فضائل کے باب میں ضعیف حدیث پر عمل کرنے کا حکم

ابو احمد کلیم الدین یوسف افتاء

جو چیز کتاب اللہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح سنت سے ثابت ہو وہی دین کا حصہ ہو سکتا ہے اور جن چیزوں کا ثبوت کتاب وسنت میں نہ ہو اسے دین کا حصہ مانا ہی نہیں جا سکتا۔
علماء کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ضعیف حدیث عقائد کے باب میں قابل قبول نہیں، کیوں کہ اکثر لوگ متواتر کے علاوہ احادیث صحیحہ کو عقائد کے باب میں نہیں مانتے تو پھر ضعیف احادیث کو کیسے مان سکتے ہیں؟
البتہ احکام وفضائل کے باب میں ضعیف حدیث پر عمل کرنے کے سلسلے میں علماء کے مابین اختلاف رہا ہے، بعض کہتے ہیں کہ ضعیف حدیث پر فضائل واحکام کے باب میں عمل کرنا مطلقا جائز ہے، بعض علماء کہتے ہیں کہ صرف فضائل کے باب میں ضعیف احادیث پر عمل کیا جا سکتا ہے، اور بعض علماء کہتے ہیں کہ کسی بھی باب میں ضعیف احادیث پر عمل کرنا جائز نہیں۔
ہم طوالت کے خوف سے ہر قول کی تفصیل اور اس کے دلائل بیان کرنے سے قاصر ہیں تاکہ ہمارے محترم ومعزز قارئین پر گراں نہ گذرے، البتہ جو لوگ فضائل کے باب میں ضعیف احادیث پر عمل کرنے کے قائل ہیں انھوں نے اس کے جواز کو چند شروط کے ساتھ مشروط کیا ہے ہم اس کا اس طور سرسری جائزہ لیں گے کہ اللہ کی توفیق سے بات پوری طور واضح ہوکر قارئین کے سامنے آجائے ان شاء اللہ۔

محترم قارئین!
پہلا قول ضعیف ہے اور دوسرا قول جمہور اہل علم کا ہے جنھوں نے چند شرائط کے ساتھ فضائل کے باب میں ضعیف حدیث پر عمل کرنے کی اجازت دی ہے جو مندرجہ ذیل ہیں:
پہلی شرط: جس ضعیف حدیث پر عمل کیا جا رہا ہو وہ سخت ضعیف نہ ہو۔
دوسری شرط: جس ضعیف پر عمل کیا جا رہا ہو اس سے ایسے عمل کی فضیلت ثابت ہوتی ہو جس کا ثبوت صحیح حدیث میں موجود ہو۔
تیسری شرط: کوئی ضعیف حدیث پر عمل کرتے وقت یہ نہ سمجھے کہ یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، کیوں کہ ضعیف حدیث کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا جائز نہیں۔
چوتھی شرط: وہ ضعیف حدیث کسی صحیح حدیث سے متعارض نہ ہو رہی ہو۔
پانچویں شرط: اس ضعیف حدیث سے جو عمل ثابت ہو رہا ہو اسے مسنون نہ سمجھا جائے۔
چھٹی شرط: اس ضعیف حدیث پر عمل کرنے کو لوگوں کے درمیان مشہور نہ کرے، کہیں ایسا نہ ہو کہ بعض جہال اسے عمل کرتے دیکھ کر اس عمل کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح سنت سمجھ بیٹھیں۔
قارئین کرام!
مذکورہ شرطوں کو بار بار پڑھیں اور پھر دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ:
جو لوگ فضائل کے باب میں ضعیف حدیث پر عمل کرنے کے جواز کے قائل ہیں کیا انھیں مذکورہ تمام شروط کی پابندی کے ساتھ عمل کرنا چاہیے یا نہیں؟ کیوں کہ جن علماء کے اقوال کی بنیاد پر وہ فضائل کے باب میں ضعیف حدیث پر عمل کرنے کے قائل ہیں انھی علماء نے ضعیف حدیث پر عمل کرنے کے مذکورہ شروط بھی بیان کیے ہیں؟
اور آج کے زمانے میں کون ان تمام شروط کی پابندی کے ساتھ ضعیف حدیث پر عمل کرتا ہے؟
جب ضعیف حدیث پر مذکورہ شرائط کی پابندی کے ساتھ عمل کرنا ممکن نہیں تو پھر اس موضوع کو ہوا دینے کا کیا مقصد ہے؟
کیا کسی ایسے عمل کو فضیلت مل سکتی ہے جس کا ثبوت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ملتا ہو؟
کیا ایک مسلمان کے لیے ضروری نہیں کہ وہ ہر قسم کی عبادت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نمونہ بنائے؟
جب ضعیف حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہی نہیں تو اس حدیث میں موجود فضیلت والا عمل کرنے کے لیے ایک مسلمان کس کو اسوہ بنائے گا؟
کیا ہر مسلمان یہ نہیں چاہتا کہ وہ کوئی بھی عمل کرے تو اس کا اجر وثواب ملے؟
لیکن ضعیف حدیث پر عمل کرنے کا کوئی ثواب نہیں، کیوں کہ اجر و ثواب کا حصول صرف انھی اعمال پر ہوگا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح سند سے ثابت ہو، تو پھر ایسی حدیث پر عمل کرنا کسی طور پر فائدہ مند نہیں۔
معززقارئین!
آپ نے مذکورہ شروط میں ایک شرط یہ بھی دیکھی ہوگی کہ جس ضعیف حدیث پر عمل کیا جائے اس کے سنت ہونے کا اعتقاد نہ رکھا جائے، اب آپ خود ہی بتائیں کہ کیا آپ کوئی ایسا نیک عمل کرنا چاہیں گے جس کے بارے میں آپ کو کہا جائے کہ یہ عمل کرنا تمھارے لیے جائز ہے لیکن یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں؟
کیا آپ یہ پسند کریں گے کہ ان اعمال کو انجام دیتے وقت آپ یہ عقیدہ رکھیں کہ ان اعمال کا ثبوت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے موجود نہیں؟
نیز جو لوگ فضائل کے باب میں ضعیف حدیث پر عمل کرنے کے جواز کے قائل ہیں وہ اسے ہر کسی کے لیے جائز قرار نہیں دیتے جیسا کہ مذکورہ شروط میں ہے، یہ بھی عجیب شرط ہے کہ ایک فضیلت والی ضعیف حدیث پر مخصوص لوگ عمل کر سکتے ہیں، عوام الناس کے لیے عمل کرنا جائز نہیں۔
اسلام کے احکام تو ہر خاص وعام کو شامل ہیں، ان میں تخصیص کی دلیل کہاں؟
مختصر یہ کہ اگر آپ فضائل کے باب میں ضعیف حدیث پر عمل کرنا چاہتے ہیں تو اس عمل کو انجام دینے سے پہلے آپ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ عمل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں، نیز اس کا اجر وثواب بھی آپ کو نہیں ملے گا، پھر اس ضعیف حدیث کو آپ سنت بھی نہیں سمجھ سکتے، نیز اس ضعیف حدیث پر آپ سب کے سامنے بھی عمل نہیں کر سکتے اور نہ ہی اس ضعیف حدیث پر عمل کرنے کو آپ لوگوں کے مابین مشہور کر سکتے ہیں۔
اب آپ ہی بتائیں کہ فضائل کے باب ضعیف حدیث پر عمل کرنے کا کیا فائدہ؟
ایک اور بات سمجھیں کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ احادیث میں فضائل کی کچھ کمی رہ گئی ہے کہ ہمیں ضعیف احادیث کے ذریعہ ان فضائل کو پورا کرنے کی ضرورت پڑ گئی؟
دوسری بات: کیا جو لوگ فضائل کے باب میں ضعیف حدیث پر عمل کرنے کا جواز علماء کے اقوال سے پیش کرتے ہیں کیا انھوں نے فضائل کے باب میں وارد ایک چوتھائی احادیث صحیحہ پر بھی عمل کیا ہے؟
پھر ضعیف حدیث پر عمل کرنے کی کون سی ضرورت پیش آگئی؟
تیسری بات یہ کہ: جب جب ضعیف حدیث کو راوج ملا ہے صحیح سنت لوگوں کے درمیان سے ختم ہوگئی اور طاق نسیاں کی زینت بن گئی۔
چوتھی بات یہ کہ: بدعتی اپنی بدعت کو رواج دینے کے لیے ضعیف حدیث کا ہی استعمال کرتا ہے، احادیث صحیحہ تو بدعت کا قلع قمع کرتی ہیں، آپ نے آج تک کوئی ایسی بدعت نہیں دیکھی ہوگی جس کی بنیاد صحیح حدیث پر ہو، ہر بدعت اپنے پیچھے ضعیف اور موضوع احادیث کا سیل رواں لیے چلتی ہے۔
پانچویں اور اہم بات یہ کہ: کسی بھی عمل کے صحیح اور عند اللہ مقبول ہونے کے لیے بنیادی طور دو شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے، ایک اخلاص اور دوسری متابعت، یعنی وہ مشروع عمل صرف اللہ کی رضا اور خوشنودی کی خاطر کیا جا رہا ہو، نیز اس عمل کے کرنے کا طریقہ احمد مجتبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہو، لیکن جب کوئی عمل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہی نہ ہو تو اس میں اخلاص ومتابعت کی شرط کیسے پائی جائے گی؟
آخری بات: کیا ہم اپنی تحریر وتقریر کے ذریعہ عوام کو یہ آگاہ کر سکتے ہیں کہ یہ عمل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے، لیکن ضعیف حدیث سے ثابت ہے، اگر تمھیں اس پر عمل کرنا ہے تو یہ مت سمجھنا کہ یہ نبی کی سنت ہے، اگر تم عمل کرنا چاہتے ہو تو بغیر کسی نیت کے اس پر عمل کر لینا کیوں کہ فلاں فلاں علماء نے ایسا کہا ہے؟
خلاصہ کلام یہ کہ: فضائل اعمال کے باب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قدر صحیح احادیث وارد ہیں کہ دن رات عبادت میں غرق رہنے والا مسلمان بھی ان تمام احادیث پر بہ مشکل عمل کر سکتا ہے، چہ جائیکہ اسے ایسی حدیث کی حاجت ہو جو نبی کی نہیں۔
اس لیے ہمارا منہج یہی ہونا چاہیے کہ صحیح حدیث سے فضائل اعمال کو بیان کریں اور اس پر عمل کرنے کی ترغیب امت کو دلائیں اور خود بھی اس پر عمل پیرا ہوں، ان شاء اللہ زندگی میں کبھی ضعیف حدیث پر عمل کرنے کی حاجت پیش نہیں آئے گی۔
واللہ اعلم، وعلمہ أتم واحکم

آپ کے تبصرے

3000