علامہ محمد امین الشنقیطی(۱۳۲۵ھ-۱۳۹۳ ھ)

فرحان سعید محمد یعقوب بنارسی تاریخ و سیرت

چودھویں صدی کے اواخر اور پندرھویں صدی کے اوائل میں بڑے بڑے مفسر، محدث، فقیہ، مفتی گزرے ہیں جنھوں نے خالص للہیت کے ساتھ اپنی پوری زندگی اسلام کی خدمت میں بسر کر دی ۔انھی اکابر رجال میں سے ایک کڑی امام علامہ مفسر محمد امین بن محمد مختار الجنکی الشنقیطی رحمہ اللہ ہیں۔
غفر الله ذنوبه وارحمه رحمة واسعة وأدخله في الفردوس الأعلي
نام و نسب:
محمد امين بن محمد مختار بن عبد القادر بن محمد بن أحمد نوح بن محمد ابن سيدي أحمد بن مختار الشنقيطى۔ آپ کا تعلق عرب کے ایک قبیلہ حمیر سے ہے ۔لقب آبا (بمد الہمزۃ و تشدید الباء من الإباء)
آپ ۱۳۲۵ھ مطابق ۱۷ فروری ۱۹۰۵ء کو شمال مغرب میں افریقہ کے اسلامی ملک موریطانیہ کے ایک شہر تگنٹ میں پیدا ہوئے،آپ کم سنی میں ہی یتیم ہوگئے تھے، والد کی وفات کے بعد ترکے میں آپ کو کافی مال و دولت ملا تھا۔
طلب علم:
ابھی دس برس کے بھی نہ تھے قرآن کے حافظ ہو گئے۔ ادب ، نحو ، فقہ مالک کے مختصرات اور ابن عاشر کی رجز وغیرہ بھی اسی درمیان پڑھ لی اور سیرت کی کتابیں ایک قریبی رشتہ دار سے پڑھیں جیسا کہ شیخ شنقیطی رحمہ اللہ خود فرماتے ہیں:”میں نے ابتدائی نحو ، انساب عرب اور ان کے ایام نیز غزوات وغیرہ احمد بدوی الشنقیطی سے پڑھی تھیں۔“
اس کے بعد آپ نے بقیہ علوم و فنون وقت کے جہابذہ سے حاصل کیا، جن میں شیخ محمد بن صالح اور شیخ محمد افرم قابل ذکر ہیں جن سے نحو ، صرف ، اصول ، بلاغہ ، تفسیر و حدیث جیسے فنون حاصل کیے اور اپنے علم کو جلا اور استحکام بخشا ، ان کے علاوہ ادب کے مشمولات ،منطق کے علوم اور مناظرہ کے اصول شیخ کی ذاتی کاوشوں کا ثمرہ تھیں۔
علاوہ ازیں شیخ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ”جب میں حافظ قرآن ہو گیا تو عثمانی رسم الخط سے لگاؤ پیدا ہوا، اس میں تمام ساتھیوں پر فوقیت حاصل کی ، میری والدہ اور میرے ماموں نے میرا حد درجہ خیال رکھا ، مجھے اس بات کی رغبت دلائی کہ میں بقیہ علوم و فنون پر عبورحاصل کروں۔ میرے لیے والدہ نے ۲ اونٹ تیار کرائے، ایک پر میں سوار تھا اور میری کتابیں تھی اور دوسرے پر میرا نان و نفقہ اور زاد راہ تھا، اور میرے ہمراہ ایک خادم تھا ، اس کے ساتھ گائیں تھی ، سواریوں میں سے میری سواری اور لباسوں میں سے میرا لباس سب سے زیادہ خوبصورت تھا تاکہ میں خوش ہو جاؤں اور طلب علم پر راغب ہو جاؤں۔‘‘
آپ کا عزم طلب علم میں بے مثال تھا جس کی نظیر بہت کم ملتی ہے،حصول علم کا اتنا شوق کہ دن کا رات میں اور رات کا دن میں داخل ہونا آپ پر موثر نہ ہوتا ۔اس کا اندازہ اس واقعہ سے ہوتا ہے شیخ عطیہ فرماتے ہیں کہ شیخ نے کہا:’’زمانۂ طالب علمی میں دوران درس شیخ نے کسی چیز کی شرح کی مگر اطمینان قلب حاصل نہ ہوا اور تشنگی ختم نہ ہوئی ، شکوک و شبہات دامن گیر تھے ، چنانچہ ظہر کے وقت میں نے اپنی کتاب اور کئی ایک مراجعات لیے اور مطالعہ میں مصروف ہوگیا اور عصر کا وقت آگیا، نماز پڑھ کر پھر مشغول ہوگیا اور مغرب کا وقت آچلا، نماز کے بعد جب اندھیرے نے دنیا کو آغوش میں لیا تو میرے خادم نے آگ جلائی اور ہم دونوں نے سبز چائے (Green Tea) پی اور سیراب ہوئے، بعد ازاں ہر اک پر سستی طاری ہوگئی مگر میں مصروف رہا یہاں تک کہ فجر کا وقت ہوگیا اور میں بیٹھا رہا ، مطالعہ سے اسی وقت فارغ ہوا جب الجھی چیز سلجھ گئی اور میرے شبہات دور ہوگئے۔“
شنقیطی رحمہ اللہ کو علوم تفسیر ، فقہ،اصول فقہ وغیرہ کے ساتھ شعر و شاعری سے بھی شغف تھا ، آپ کے ادبی ملکہ کے سلسلے میں لوگ کہتے تھے کہ یہ ایسا سمندر ہے جس کا کوئی ساحل نہیں ، شیخ عطیہ فرماتے ہیں کہ میں نے سوال کیا:’’آپ نے شعر و شاعری میں مہارت اور قدرت رکھنے کے باوجود کیوں ترک کر دیا؟ تو امام شنقیطی رحمہ اللہ نے فرمایا:”میں فضلاء اور اکابر رجال کی صفات میں سے شاعری کو نہیں دیکھتا اور اس بات سے بھی ڈرتا ہوں کہ کہیں میں اس نسبت سے مشہور نہ ہو جاؤں ، اور فرمایا کہ شعر و شاعری شیریں جھوٹ کے سوا کچھ بھی نہیں۔“
شیخ رحمہ اللہ کا تقوی لائق مثال تھا ، آپ کی شخصیت نمود و نمائش سے مبرا و پاک تھی ، آپ کا اخلاص امت کے لیے مثالی تھا، اسی لیے جن اشیاء کا ذکر کتاب اللہ اور سنت رسول میں نہیں ان چیزوں کے سلسلے میں فتوی دینے سے ڈرتے اور پرہیز کرتے تھے ۔ شیخ کے فرزند عزیز شیخ عبداللہ فرماتے ہیں کہ:’’والد محترم کی حیات کے آخری ایام تھے کویت سے ایک وفد آیا ، انھوں نے چند مسائل کے سلسلے میں سوال کیا ، تو شیخ نے کہا’’میں اس کاجواب کتاب اللہ سے دوں گا “اور چند ساعت بے چینی کے ساتھ بیٹھے رہے پھر فرمایا ’’اللہ أعلم “، اور یہ آیت تلاوت کی’’ولا تقف ما ليس لك به علم‘‘ پھر مزید فرمایا کہ میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی جانب سے اس سلسلے میں کچھ نہیں جانتا اور لوگوں کی بات میرے ذمے نہیں ہے ، جب انھوں نے بہت زیادہ اصرار کیا تو فرمایا’’فلاں یہ کہتے ہیں فلاں یہ کہتے ہیں ، مگر میں کچھ نہیں کہتا ہوں۔“
خدمات:
اپنے شہر میں درس و تدریس اور فتوی وغیرہ کا کام انجام دیا ، لیکن آپ کی دور اندیشی اور صاحب رائے ہونے کے سبب آپ کو منصب قضا پر فائز کیا گیا، آپ کے وطن میں فرانس کے قاضی پائے جانے کے باوجود باشندگان وطن کا آپ پر حد درجہ اعتماد تھا، وہ دور دراز مقامات سے آپ کے پاس فیصلہ کرانے کے لیے آیا کرتے تھے، آپ لوگوں کے درمیان فیصلہ کرتے تھے سوائے حدود اور خون میں کیونکہ اس کے لیے خاص قاضی مقرر تھے۔
فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے نکلے، آپ وہیں خیمہ زن ہوئے جہاں امیر خالد سدیری خیمہ زن تھے اور دونوں ایک دوسرے سے نا آشنا تھے، خالد سدیری اپنے ہم جلیسوں کے ساتھ عنوان ادب پر بحث کر رہے تھے اور وہ ادب میں ذوق بھی رکھتے تھے، وہ اس بات کے مشتاق تھے کہ شنقیطی رحمہ اللہ سے سوال کریں، جب سوال کیا تو دیکھا کہ یہ ایسا سمندر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں ہے ، امیر خالد نے شیخ سے کہا کہ اگر آپ مدینہ آئے تو میں آپ کو شیخ عبد اللہ بن زاحم اور شیخ عبد العزیز بن صالح سے ضرور ملاؤں گا۔ جب شنقیطی رحمہ اللہ کا ورود مدینہ میں ہوا مشائخ سےملاقات ہوئی، چونکہ شیخ رحمہ اللہ وھابیہ کے سلسلے میں سن چکے تھے، اس بابت آپس میں ان کی کئی دن تک گفتگو بھی ہوئی، اکثر بحث شیخ عبد العزیز بن صالح سے ہوتی تھی، بالآخر آپ اس نتیجے پر پہنچےکہ شیخ الاسلام مجدد امام محمد بن عبد الوھاب منہج سلف پر تھے، کتاب و سنت پر اعتماد کرتے تھے ۔
اس ملاقات کے بعد شیخ کی خواہش ہوئی کہ وہ مدینہ ہی میں قیام کریں اور مسجد نبوی ﷺ میں تفسیر کا درس دیں۔
معہد علمی ریاض کے افتتاح کے وقت آپ کو بطور مدرس منتخب کیا گیا اور جب جامعہ کی چھٹی ہوتی تو آپ مسجد نبوی ﷺ میں درس دیا کرتے تھے ، اسی زمانے میں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کی تاسیس ہوئی ، اس وقت آپ کا شمار کبار علماء میں ہوتا تھا ، رابطہ عالم اسلامی کی تاسیس میں آپ کا عظیم کردار تھا ۔
تالیفات:
آپ کی تالیفات کو دوحصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے :
۱-مطبوعہ کتب:
(۱)أضواء البيان في إيضاح القرآن بالقرآن
(۲)دفع إيهام الاضطراب عن آيات الكتاب
(۳)منع جواز المجاز في المنزل للتعبد والإعجاز
(۴)الأسماء والصفات نقلا وعقلا
(۵)ألفية في المنطق
(۶)آداب البحث والمناظرة
(۷)خالص الجمان في أنساب العرب
(۸)نظم في الفرائض
(۹)مذكرة أصول الفقه على روضة الناظر
(۱۰)رحلة خروجه إلى الحج
(۱۱)المعلقات العشر وأخبار شعرائها
(۱۲)القول السديد في كشف حقيقة التقليد
چند رسائل اور کچھ دروس جو شیخ رحمہ اللہ نے مختلف مقامات پر دیے ہیں الحمد للہ ان کو بھی استفادہ کے لیےکتابی شکل میں شائع کر دیاگیا ہے جو حسب ذیل ہیں:
(۱)آیات الصفات
(۲)حکمۃ التشریع
(۳)المثل العلیا فی الاسلام
(۴)کمال الشریعۃ و شمولھا
(۵)المصالح المرسلہ
۲۔ غیر مطبوع :
(۱)انساب عرب ( منظوم)
(۲)فروع مذہب مالک
(۳)الفرائض ( منظوم)
(۴)الیوم أکملت لکم دینکم
(۵)حول شبہۃ الرقیق
اساتذہ:
آپ کے اساتذہ کو شمار کرنا بہت مشکل ہے لیکن جن کا تذکرہ ہمیں ملتا ہے وہ یہ ہیں:
(۱) الشيخ محمد بن صالح
(۲)الشيخ أحمد الأفرم بن محمد المختار الجكنی
(۳) الشيخ محمد بن النعمة بن زيدان
(۴)الشيخ أحمد بن عمر
(۵)الشيخ أحمد فال بن آدو الجكنی
(۶)الشيخ أحمد بن مود الجكنی
تلامذہ:
آپ کے تلامذہ کا ذکر اللہ عز و جل کے علاوہ کسی کو معلوم نہیں کیونکہ آپ کی تدریسی خدمات بہت طویل ہیں، آپ نے سب سے پہلے موریطانیہ میں تدریسی خدمات انجام دیں، اس کے بعد معہد علمی کلیۃ الشریعہ،ریاض میں مدرس رہے ،مسجد نبوی ﷺ میں بھی کئی سال تک مسند تدریس کو زینت بخشا، بعض معروف تلامذہ کا ذکر درج ذیل ہے:
(۱)سماحة الشيخ الإمام العلامة عبد العزيز ابن باز رحمة الله علیہ
(شنقیطی رحمہ اللہ سے شیخ ابن باز ؒ نے شرح سلم الأخضری فی المنطق پڑھی اور مسجد نبوی کے حلقہ درس میں بھی شامل رہتے تھے)
(۲)الشیخ حماد الأنصاری رحمہ اللہ
(آپ شیخ سے منطق اور تفسیر کے سلسلے میں سوال کرتے رہتے تھے اور پابندی کے ساتھ مسجد نبوی کے درس میں شریک ہوتے تھے )
(۳)معالی الشیخ صالح اللحیدان
(آپ نے کلیۃ الشریعہ میں شیخ سے شرف تلمذ حاصل کیا)
(۴)الشيخ حمود العقلا الشعيبي رحمه الله
(آپ نے شیخ سے کلیہ میں پڑھا اور گھر جا کر بھی استفادہ کیا)
(۵)الشیخ عبد اللہ الغدیان
(آپ نے شیخ سے کلیۃ الشریعہ میں پڑھا)
(۶)معالی الشیخ عبد المحسن العباد
(آپ نے شیخ سے کلیہ میں شرف تلمذ حاصل کیا)
(۷) الشیخ علامہ محمد بن صالح العثیمین
(آپ نے بھی شیخ سے کلیۃ الشرعیہ میں پڑھا)
(۸)معالی الشیخ بکر بن عبد اللہ أبو زید
(آپ نے شیخ رحمہ اللہ سے منطق ،انساب اور تفسیر پڑھا ہے)
(۹)معالی الشیخ صالح بن فوزان الفوزان
(آپ نے بھی شیخ سے کلیۃ الشرعیہ میں تعلیم حاصل کی)
(۱۰)الشیخ العلامہ عبد العزیز القارئ
(آپ نے شیخ سے مسلسل ۸ سال تعلیم حاصل کی اور جامعہ اسلامیہ میں بھی آپ نے شیخ سے پڑھا)
(۱۱)دکتور عبد اللہ قادری
(آپ نے شیخ سے کلیہ میں پڑھا)
(۱۲)شیخ عبد اللہ
(یہ شیخ کے فرزند عزیز ہیں)
(۱۳)الدکتور المختار
(یہ بھی شیخ کے فرزند ہیں)
(۱۴)شناقطہ نے آپ سے بہت زیادہ شرف تلمذحاصل کیا ان میں سے یہ ہیں:
۱۔الشیخ احمد بن احمد الشنقیطی
۲۔الشیخ محمد
۳۔سیدی الحبیب
۴۔الدکتور محمد الخضر بن الناجی بن ضیف اللہ
اور ان کے علاوہ آپ کے تلامذہ کی بہت بڑی جماعت ہے جن کا احصا ممکن نہیں۔
وفات:
آپ کی وفات حج کی ادائیگی کے بعد مکہ میں ۱۷ ذو الحجہ ۱۳۹۳ھ مطابق ۱۰ جنوری ۱۹۷۴م میں ہوئی، آپ کی نماز جنازہ حرم مکی میں پڑھی گئی اور آپ جنت المعلی میں سپرد خاک کیے گئے، مسجد نبوی میں آپ کی غائبانہ نماز پڑھی گئی۔
اہل علم کی نظر میں:
۱۔علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’آپ تمام علوم و فنون کا مجموعہ تھے ، آپ جیسا میں نے کسی کو نہیں دیکھا ، آپ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے مثل تھے۔“
۲۔شیخ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں :”آپ تفسیر کے سلسلے میں گفتگو کررہے ہوتے تو جو بھی آپ کو سنتا آپ کے وسعت علم ،مطالعہ اور فصاحت و بلاغت پر تعجب کرتا ، آپ کی بات سے کوئی اکتاتا نہیں تھا۔“
۳۔شیخ بکر ابو زید فرماتے ہیں :’’شیخ الاسلام کے لقب کا اگر کوئی اس دور میں مستحق تھا تو وہ شیخ محمد امین شنقیطی تھے۔“
۴۔شیخ حماد انصاری کہتے ہیں:”آپ حافظ اور ارجمند تھے، بہت کم وقت میں آپ کو مثالی شہرت ملی۔“
۵۔شیخ محمد بن ابراہیم کہتے ہیں:”علم قرآن و لغہ اور انساب عرب کے سلسلے میں آپ ایک نشانی تھے ۔“
وصلي الله علي نبينا محمد وعلي ألہ و صحبہ أجمعین

2
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
1 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
عبدالرحيم بنارسي

ما شاء اللہ
اللہ تعالیٰ قرطاس و قلم سے آپ کا رشتہ قائم و دائم رکھے۔آمین

فرحان سعيد بنارسی

أمين جزاك الله الخير