توحید کے باب میں قرآن کریم اصل ہے، اس کے بعد حدیثیں ہیں۔اگر کوئی شخص ان دونوں پر سچے دل ودماغ سے غور وخوض کرے تو توحید کی راہ اس کے لیے آسان ہوجائے گی اور شرک وبت پرستی کی دنیوی واخروی قباحتیں بھی اس کے سامنے طشت ازبام ہوجائیں گی۔اور یہ معلوم ہوجائے گا کہ توحید ہی انسانوں،جناتوں،ملائکہ، زمین وآسمان اور دیگر مخلوقات کی پیدائش کا مقصد ہے۔ توحید کی باریکیوں کو سمجھانے کے لیے بے شمار اجلہ علماء نے مستقل طور پر بھی توحید کے موضوع پر چھوٹی بڑی کتابیں، شروحات، حواشی اور فوائد لکھے ہیں، ان علماء میں امام مقریزی رحمہ اللہ بھی ہیں، جن کی کتاب توحید الوہیت پر اصل تسلیم کی جاتی ہے، بلکہ اس موضوع پر خامہ فرسائی کرنے والوں کو ایک اہم مرجع فراہم کرتی ہے، اپنے وقت کے چیدہ وچنندہ علماء نے امام مقریزی کی اس کتاب کی ثنا خوانی بھی کی ہے۔ذیل کے سطور میں امام مقریزی کی زندگی اور ان کی کتاب تجرید التوحید المفید پر مختصر طور پر میں نے قلم اٹھانے کی سعادت حاصل کی ہے، امید ہے کہ قارئین کو یہ کوشش پسند آئے گی۔
نام ونسب:
آپ کا نام ونسب اس طرح ہے: احمد بن علی بن عبد القادر بن محمد بن ابراہیم بن محمد بن تمیم المقریزی، تقی الدین ابو العباس، ایک قول کے مطابق آپ کی کنیت ابو محمد تھی۔ نسب کے اعتبار سے بعلبکی اور رہائش و وفات کے اعتبار سے مصری ہیں۔پہلے حنفی المسلک تھے بعد میں شافعیت قبول کی۔
سال ولادت:
ابن تغری بَردی(م۸۷۴ھ) آپ کے شاگرد کہتے ہیں: میں نے تقی الدین رحمہ اللہ سے ان کی ولادت سے متعلق پوچھا تو کہا:۷۶۰ ھ کے بعد میری ولادت ہوئی۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: میں نے مقریزی کی تحریر میں پایا کہ ان کی تاریخ ولادت۷۶۶ ھ ہے۔
نشو ونما اور تعلیم:
حافظ ابن حجر(م۸۵۲ھ) کہتے ہیں: امام مقریزی کی نشو ونما پرورش وپرداخت اچھے ماحول میں ہوئی۔انھوں نے اپنے نانا شمس الدین ابن الصائغ الأدیب کے مسلک کی پیروی کرتے ہوئے کتب حنفیہ ازبر کیں۔جب ہوش سنبھالا، بیس کی عمر پار کی اور ان کے والد کا انتقال۷۸۶ھ میں ہوگیا تو انھوں نے شافعیت قبول کرلی۔حافظ ابن حجر کہتے ہیں: جب ان کے اندر پختگی اور علمی رسوخ پیدا ہوا تو شافعیت کی طرف مائل ہوگئے۔
مشائخ:
آپ نے اپنے زمانے کے متعدد اساتذہ ومشائخ سے کسب علم کیا،جیسےبرہان آمدی( م۷۹۷ھ)، بلقینی(م۸۰۵ھ)، زین الدین عراقی(م۸۰۶ھ)، ہیثمی(م۸۰۷ھ)
امام سخاوی( م۹۰۲ھ) کہتے ہیں: میں نے مقریزی کی تحریر میں پایا کہ ان کے اساتذہ کی تعداد چھ سو(۶۰۰) کے قریب ہے۔ حافظ ابن حجر کہتے ہیں: امام مقریزی نے میرے اساتذہ اور مجھ سے کچھ قبل کے اساتذہ سے کسب فیض کیا۔
انھوں نے مختلف علوم وفنون میں مہارت حاصل کی، آپ فن تاریخ کے حریص اور اس کی باریکیوں پر گہری نگاہ رکھتے تھے۔
اوصاف واخلاق:
خلافت ناصریہ کے اوائل میں آپ کو دمشق کا قضا سونپا گیا مگر آپ نے لینے سے منع کردیا۔آپ لوگوں سے دور، عبادت وبندگی میں اپنا اکثر وقت گزارا کرتے تھے، کسی اہم کام ہی کے لیے کسی کے پاس آتے جاتے تھے۔
ابن تَغری بَردی کہتے ہیں: میں نے ان سے ان کی کئی کتابیں پڑھیں، بسا اوقات جب میں انھیں صحیح قول کی طرف رہنمائی کرتا تھا فورا وہ اپنے قول سے رجوع کرلیتے اور اپنی کتاب میں بھی تبدیلی کرتے۔
امام مقریزی سے متعلق علماء کے تاثرات:
۱۔حافظ ابن حجر کہتے ہیں: آپ مختلف فنون کے امام، متقی، زبردست قوت حافظہ کے مالک، دین دار اور اہل سنت والجماعت سے محبت کرنے والے تھے۔آپ کا رجحان حدیث اور اس پر عمل کرنے کی طرف تھا۔آپ علم حدیث پر عمل کے اتنے شدید خواہاں تھے کہ کچھ لوگوں نے آپ کو ظاہریہ کی طرف منسوب کردیا۔رہن سہن کے اعتبار سے نفیس اور نہایت شیریں گفتار تھے۔
۲۔ابن تغری بردی کہتے ہیں: آپ امام،ماہر عالم اور قابل اعتماد مورخ اور محدثین کے پیشوا تھے۔ دوسری جگہ کہتے ہیں: میں نے اپنے زمانہ میں علم تاریخ میں ان سے عظیم کسی کو نہیں پایااور یہ بات تعصب پر مبنی نہیں بلکہ حقیقت ہے۔
۳۔امام شوکانی(م۱۲۵۰ھ) کہتے ہیں: آپ علم تاریخ کے مختلف گوشوں کے ماہر تھے، اس امر پر آپ کی تصنیفات بہتر دلالت کرتی ہیں، سخاوی نے اگرچہ مقریزی کی تاریخ دانی کا انکار کیا ہے مگر ان کی بات قابل بھروسہ نہیں اس لیے کہ عام طور سے وہ اپنے معاصرین کی خوبیوں کا انکار کرتے ہیں۔
وفات:
آپ کی وفات۱۶؍رمضان۸۴۵ ھ کو تقریبا۸۰ سال کی عمر میں ہوئی۔
تالیفات:
امام سخاوی اپنی کتاب’ الضوء اللامع‘ میں لکھتے ہیں کہ امام مقریزی کی کل کتابیں دو سو مجلد سے زیادہ ہیں۔ ابن تغری بردی کہتے ہیں کہ امام مقریزی زود نویس تھے، پچاس موضوعات پر بہت ساری کتابیں انھوں نے لکھیں۔
آپ کی مشہور تالیفات میں سے چند کے اسماء ذیل میں قلمبند کیے گئے ہیں:
(۱)الإشارة والإعلام ببناء الكعبة بيت الله الحرام
(۲)إمتاع الأسماع بما للرسول صلى الله عليه وسلم من الأبناء والأخوال والحفدة والمتاع
(۳)البيان المفيد في الفرق بين التوحيد والتلحيد
(۴)تجريد التوحيد
(۵)درر العقود الفريدة في تراجم الأعيان المفيدة
(۶)السلوك لمعرفة دول الملوك
(۷)شارع النجاة
(۸)الطرف الغريبة في أخبار حضر موت العجيبة
(۹)مجمع الفوائد ومنبع الفوائد
(۱۰)المقفی فی تراجم أھل مصر والواردین إليها( التاريخ الكبير)
(۱۱)مختصر الكامل لابن عدي
آپ کی مذکورہ کتابوں میں تجرید التوحید المفید کتب تاریخ کے بعد سب سے شہرت رکھتی ہے اور اس کا شمار توحید پر لکھی گئی قدیم کتابوں میں ہوتا ہے۔ذیل کے سطور میں اسی کتاب سے متعلق بعض مفید معلومات درج کی جاتی ہیں۔
کتاب کا اصل نام:
اس کتاب کا اصل نام خود امام مقریزی نے اسی کتاب کے مقدمہ میں’تجرید التوحید المفید‘ لکھا ہے۔لیکن کتاب کے بعض قدیم نسخوں میں کتاب کا نام’ کتاب تجرید التوحید المفید‘ اور بعض میں صرف ’تجرید التوحید‘ ہے۔
کتاب کا موضوع:
اجمالی طور پر کتاب توحید الوہیت کے موضوع پر ہے، نیز اس کتاب میں توحید الوہیت سے متعلق گمراہ لوگوں کے شکوک وشبہات کا جواب بھی دیا گیا ہے۔اس کے علاوہ ضمنی طور پر قاری کے ذہن میں توحید کی اصلیت کو بیٹھانے، توحید ربوبیت کو سمجھانے، شرک کے اقسام کو بتلانے،الوہیت کے بعض خصائص کو جتلانے کی بھی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔عبادت اور استعانت کے اعتبار سے لوگوں کی کتنی قسمیں ہیں اور عبادت کے بعض قواعد کو خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
مولف کی طرف کتاب کی نسبت:
تجرید التوحید المفید کے مولف امام مقریزی ہی ہیں، اس کے مختلف شواہد ہیں:
۱۔امام مقریزی کے اکثر سوانح نگار نے ان کی تالیفات کے ضمن میں اس کتاب کا تذکرہ کیا ہے۔جیسے ابن تغری بردی نے، سخاوی نے، حاجی خلیفہ نے اور اسماعیل باشا وغیرہ نے۔
۲۔اس کتاب کے قدیم نسخوں پر امام مقریزی کا نام درج ہے۔
۳۔اسلاف نے اس کتاب سے اقتباسات نقل کیے ہیں،جیسا کہ علامہ قنوجی نے اپنی کتاب’ الدین الخالص‘ میں کئی اقتباسات تجرید التوحید سے لیے ہیں اور اور امام مقریزی کا نام قلمبند کیا ہے۔
تاریخ تالیف:
امام مقریزی نے اپنی اس کتاب میں امام ابن القیم جوزیہ کی متعدد تالیفات سے استفادہ کیا ہے۔اس کا مطلب ہے کہ امام مقریزی دمشق جانے کے بعد ان کی کتابوں سے آگاہ ہوئے ہوں گےاور امام مقریزی کا دمشق میں قیام۸۱۰ھ سے۸۱۵ھ کے درمیان ہے۔گویا امام مقریزی نے اپنی کتاب تجرید التوحید کی تالیف۸۱۵ھ کے بعد کی اور اس کے بعد سے مسلسل کتاب کی تنقیح وتہذیب کرتے رہے یہاں تک کہ وفات سے چار سال قبل بھی تصحیح ونتقیح کی اور اس کے بعد کتاب منظر عام پر آئی۔
تجرید التوحید کے مراجع:
امام مقریزی نے اپنی اس کتاب کی تیاری میں سب سے زیادہ امام ابن القیم کی دو کتاب سے استفادہ کیا:
۱۔کتاب کے نصف اول میں ’الجواب الکافی‘ سے۔
۲۔کتاب کے نصف ثانی میں’ مدارج السالکین‘ سے۔
لیکن امام مقریزی نے اس وقت کے علماء کے ڈر سے جو امام ابن تیمیہ،ان کے تلامذہ اور موافقین سے شدید تعصب رکھتے تھے ان دونوں کتابوں کا حوالہ نہیں دیا۔
مذکورہ دونوں کتابوں کے علاوہ امام مقریزی نے دیگر کتابوں سے بھی استفادہ کیا جیسے:
۱۔مسند احمد
۲۔سنن ابو داود
۳۔صحيح ابن حبان
۴۔مستدرك حاكم
۵۔احياء علوم الدين
۶۔بدائع الفوائد
۷۔روضة المحبين
۸۔إغاثة اللهفان
۹۔إعلام الموقعين
کتاب کے بارے میں اہل علم کی آرا:
کتاب کی تعریف قدیم وجدید تمام علماء اہل سنت نے کی ہے اور اس کی اہمیت کو اپنی تحریروں میں اجاگر کیا ہے۔
علامہ صدیق حسن خان قنوجی، علامہ عبد التواب ملتانی، شیخ محمد منیر دمشقی، علامہ البانی، علامہ حمد جاسر اور ذہبی صغیر علامہ بکر ابو زید رحمہم اللہ نے کافی قیمتی کلمات تجرید التوحید سے متعلق کہے ہیں۔ علامہ بکر ابو زید کہتے ہیں کہ میری معلومات کی حد تک توحید عبادت میں یہ پہلی مستقل کتاب ہے۔
کتاب کے طبعات:
اب تک کتاب متعدد مرتبہ طبع ہوچکی ہے۔ذیل میں چند اہم طبعات پر روشنی ڈالی جاتی ہے:
۱۔طبعہ منیریہ
۲۔طبعہ مکتبہ ظاہر
۳۔طبعہ مدنی
۴۔طبعہ مکتبہ سلام عالمیہ
۵۔طبعہ دار عمار
۶۔طبعہ جامعہ اسلامیہ
۷۔طبعہ مکتبہ تراث اسلامی
ان طبعات میں سب سے زیادہ غلطیاں طبعہ منیریہ میں اور سب سے کم غلطیاں طبعہ دار عمار میں ہیں۔
آپ کے تبصرے