دنیوی زندگی کے اعتبار سے انسانی وجود کے لیے غذا اور روزی سب سے اہم ضرورت ہے جس کے بغیر زندگی کا تصور ناممکن ہے۔ لہذا انسانی وجود کے مختلف مراحل کا اس اعتبار سے جائزہ اور اس کے مثبت نتائج سے دنیوی زندگی میں فائدہ اٹھانے کے لیے جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو پہلے مرحلہ میں انسان کے وجود و بقا کی شکلوں اور دیگر ضروریات کی تکمیل کی کوئی تفصیل قرآن، احادیث اور صحیح ذرائع سے نہیں ملتی۔
انسانی وجود کے ابتدائی مرحلہ کے بارے میں یہ اندازہ ضرور ہوتا ہے کہ چاہے جتنے دنوں بعد وہ اگلے مرحلہ میں منتقل ہو لیکن اللہ تبارک و تعالی اسے باقی اور محفوظ رکھتے ہیں اور اس کے وجود و بقا کو دوسرے مرحلہ میں ماں کے پیٹ میں حمل کی شکل میں منتقل فرماتے ہیں، جہاں وہ کم سے کم ۶مہینے اور عام طور پر۹ مہینے رہتا ہے۔ اور اس دوسرے مرحلہ میں اللہ تعالی نے اس کی غذا کا جو انتظام کیا وہ حیرت انگیز بھی ہے اور اس پر غور و فکر سے دنیوی زندگی میں غذائیت کے تعلق سے اللہ تعالیٰ پر یقین و ایمان میں زبردست اضافہ ہوتا ہے۔
اسی لیے اللہ تبارک وتعالی نے انسانی وجود کے تیسرے مرحلہ دنیوی زندگی (جس میں اس کو اپنی روزی کے انتظام کا کسی قدر پابند کیا گیا اور اس میں بھی حلال و حرام کے لحاظ کی تاکید کی گئی) میں رزق کے تعلق سے قرآن وحدیث کی واضح ہدایات پر عمل ہی انسان کی غذا کا بہترین اور واحد علاج اور حل ہے۔
لہذا اللہ تعالی نے اپنی اہم ترین صفت رزاقیت کے تعلق سے انسان کو پوری طرح آگاہ کیا اور اس کے لیے مبالغہ کا صیغہ استعمال کرتے ہوئے مزید اپنی قوت و استحکام کا تذکرہ کرکے اس کو اور واضح فرماکر اس پر اعتماد کی دعوت دی:
إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ (الذاريات:۵۸)الله ہی رزق دینے والا،طاقتور اور مضبوط ہے۔
اللہ نے یہ بھی واضح کردیا کہ زمین پر موجود تمام جانداروں کی روزی بس اللہ کے ذمے ہے اور اسے ہی اس رزق کے ٹھکانوں اور اس کے ذخیروں کی مکمل جانکاری ہے:
وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا ۚ كُلٌّ فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ(هود:۶)اور زمین پر کوئی چلنے پھرنے والا نہیں مگر اس کا رزق الله کے ذمہ ہے وہ اس کے ٹھکانوں اور خزانوں کو بھی جانتا ہے یہ سب واضح کتاب میں ہے۔
اسی لیے بہت سےجاندار اپنی روزی کوجمع اور زخیرہ کرنے کی فکر نہیں کرتے پھر بھی اللہ انھیں رزق فراہم کرتا ہے:
وَكَأَيِّن مِّن دَابَّةٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَهَا اللَّهُ يَرْزُقُهَا وَإِيَّاكُمْ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ التعليم (العنكبوت:۶۰)اور بہت سے جانور ایسے ہیں جو اپنا رزق اُٹھائے نہیں پھرتے اللہ ہی ان کواور تم کو بھی رزق دیتا ہے ۔ اور وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی حقیقت کے پیش نظر انسانوں کو ان پرندوں کی طرح توکل اور بھروسہ کی تعلیم دی جو خالی پیٹ ہر صبح اپنی روزی کی تلاش میں اپنے گھونسلوں سے نکلتے ہیں اور شام کو اللہ کے فضل سے شکم سیر ہو کر واپس آتے ہیں:
لو أنَّكُمْ تَتَوكَّلُونَ علَى اللهِ حقَّ توكُّله لرزقَكم كما يرْزقُ الطَّيرَ، تغدوا خِماصًا وتَرُوحُ بِطانًا (الترمذی)اگر تم لوگ اللہ پر بھروسہ کا حق ادا کرتے ہوئے اعتماد کرو تو وہ صبح خالی پیٹ نکلنے اور شام کو شکم سیر واپسی کرنے والے پرندوں کی طرح روزی سے مالامال کردے گا۔
اللہ تعالی نے بھی رزق، مال و دولت کی فراوانی اور کثرت کو بھلائی اور خیر وبرکت سمجھنے کو کم فہمی اور ناسمجھی قرار دیا ہے:
أَيَحْسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدُّهُم بِهِ مِن مَّالٍ وَبَنِينَ نُسَارِعُ لَهُمْ فِي الْخَيْرَاتِ ۚ بَل لَّا يَشْعُرُونَ (المؤمنون:۵۵-۵۶)کیا لوگ سمجھتے ہیں کہ دنیا میں ہم ان کو جن مال اور بیٹوں کو بطور مدد دیتے ہیں تو یہ ہم ان کی جلدی بھلائی کی وجہ سے کررہے ہیں (نہیں) بلکہ یہ سمجھتے ہی نہیں۔
رزق میں برکت و کشادگی اور تنگی و پریشانی اللہ کا خالص اپنا فیصلہ اور اختیار ہے:
قُلْ إِنَّ رَبِّي يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ لَهُ(سبا:۳۹) کہہ دو کہ میرا رب بندوں میں سے جس کے لیے چاہتا ہے روزی میں کشادگی کرتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگی کردیتا ہے۔
کیونکہ وہ عالم الغیب اور تمام حقائق یہاں تک کہ انسانی فطرت اور الگ الگ افراد کی ذہنیت ہی نہیں بلکہ کس کے حق میں رزق کی کشادگی و فراوانی خیر اور کس کے حق میں شر اور نقصان دہ یا گھمنڈ و تکبر اور بے راہروی کا ذریعہ ہے ان تمام تفصیلات سے بخوبی واقف ہے:
وَلَوْ بَسَطَ اللَّهُ الرِّزْقَ لِعِبَادِهِ لَبَغَوْا فِي الْأَرْضِ وَلَٰكِن يُنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَّا يَشَاءُ (الشورى:۲۷) اور اگر اللہ اپنے بندوں کو رزق میں فراخی دیتا تو وہ زمین میں فساد کرنے لگتے۔ لیکن وہ جو چیز چاہتا ہے اندازے کے ساتھ نازل کرتا ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالی نے رزق میں کشادگی کے لیے کہیں ایمان و تقویٰ کی جانب توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیااور فرمایا:
و لَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَىٰ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ (اعراف:۹۶) اوراگر بستی والے ایمان لے آتے اور پرہیزگار ہوجاتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتیں کھول دیتے۔
تو کہیں استغفار اور اللہ سے لو لگانے کی تاکید فرمائی:
فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا، يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُم مِّدْرَارًا، وَيُمْدِدْكُم بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَل لَّكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَل لَّكُمْ أَنْهَارًا(نوح:۱۰-۱۲) کہ اپنے پروردگار سے معافی مانگو وہ بڑا معاف کرنے والا ہے وہ تم پر آسمان سے لگاتار بارش برسائے گا اور مال اور اولاد سے تمھاری مدد فرمائے گا اور تمھیں باغ عطا کرے گا اور تمھارے لیے نہریں جاری کر دے گا۔
انسانی وجود کے اس تیسرے مرحلہ کے لیے قرآن اور صحیح احادیث کی روشنی میں انسان کی سب سے بڑی ضرورت رزق اور روزی کے تعلق سے یہ اسلامی تعلیمات اور ہدایات ہیں۔ لیکن شاید کسی کو یہ غیر عملی اور صرف نظریاتی لگے لیکن سوال اٹھتا ہے کہ آخر ایسا کیوں؟خاص طور پر انسانی وجود کے دوسرے مرحلہ جس میں انسان ماں کے پیٹ میں، لاچار و بے بس، نہ اپنی غذائی ضرورتوں کے لیے حرکت کرسکتا ہے اور نہ سانس کے لیے آکسیجن کی کوئی تدبیر کر سکتا ہے۔ اس کے باوجود اللہ تعالی اس کی غذائی اور آکسیجن کی ضرورت کو پورا فرماکر اسے محفوظ طور پر اس کے وجود کے تیسرے مرحلہ دنیوی مرحلہ میں منتقل فرمایا۔ تو آئیے غور کریں اور جائزہ لیں کہ اللہ اس دوسرے مرحلہ میں انسان کی غذائی ضرورتوں کو کیسے پورا فرماتے ہیں۔
نظام حیض غذا کا ایک انمول ذریعہ:
انسانی وجود کے دوسرے مرحلہ یعنی ماں کے پیٹ میں بچہ کی غذا کا الہی نظام نہایت حیرت انگیز اور اللہ کی قدرت کا عظیم شاہکار ہے۔ ماں کے پیٹ میں بچہ کے قرارپانے، اس کی نشو نما، پرورش، اس مرحلہ کی غذائی ضرورت اور بعض دیگر مقاصد کے پیش نظر اللہ نے خواتین کو ماہواری و حیض کے امتیازی، نہایت دقیق و حساس اور عظیم نظام سے منسلک کیا۔
مرد و عورت کے بلوغ کے بعد جب مرد کا نطفہ عورت کے رحم میں انڈوں سے ملتا ہے تو حمل قرار پاتا ہے اور اس طرح انسانی وجود کے دوسرے مرحلہ کی شروعات ہوتی ہے۔اس مرحلہ میں بچہ کی غذا کا انتظام ماں کے ماہواری نظام کے ذریعہ کیا گیا۔
اللہ کی طرف سے بچہ کی ماں کے رحم میں قرار پانے کے امکان اور غذائی ضرورت کے مد نظر بلوغ کے ساتھ ہی عورت کے جسم میں اس اضافی خون کی پیدائش شروع کردی جاتی ہے جو دوسرے مرحلہ میں بچہ کی غذا کا ذریعہ بن سکے، لیکن اگر حمل قرار نہ پائے تو ہر مہینہ اللہ تعالیٰ اس زائد خون کو باہر نکال دیتے ہیں۔ لیکن اس اضافی خون کی پیدائش کا ماہانہ نظام جاری و ساری رہتا ہے تاکہ جب بھی اس کی ضرورت پڑے وہ موجود رہے۔اور جب تک ضرورت نہیں ہوتی ہر مہینہ خون کی نکاسی کا یہ نظام چلتا رہتا ہے۔
بچہ جب ماں کے پیٹ میں حمل کی شکل میں اپنے وجود کے دوسرے مرحلہ میں قدم رکھتا ہے تو ہر ماہ بننے والا یہ خون اس کی غذائی اور آکسیجن کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے اور اسی وجہ سے عام حالات میں ایام حمل میں ماہواری کا نظام موقوف ہوجاتا ہے۔
کم سے کم ۶ مہینے اور عام طور پر ۹ مہینے کے بعد جب بچہ کی پیدائش ہوتی ہے تو گذشتہ مہینوں میں بچہ کی غذائی اور آکسیجن ضرورت کے لیے بننے والے خون کی ضرورت ختم ہونے کی وجہ سے اب بڑی مقدار میں رہ جانے والا اضافی خون عام طور پر زیادہ سے زیادہ چالیس دن تک باہر آتا رہتا ہے۔
بچہ کی پیدائش کے بعد بڑی مقدار میں
نفاس کی شکل میں اضافی خون کے اخراج کے بعد بچہ کے وجود کے تیسرے مرحلہ کی ابتدائی غذائی ضرورت ماں کے دودھ سے پوری ہوتی ہے۔ لہذا اس مرحلہ میں ماں کے رحم میں بننے والا خون کچھ خاص ہارمونس سے مل کر دودھ کی پیدائش کا ذریعہ بنتا ہے۔ اور بچہ جس قدر اپنی غذائی ضرورت ماں کے دودھ سے پورا کرتا ہے اسی کے بقدر پیدائش کے بعد عام طور پر ۶ ماہ بھی ماں کا ماہواری نظام موقوف اور متاثر ہو تا ہے ۔ اور اس طرح ماہواری اور حیض کا نظام دوسرے اور تیسرے مرحلہ کے ابتدائی ایام میں بچہ کی غذا اور آکسیجن کی فراہمی کا سبب بنتا ہے۔
جب اللہ تعالی نے انسانی وجود کے دوسرے مرحلہ ماں کے پیٹ میں اور تیسرے مرحلہ یعنی دنیوی زندگی کے ابتدائی دنوں ایام رضاعت میں ہر طرح کی بے بسی لاچارگی اور قدرت و طاقت کے بغیر اس کی غذائی اور آکسیجن کی ضرورتوں کا انتظام کیا، بھوکا نہیں رکھا۔ تو دنیوی زندگی میں رزق کے تعلق سے اللہ نے جو نظام دیا اس پر ہمیں عمل کرنے اور اس کی تعلیمات کے مطابق حلال وحرام کی پابندی کرتے ہوئے زندگی گزارنےکی کوشش کرنی چاہیے۔
اس سلسلہ میں حضرت جابر بن عبداللہ کی حدیث کو واضح طور پر سمجھنے اور اس کے مطابق اپنی زندگی ڈھالنے کی ضرورت ہے۔جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إنَّ أحدَكم لن يموتَ حتى يستوْفِيَ رْزقَهُ ، فاتَّقوا اللهَ وأَجْمِلوا في الطَّلبِ ، خُذوا ما حَلَّ ، ودَعوا ما حَرُمَ کہ تم میں سے کسی کی موت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک اسے پوری روزی نہ مل جائے لہذا اللہ سے ڈرو اور اچھے انداز میں روزی تلاش کرو، حلال اختیار کرو اور حرام سے بچو۔ (ابن عبد البر فى الاستذكار)
آپ کے تبصرے