مصنف کی طرف کتاب کی نسبت ثابت کرنے کے ضوابط اور اس سے متعلق ایک غلط فہمی کا ازالہ

فاروق عبداللہ نراین پوری تنقید و تحقیق

آج کل پوری دنیا خصوصا بلاد عربیہ میں اسلاف کرام کی علمی تراث کی تحقیق وتدوین کا کام زوروں پر ہے۔ یونیورسٹیوں میں اس پر ایم فل وپی ایچ ڈی کی اعلی علمی ڈگریاں تفویض کی جاتی ہیں۔ علمی میدان میں اس سے اعلی کوئی ڈگری نہیں ہوتی۔ اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ عمل کوئی معمولی عمل نہیں، بلکہ بہت ہی ذمہ داری اور محنت طلب عمل ہے۔ جب بھی کسی کتاب کی تحقیق وتدوین کا خاکہ پیش کیا جاتا ہے ایک محقق کی سب سے پہلی ذمہ داری ہوتی ہے اس مخصوص کتاب کی مخصوص مصنف کی طرف نسبت کی جانچ پڑتال کرے۔ اگر مصنف سے وہ کتاب ثابت ہی نہ ہو اور اس کی طرف اس کی جھوٹی نسبت کی گئی ہو تو اس کی تحقیق وتدوین اور نشر واشاعت کا کوئی فائدہ ہی نہیں۔
چنانچہ بہت ساری ایسی کتابیں ہیں جن کی کسی مصنف کی طرف غلط اور جھوٹی نسبت کی گئی ہے۔
میں یہاں اس کی دو مثالیں پیش کرتا ہوں:
١ – تنبيہ الملوك والمكائد
اس کتاب کی نسبت مشہور ادیب جاحظ کی طرف کی گئی ہے۔ دار الکتب المصریہ کے قلمی نسخے میں اس پر جاحظ کا نام درج ہے۔ لیکن اس کی نسبت جاحظ کی طرف صحیح ہو ہی نہیں سکتی، کیونکہ اس میں “نکت من مکاید کافور الإخشیدي” اور “مکیدة توزون بالمتقي لله” جیسے ابواب اس کی غلط نسبت پر بین دلیل ہیں۔ کافور الإخشیدي کی پیدائش سنہ ٢٩٢ کو ہوئی ہے، جب کہ متقی باللہ کی پیدائش ٢٩٧ کو ہوئی ہے اور جاحظ کی وفات ان کی پیدائش سے کافی سالوں پہلے سنہ ٢٥٥ کو ہو چکی تھی، لہذا یہ ممکن ہی نہیں کہ جاحظ اپنی وفات کے بعد پیدا ہونے والی شخصیات کے حالات قلمبند کریں۔ [تحقیق النصوص ونشرہا للشیخ عبد السلام محمد ہارون: ص ٤٦، وتحقیق التراث العربی للدکتور عبد المجید دیاب: ص١٣٧]
٢ – عمل الیوم واللیلہ
اس نام سے متعدد علما نے کتابیں لکھی ہیں۔ یہاں جس کتاب کی بات کی جا رہی ہے وہ علامہ سیوطی رحمہ اللہ کی کتاب ہے جسے جامعہ علی گڑھ انڈیا کے مخطوطات کی فہرست میں فہرست بنانے والے نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی طرف منسوب کر دیا ہے۔ مُفَہرِس کو یہ دھوکہ اس لیے ہوا کیونکہ اس کے شروع میں مصنف کا یہ کلام موجود ہے:
هذا جزء لطيف في عمل اليوم والليلة منتخب من الأحاديث والآثار، محرر معتبر، لخصته من كتابي منهاج السنة ومن الكلم الطيب، والله الموفق۔
چونکہ ”منہاج السنہ“ اور ”الکلم الطیب“ شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کافی معروف ومشہور کتابیں ہیں اس لیے انھیں لگا کہ اس کے مصنف شیخ الاسلام ابن تیمیہ ہی ہوں گے، حالانکہ یہ علامہ سیوطی کی کتاب ہے، اور ان کی بھی اس نام سے کتابیں ہیں جیسے کہ خود انھوں نے اپنی کتاب ”التحدث بنعمۃ اللہ“ (ص١٠٨، ١١٢، ١٥٥) میں بیان کیا ہے۔
اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ کتاب کا اسلوب شیخ الاسلام کے اسلوب سے میل نہیں کھاتا، اس میں نبی سے توسل کی بات موجود ہے، اور کتاب کے آخر میں یہ عبارت موجود ہے:
قال مؤلفه الفقير إلى الله عبد الرحمن بن أبي بكر السيوطي: فرغت من تأليفه في رجب سنة ٨٩٢ هجرية، والحمد لله رب العالمين
جس کے بعد کسی شک کی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ شیخ الاسلام کی طرف اس کی نسبت غلط ہے۔ [دیکھیں: جامع المسائل لشیخ الاسلام ابن تیمیہ، -المجوعۃ الثالثہ- کے شروع میں شیخ محمد عزیر شمس حفظہ اللہ کا مقدمہ، ص٧-٨]
لہذا تحقیق سے قبل یہ کنفرم ہونا نہایت ضروری ہے کہ مصنف کی طرف اس کی نسبت صحیح ہے یا نہیں۔ عالمی پیمانے پر اس میدان کے متخصصین نے اس کی جانچ پڑتال کے بہت سارے اصول وضوابط متعین کیے ہیں جن کی روشنی میں محقق کو اس کی صحت نسبت کی تحقیق کرنی پڑتی ہے۔ ان میں سے بعض ضوابط یہ ہیں:
١ – مصنف کے ہاتھ کا لکھا ہوا نسخہ مل جائے، چاہے کسی نے ان کے سوانح میں اسے ذکر کیا ہو یا نہ کیا ہو۔ مثلًا شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتاب ”الرد علی نہایۃ العقول للرازی“ خود ان کے ہاتھ سے لکھی ہوئی موجود ہے لیکن کبھی کسی نے ان کے سوانح میں اس کتاب کا ذکر نہیں کیا ہے۔ [دیکھیں:جامع المسائل –المجموعۃ الاولی- کے شروع میں شیخ محمد عزیر شمس حفظہ اللہ کا مقدمہ: ص١١]
٢ – کتاب کے قلمی نسخوں کے سر ورق پر مؤلف کا نام موجود ہو۔
٣ – مؤلف نے اپنی دوسری کتابوں میں اپنی اس تالیف کا ذکر کیا ہو اور اس کے اقتباسات نقل کیے ہوں۔ یا اس کے بر عکس اس کتاب میں مصنف نے اپنی دوسری کتابوں کا ذکر کیا ہو، یا ان کے اقتباسات نقل کیے ہوں۔
٤ – کتاب کا مواد مولف کی آرا کے عین مطابق ہو اور دوسری تمام کتابوں میں جو ان کا معروف اسلوب ہے اس کا بھی بالکل وہی اسلوب ہو۔
٥ – اس کے قلمی نسخے پر عرض و سماع موجود ہو۔ یعنی اس نسخے کو کسی طالب نے اپنے استاد پر پڑھا ہو اور ان کے نام اس میں درج ہوں۔
٦ – مؤلف کتاب کے شاگردوں نے وہ کتاب ان سے روایت کی ہو اور پھر ان سے نسلًا بعد نسلٍ روایت کا سلسلہ چلا آرہا ہو۔ اسی کو ”سَنَد الکتاب“ کہتے ہیں۔
٧ – کتب الفہارس میں اسے ان کی طرف منسوب کیا گیا ہو۔
٨ – کتب التراجم میں ان کے ترجمہ میں اس تالیف کا ذکر یا وصف موجود ہو۔
٩ – ان کے علاوہ کسی دوسرے کی طرف اسے کسی نے منسوب نہ کیا ہو۔ یعنی جب بھی اس کتاب کا ذکر آئے تو بالاتفاق علما اسے ان کی طرف منسوب کرتے ہوں۔
١٠ – مؤلفِ کتاب کے معاصر علمانے اس کی صراحت کی ہو۔
١١ – ان کے بعد آنے والے علمائے کرام نے اس سے اقتباسات نقل کیے ہوں اور اس کا حوالہ دیا ہو۔
جو بھی تحقیق شدہ کتابیں منظر عام پر آرہی ہیں آپ ان میں محقق کا مقدمہ پڑھیں۔ انھوں نے کتاب کی نسبت مصنف سے ثابت کرنے کے لیے انھی امور کو بطور دلیل پیش کیا ہوگا، کیونکہ عمومًا کسی کتاب کی اس کے مؤلف کی طرف نسبت ثابت کرنے میں یہ امور معاون ثابت ہوتے ہیں۔ بطور مثال ”جامع المسائل لشیخ الاسلام ابن تیمیہ“ –المجموعۃ الاولی- کے شروع میں شیخ محمد عزیر شمس حفظہ اللہ کا مقدمہ، یا ”الایجاز فی شرح سنن ابی داود للنوی“ کی تحقیق میں شیخ مشہور حسن سلمان کا مقدمہ، یا ”الرد علی الجہمیۃ والزنادقہ للامام احمد“ کی تحقیق میں شیخ صبری بن سلامہ شاہین کا مقدمہ پڑھ لیں اور دیکھیں کہ انھوں نے کتاب کی نسبت مؤلف کی طرف ثابت کرنے کے لیے کن امور کو معیار بنایا ہے۔
بعض کتابوں میں ان مذکورہ امور میں سے دو چار چیزیں ہی مل پاتی ہیں اور بعض میں اس سے کچھ زیادہ۔ نیز ان کے علاوہ بھی کسی خاص کتاب میں کوئی خاص قرینہ موجود ہوسکتا ہے جس سے بوقت ضرورت استدلال یا استئناس کیا جا سکتا ہے۔ بطور مثال ”رفع الاشتباه عن معنى العبادة والإله وتحقيق معنى التوحيد والشرك بالله“ کی نسبت علامہ عبدالرحمن بن یحیی المعلمی رحمہ اللہ کی طرف ثابت کرنے میں اس کے محقق شیخ عثمان بن معلم محمود نے اس کے مقدمے میں جن قرائن کا اعتبار کیا ہے انھیں دیکھا جا سکتا ہے۔
کسی کتاب کی نسبت میں جتنے زیادہ قرائن پائے جائیں گے وہ اس کی صحتِ نسبت کی اتنی ہی پختہ دلیل مانی جائے گی۔
لیکن ان مذکورہ قرائن میں سے کسی خاص قرینہ کا کسی کتاب میں مفقود ہونے کا یہ معنی قطعًا نہیں کہ وہ اس مصنف کی کتاب نہیں۔
مثلًا پہلے قرینہ کو ہی دیکھیں۔ بہت ساری ایسی کتابیں ہیں جن کے قلمی نسخوں میں سرورق موجود ہی نہیں ہوتا۔ چونکہ یہ پہلا صفحہ ہوتا ہے اس لیے اس کے ضائع ہونے کا خوف بھی سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن دوسرے باقی قرائن اس کی بات کی پختہ دلیل ہوتے ہیں کہ یہ فلاں مصنف کی فلاں کتاب ہے۔
بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ لائبریرین خود اپنے قلم سے اس کے سر ورق پر اس کا نام اور اس کے مصنف کا نام لکھ دیتا ہے، لیکن کم علمی یا اسی نام کی کسی دوسری کتاب سے مشابہت کی بنیاد پر اس میں غلطی کر بیٹھتا ہے، جس سے بسا اوقات بعض لوگوں کو دھوکہ ہوجاتا ہے۔ ایسا معاملہ کئی کتابوں کے ساتھ ہو چکا ہے۔ ابھی اوپر عمل الیوم واللیلہ للسیوطی کی بات گزری۔ اسی طرح کا معاملہ ”اکمال تہذیب الکمال“ کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ اس نام سے علامہ ابن الملقن اور علامہ مغلطائی دونوں نے کتاب لکھی ہے۔ نام میں مشابہت کی وجہ سے مغلطائی کی کتاب پر بعض مخطوطات میں ابن الملقن کا نام لکھا ہوا ہے۔
اسی طرح دوسرے قرائن کا معاملہ ہے۔ کسی مخصوص کتاب میں دوسرے قرائن میں سے کوئی بھی قرینہ مفقود ہوسکتا ہے، لیکن اس وجہ سے مصنف کی طرف کتاب کی نسبت میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ بقیہ دوسرے قرائن اس بات کی مضبوط دلیل ہوتے ہیں کہ یہ فلاں مصنف کی ہی کتاب ہے۔
افسوس کہ موجودہ زمانے میں بعض لوگوں نے کسی مصنف کی طرف کسی کتاب کی صحت نسبت کے لیے ایک قرینہ کو بنیادی شرط کا درجہ دینا شروع کر دیا ہے جو کبھی بھی علما کے نزدیک شرط کی حیثیت سے نہ دیکھا گیا تھا۔ وہ ہے: ”مصنف سے صحیح سند سے اس کتاب کی روایت موجود ہو“۔
یہ چیز اگر کسی کتاب میں پائی جاتی ہے تو بلا شبہ نور علی نور ہے، لیکن مصنف کی طرف صحت نسبت کے لیے اسے شرط کا درجہ دینا، بلکہ صحت نسبت کو اسی پر موقوف کر دینا تو یہ ایک نئی چیز ہےجس کی علما نے کبھی بھی شرط نہیں لگائی ہے، الا یہ کہ کہیں نسبت ثابت کرنے والے تمام قرائن مفقود ہوں اور موجود قرائن نسبت کی تکذیب کر رہے ہوں، اور متأخرین میں سے کوئی مصنف کی طرف اس کی نسبت کا دعوی کرے تو ایسی صورت میں اس سے اس کی سند ضرور طلب کی جائے گی اور یہ دیکھا جائے گا کہ کہیں کسی نے اپنی طرف سے گھڑ کر تو اسے مصنف کی طرف منسوب نہیں کر دیا ہے۔
مثلًا ابھی حال ہی میں مصنف عبد الرزاق کے ایک مفقود حصے کے متعلق ڈاکٹر عیسی بن عبد اللہ بن مانع الحمیری نے دعوی کیا تھا کہ یہ مصنف عبد الرزاق کا مفقود حصہ ہے، لیکن بے شمار قرائن ان کےدعوے کی تکذیب کر رہے ہیں اس لیے علما نے ان کے اس دعوے کو باطل قرار دیا ہے۔ میں نے اس دعوے کی تکذیب پر ایک مفصل مضمون قلمبند کیا ہے جو فری لانسر کے ویب پورٹل پر موجود ہے۔
لیکن اس کے بر عکس کوئی کتاب ایسی ہو جو ہر دور میں علما کے مابین معروف رہی ہو، علما اس سے اپنی کتابوں میں نقل کرتے رہے ہوں، جس نے بھی اس کتاب کے متعلق بات کی ہو اسے اسی مصنف کی طرف منسوب کیا ہو، کبھی کسی نے اس کی نسبت کے متعلق شک وشبہ کا اظہار نہ کیا ہو صرف اس کی سند نہ ملنے، یا سند کے صحیح نہ ہونے کی وجہ سے مصنف سے اس کی نسبت کا ہی انکار کر دینا تو یہ بالکل نیا اور خطرناک منہج ہے جس سے پوری اسلامی تراث کے مشکوک ہونے کا خطرہ ہے۔
آج کل بعض بردرس جو بنیادی شرعی علوم سے بھی عاری ہیں اسے لے کر کچھ زیادہ ہی فتنہ برپا کیے ہوئے ہیں۔ ابھی دو چار دن قبل ہی ایسے ہی ایک برادر کی تحریر نظر سے گزری، اس میں شیخ البانی رحمہ اللہ کی عربی عبارت کے ترجمے میں جس جہالت کا ثبوت دیا گیا ہے وہ تو اپنی جگہ مضحکہ خیز ہے ہی اس سے استدلال کا طریقہ بھی کم غیر علمی نہیں ہے۔
علامہ البانی رحمہ اللہ نے خطیب بغدادی کی مشہور کتاب ”اقتضاء العلم العمل“ کے مقدمے میں اس کے مخطوط کی حالت بیان کرتے ہوئے ناسخ مخطوط سے خطیب بغدادی تک کی سند بھی ذکر کی ہے اور روات کےحالات ذکر کرنے بعد کہا ہے کہ اس کی سند مصنف تک صحیح ہے۔
اس سے موصوف نے یہ عجیب وغریب استدلال کیا ہے کہ مولف تک کتاب کی نسبت ثابت کرنے کے لیے اس کی سند کے روات کا حافظ وضابط اور مشہور ہونا ضروری ہے۔ فرماتے ہیں: ”کتاب کی سند کے رواۃ کا حافظ ضابط اور مشہور ہونا ضروری ہے مولف تک جب ہی اسے‌ منسوب کیا جائے گا، جیسا کہ شیخ رحمہ اللہ نے لکھا ہے“۔
حالانکہ شیخ نے کہیں یہ نہیں لکھا ہے کہ میں سند اور اس کے روات کے حالات اس لیے بیان کر رہا ہوں کیونکہ مصنف سے اسے ثابت کرنے کے لیے یہ ضروری امرہے، بلکہ خود شیخ نے دوسری جگہ اسے ایک ضروری چیز ماننے سے انکار کیا ہے۔ شیخ نے ”فضل الصلاۃ علی النبی للازدی“ کی تحقیق کی ہے اور اس کے مقدمے میں بھی کتاب کی سند اور اس کے روات کے حالات کو بیان کیا ہے، لیکن علما کے منہج سے کوئی غافل شخص کوئی غلط نتیجہ نہ اخذ کر لے اس لیے بڑے ہی واضح الفاظ میں اس غلط فکر کی تردید کی ہے۔ شیخ کے الفاظ ہیں:
شهرة الكتاب عند العلماء وتدوالهم إياه واعتمادهم عليه يغني عن البحث في إسناده، فإذا ثبت فهو قوة على قوة، وإلا لم يضره، ولذلك كان من المصادر الأولى إن لم يكن الأول لكل من صنف في موضوعه كالعلامة ابن القيم في كتابه جلاء الأفهام والحافظ السخاوي في القول البديع وغيرهما. [فضل الصلاۃ علی النبی للازدی کی تحقیق میں شیخ کا مقدمہ: ص ١٣]
(علما کے نزدیک کتاب کا مشہور ومتداول ہونا اور ان کا اس پر اعتماد کرنا اس کی سند کی تلاش وجستجو سے بے نیاز کر دیتا ہے۔ اگر سند ثابت ہو جائے تو اس سے مزید قوت مل جاتی ہے، لیکن ثابت نہ ہو تو اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ اسی لیے جنھوں نے بھی اس موضوع پر کوئی کتاب لکھی یہ کتاب ان کا پہلا مصدر نہ سہی ان کی اول ترین مصادر میں ضرور رہی، جیسے کہ علامہ ابن القیم کی جلاء الافہام میں، حافظ سخاوی کی القول البدیع میں اور ان دونوں کے علاوہ دوسروں کے نزدیک بھی یہ اول ترین مصادر میں رہی)
شیخ رحمہ اللہ کا یہ قول روز روشن کی طرح واضح اور صریح ہے کہ علما اگر کسی کتاب پر اعتماد کرتے ہوں، اس سے نقل واستفادہ کرتے ہوں جیسے کہ ”فضل الصلاۃ علی النبی للازدی“ سے علامہ ابن القیم اور حافظ سخاوی وغیرہما نے نقل واستفادہ کیا ہے تو ایسی صورت میں اس کتاب کی سند کی کوئی ضرورت نہیں رہتی۔ اگر مل جائے تو نور علی نور ہے، نہ ملے تو اس کی صحتِ نسبت پر ذرہ برابر کوئی آنچ نہیں آتی۔
خود شیخ البانی رحمہ اللہ نے متعدد کتب کی تحقیق کی ہے لیکن ان میں سے تمام کتب میں اس طرح کتاب کی سند اور اس کے روات کے حالات کو بیان کرنے کا کوئی اہتمام نہیں کیا ہے۔ بطور مثال ”الایمان لابن ابی شیبہ“ کو لیں۔ شیخ نے اس کتاب کی تحقیق کی ہے اور اس کے مقدمہ (ص٨) میں اس کے مخطوط کی حالت بیان کی ہے۔ اور کہا ہے کہ جس نسخے پر انھوں نے اعتماد کیا ہے وہ حافظ محمد بن یوسف بن محمد البرزالی الاشبیلی کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے جسے انھوں نے ٦٢٣ ہجری میں لکھا ہے۔ لیکن ان کے اور امام ابن ابی شیبہ کے درمیان کی سند کیا ہے اس کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے، حالانکہ دونوں کے مابین تقریبا چار سو سال کا فاصلہ ہے۔
اسی طرح اس کے بعد اسی صفحے میں انھوں نے ”الایمان لابی عبید“ کے قلمی نسخے کی حالت بیان کی ہے۔ یہ کتاب بھی شیخ کی تحقیق سے چھپی ہوئی ہے۔ اس کے مخطوط کی حالت بیان کرتے ہوئے شیخ نے کہا ہے کہ انھوں نے ایک ہی قدیم نسخے پر اعتماد کرتے ہوئے اس کی تحقیق کی ہے جو سنہ ٤٨٨ ہجری میں ابو محمد عثمان بن ابی نصر کے نسخے سے لکھا گیا تھا۔ لکھنے والا کون تھا اس کا انھوں نے کوئی نام ذکر نہیں کیا ہے۔ شیخ فرماتے ہیں کہ لکھنے کے بعد اصل نسخے سے اس کا تقابل بھی کیا گیا تھا لیکن اس کے باوجود اس میں بہت زیادہ غلطیاں ہیں۔
یہاں کاتبِ نسخہ کا نام تک پتہ نہیں، اس میں بہت زیادہ غلطیاں بھی ہیں اور کاتب ومصنف کے مابین سند کا بھی کوئی اتہ پتہ نہیں، اس کے باوجود شیخ اسے ابو عبید کی طرف منسوب کرکے تحقیق کر رہے ہیں اور نشر کر رہے ہیں۔ اگرموصوف برادر کے بقول یہ شیخ کے نزدیک ضروری امر ہوتا تو اس کی شیخ کو تحقیق ہی نہیں کرنی چاہیے تھی اور نہ ابوعبید کی جانب منسوب کرکے نشر کرنا چاہیے تھا۔
یہی حال اکثر وبیشتر کتب اسلاف کا ہے، ان کی اسانید کا یا تو پتہ نہیں، یا وہ اسانید متکلم فیہ ہیں۔ کتب حدیث میں تو ایک حد تک ان کی روایات کا اہتمام ملتا بھی ہے، لیکن دوسرے فنون مثلًا تاریخ، لغت، فقہ، اصول وغیرہ میں تو یہ تقریبا ناپید ہی ہے۔ اگر اس نئےخود ساختہ اور غیر معقول وغیر مقبول منہج کو کوئی اہمیت دی جائے تو اس طرح پوری اسلامی تراث مشکوک بلکہ نیست ونابود تک ہوسکتی ہے۔ اسی سے اس کی سنگینی اور خطرناکی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتابوں نے ایوانِ باطل میں جو زلزلہ پیدا کیا ہے وہ کسی اہل حق پر مخفی نہیں۔ اگر خود ان کی کتابوں پر یہ خود ساختہ اصول فٹ کیا جائے تو ان کے تراث کے ایک عظیم حصے سے ہمیں ہاتھ دھونا پڑے گا۔ ابھی حال ہی میں مشہور محقق شیخ محمد عزیر شمس حفظہ اللہ نے ان کی بے شمار کتابوں کی تحقیق کی ہے اور انھیں منظر عام پر لاکر پوری امت پر عظیم احسان کیا ہے جس کے لیے ہم شیخ کے ممنون ومشکور ہیں۔ شیخ نے ”جامع المسائل لشیخ الاسلام ابن تیمیہ“ کے شروع میں اپنے مقدمہ میں ان قلمی نسخوں کا جو تعارف پیش کیا ہے صرف انھیں ہی دیکھ لیں آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ اس مسئلہ میں علما اور محققین کا کیا منہج و معیار ہے۔ اور یہ خود ساختہ اصول کس قدر باطل اور ناقابل التفات ہے۔ شیخ نے جن قلمی نسخوں پر اعتماد کرکے ان کتب کی تحقیق کی ہے ان میں سے بہتوں کے بارے میں یہ تک پتہ نہیں کہ ان کے لکھنے والے کون ہیں اور کب لکھے گئے ہیں۔ لیکن اہل علم جو اس فن سے کچھ شدبد رکھتے ہیں کبھی بھی اس طرح کی بے تکی باتیں کرکے ان پر کلام نہیں کرتے اور انھیں مشکوک نظروں سے نہیں دیکھتے۔
خلاصۂِ کلام یہ کہ کتاب کی نسبت کسی مصنف کی طرف آنکھ بند کرکے قبول بھی نہیں کی جائے گی اور سند کے معدوم ہونے یا صحیح نہ ہونے کی وجہ سے رد بھی نہیں کی جائے گی، بلکہ علما کے نزدیک اس کے خاص اصول وضوابط ہیں جو اس مضمون کے شروع میں بیان کیے گئے، ان کے مطابق جانچ پڑتال کی جائے گی اور نسبت کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ واللہ اعلم
اللہ ہمیں اور ہمارے بھائیوں کو ہدایت دے اور صحیح علم حاصل کرنے اور اسے نشر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

آپ کے تبصرے

3000