بردرس کی دعوت کے متعلق جب بھی بات کی جاتی ہے ایک اشکال یا اعتراض ضرور پیش کیا جاتا ہے کہ علما کی کوتاہیوں کی وجہ سے انھیں میدان میں اترنا پڑا ہے۔ اگر علما نے دعوتی میدان ٹھیک سے سنبھالا ہوتا تو ان کو میدان میں اترنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔
میرے خیال سے یہ بالکل بے جا اور بے بنیاد اعتراض ہے، جس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں۔
در حقیقت ایسےنا اہل دعات ہر زمانے میں موجود رہے ہیں، خیر القرون سے لے کر دور حاضر تک ہر زمانے میں۔ میں نے ”بردرس کی دعوت: رحمت یا زحمت؟“ والے مضمون میں تابعین وتبع تابعین کے بہت سارے آثار پیش کیے ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ خیر القرون میں بھی ان کی تعداد کوئی کم نہیں تھی۔ بلکہ مرکز علم مدینہ طیبہ کے اندر ہی ایسے سینکڑوں لوگ موجود تھے جو کسی استاد سے علم حاصل نہ کرنے کے باوجود علم کی نشر واشاعت میں مشغول تھے۔ بلکہ اس سے بڑھ کر کچھ تو ایسے بھی آئے جنھوں نے نبوت کا ہی دعوی ٹھونک دیا۔
اس کا یہ مطلب قطعی نہیں کہ علما کی کمزوری ولاپرواہی کے نتیجے میں انھیں میدان میں اترنا پڑا تھا۔ اگر بردرس کا وجود علما کی کوتاہیوں کا نتیجہ ہوتا تو کم از کم خیر القرون میں یہ ناپید ہوتے۔ لیکن در حقیقت کوتاہی یا جگہ خالی چھوڑنے کا مسئلہ ہی نہیں ہے۔ شیطان ایسے لوگوں کو دین کے نام پر بہکانے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور پبلک کو تو بہرحال ہر دلفریب چیز اچھی لگتی ہے۔ نیز ان کے پاس ہر سوال کا فوری جواب بھی انھیں مل جاتا ہے، چاہے وہ شریعت کے موافق ہو یا نہ ہو عقل کے موافق ہونا چاہیے۔
اس میں شک نہیں کہ مزید بہتری کی گنجائش ہر جگہ موجود ہے۔ لیکن یہ کہنا کہ یہ علما کی لاپرواہی کا نتیجہ ہے صحیح نہیں۔ کیا انبیا کے متعلق بھی کوئی کہےگا کہ انھوں نے اپنی ذمہ داری صحیح طریقے سے نہیں نبھائی اس لیے دوسروں کو میدان سنبھالنا پڑا؟ نعوذ باللہ من ذلک۔
کیا سلف صالحین کے بارے بھی کوئی یہ کہےگا؟
یقین جانیں آج بھی اگر علما دعوتی میدان میں اپنا سب کچھ نچھاور کر دیں پھر بھی ایسے نا اہل دعات اپنی غیر محمود کوشش کرتے رہیں گے۔آج بھی ملک کی ہزاروں مساجد ومدارس میں علمائے کرام اور طلبۂ علم ہی دعوتی فرائض انجام دے رہے ہیں اور لوگوں کو دین کی تعلیمات سے روشناس کرا رہے ہیں، بردرس نہیں۔بلکہ بردرس کی پونجی علما کی تقاریر یا تصنیفات ہی ہیں جنھیں سُن اورپڑھ کر یہ اپنے آپ کو عالم ومفتی سمجھے ہوئے ہیں۔
نیز یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ دعوت صرف تقریر کرنے کا نام نہیں ہے۔ اگر دعوت کو تقریر کرنے کے ساتھ محصور کر دیا گیا تو سلف صالحین میں ہمیں چراغ لے کر دعات ڈھونڈنے پڑیں گے۔ بلکہ آج بھی عرب ممالک میں ہمیں کوئی داعی نظر نہیں آئےگا۔ حقیقت یہ ہے کہ دعوت کا مفہوم اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ ایک مدرس بھی داعی ہے بلکہ بہت بڑا داعی ہے، اسی طرح ایک مصنف بھی اور ایک محقق بھی۔ وھلم جرا۔
اور الحمد للہ اپنی اپنی صلاحیت کے حساب سے آج بھی ہمارے علما دعوت کے ان مختلف میدانوں میں اس فریضہ کو بحسن وخوبی انجام دے رہے ہیں۔
لہذا یہ کہنا کہ علما کی کوتاہیوں کی وجہ سے بردرس کو دعوتی میدان سنبھالنا پڑا ہے بالکل بے بنیاد بات ہے۔
مزید وضاحت کے لیےایک مثال پیش کرتا ہوں:
مشرقی شمال ہند کے ایک جلسے کا حال سنیں۔ اسٹیج پر ممتاز علما کی ایک جماعت موجود تھی۔ ہندوستانی وسعودی جامعات کے فضلاء اور بعض شیوخ الحدیث بھی موجود تھے۔ ساتھ میں ایک انٹرنیشنل برادر بھی موجود تھے جن کی علمی حالت یہ ہے کہ قرآن کریم تک نہیں پڑھ سکتے۔ (ایک خطبہ جمعہ میں خطبۃ الحاجہ میں پڑھی جانے والی آیتوں کو براہ راست اپنے کانوں سے سننے کے بعد میرا یہ تجزیہ ہے، موصوف کو حروف تہجی پہچاننے اور زبر و زیر فرق کرنے میں کافی دشواری ہو رہی تھی اور حروف وحرکات میں متعدد غلطیاں کر رہے تھے) بعض غیر عربی کتب اور علما کے دروس ان کی کل پونجی ہے، لیکن احناف پر گرجنے وبرسنے میں ماہر ہیں، مناظرہ کے لیے تیار رہتے ہیں۔ علمائے احناف کو فون کرکے ان سے بحثیں کرتے ہیں اور انھیں ریکارڈ کرکے نشر کرتے ہیں۔ اجلاس کے آخر میں سوال وجواب کی نشست تھی، منتظمین جلسہ نے بطور مفتی علما کو چھوڑ کر انھیں مسند افتا پر بٹھایا اور موصوف بصد شوق فتوے دینے لگے۔
اگر یہ اعتراض صحیح ہے تو انھیں فورا انکار کر دینا چاہیے تھا کہ ان ممتاز علما کے سامنے میں جاہل فتوی دینے والا کون ہوتا ہوں۔ لیکن جیسا کہ میں نے کہا اصل مسئلہ یہ ہے ہی نہیں۔
آج کتنے ایسے بردرس ہیں جو صرف تقریر کے میدان میں ہی نہیں بلکہ مختلف فیہ دینی مسائل پر تصنیف وتالیف کے میدان میں بھی زور آزمائی کر رہے ہیں۔ بلکہ ایک جماعت کو تو آج کل احادیث پر صحت وضعف کا حکم لگانےکا جنون سوار ہے۔ علم حدیث کتنا مشکل فن ہے یہ کسی سے مخفی نہیں۔ اس کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ مدارس اسلامیہ کے اکثر فارغین احادیث پر حکم لگانے کی ہمت نہیں کر پاتے، لیکن یہ بردرس اسے بچوں کا کھیل سمجھتے ہیں اور اپنی طفلانہ کوششوں سے مگن رہتے ہیں۔ ایک برادر نے تو یہ کہہ کر حد ہی کر دی کہ وہ سنن ابی داود کی تحقیق کر رہے ہیں، حالانکہ ان احادیث کو دیکھ کر پڑھنے کی بھی ان کی صلاحیت نہیں۔
کیا ان میدانوں میں علمائے کرام اور طلبۂ علم اپنی خدمات انجام نہیں دے رہے اس لیے بردرس کو یہ خلا پر کرنا پڑ رہا ہے؟
اس لیے براہ کرم علما کو مورد الزام نہ ٹھہرائیں کہ ان کے میدان چھوڑ دینے کی وجہ سے ان بردرس کو میدان سنبھالنے کی ضرورت پڑی۔ ہاں بعض علما سے ایک کوتاہی ہوئی ہے وہ یہ کہ جب انھوں نے اپنی دعوت کی شروعات کی تھی اسی وقت انھیں اس میدان سے دور رہنے کی نصیحت کرنی چاہیے تھی، نہ کہ وہ ان کی حوصلہ افزائی کرتے اور انھیں اسٹیج مہیا کرتے۔
لیکن ان سے حسن ظن یہ ہے کہ اس وقت انھیں اس خطرناکی کا احساس نہیں تھا۔ اور جب یہ احساس پیدا ہوا تو پانی سر سے اوپر جا چکا تھا۔ اگر سلف صالحین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسی وقت انھیں روکا جاتا، عوام کو ان کی گمراہیوں سے آگاہ کیا جاتا اور ان سے دور رہنے کی تلقین کی جاتی تو ان شاء اللہ آج صورت حال دوسری ہوتی۔
لیکن اگر کوئی یہ سوچ رہا ہے کہ اُس صورت میں بردرس کا وجود نہ ہوتا تو یہ بہت بڑی خوش فہمی ہے۔ انھیں اپنی سوچ پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔
ماشاء الله تبارك الله
جزاك الله خيرا وبارك الله فيك
آمین
شکریہ شیخ
جزاکم اللہ خیرا
ماشاء الله!!
جس تیزی سے برادرس کا فتنہ آگے بڑھ رہا ہے کہ کہیں لوگ آگے چل کر دینی مدارس میں حدیث کی کتابوں کی تدریس کی ذمہ داری بھی انہی کو نہ دے!!
ضروری ہے کہ انکی حقیقت سے لوگوں کو آشنا کریا جائے!!
تقبل الله جهودكم، وجعلكم الله نافعاً للأمة!!
آمین
جی، آپ نے صحیح فرمایا
شکریہ
بارک اللہ فیکم
آپ کی تحریروں سے اثر لےکر آج ایک بردر کی ویڈیو ریکارڈنگ سننا شروع کیا تو وہ آیت جو تقریر کا نقطۂ آغاز تھی اس کو ہی غلط پڑھ دیا،طبعیت اچاٹ ہوگئی لیکن دل پر جبر کرکے سنا تو زیادہ دیر تک سنا نہیں گیا۔ کیسے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ بردر کا عروج علماء کی کوتاہی کا نتیجہ ہے،یہ علماء پر الزام ہے،علم دین کی وہ کونسی فیلڈ ہےجس میں علماء نے کاررہائے نمایاں نہ انجام دیے ہوں اور داد تحقیق نہ دی ہو،ان کی خدمات ومآثر نہ ہوں،تقریبا ہر میدان میں علماء کی کاوشیں جاری وساری ہیں۔… Read more »
بارك الله فيك
🌹 🌹
ماشاء اللہ
بہت عمدہ تجزیہ رہا آپ کا
اللہ تعالیٰ جزاے خير سے نوازے
اللہ رب العزت ہم سب کی حق کی طرف رہنمائی فرمائے اور ہمیں گمراہ ہونے سے بچائے آمین۔
ربنا لا تزغ قلوبنا بعد إذ هديتنا وهب لنا من لدنك رحمة إنك أنت الوهاب