شعراء تو بہت گزرے ہیں جنھوں نے آسمان ادب کی اونچائیوں تک پرواز کی ہے۔ مگر ایسے شعراء بہت کم ہیں جنھوں نے خود اپنا شعری آسمان تخلیق کر کے اس کو اپنے زیر قدم کیا ہو۔ کسی مخصوص لہجے کی نقل اور کسی فرسودہ روایت کی پاسداری بلاشبہ غلط نہیں ہے مگر اپنے لہجے میں انفرادیت قائم کرکے شعر تخلیق کرنا ڈاکٹر امتیاز ندیم صاحب کا خاصہ ہے۔ ڈاکٹر امتیاز ندیم بلاشبہ مئو کے شاعر ہیں مگر آپ کی شاعری کسی علاقے سے لگی بندھی اور کسی شہر کی فصیلوں میں مقید نہیں بلکہ آزاد سوچتے ہیں اور آفاقی لکھتے ہیں۔ فکر سخن کو معاش نہیں بنایا بلکہ پیغمبرانہ پیشہ یعنی تدریس سے جڑ کر اپنے حساس دل پر نازل ہونے والے معانی کو موزون الفاظ میں ڈھالا۔ اور تدریس کے ساتھ ساتھ صیاغت شعر کا کارخانہ بھی چلاتے رہے۔ع
ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی
ڈاکٹر امتیاز ندیم صاحب لکھتے ہیں:’’فنی اعتبار سے دیکھا جائے تو صرف دو مصرعوں میں پوری بات کہنا مشکل کام ہے اس کے باوجود شعراء کی کثیر تعداد اس مشکل کام میں آسانی کے ساتھ مصروف ہے۔‘‘ میں یہاں ڈاکٹر صاحب کی تائید کرتے ہوئے ان کی بات میں یہ اضافہ کرنا چاہوں گا کہ یقینا فکر سخن میں مصروف تو بہت لوگ ہیں مگر کامیابی معدودے چند کو ہی ملتی ہے۔ اور بلاشبہ ڈاکٹر صاحب میدان غزل کے وہ شہسوار ہیں کہ ان کے سامنے بڑے بڑے لوگ بھی پیادے نظر آتے ہیں۔ آج جب کہ ہر راندۂ کوچہ جاناں اور نیم خوابی میں مبتلا شخص خود کو شاعر سمجھتا ہے یا جو ذرا ڈھنگ کی شاعری کرتے ہیں وہ سستے جذبات اور اوچھے خیالات کی دکان سجا لیتے ہیں ایسے دور میں حقیقی، سچی اور زمینی شاعری کرنا ڈاکٹر امتیاز ندیم صاحب کے حصے میں آیا ہے۔
ڈاکٹر امتیاز ندیم پاکیزہ جذبات کو جس طرح کوثر و تسنیم سے لہجے میں بیان کرتے ہیں کہ دل سے بے ساختہ آفریں کی صدا بلند ہوجاتی ہے۔ کہیں کہیں غزل کا لہجہ تو ایسا ہے کہ بس نور کا قلم ہو اور حور کا رخسار؎
کوئی پھول دھوپ کی پتیوں میں ہرے ربن سے بندھا ہوا
وہ غزل کا لہجہ نیا نیا نہ کہا ہوا نہ سنا ہوا
ڈاکٹر امتیاز ندیم کی شاعری میں سادہ خیال بھی کچھ اس انداز سے پیش کیے جاتے ہیں کہ مسحور کر جاتے ہیں مثلا یہ شعر دیکھیں؎
یہ کیا حیات جو میرے بھی کام آ نہ سکی
جو کام آئے کسی کے وہ زندگی دے دے
ڈاکٹر امتیاز ندیم کی شاعری کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ محض کسی تصوراتی محبوب کے نقش قدم کی پیروی نہیں کرتی بلکہ زمین سے جڑی ہوئی اور سماج کی تفسیر کرتی ہوئی شاعری ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے سماج کا جز بن کر سماج کو دیکھا اور پرکھا ہے اور پھر جو کچھ نتیجہ دلکی اسکرین پر نمودار ہوا اس کو شعر کے متاثرکن لبادے میں عوام تک پہنچا دیا ہے۔ لوگ اپنے محبوب کو دل کی امانت سپرد کرتے ہیں مگر ڈاکٹر امتیاز ندیم نے ’سراب دشت امکاں‘ کی صورت میں اپنے دل کے نہاں خانے میں اٹھنے والے ہر سوز و ساز اور آواز کو پوری امانت داری کے ساتھ عوام تک پہنچا دیا ہے اور ان جذبات و احساسات کی ترسیل میں وہ پورے طور پر کامیاب نظر آتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا یہ شعر دیکھیں؎
ان اونچی چمنیوں سے نکلتے دھویں کے بیچ
محنت کشوں کے خواب کی تعبیر قید ہے
کبھی کبھی تو فکر و فلسفہ کے بڑے بڑے مباحث بڑی آسانی کے ساتھ ایک ہی شعر میں کہہ گئے ہیں۔ سہل ممتنع کا شاہکار یہ شعر دیکھیں؎
موت سے جنگ کر رہا ہے کیا
اب بھی جینے کا حوصلہ ہے کیا
—
جا رہے ہو نظر چرائے ہوئے
میرے ہاتھوں میں آئینہ ہے کیا
اسی طرح پامال ہو رہی اخلاقی قدروں کے حوالے سے ڈاکٹر امتیاز ندیم کا یہ شعر کہ؎
جامۂ آدمیت خدا کی قسم
کتنا زیبا ہے ہر آدمی کے لیے
ڈاکٹر صاحب کی شاعری میں زندگی کا ساز، امیدوں کا گیت، انقلابی لہجہ، اصلاحی اسلوب، جدید طرز، کلاسیکی انداز اور منفرد اظہار ذات و مافی الذات ہے۔ آپ کا مجموعہ کلام ’سراب دشت امکاں‘ عہد جدید کا نمائندہ شاہکار ہے۔
آخر میں ڈاکٹر امتیاز ندیم کے ایک مقطعے کو میں اپنی گفتگو کا مقطع بناتا ہوں کہ؎
مرے وجود میں خوشبو سی بس گئی ہے ندیم
یہ شاعری ہے کہ اک موج عود و عنبر ہے
آپ کے تبصرے