نکاح انسانی فطرت کا تقاضا ہے، اسلام کی تعلیم اور ایمان کی تکمیل ہے، شادیوں سے خاندان وجود میں آتے ہیں اور نسل کی افزائش ہوتی ہے۔ نکاح کے بغیر زندگی بے رونق اور بے کیف ہے، وقت پر نکاح سے انسان اخلاقی بے راہ روی سے محفوظ ہوجاتا ہے، زندگی برکتوں سے معمور ہوجاتی ہے۔ جوسن بلوغت کو پہنچنے کے بعد بھی نکاح نہیں کرتے ان کی عفت وعصمت پر خطرے کا بادل منڈلاتا رہتا ہے، شیطان ان کے لیے گھات لگاتا ہے، کبھی ان کی پاکدامنی نفس وشیطان کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے، اخلاقی بے راہ روی نکاح میں تاخیر سے فروغ پاتی ہے۔
شریعت شادی کو سادگی سے انجام دینے کی ترغیب دیتی ہے، کم خرچ میں نکاح کا عمل انجام دینے کی گذارش کرتی ہے، دینداری اس کی ترجیح ہے، بارات کا کوئی تصور نہیں، ولیمہ اور مہر استطاعت پر منحصر ہیں، اگر آدمی مفلس ہے تو لوہے کی انگوٹھی بھی مہر بن سکتی ہے اور شربت سے بھی ولیمہ کیا جاسکتا ہے، آسانی اور سادگی کا مقصد نکاح کو عام کرنا اور زنا کے دروازوں کو بند کرنا ہے۔
موجودہ دور میں نکاح مشکل ترین کام بن گیا ہے، شادی کے لیے مسائل کا ایک طویل خارزار ہوتا ہے جسے عبور کرکے ہی کوئی نکاح کرسکتا ہے، اسلام نے شادی بیاہ کا جو طریقۂ کار بتلایا ہے بلا کم و کاست اس پر عمل تو بہت آسان ہے لیکن کرگذرنا پہاڑ کاٹنے جیسا ہے، شادی میں اسلام کی تعلیمات کو برتنے کے لیے ایک جنگ درکار ہوتی ہے، کبھی گھر والوں سے، کبھی لڑکی یا لڑکے والوں سے، کبھی رشتہ داروں سے، کبھی سماج سے، کبھی اپنے جذبات و خواہشات سے، یہ چومکھی جنگ سر کرنے کے بعد ہی آدمی نکاح میں شریعت پر قائم رہ سکتا ہے۔
نبی کی پیشین گوئی کے مطابق ایک وقت آئے گا جب دین پر چلنا انگاروں پر چلنے کے مترادف ہوگا، شریعت کے مطابق نکاح کرنا بھی آگ پر چلنے جیسا ہی ہے، اس قدر موانع ہوتے ہیں کہ آدمی قدم بڑھانے کے بعد مخالفتوں کی تاب نہ لاکر رسم ورواج کی طرف پلٹ آتا ہے۔
شادی کا ماحول غیرمعمولی حد تک فساد کا شکار ہے، انتخاب کا معیار صرف دولت اور خوبصورتی تک محدود ہے، دینداری کو ترجیح حاصل نہیں ہے، جہیز اور ڈیمانڈ کا چلن ہے، دنیادار لوگ اپنے بچوں کےرشتے کے لیے لمبے چوڑے مطالبات کرتے ہیں، رقوم اور جہیزمانگتے ہیں، بعض گھرانوں کا حال اس قدر خراب ہے کہ وہ باقاعدہ جہیز کی لسٹ بنا کر لڑکی والوں کےگھر بھیجتے ہیں اور یہاں تک لکھا ہوتا ہے کہ کون سامان کس کمپنی کا ہونا چاہیے، بعض لوگوں کواگر مانگنے میں شرم آتی ہے تو ایک ثالث ہوتا ہے جو بڑے خوبصورت انداز میں مطالبہ رکھ دیتا ہے اور حاجی صاحب کا دامن تقوی ذرا بھی میلا نہیں ہوتا، مثلا یہ صاحب بہت نیک اور اللہ والے ہیں، ان کا چلے تو ایک روپیہ بھی نہ لیں لیکن گھروالوں کے آگے کس کی چلی ہے؟ اب دیکھیے ناں! حاجی صاحب نے کہہ دیا ہے کہ ایک پیسہ نہیں لینا ہے لیکن لڑکا کہہ رہا ہے کہ میرے دوست کو شادی میں کار کے ساتھ لاکھوں کیش ملے ہیں، مجھے اگر نہیں ملے گا تو میری کیا عزت رہ جائے گی؟ صاحب! بچوں سے تو دنیا ہاری ہے؟ خاموش ڈیمانڈ کے ایسے بہت سے شریفانہ طریقے ہیں جو گاہے بگاہے آزمائے جاتے ہیں، اگر کسی کو بہت زیادہ دینداری اور سنت کا نشہ سوار ہے تو رشتہ ناپسند کردیا جاتا ہے، بسااوقات تو لڑکی میں عیب نکال دیا جاتا ہے کہ سانولی ہے، ناٹی ہے یا موٹی ہے وغیرہ وغیرہ۔
اس کوچے میں دھوکہ، فریب اور طوطا چشمی کے آزار بھی ہیں۔ دیکھیے ناں، لڑکی والے نے جب پوچھا کہ آپ کی ڈیمانڈ کیا ہے؟ تو کمال معصومیت سے کہہ دیا کہ بس آپ ہمارے مہمانوں کی تواضع میں کمی نہ رکھنا، اچھےسے اچھا انتظام کردینا، باقی ہمیں اور کچھ نہیں چاہیے، اللہ کا دیا ہوا سب تو ہمارے پاس ہے، پھر کیا تھا؟ جو جمع پونجی تھی وہ باراتیوں کی خاطر تواضع کے لیے صرف کردی، انواع واقسام کی ڈشیں اورلذت کام ودہن میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی، بارات آئی تو نکاح سے پہلے لڑکے کا باپ کہتا ہے، آپ نے کیش تو کچھ دیا ہی نہیں، لڑکی والا حیران کہ آپ نے کیش مانگا ہی کہاں تھا؟ بس مہمانوں کی اچھی خاطر تواضع کرنےکی بات ہوئی تھی، وہ میں نے اچھے سے اچھا کردیا ہے، کہا واہ بھئی واہ! ہم نے مانگا نہیں تو آپ دیں گے بھی نہیں، فری میں اپنی بچی کو لا کر ہمارے گھر بٹھا دیں گے؟دیکھیے ہماری شرافت کہ ہم نے نہیں مانگا لیکن آپ کو تو اپنی طرف سے دینا چاہیے، سب تو دیتے ہیں، آپ اتنے لاکھ کا بند وبست کرلیجیے، نہیں تو نکاح نہیں ہوگا۔ حیرت نہ کیجیے مال کی حرص انسان کو کسی بھی سطح پر پہنچا سکتی ہے، اچھے خاصے شریف النفس شادی کے موقع پر شیطان بن جاتے ہیں، لڑکی والے روتے گڑگڑاتے رہیں اور منت سماجت کرتے رہیں لیکن ان کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی ہے۔
اسراف وفضول خرچی میں تو مقابلہ آرائی جاری رہتی ہے، لوگ فخر ومباہات میں حد سے گذر جانا چاہتے ہیں، تکلفات کی بھرمار ہوتی ہے، اشیائے خوردونوش کا ضیاع ہوتا ہے، شریعت کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر قدم قدم پر دولت لٹائی جاتی ہے، مہنگے کارڈ، ڈیکوریشن، چمک دمک، لائٹنگ، مہنگے سٹیج، ڈی جے اور گانے بھی شادیوں کا حصہ بن رہے ہیں، شادی کا ہمالیائی نمبر تو بعد میں آئےگا، اس سے پہلے ہی منگنی اور دیگر رسموں میں جذبۂ نمائش بہت کچھ کراچکا ہوتا ہے۔
شادیوں میں سنت وشریعت سے انحراف کے نتائج بھی سماج بھگت رہا ہے، رشتوں میں پائیداری مفقود ہوتی جارہی ہے، نکاح کے ایک دوسال بعد ہی سے رشتوں میں دراڑ پڑنی شروع ہو جاتی ہے، طلاق اور خلع کی شرح میں گذرتے دن رات کےساتھ اضافہ ہی ہورہا ہے، کبھی تو بھاری بھرکم جہیز پر سوار ہوکر آنے والی لڑکی سسرال میں کسی کو خاطر میں نہیں لاتی اور کبھی سامان جہیز نہ ملنےکے سبب مسلسل جھگڑے معمول بن جاتے ہیں، فتنۃ فی الارض وفساد عریض کی نبوی وعید کا عملی ظہور ہوتا ہے۔
امراء کی سرکشی سدباب کے سارے منصوبوں پر پانی پھیر دیتی ہے، دولت کا نشہ سماج سدھار کی کاوشوں کو کامیابی سے ہم کنار نہیں ہونے دیتا، اصلاح وبیداری کی سیکڑوں تحریکیں میدان میں آئیں، فہمائش اور کونسلنگ میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی گئی لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی، آئے دن جہیز نہ لانے کےسبب تشدد اور قتل کے واقعات اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں۔
ضروری ہے کہ اس فتنۂ عظیمہ کی بیخ کنی کے لیے نوجوانوں کی تربیت کی جائے، جی ہاں وہ نوجوان جن کے حریص ماں باپ شادیوں میں ان کا سودا کرتے ہیں اور قربانی کے بکروں کی طرح ان کی بولی لگاتے ہیں، جہیز اور ڈیمانڈ کا مطلب یہی تو ہے۔ نوجوانوں کی موثر انداز میں ذہن سازی کی جائے، احوال وظروف کی سنگینی کا ادراک کراکر ان کو شادیوں میں انقلابی کردار کے لیے تیار کیا جائے، یہ نوجوان ہے جو وقت کی ہواؤں کا رخ موڑ سکتا ہے، ان کا آہنی عزم چٹانوں کو ریزہ ریزہ کرسکتا ہے، اگر ان کے دل ودماغ میں انسانیت کا درد پیدا کرلیا گیا تو ان کے سامنے کسی کی پیش جانے والی نہیں ہے، وہ صرف اپنی شادیوں میں کچھ کرگذرنے کی ٹھان لیں تو مستقبل کے افق پر نئی صبح کی پو پھٹ سکتی ہے، رسم ورواج کےتارو پود بکھر سکتے ہیں اورتڑپتی بلکتی انسانیت کے درد کا درماں ہوسکتا ہے۔
ماشاء الله بارك الله فيك..شيخ محترم..!
بہت خوب ۔۔!اللہ تعالی ہمیں توفیق عطا فرمائے ۔۔آمین
Mashallah
Bahut umda allahatala or tarqqi de