابہ کو لگام لگ سکتی ہے، یعنی صحابہ کرام کی رنجشیں انھی کے مابین رہنے دیں، ہم اس کا فیصلہ نہ کریں، نیز جو ہم میں سے صحابہ کرام کی گستاخی کرے اسے اگر ہم سزا نہیں دے سکتے تو علی الاقل اس کی مجلس سے اور اس سے کسی بھی قسم کے تعلقات استوار کرنے سے بالکلیہ پرہیز کریں۔
لیکن آج کل تو معاملہ ہی برعکس ہو گیا ہے، گستاخان صحابہ کو ہم میں سے بعض عظیم مفکر کے نام سے موسوم کرتے ہیں اور ان کی کتابوں کو پڑھنے کی وصیت ہی نہیں بلکہ اس کا پرچار بھی کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ انھوں نے دین کی بڑی خدمت کی، جیسے سید قطب اور مولانا مودودی کو لے لیں، جب کہ دونوں نے جس باب میں بھی قلم اٹھایا ہے اسے مکدر کرکے چھوڑا ہے، چاہے وہ تفسیر کا باب ہو جہاں اعتزال، الحاد اور وحدت الوجود وغیرہ کا کھل کر دفاع کیا ہے، یا وہ حدیث کا باب ہو جہاں انھوں نے مسلمانوں کو حدیث کے انکار کرنے کے نت نئے طریقے سکھائے ہیں، چاہے وہ عقیدہ کا باب ہو جہاں انھوں نے بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے ویسے ہی تبرا کیا ہے جیسے روافض کرتے ہیں، بلکہ صحابہ پر الزام کے ساتھ ان پر مغلظات کی جھڑیاں بھی لگا دیں، تعامل مع الحکام کے باب میں خوارج کے نیم مردہ منہج کو حیات نو بخشی، ولاء وبراء کے باب میں سب کا ساتھ سب کا وکاس کی روشن تعبیر نظر آتے ہیں گویا کہ عقیدہ ولاء وبراء نام کی کوئی چیز اسلام میں موجود ہیں نہ ہو۔
جب ایسے مفکرین کی کتابوں سے ہم اپنے ذہن کو سیراب کریں گے تو آگے جاکر لوگوں کو عثمان، معاویہ،عمرو بن العاص رضی اللہ عنہم اجمعین کے خلاف لوگوں کے ذہن میں تحقیق اور حق بیانی کے نام پر زہر انڈیلنے کا ہی کام کریں گے۔
قارئین کرام!
آپ خود بتائیں کہ آج جو معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف محاذ قائم ہے دور حاضر میں اس کی حجر اساس کس نے رکھی؟
یقینا مولانا مودودی، سید قطب اور انھی کے ہم مشرب وہم پیالہ نے، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ان سے جڑنے والے اکثر لوگوں کا معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں وہی نظریہ ہے جو مولانا مودودی اور سید قطب وغیرہ کا تھا۔
اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ شانِ صحابہ میں گستاخی کرنے والوں کے دروس اور کتابوں سے بعد المشرقین سی دوری بنائی جائے اور لوگوں کو اس بات سے با خبر بھی کیا جائے کہ فلاں شخص فلاں صحابی کی شان میں گستاخی کرتا ہے، ان کی عزت نہیں کرتا، اس لیے وہ بھی اس لائق نہیں کہ اس کی عزت وتکریم کی جائے۔
یہ تو درست ہے کہ ان کا علمی تعاقب کیا جاے اور تردید کی جاے۔ چاہے عظمت صحابہ ہو یا کوئی اور مسئلہ۔ پر ان کے قابل تحسین عمل کو نظر انداز کر نا کہاں تک درست ہے ۔رہنمائ فرمائیں
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2761493240741509&id=100006425819907
برائے مہربانی میرے اس مضمون کو پڑھیں، میں نے اس میں اہل بدعت کی کتابوں سے استفادہ کا ضابطہ ذکر کیا ہے.
جزاکم اللہ خیرا