الحمد للہ رب العالمین، والعاقبۃ للمتقین، والصلاۃ والسلام علی أشرف الأنبیاء والمرسلین، نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ أجمعین، وبعد:
اللہ رب العالمین آسمان وزمین، شجر وحجر اور دیگر ساری مخلوقات کا تنہا خالق ہے۔ جب ایک بندہ اس چیز کا اقرار کر لیتا ہے، تو اس پر اسی وحدہ لا شریک لہ کی عبادت وبندگی واجب ہو جاتی ہے۔ اسی ثانی ذکر چیز کو منوانے کے لیے رب کریم نے قرآن کریم کو نازل فرمایا اور اس کی مختلف سورتوں، آیتوں اور مواضعات میں اس نے اپنے کمال قدرت کو بیان کیا ہے اور انسانوں کو دعوت فکر وتدبر دی ہے، تاکہ انسان کج فکری اور انحرافات عقیدہ وعمل سے بچ کر اللہ رب العالمین کی عظیم کاریگری کا اعتراف کر لے اور اسی کو پوری کائنات کا خالق ومالک تسلیم کر کے صرف اسی کی عبادت وبندگی بجا لائے۔
اللہ رب العالمین نے انسانوں کو قرآن کریم میں تدبر وتفکر کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے:
کتاب أنزلناہ الیک مبارک لیدبروا آیاتہ ولیتذکر أولوا الألباب [ص: ۲۹](اے میرے نبی! یہ ایک مبارک کتاب ہے جو ہم نے آپ پر نازل کی ہے، تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور وفکر کریں اور تاکہ عقل وخرد والے نصیحت حاصل کریں)
قرآن کریم ایک روشن چراغ ہے، جس کی روشنی سے جب دل منور ہو جاتا ہے تو وہ اللہ کی روشنی کی بدولت اللہ کے نزدیک جو محبوب ہوتا ہے،اسے محبوب رکھتا ہے اور جو مبغوض ہوتا ہے، اس سے بغض رکھنے لگتا ہے، طاقتور کو طاقتور، ضعیف کو ضعیف، فنا ہونے والی چیز کو فانی، باقی رہنے والی چیز کو باقی، بلند وبرتر کو بلند وبرتر اور خسیس وبے وقعت کو خسیس وبے وقعت ماننے لگتا ہے۔
جو انسان قرآن کریم سے اعراض وروگردانی کرتا ہے اور اس میں تفکر وتدبر سے کام نہیں لیتا، تو گویا وہ اپنے آپ کو ہلاکت وبربادی کی عمیق کھائی میں ڈال رہا ہے اور تاریکیوں اور وحشت ناکیوں کے حوالہ کر رہا ہے اور دائمی قلق واضطراب کو دعوت دے رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ومن أعرض عن ذکری فان لہ معیشۃ ضنکا ونحشرہ یوم القیامۃ أعمی، قال رب لم حشرتنی أعمی وقد کنت بصیرا، قال کذلک أتتک آیاتنا فنسیتہا وکذلک الیوم تنسی وکذلک نجزی من أسرف ولم یؤمن بآیات ربہ ولعذاب الآخرۃ أشد وأبقی [طہ: ۱۲۴۔ ۱۲۷] اور جو شخص میری یاد سے روگردانی کرے گا وہ دنیا میں تنگ حال رہے گا اور قیامت کے دن اسے ہم اندھا اٹھائیں گے، وہ کہے گا، میرے رب! تونے مجھے اندھا کیوں اٹھایا ہے؟ دنیا میں تو میں خوب دیکھنے والا تھا، اللہ کہے گا، اسی طرح تمھارے پاس میری آیتیں آئی تھیں تو تم نے انھیں بھلا دیا تھا اور اسی طرح آج تم بھلا دیے جاؤگے، اور جو حد سے تجاوز کرتا ہے اور اپنے رب کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتا ہے، اسے ہم ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں، اور یقینا آخرت کا عذاب زیادہ سخت اور طویل مدت باقی رہنے والا ہے۔
تخلیق انسانی کے متعلق بعض نظریات:
’’تخلیق انسانی‘‘ متقدمین ومتاخرین علماء ومفکرین اور سائنس دانوں کا موضوع بحث وتحقیق رہی ہے اور انھوں نے مختلف نظریات وآراء بیان کیے ہیں، لیکن سچائی یہ ہے کہ وہ مفکرین، دانشوران اور فلاسفہ اپنے اپنے زمانے کے چاہے جتنے اونچے پایے اور بلند درجے کے رہے ہوں مگر ان کی تحقیق وآراء ناقص ونا مکمل بلکہ اکثر غلط اور بے تکے ہیں۔
تخلیق انسانی کے موضوع پر مجلہ ’’تاریخ وثقافت‘‘ پاکستان (جولائی ۔ دسمبر ۲۰۱۸ء) میں دو پی ایچ ڈی اسکالر ضیاء الرحمن اور سعدیہ ناز کا ایک وقیع وقیمتی مقالہ شائع ہوا ہے، جس میں مختلف حوالوں سے تخلیق انسانی کے ارتقا اور مراحل پر بڑی اچھی بحث کی گئی ہے اور قدیم وجدید مفکرین ودانشوران اور فلاسفہ وسائنس دانوں کے نظریات قلم بند کیے گئے ہیں،یہاں اس مقالہ کے حوالے سے بعض اقتباسات تحریر کیے جاتے ہیں:
’’متقدمین مفکرین میں ایک یونانی مفکر انگزلمینڈ (متوفیٰ ۵۶۴ ق م) کا نام آتا ہے۔ یہ پہلے شخص ہیں، جن کے یہاں نظریہ ارتقا ملتا ہے۔ اس کے مطابق زندگی کی ابتدا سمندر سے ہوئی۔ اس کا کہنا ہے کہ خشکی کے تمام جانور آبی جانوروں کی نسل سے ہیں۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ انسان بھی دودھ پلانے والے ایک آبی جانور ہی کے نسل سے ہے‘‘۔ [مولانا روم اور نظریہ ارتقا، سعدی احمد رفیق، ماہنامہ الفجر، پاکستان، ذیقعدہ ۱۴۰۵ھ]
ایمپی دو کلاس (۴۳۵۔۴۹۵ ق م) مختلف خیالات رکھتے تھے، جن میں سے ایک خیال یہ بھی تھا کہ ’’انسان جمادات اور نباتات سے گزر کر انسانیت تک پہنچا ہے‘‘۔ [فلسفہ ہند ویونان، دین محمد شفیق عہدی:۸۵]
نظریہ ارتقا کے متعلق متاخرین مفکرین کی آراء پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:’’موجودہ ماہرین ارتقاء کے مطابق امیباہی موجودہ تمام حیوانات کا مبدأ ہے اور حیاتیاتی عمل سے انسان کی تخلیق ہوتی ہے۔ مثلاً امیبا سے زندگی کا درخت پھوٹا اور اس کے تنے پر چھوٹی بڑی شاخیں پیدا ہوئیں، پھر ہر شاخ نے بڑھنے اور ترقی کرنے کی کوشش کی، پھر ایک مقام پر اُن کی نشو ونما رک گئی، تاہم اُن کی ایک شاخ پر حیوانات کے مختلف انواع آئے، جو برابر بہت سے بہتر صورت کی طرف گامزن رہے۔ ان کی صورتیں شکل انسانی کے قریب قریب تر ہوتی رہیں،یہاں تک کہ مکمل انسانی وجود ظہور میں آیا‘‘۔ [قرآن اور علم جدید، ڈاکٹر رفیع الدین:۱۲۲]
دور جدید میں بہت سے سائنس داں اور مفکرین جیسے ہکسلے، لیمارک اور ڈارون وغیرہ اسی نظریہ کے قائل ہیں۔
چارلس ڈارون (۱۸۰۹۔۱۸۸۲) کا نظریہ بہت مشہور ہے، بلکہ ان کو ’’نظریہ ارتقا‘‘ کا بانی سمجھا جاتا ہے، انھوں نے ۱۸۸۰ میں ایک کتاب Origin of Species لکھی، اس میں انھوں نے ارتقا کی وضاحت کی، جس کے مطابق انسان بطریق ارتقا چھوٹے چھوٹے کیڑے مکوڑوں سے کروڑوں سال ترقی کرتے ہوئے اپنی ہیئت وشکل تبدیل کر کے موجودہ شکل اختیار کی۔
ڈارون کے مطابق انسان پہلے بندر تھا، پھر ترقی کر کے انسان بن گیا۔
چارلس ڈارون نے ۱۸۵۸ء میں جب ارتقائی نظریہ پیش کیا تو دنیا میں ہلچل مچ گئی،یہاں تک کہ بعض نے ان سائنسی تحقیقات سے متاثر ہو کر اپنے سابقہ نظریہ سے رجوع کیا، تا ہم تحقیق کا یہ عمل رکا نہیں۔ ڈارون کے نظریہ کے ابطال میں کئی لوگوں نے کتابیں لکھیں، جن میں ہارون یحیٰ کا نام بطور خاص قابل ذکر ہے۔ انھوں نے اپنی کتاب کے اختتام پر ترکی میں مختلف مقامات پر منعقد بین الاقوامی کانفرنسوں کا حوالہ دیا، جس میں اس نظریہ کے ابطال میں سائنس دانوں نے مقالے پڑھے، ان کو ہزاروں لوگوں نے سنا اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ڈارون کانظریہ الحاد پر مشتمل تھا۔
تخلیق انسانی قرآن کی نظر میں:
قرآن کریم کی آیات کے مطالعہ سے یہ بات منکشف ہوتی ہے کہ قدیم وجدید فلاسفہ، مفکرین اور سائنس دانوں نے انسانوں کی تخلیق کے متعلق جو نظریات اور آراء پیش کیے ہیں، وہ قرآن کریم کی رو سے غلط اور الحاد پر مبنی ہیں۔ قرآن کریم نے تخلیق انسانی کے متعلق جو نظریہ پیش کیا ہے، جدید سائنس نے اس کو نہ صرف ماننا شروع کر دیا ہے، بلکہ بڑے بڑے ماہرین اور محققین نے قرآن کریم کے بیان کردہ حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے اسلام مذہب کو قبول کر لیا، جن میں عظیم کینیڈین سائنس داں پروفیسر ڈاکٹر کیتھ مور خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں، جنھوں نے قرآن کریم اور حدیث نبوی میں جنینیات کے متعلق موجود معلومات کو جاننے کے بعد مذہب اسلام قبول کر لیا، جنینیاتی معلومات سے متعلق قرآن وحدیث سے حاصل شدہ مواد پر تقریباً ۸۰؍ سوالوں کے جواب دیے۔ ڈاکٹر ذاکر عبدالکریم نائیک لکھتے ہیں کہ ’’ان میں سے ایک جواب بھی ایسا نہیں تھا، جو قرآن مجید اور حدیث سے ہم آہنگ نہ ہو۔ انھوں نے کہا کہ اگر تیس سال قبل مجھ سے یہ سوال پوچھے جاتے، تو میں ان میں سے نصف کا جواب دینے کے قابل نہ ہوتا، کیوں کہ میری سائنسی معلومات اس وقت نا مکمل تھیں‘‘۔ [قرآن اور جدید سائنس: ۷۴]
قرآن کریم نے انسانوں کی تخلیق کے متعلق جو نظریات پیش کیے ہیں، اُن نظریات کا تعلق سب سے پہلے انسان آدم علیہ السلام اور سب سے پہلی خاتون حواء علیہا السلام اور پھر عام انسانوں کی تخلیق سے ہے۔
اللہ رب العالمین نے آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا۔ اس کی تفصیل قرآن کریم کی سورۃ البقرۃ [۳۰۔۳۴]، سورۃ الحجر [۲۶۔۳۳] اور دیگر مقامات پر بیان کی گئی ہے۔
سورہ بقرہ میں آدم علیہ السلام کی تخلیق کے متعلق یوں بیان ہے:
اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک نائب بنانے والا ہوں، تو انھوں نے کہا کہ (اے اللہ!) کیا تو اس میں ایسے آدمی کو نائب بنائے گا جو اس میں فساد پھیلائے گا اور خوں ریزی کرے گا، اور ہم تو تیری تسبیح اور حمد وثنا میں لگے رہتے ہیں اور تیری پاکی بیان کرتے رہتے ہیں، (اللہ نے) کہا جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔ اور (اللہ نے) آدم کو تمام نام سکھا دیے۔ پھر انھیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور کہا کہ مجھے ان کے نام بتاؤ، اگر تم سچے ہو۔ انھوں نے کہا کہ (اے اللہ!) تیری ذات (ہر عیب سے ) پاک ہے، ہمارے پاس کوئی علم نہیں، سوائے اس کے جو تونے ہمیں سکھایا ہے، تو ہی بے شک علم وحکمت والا ہے۔ (اللہ نے) کہا اے آدم، تو ان فرشتوں کو ان چیزوں کے نام بتا، جب آدم نے فرشتوں کو ان کے نام بتا دیے، تو اللہ نے کہا، کیا میں نے تم سے کہا نہیں تھا کہ میں آسمانوں اور زمینوں کی چھپی ہوئی باتوں کو جانتا ہوں اور جانتا ہوں جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو چھپاتے ہو، اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو، تو سب نے سجدہ کیا، مگر ابلیس نے انکار کر دیا اور استکبار سے کام لیا، اور وہ (اللہ کے علم میں) کافروں میں سے تھا۔ [بقرہ: ۳۰۔۳۴]
سورہ حجر میں تخلیق آدم علیہ السلام کی تفصیل یوں مذکور ہے:
اور ہم نے انسان کو کھنکھناتے ٹھیکرے سے پیدا کیا ہے، جو سڑی ہوئی مٹی کا بنا تھا اور ہم نے اس سے پہلے جنوں کو گرم ہوا کی آگ سے پیدا کیا ہے، اور جب آپ کے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں ایک آدمی کو سڑی ہوئی مٹی کے کھنکھناتے ٹھیکرے سے پیدا کرنے والا ہوں، پس جب اسے بنا لوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں، تو تم سب اس کی تعظیم کے لیے سجدہ میں گر جاؤ، تو تمام فرشتوں نے سجدہ کیا، لیکن ابلیس نے اس بات سے انکار کر دیا کہ وہ سجدہ کرنے والوں میں شامل ہو جائے، اللہ نے کہا، اے ابلیس! تجھے کیا ہو گیا ہے کہ سجدہ کرنے والوں کے ساتھ شریک نہیں ہوئے۔ اس نے کہا، میں ایک ایسے انسان کو سجدہ نہیں کر سکتا جسے تونے سڑی ہوئی مٹی کے کھنکھناتے ٹھیکرے سے پیدا کیا ہے۔ اللہ نے کہا، تو یہاں سے نکل جا، تو بے شک (میری رحمت سے) محروم کر دیا گیا۔[حجر: ۲۶۔۳۴]
اللہ رب العالمین نے آدم علیہ السلام کو پیدا کرنے کے بعد اُن کی پسلی سے اُن کی بیوی (حواء علیہا السلام) کو پیدا کیا۔ قرآن کریم کہتا ہے:
ہو الذي خلقکم من نفس واحدۃ وجعل منہا زوجہا لیسکن منہا [اعراف: ۱۸۹] اس نے تم سب کو ایک جان سے پیدا کیا ہے اور اسی سے اس کی بیوی کو پیدا کیا، تاکہ اس کے پاس آرام کرے۔
پھر اللہ رب العالمین نے آدم وحواء علیہما السلام کو جنت میں رہنے کا حکم دیا:
ویا آدم اسکن أنت وزوجک الجنۃ[اعراف: ۱۹]اور اے آدم! تم اور تمھاری بیوی جنت میں اقامت پذیر ہو جاؤ۔
اللہ تعالیٰ نے آدم وحواء علیہما السلام کو حکم دیا کہ جنت میں رہیں اور اس کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوں، اور اس درخت کے قریب مت جاؤ ورنہ ظالموں میں سے ہو جاؤگے، پھر شیطان نے ان دونوں کو لغزش میں مبتلا کر دیا اور انھیں اُس نعمت وراحت سے نکلوا دیا جس میں وہ تھے، اور ہم نے کہا پستی میں اتر جاؤ، تم ایک دوسرے کے دشمن ہوگے اور تمھارے واسطے زمین ٹھکانا ہے اور ایک (مقرر) وقت تک فائدہ اٹھانا ہے۔ [بقرہ: ۳۵۔۳۶]
اور اس طرح سے اللہ جل شانہ نے آدم علیہ السلام اور حواء علیہا السلام کو روئے زمین پر اتار دیا اور پھر دونوں سے نسل انسانی شروع ہوئی۔
انسانی تخلیق کے مراحل:
قرآن کریم میں رحم مادر کے اندر انسانی وجود کی تشکیل اور اس کے ارتقا کے مختلف مراحل بیان کیے گئے ہیں، ان تمام مراحل کا تذکرہ رب کریم نے سورۃ ’’المومنون‘‘ میں ایک ہی جگہ فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ولقد خلقنا الإنسان من سلالۃ من طین، ثم جعلناہ نطفۃ في قرار مکین، ثم خلقنا النطفۃ علقۃ فخلقنا العلقۃ مضغۃ، فخلقنا المضغۃ عظاماً فکسونا العظام لحماً، ثم أنشأناہ خلقاً آخر، فتبارک اللہ أحسن الخالقین[مومنون: ۱۴]اور ہم نے انسان کو مٹی کے ٹھیکرے سے پیدا کیا، پھر ہم نے اُسے نطفہ کی شکل میں ایک محفوظ جگہ پر پہنچایا، پھر نطفہ کو منجمد خون بنایا، پھر اس منجمد خون کو گوشت کا ایک ٹکڑا بنایا، پھر اس ٹکڑے سے ہڈیاں پیدا کیں، پھر اُن ہڈیوں پر گوشت چڑھایا، پھر ہم نے تخلیق کے ایک دوسرے مرحلہ سے گزار کر اسے پیدا کیا، پس برکت والا ہے اللہ جو سب سے عمدہ پیدا کرنے والا ہے۔
قرآن کریم کی مذکورہ آیت سے پتہ چلتا ہے کہ انسانی زندگی کاکیمیائی ارتقا کم وبیش چھ مرحلوں سے گزر کر تکمیل پذیر ہوتا ہے، تخلیق انسانی کے ان مراحل کی تصدیق جدید سائنسی تحقیق کے ذریعہ ہو چکی ہے اور مزید ہو رہی ہے۔
پہلا مرحلہ:
تراب (مٹی): اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
ولقد خلقنا الإنسان من سلالۃ من طین (اور ہم نے انسان کو مٹی کے ٹھیکرے سے پیدا کیا)
اس آیت کی تفسیر میں مولانا مودوی نے لکھا ہے کہ ’’اس کا مطلب یا تو یہ ہے کہ ہر انسان ان مادوں سے پیدا کیا جاتا ہے، جو سب کے سب زمین سے حاصل ہوتے ہیں، اور یا اس تخلیق کی ابتدا نطفے سے ہوتی ہے، یا یہ کہ نوع انسانی کا آغاز آدم علیہ السلام سے کیاگیا جو براہ راست مٹی سے بنائے گئے تھے اور پھر آگے نسل انسانی کا سلسلہ نطفے سے چلا، جیسا کہ سورہ سجدہ (۷۔۸) میں فرمایا:انسان کی تخلیق مٹی سے شروع کی، پھر اس کی نسل ایک ست سے چلائی جو حقیر پانی کی شکل میں نکلتا ہے۔ [تفہیم القرآن: ۳/ ۲۰۱]
عربی لفظ ’’سلالۃ‘‘ سے مراد کسی مائع (بہنے والی چیز) کا بہترین حصہ، خلاصہ یا جوہر ہے۔ زنانہ بیضے کی بار آوری کے لیے مرد سے خارج ہونے والے لاکھوں کروڑوں خلیات نطفہ میں سے صرف ایک خلیہ نطفہ کو قرآن کریم نے ’’سلالۃ‘‘ کہا ہے۔ اسی طرح عورت میں پیدا شدہ ہزاروں بیضوں میں سے ایک بیضے کے لیے (جو بار آور ہوتا ہے) قرآن کریم نے ’’سلالۃ‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک لکھتے ہیں کہ ’’قرآن کریم کم از کم گیارہ مقامات پر بیان کرتا ہے کہ انسان کو نطفے سے پیدا کیا گیا۔ نطفہ مائع کی معمولی سی مقدار یا کپ کو خالی کرنے کے بعد بچ جانے والے مائع کے قطرے کو کہتے ہیں۔ قرآن مجید کی بائیسویں اور تئیسویں سورہ کی آیات نمبر ۱۵۵ اور ۱۳ کے علاوہ کئی مقامات پر اس طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ سائنس کی حالیہ ترقی نے تصدیق کر دی ہے کہ عورت کے بیضہ کو بار آور کرنے کے لیے تیس لاکھ خلیات نطفہ (Sperms) میں سے صرف ایک درکار ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مجموعی طور پر خارج شدہ خلیات کا صرف 0.00003 فی صد بار آوری کے لیے ضروری ہوتا ہے‘‘۔[قرآن اور جدید سائنس: ۷۸]
دوسرا مرحلہ:
پانی: اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
ثم جعلناہ نطفۃ في قرار مکین (پھر ہم نے اُسے نطفہ کی شکل میں ایک محفوظ جگہ پر پہنچایا)
اللہ تعالیٰ نے سورہ فرقان میں ارشاد فرمایا ہے:
وہو الذي خلق من الماء بشراً فجعلہ نسبا وصہرا، وکان ربک قدیراً[فرقان: ۵۴]اور اس نے پانی سے آدمی کو پیدا کیا، پھر اسے نسب والا اور سسرال والا بنایا اور آپ کا رب ہر بات پر قادر ہے۔
اس آیت کی تفسیر میں ڈاکٹر محمد لقمان سلفی نے لکھا ہے کہ ’’اس نے (اللہ نے) انسان کو ایک حقیر نطفہ سے پیدا کیا ہے، پھر وہ پل بڑھ کر بڑا ہوتا ہے اور ان میں سے کوئی مذکر اور کوئی مونث ہوتا ہے، اور ان سب کی نسبت اپنے باپ دادا کی طرف ہوتی ہے، اور جب شادی کرتا ہے تو بیوی کی طرف سے اس کے بہت سارے رشتہ دار ہو جاتے ہیں۔ کنبے کا یہ سارا پھیلاؤ ایک قطرہ منی سے وجود میں آتا ہے‘‘۔[تیسیر الرحمن لبیان القرآن: ۱۰۳۲]
انسان کے علاوہ کرہ ارض پر بسنے والی لاکھوں کروڑوں مخلوقات کی اولین تخلیق میں بھی پانی کی وہی اہمیت ہے، جتنی انسان کی کیمیائی تخلیق میں۔ اس سلسلے میں ایک مقام پر اللہ جل شانہ نے فرمایا ہے: وجعلنا من الماء کل شئی حي، أفلا یؤمنون[الانبیاء:۳۰]اور ہر ذی روح کو ہم نے پانی سے پیدا کیا ہے، کیا وہ لوگ (پھر بھی) ایمان نہیں لائیں گے۔
امام شوکانی کہتے ہیں کہ اکثر مفسرین کی یہی رائے ہے یعنی اللہ نے ہر زندہ چیز کو قطرہ منی سے پیدا کیا ہے۔ [تیسیرالرحمن لبیان القرآن: ۹۲۴]
یہ آیت کریمہ حیات انسانی یا حیات ارضی کے ارتقائی مراحل پر تحقیق کرنے والے سائنس دانوں کے لیے دعوت فکر بھی ہے اور دعوت ایمان بھی۔
اللہ رب العالمین نے ایک جگہ یہ بیان فرمایا ہے کہ انسانوں کی تخلیق ہم نے ماں باپ کے مخلوط نطفہ (پانی) سے کی ہے:
إنا خلقنا الإنسان من نطفۃ أمشاج نبتلیہ فجعلناہ سمیعاً بصیراً [دہر: ۲]بے شک ہم نے انسان کو مخلوط نطفہ سے پیدا کیا ہے تاکہ ہم اسے آزمائیں، پس ہم نے اسے خوب سننے والا، اچھی طرح دیکھنے والا بنایا ہے۔
’امشاج‘ سے مراد وہ مخلوط ہے جو مرد وعورت دونوں کی منی سے بنتا ہے۔ مرد کی منی سفید اور گاڑھی ہوتی ہے اور عورت کی منی پیلی اور پتلی ہوتی ہے، دونوں کے امتزاج سے آدمی کی تخلیق ہوتی ہے۔ [تیسیرالرحمن لبیان القرآن: ۱۶۷۶]
اور ڈاکٹر ذاکر نائیک لکھتے ہیں کہ ’’عربی لفظ ’نطفۃ أمشاج‘ کا مطلب ’مخلوط مائع‘ہے۔ قرآن مجید کے بعض مفسرین کہتے ہیں کہ مخلوط مائع سے مراد نر اور مادہ کا تولیدی مادہ ہے۔ دونوں (مرد اور عورت) کے صنفی تخم کے ملاپ سے بننے والا جُفتہ (Zygote) بھی شروع میں نطفہ ہی رہتا ہے۔ مخلوط مائع سے مراد نر کا مادہ تولید بھی ہو سکتا ہے جو مختلف غدودوں سے خارج ہونے والی رطوبتوں سے بنتا ہے۔ لہذا ’نطفۃ أمشاج‘سے مراد نر اور مادہ کے مخلوط مائع یعنی تخم کی معمولی سی مقدار اور ارد گرد سے شامل ہونے والے مائعات ہیں‘‘۔ [قرآن اور جدید سائنس: ۷۸۔۸۰]
مادہ منویہ کہاں تیار ہوتا ہے؟ قرآن کریم نے اس کی بھی نشاندہی کر دی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
فلینظر الإنسان مم خلق، خلق من ماء دافق یخرج من بین الصلب والترائب [طارق: ۵۔۷]پس انسان غور کرے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے، وہ ایک ٹپکائے ہوئے پانی سے پیدا کیا گیا ہے، جو باپ کی پیٹھ اور ماں کے سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتا ہے۔
امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد لکھتے ہیں کہ ’’نطفہ، رحم مادر میں جگہ پکڑتا ہے، پھر اس پر نشو ونما کے مختلف دور طاری ہوتے ہیں۔ قرآن نے یہاں اور دوسرے مقامات میں تشکیل جنین کے جو مراتب خمسہ بیان کیے ہیں، گزشتہ زمانے میں ان کی پوری حقیقت واضح نہیں ہوئی تھی، کیوں کہ علم تشریح جنین (Embryohogy)بالکل ناقص حالت میں تھا۔ لیکن اب انیسویں صدی کی تشریحی تحقیقات نے تمام پردے اٹھا دیے ہیں اور ان سے پوری طرح ان تصورات کی تصدیق ہو گئی ہے‘‘۔ [ترجمان القرآن:تفسیر سورۃ المومنون]
تیسرا مرحلہ:
علقہ (منجمد خون): اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ثم خلقنا النطفۃ علقۃ (پھر نطفہ کو منجمد خون بنایا)
آئی اے ابراہیم اور محسن فارانی لکھتے ہیں کہ ’’لغوی اعتبار سے عربی لفظ علقہ کے تین معنیٰ ہیں: جونک، معلق شئی اور خون کی پھٹکی۔ علقہ یعنی خون کی پھٹکی کے مرحلے میں جنین (Embryo) کا جونک سے موازنہ کریں تو ان دونوں میں ہمیں مشابہت نظر آتی ہے، اس مرحلے میں جنین ماں کے خون سے غذائیت حاصل کرتا ہے اور یہ عمل جونک کے طرز عمل سے مشابہ ہے، جو دوسروں کے خون سے غذا حاصل کرتی ہے۔ علقہ کے معنیٰ ’معلق چیز‘ کے ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ ہمیں جنین رحم مادر کے اندر مرحلہ علقہ کے دوران میں لٹکا ہوا دکھائی دیتا ہے، علقہ تیسرے معنیٰ میں ’خون کی پھٹکی‘ ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اس مرحلے میں جنین کی بیرونی شکل اور اس کی تھیلیاں خون کی پھٹکی سے مشابہ ہیں۔ اس طرح علقہ کے تین معانی اس مرحلے میں جنین کی تین ہیئتوں سے ٹھیک ٹھیک مطابقت رکھتے ہیں‘‘۔ [اسلام کی سچائی اور سائنس کے اعترافات: ۴۴۔۴۵]
ڈاکٹر ذاکر نائیک کے بقول: ’’علق کا مرحلہ حمل کے تیسرے اور چوتھے ہفتے پر مشتمل ہوتا ہے۔ خون بند نالیوں میں پھٹکی کی شکل اختیار کرتا ہے۔ اس طرح جنین جونک کے مانند دکھائی دینے کے علاوہ خون کی پھٹکی بن جاتا ہے‘‘۔[قرآن اور جدید سائنس: ۸۵]
ڈاکٹر صاحب مزید لکھتے ہیں کہ ’’لفظ ’علق‘ کا مطلب ’جمے ہوئے خون کے لوتھڑے‘کے علاوہ ’جونک کی طرح چمٹنے والی چیز‘ بھی ہے۔ ڈاکٹر کیتھ مور کو معلوم نہیں تھا کہ جنین کی ابتدائی شکل جونک کے مشابہ ہوتی ہے۔ اس بات کا جائزہ لینے کے لیے انھوں نے اپنی تجربہ گاہ میں انتہائی طاقت ور خردبین کے ذریعے سے جنین کی ابتدائی شکل کا مطالعہ کیا۔ جب انھوں نے جونک کے خاکے کے ساتھ اس کا موازنہ کیا تو وہ دونوں کی مشابہت دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ اسی انداز میں انھوں نے جنین کے بارے میں قرآن مجید سے مزید ایسی معلومات اکٹھی کیں، جو ابھی تک دریافت نہیں ہوئی تھیں۔ ڈاکٹر مور نے قرآن مجید میں جنینیات کے حوالے سے دی گئی معلومات کے بارے میں ۸۰؍ سوالوں کے جواب دیے۔ ان میں سے ایک جواب بھی ایسا نہیں تھا، جو قرآن مجید اور حدیث سے ہم آہنگ نہ ہو۔ انھوں نے کہا کہ اگر تیس سال قبل مجھ سے یہ سوال پوچھے جاتے تو میں ان میں سے نصف جواب دینے کے قابل نہ ہوتا، کیوں کہ میری سائنسی معلومات اس وقت نا مکمل تھیں‘‘۔ [قرآن اور جدید سائنس: ۷۳۔۷۴]
چوتھا مرحلہ:
مضغہ (گوشت کا ایک ٹکڑا): اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
فخلقنا العلقۃ مضغۃ (پھر اس منجمد خون کو گوشت کا ایک ٹکڑا بنایا)
آئی اے ابراہیم اور محسن فارانی رقم طراز ہیں کہ ’’عربی لفظ مضغہ کے معنیٰ ’چبایا ہوا مواد‘کے ہیں۔ اگر ہم گوند کا ایک ٹکڑا منہ میں رکھ کر چبائیں اور پھر اس کا مرحلہ مضغہ کے جنین سے موازنہ کریں، تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ اس مرحلے میں جنین کسی چبائے ہوئے مواد کی شکل سے مشابہ ہوتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ چودہ سو سال پہلے نبی کریمﷺ کو یہ ساری باتیں کیسے معلوم ہو سکتی تھیں، جو سائنس دانوں نے حال ہی میں ترقی یافتہ ساز وسامان اور طاقت ور خردبینیں استعمال کرکے دریافت کی ہیں اور جو اس زمانے میں موجود نہ تھیں؟
اس کا جواب ڈاکٹر پروفیسر کیتھ مور نے ۱۹۸۱ء میں دمام (سعودی عرب) میں منعقد ساتویں طبی کانفرنس کے اجلاس میں یوں دیا تھا کہ ’’انسانی ارتقا کے بارے میں قرآن کے بیانات کی وضاحت میں مدد لیتے ہوئے مجھے بڑی خوشی محسوس ہوتی ہے۔ مجھ پر یہ روز روشن کی طرح واضح ہے کہ یہ بیانات محمد ﷺ پر اللہ کی طرف سے القا ہوئے ہوں گے، کیوں کہ یہ تمام علم کئی صدیاں بعد دریافت ہوا۔ اس سے میرے نزدیک ثابت ہوتا ہے کہ محمد ﷺ اللہ کے پیغمبر ہیں۔‘‘
اس کے بعد ان سے سوال پوچھا گیا کہ ’’کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم اللہ کا کلام ہے؟‘‘۔ انھوں نے جواب دیا:’’یہ حقیقت تسلیم کرنے میں مجھے کوئی مشکل پیش نہیں آتی‘‘۔ ایک اور کانفرنس کے دوران میں انھوں نے کہا: ’’بیسویں صدی تک انسانی جنین کے مراحل اور اُن کی درجہ بندی کے بارے میں بہت کم معلومات حاصل تھیں۔ اس وجہ سے قرآن میں بیان کردہ انسانی جنین کی تفصیلات ساتویں صدی کے محدود علم پر مبنی نہیں ہو سکتیں۔ اس سے ایک بدیہی نتیجہ نکلتا ہے: یہ تفصیلات اللہ نے محمدﷺ پر وحی کی تھیں اور آپ ﷺ کو اس بات سے پہلے ان کا علم نہ تھا، کیوں کہ آپ اُمّی تھے اور آپ نے کوئی سائنسی تربیت نہ لی تھی‘‘۔ [تلخیص ماخوذ از: اسلام کی سچائی اور سائنس کے اعترافات: ۴۵۔۴۸]
پانچواں وچھٹا مرحلہ:
ہڈی اور گوشت کا بننا: اللہ جل شانہ کا فرمان ہے:
فخلقنا المضغۃ عظاماً فکسونا العظام لحماً(پھر اس ٹکڑے سے ہڈیاں پیدا کیں، پھر اُن ہڈیوں پر گوشت چڑھایا)
آج علم الجنین کی جدید تحقیقات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہڈیوں اور پٹھوں کی ابتدائی تشکیل پچیسویں سے چالیسویں دن کے درمیان ہوتی ہے اور بظاہر ایک ڈھانچے کی صورت نظر آنا شروع ہو جاتی ہے، لیکن پٹھوں یعنی گوشت کی تشکیل مکمل نہیں ہوئی ہوتی۔ یہ ساتویں اور آٹھویں ہفتے میں مکمل ہوتی ہے، جب کہ ہڈیاں بیالیسویں دن تک مکمل ہو چکی ہوتی ہیں، ڈھانچہ بن چکا ہوتا ہے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ قرآن کریم کی ترتیب، علقہ، پھر مضغہ، پھر عظاماً اور پھر لحماً بالکل درست ہے۔
امریکی شہر ہیوسٹن کے بیلر کالج آف میڈیسن کے صدر شعبہ حمل وزچگی ڈاکٹر جوئے سمپیسن کہتے ہیں کہ ’’یہ احادیث یعنی محمد ﷺ کے ارشادات اس دور کے سائنسی علم کی بنیاد پر ہو ہی نہیں سکتے، جس دور (ساتویں صدی عیسوی) میں یہ تحریر کی گئیں۔ ان احادیث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ علم توالد وتناسل اور مذہب (اسلام) میں کوئی تضاد نہیں، بلکہ در حقیقت اسلام تو وحی کے ذریعے سے روایتی سائنسی نظریات کی رہنمائی کر سکتا ہے۔ قرآن مجید میں ایسے بیانات موجود ہیں، جو صدیوں بعد سچ ثابت ہوئے ہیں، جس سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ قرآن اللہ کی نازل کردہ کتاب ہے‘‘۔[قرآن اور جدید سائنس: ۷۵]
اور پروفیسر مارشل جانسن صف اول کے امریکی سائنس داں ہیں۔ وہ تھامس جیفرسن یونیورسٹی فلاڈیلفیا کے ڈینیل انسٹی ٹیوٹ کے صدر اور شعبہ علم الاعضاء کے ڈائریکٹر ہیں۔ انھیں قرآن حکیم کی علم جنینیات کے متعلق آیات پر تبصرہ کرنے کے لیے کہا گیا۔ انھوں نے کہا کہ قرآن مجید میں جنین کے مراحل کا بیان حیرت کی بات نہیں، کیوں کہ ممکن ہے کہ پیغمبر محمد (ﷺ) کے پاس طاقت ور خردبین ہو۔ انھیں یاد دلایا گیا کہ قرآن مجید چودہ سو سال قبل نازل ہوا، جب کہ خردبین اس کے کئی سو سال بعد ایجاد ہوئی۔ اس بات پر انھوں نے مسکراتے ہوئے اعتراف کیا کہ پہلی خردبین متعلقہ چیز کو دس گنا بڑا کر کے دکھا سکتی تھی اور اس کی تصویر بھی واضح نہیں ہوتی تھی۔ بعد ازاں انھوں نے کہا: ’’مجھے اس بات میں کوئی تضاد نظر نہیں آتا کہ محمد(ﷺ) کسی الہامی حکم سے قرآن مجید کی تلاوت فرماتے تھے‘‘۔ [قرآن اور جدید سائنس: ۸۷]
قرآن مجید میں انسانی جنین کی مرحلہ وار تخلیق کی جو تفصیل دی گئی ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ تخلیق ایک ایسی قوت کے ہاتھوں عمل میں آتی ہے جو اس کی جزئیات تک سے واقف ہے۔ ظاہر ہے وہ قوت، وہ منبع حیات ذات باری تعالیٰ ہے، جس نے اپنے پاکیزہ کلام میں چودہ صدیاں پہلے وہ دقیق طبی حقائق اشارتاً بیان کر دیے، جو بنی نوع انسان پر حال ہی میں آشکار ہوئے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن فی الحقیقت اللہ کا کلام ہے۔ [اسلام کی سچائی اور سائنس کے اعترافات: ۵۳]
اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن کریم کے دقائق پر غور کرنے اور باریکیوں کو سمجھنے اور ایمان واعتقاد کو مزید مستحکم کرنے کی توفیق بخشے، آمین!
ماشاءاللہ