چند دن قبل میری ایک تحریر ’قلبی واردات‘ کے عنوان سے عام ہوئی ۔اس تحریر کے عام ہونے کے بعد بعض اہل علم نے اپنے چنداشکالات اور تحفظات کا اظہار فرمایا۔ ہوسکتا ہے ایسا ہی خیال کچھ دیگرلوگوں کے ذہن میں بھی آیا ہو (حالانکہ خود سابقہ تحریر میں ان اشکالات کے تدارک کی بہت حد تک کوشش کی گئی تھی تاہم پھر بھی سوال اٹھے)اسی لیے یہ مناسب معلوم ہوا کہ اسی عنوان کی ایک اور قسط لکھ کر ان کے ازالہ کی کوشش کی جائے۔
۱۔پہلا اشکال یہ تھا کہ امام کا قرآن کی تلاوت میں اپنی آواز اور انداز پر توجہ دینا تاکہ سامعین محظوظ ہوسکیں ایک مستحسن عمل ہے اور اس میں شرعا کوئی قباحت نہیں ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کو تلاوت کرتے سن کر ان کی تعریف فرمائی تو حضرت ابو موسی نے کہا تھا:
لو علمت أنك تسمع لحبرته لك تحبيراً[متفق عليہ]اگر مجھے پتہ ہوتا کہ آپ سن رہے ہیں تو میں آپ کی خاطر اور زیادہ خوبصورت تلاوت کرتا۔
یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں نہیں ٹوکا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کی خاطر تحبیر ایک جائز بلکہ مستحسن عمل ہے۔ جبکہ مذکورہ تحریر سے لگتا ہے کہ یہ تحبیر یا آواز و انداز کو لوگوں کو سنانے کی خاطر سنوارنا نکھارنا ریاکاری ہے۔
اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ:
تحبیر یا سامعین کی خاطر تلاوت کی تحسین و تزئین پر توجہ دینے کے دو پہلو ہیں، ایک پہلو تو یہ کہ اچھی تلاوت و اچھا انداز اس لیے اختیار کیا جائے کہ سامعین کی قرآن و نماز میں توجہ بڑھے ،ان کی رغبت میں اضافہ ہو ، امام اور مقتدی دونوں حضرات کو لمبے قیام میں مدد ملے اور قرآن کی لذت سے ہردو محظوظ ہوں اور دلوں پر اس کا اثر محسوس کریں تو یہ عین مطلوب ہے ۔اور یہی پہلو ان تمام احادیث کا مقصود ہے جن میں حسنِ تلاوت یا تحبیر کی ترغیب وارد ہے۔
لیکن اسی تحسین و تزئین کا دوسرا پہلو ہے لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنا ان سے تعریف کی چاہ، داد و دہش کی آرزو اور یہ خواہش کہ حسن تلاوت کے حوالے سے میرے نام کی تعریف و تشہیر ہو۔ یہ پہلو ریاکاری کا ہے۔ اسی پہلو کے پیش نظر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے جہنم میں داخل کیے جانے والے تین لوگوں میں سے ایک کے بارے میں بتایا کہ وہ شہرت طلب قرآن کا قاری ہوگا۔(مسلم)
گویا قرآن کی تحبیر فی نفسہ ریاکاری نہیں ہے البتہ تحبیر میں ریاکاری کے درآنے کا امکان رہتا ہے۔ جو بعض مخصوص حالات میں بڑھ بھی جاتا ہےجیسے اجتماعات وغیرہ میں خود سے آگے بڑھنا جس کا تذکرہ پہلی قسط میں ہوا۔
اسی تفصیل کو بیان کرتے ہوئے امام أبوبكر الآجُرِّي (متوفی۳۶۰ھ) نے لکھا ہے:
ينبغي لمن رزقه الله حسن الصوت بالقرآن أن يعلم أن الله قد خصه بخير عظيم؛ فليعرف قدر ما خصه الله به، وليقرأ لله، لا للمخلوقين، وليحذر من الميل إلى أن يستمع منه ليحظى به عند السامعين رغبة في الدنيا، والميل إلى حسن الثناء والجاه عند أبناء الدنيا، والصلات بالملوك، دون الصلات بعوام الناس ؛ فمن مالت نفسه إلى ما نهيته عنه: خفت أن يكون حسن صوته فتنة عليه، وإنما ينفعه حسن صوته إذا خشي الله عز وجل في السر والعلانية، وكان مراده أن يستمع منه القرآن لينتبه أهل الغفلة عن غفلتهم ، فيرغبوا فيما رغبهم الله عز وجل، وينتهوا عما نهاهم؛ فمن كانت هذه صفته انتفع بحسن صوته، وانتفع به الناس[أخلاق أهل القرآن:ص۱۶۱]
۲۔دوسرا اشکال یہ سامنے آیا کہ قلبی واردات کی سابقہ قسط پڑھ کر ہوسکتا ہے بہت سارے لوگ محض ریاکاری کے ڈر سے خیر کے کاموں میں سبقت کرنے سے باز آجائیں جبکہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی کو ریاکاری کے ڈر سے خیر کے کام میں پیچھے نہیں رہنا چاہیے۔
اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ:
یہ بات بجا ہے کہ محض ریاکاری کے ڈر سے خیر کے کام کو ترک نہیں کرنا چاہیے ، شیطان کا ایک حربہ یہ بھی ہے کہ وہ ریاکاری کے ڈر کی راہ سے بھی حملہ آور ہوتا ہے۔ اسی لیے حارث بن قيس فرماتے ہیں:
وإذا كنت في الصلاة فقال الشيطان : إنك ترائي فزدها طولا[السنن الكبرى للنسائی:۱۱۸۵۶] اگر حالت نماز میں شیطان تمھارے پاس آئے اور کہے کہ تم ریاکار ہو تو تم ذرا اور لمبی نماز پڑھنا۔
تاکہ اس کے اس وسوسہ کا مقابلہ کرسکو اور اس کے اس حربے و حملے کو ناکام کرسکو۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں پہلو مطلوب ہیں، عمل میں ریاکاری،اس کے مظاہر اور اس کے مواقع سے بچنا بھی چاہیے مگر جہاں نیکی کا موقعہ ملے وہاں محض ریاکاری کے ڈر سے موقعہ ہاتھ سے جانے بھی نہیں دینا چاہیے بلکہ نیکی کو اپناتے ہوئے اپنے نفس کے ساتھ مجاہدہ کرنا اور حتی المقدور ریاکاری کے مظاہر اور نشانیوں سے پرہیز کرنا چاہیے۔
اسی سلسلے میں ایک بھائی نے یہ سوال کیا تھا:
أي الموقفين صحيح؟ ترك العمل لأجل الخوف من الرياء أم الإقدام عليه مع إصلاح النية(دونوں میں سے کیا صحیح ہے ؟ ریاکاری کے ڈر سے عمل چھوڑدے یا نیت کی اصلاح کرتے ہوئے عمل کرتا رہے ؟؟
اس کا جواب یہی ہے کہ:الإقدام عليه مع إصلاح النية (آدمی کو عمل نہیں ترک کرنا چاہیے مگر نیت پر مسلسل گرفت ہوتی رہنی چاہیے۔
یہ دقیق فرق ہے کہ آدمی عمل میں ریاکاری نہ کرے مگر ریاکاری کے ڈر سے عمل ترک بھی نہ کرے۔ انھی دونوں حقیقتوں کو یکجا کرکے بیان کرتے ہوئے فضیل بن عياض رحمہ الله نے فرمایا ہے:
إن ترك العمل لأجل الناس رياء، والعمل لأجل الناس شرك والإخلاص أن يعافيك الله منهما[شعب الإيمان للبيهقی:۶۴۶۹] لوگوں کی وجہ سے عمل ترک کردینا ریاکاری ہے اور لوگوں کی خاطر عمل کرنا شرک ہے، اخلاص یہ ہے کہ اللہ ان دونوں چیزوں سے تمھیں بچالے۔
۳۔تیسرا اشکال بلکہ یہ اعتراض سامنے آیا کہ سابقہ تحریر میں ائمہ و خطباء کی نیتوں پر سوال اٹھایا گیا ہے، اس کی زد میں ہر امام و خطیب آسکتا ہے، اس تحریر میں اخلاص سے متعلق جتنی باتیں استفہامیہ انداز میں رکھی گئی ہیں ان میں استفہام انکاری ہے جس میں ان ائمہ خطباء اور مؤذنين کے اخلاص کی نفی ہے۔
اس سلسلے میں پہلی بات یہ عرض ہے کہ:
سابقہ تحریر بنیادی طور پر ان حضرات کے سلسلے میں ہے جو خودنمائی کی راہ اپناتے ہوں،جیسے مکلف امام نہ ہونے کے باوجود خود کو اجتماعات وغیرہ جیسی مناسبتوں میں خودسے آگے بڑھانا،خاص ان مناسبتوں میں بہ تکلف تلاوت کرنا، انھی مواقع پر عذاب وحساب کی آیتوں کی تلاوت رقت کے ساتھ کرنا وغیرہ۔
اور ان حضرات کے سلسلے میں بھی اخلاص کی نفی نہیں کی گئی ہے بلکہ دو باتیں کہی گئی ہیں، ایک تو یہ کہ ایسے حالات میں اخلاص کا تحفظ بہت مشکل ہے ،استفہامیہ انداز نفی کے بجائے استعجاب کے لیے اپنایا گیا ہے کہ ریاکاری کے متعدد اسباب اور مظاہر کے باوجود کیسے اخلاص کی حفاظت کرپاتے ہوں گے ؟ اور یہ بات اہل علم سے مخفی نہیں ہے کہ استفہام جب غیر حقیقی ہو تو اس سے مراد جس طرح نفی ہوسکتی ہے اسی طرح استغراب و استعجاب بھی۔
اور دوسری بات یہ کہ بحیثیت امام یہ آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ایسی تمام باتوں سے پرہیز کریں جو آپ کے مقتدی کو امتحان میں مبتلا کردے،آپ مخلص ہوں گے تاہم آپ کے ہاؤ بھاؤ کو دیکھ کر اور ظاہری تکلفات کو دیکھ کر اگر آپ کے اخلاص کے تئیں شیطان آپ کے مقتدی کے دل میں وسوسے ڈال رہا ہو تو کیا سامع یا مقتدی کو اس امتحان میں مبتلا کرنے سے پرہیز کرنا بہتر یا ضروری نہ ہوگا؟؟
حقیقت یہ ہے کہ جس طرح کسی کے اخلاص کی گواہی نہیں دی جاسکتی بالکل اسی طرح کسی کے اخلاص کی نفی بھی نہیں کی جاسکتی،کیونکہ دلوں کا حال تو بس اللہ جانتا ہے:
وَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلِیمُۢ بِذَاتِ ٱلصُّدُورِ(المائدة:۷)
تاہم اخلاص کی ترغیب دلانا اور ریاکاری کے مظاہر سے پرہیز کی دعوت دینا بھی عین خیرخواہی اور شرعا ایک مطلوب و مستحسن عمل ہے ۔
ایک امام مؤذن یا خطیب کو اپنے عمل میں یہ احتسابی کیفیت جاری رکھنی چاہیے کہ میرا عمل اللہ کے لیے ہو، خالص ہو، تو دوسری طرف ایک سامع اور مقتدی کو بھی خود احتسابی سے کام لینا چاہیے کہ رقت و تأثر کی جو کیفیت ان کو حاصل ہے مجھے کیوں نہیں نصیب ہوتی ؟؟
وفقنا الله جميعا لما يحبه ويرضاه۔ آمین
ماشاء الله
مدلل محكم اور مضبوط جواب
جزاک اللہ خیرا کثیرا