ناری سشکتی کرن

ابوالمرجان فیضی سماجیات

سماج میں عورت کی ضرورت اور اہمیت مسلم ہے ۔اگر یہ نہ ہو تو گھر گھرنہ رہے ۔معاشرے کی تشکیل نہ ہو ۔ گھر میں اور سماج میں کوئی ‏کشش محسوس نہ ہو۔ سچ ہے؎ ‏
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ ‏
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
عورت کے کئی روپ ہیں لیکن اس کے دو رنگ ایسے ہیں جن کو دیکھنے کی تمنا پوری کائنات کرتی ہے۔ ایک روپ ہے ماں کا اور دوسرا ہے ‏بیوی کا ۔یہ دونوں رنگ آپس میں لازم وملزوم ہیں۔اگر عورت بیوی نہ بنے تو ماں کیسے بن سکتی ہے؟ اس لیے عورت کے ان دو رنگوں کی ‏جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ اسلام نے اسی لیے ماں کا درجہ باپ سے زیادہ رکھا ہے ۔اور بیوی کے روپ میں ان سے اچھا برتاؤ کرنے کا ‏حکم دیا ہے۔ ‏
ماں کے روپ میں عورت کو بہت سارے اختیارات مل جاتے ہیں ۔اور وہ کئی قسم کے مظالم سے محفوظ ہوجاتی ہے ۔لیکن بیوی کی شکل میں ‏اس کے استحصال کی کہانی بہت لمبی ہے ۔جو درد یہ جھیلتی ہے اس کو ایک ایک کرکے گنانے کی ضرورت ہے ۔لیکن یہ جان لیجیے کہ اس کا ‏اصلی سبب ہے اس کی کمزوری ۔اور جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات ہوا کرتی ہے؎
تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے ‏
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات ‏
مسائل کی اصلی وجہ عورتوں کی کمزوری ہے۔ان کو طاقتور بناؤ۔مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے۔
عورت کے مظلومیت کی داستان بہت طویل ہے ۔اس لیے آج ‏ صرف بیوی کے رنگ کو بیان کرتے ہیں۔پیدائش ہی سے یہ تسلیم کرلیا ‏جاتا ہے کہ لڑکی پرایا دھن ہے ۔شادی کرکے دوسرے کے گھر بھیج دینا ہے ۔کیوں بھائی ! یہ پرایا دھن کیسے ہے۔اسلام نے اسے وراثت ‏میں حق دیا ہے۔اسے اس کا حق دو ۔یہ آپ کے گھر میں رہ سکتی ہے ۔اسی طرح اس کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیجیے تاکہ یہ اپنے حقوق ‏سے آگاہ رہے ۔ کھانے کپڑے اور دیگر حقوق میں بھی بیٹوں سے اس کا درجہ کم نہیں ہے ۔اس کے ساتھ مساوی سلوک کیجیے۔
آگے چل کر بیٹیوں کی شادی کا مسئلہ آتا ہے ۔ بر صغیر میں جہیز نامی بھوت اپنی بھیانک شکل اس طرح دکھاتا ہے کہ باپ اس کے پیدا ‏ہوتے ہی جہیز کی فکر کرنے لگتا ہے ۔ بیٹیوں سے شدید محبت کے باوجود والدین کو یہ بوجھ لگنے لگتی ہیں ۔ جس کے گھر کئی بیٹیاں پیدا ‏ہوگئیں اس کا اقتصادی اور سماجی توازن ایسا بگڑتا ہے کہ اسے سدھارنے کے لیے دو تین نسلیں درکار ہوتی ہیں۔
جہیز:
شادی اوررخصتی کے وقت لڑکے کے والدین یا بھائیوں کی طرف سے جو سازوسامان دیا جاتا ہے اسے جہیز کہتے ہیں۔‏
یوں تو کوئی اجنبی مہمان بھی جب کسی دوست یا رشتہ دار کے یہاں وارد ہوتا ہے تو وہ بھی کچھ پھل فروٹس اور مٹھائیاں لے کر جاتا ہے ۔ ‏بچیوں کو جب ہم ہاسٹل میں رہنے کے لیے بھیجتے ہیں تو ضرورت کا سامان دے کر بھیجتے ہیں۔اس طرح عام ضرورت کی چیزیں جس کی ‏استطاعت والدین کو ہوتی ہےیہ سب بطور تحفہ ‏ اپنی بیٹی کو لوگ شادی میں دیتے ہی ہیں۔مسئلہ یہ نہیں ہے۔ مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے ‏جب سماج میں بیٹی کو دینے کا ایسا معیار قائم ہوجاتا ہے جو مالی حالت کے مختلف ہونے کی وجہ سے سارے والدین اس کی طاقت نہیں ‏رکھتے ۔اور کریلے پر نیم چڑھا اس وقت ہوجاتا ہے جب لڑکے والے اسی شرط پر شادی کے لیے تیار ہوتے ہیں کہ آپ پانچ لاکھ نقدی ‏دیں یا گاڑی اور گھر یا اتنے وزن کا سونا یا چاندی دیں۔پھر یہاں سے وہ المیہ صورتحال پیدا ہوتی ہے جو جنون،ارتداد اور خود کشی کو جنم دیتی ‏ہے۔مزید یہ کہ داماد اس طرح کا رویہ اپناتے ہیں کہ ان کو مفلس والد بھی کچھ نہ کچھ دینے پر مجبور ہوجاتاہےبیٹی کے لیے ۔اس کے ‏اوپر یہ بیٹیاں نئے گھر میں ظالموں کے بیچ اتنا خوفزدہ ہوجاتی ہیں کہ باپ کی حالت جاننے کے باجود روکر گڑگڑا کر کچھ نہ کچھ ہمیشہ لے ‏جانے کی کوشش میں لگی رہتی ہیں۔
مال و اسباب میں لوگ ایک دوسرے سے کم اور زیادہ ہیں۔اور یہ فطری ہے ۔اسی طرح بیٹی اور بیٹا پیدا ہونے کا عمل بھی قدرتی ہے۔تو کیا ‏جو جہیز دینے میں سماج یا داماد کے تقاضے پورے نہ کرسکے اس کی بیٹی کی شادی نہ ہو؟یا پھر وہ زندگی بھر کی کمائی بیٹی کی شادی میں لگا کر ‏قلاش ہوجائے ؟یا قرض لے کر بیٹی کی شادی کرے اور باقی عمر قرض کی ادائیگی میں گزارے ؟
یہ صورتحال رواج ،سماج اور داماد کے مطالبے سے پیدا ہوتی ہے۔اور اس کو رواج دینے والے، اسے بڑھانے والے مالدار لوگ ہوتے ‏ہیں۔اس لیے ان سے کہاجائے گا کہ آپ اس سے باز آجائیں۔کیونکہ یہ امت اور امومت دونوں کے لیے خطرناک ثابت ہوگا۔
سوال بیٹی کی زندگی کا ہے اس لیے باپ کے پاس جب تک کچھ رہے گا وہ دینے کی کوشش کرے گا۔یعنی اس رسم بد کو مانگنے والے ہی اسے ‏بند کرسکتے ہیں۔ خصوصا مالدار لوگ۔اگر مفلس دینے سے انکار کرے گا تو اسے مفلسی کا طعنہ ملے گا۔لیکن اصحاب ثروت یہ کام ایک ‏تحریک اور دینی کاز سمجھ کر کریں گے تو ان کے اخلاص پر محمول کیا جائے گا۔
مالداروں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ سیاحت اور پکنک میں لاکھوں خرچ کردیتے ہیں۔مختلف قسم کی پارٹیاں دیتے ہیں اور اس میں لٹاتے ہیں۔بیٹی ‏کی شادی بھی ان کے نزدیک کسی پارٹی سے کم نہیں ۔وہ اس میں بھی دل کھول کر خرچ کرنا چاہتے ہیں۔بیٹی کی آسائش کے ساتھ ساتھ نام و ‏نمود بھی اس کا حصہ بن جاتی ہےاور پھر اولولعزمی کی وہ داستان رقم ہوتی ہے کہ اللہ کی پناہ ! جہیز میں ہر سال کچھ نیا اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے ‏۔وہ کہتے ہیں ہمارا مال ہے ۔ہم اپنی بیٹی کو دے رہے ہیں۔کسی کا کیا جاتا ہے ؟یہ سچ ہے کہ آپ کا مال ہے اور آپ اپنی بیٹی کو دے رہے ‏ہیں۔لیکن اس سے بہت سی بیٹیوں کی شادی میں رکاوٹیں آتی ہیں۔ ان کو طعنے سننے پڑتے ہیں۔ طلاقیں ہوتی ہیں۔مار پیٹ ہوتی ہے۔اور ‏بہت سی زندگیوں کا چراغ گل ہوجاتاہے ۔گویا آپ کی شاہ خرچی دوسروں کے لیے مصیبت کا باعث ہے۔آپ کی بیٹی جو کچھ لائی ہے وہ ‏معاشرے کے لیے رحمت نہیں بلکہ زحمت ہے ۔آپ کے پاس بیٹی کو دینے کے اور بھی قانونی راستے ہیں۔مثلا آپ اپنے بچوں کا بینک ‏بیلنس بڑھائیں۔یہ بیٹی بھی صاحب مال ہوجائے گی ۔شادی سے پہلے ہی تمام بچوں کو عدل کے ساتھ ‏ ہدیہ اور ہبہ دے کر پراپرٹی کا مالک ‏بنادیں۔وغیرہ۔اور جب دنیا سے جائیں تو ان کے لیے بہت سا میراث چھوڑ کر جائیں۔لیکن شادی میں معمولی خرچ کریں تاکہ دوسروں ‏کی بیٹیوں کی زندگی اجیرن نہ ہو ۔
وہیں لڑکے والوں کے لیے جہیز نامی چڑھاوا تکریم اور تعظیم نیز اپارچونٹی کہلاتا ہے ۔جس کو جتنا ملا اس کی اتنی ہی عزت بڑھ گئی۔آخر قیمتی ‏چیز ہی کے دام مارکیٹ میں اوپر چڑھتے ہیں۔اور لڑکے کوسیٹ بھی ہونا ہے ۔اگر سیٹ ہونے کے لیے سسرال والوں نے بشکل جہیز کچھ ‏مدد کردی تو کیا برائی ہے؟مزید لڑکی کو عمر بھر کماکر کھلانا بھی تو ہے۔اگر شادی کے وقت کچھ لے لیا تو کیا برا کیا ؟ جہیز رشوت کی طرح ہے ‏۔رشوت کے چلن کے بعد آپ کسی سرکاری آفس میں جاکر بنا کچھ دیے کام کروا سکتے ہیں ؟ جب بیوی بھی مل رہی ہے اور پیسے بھی تو کون ‏اتنا بے وقوف ہے جو صرف بیوی گھر لائے اور جہیز نہ لے ؟
بھائیو! جہیز تکریم نہیں ہے۔یہ ڈاکہ زنی ہے۔ رشوت ہے۔جس میں کبھی برکت نہیں ہوگی ۔اس تکریم میں پتہ نہیں کتنی بیٹیوں کی آہیں ‏شامل ہیں۔کتنی ماؤں کا درد اور باپ کا خون اس میں ملا ہوا ہے۔ کیا آپ کو ایسی دعوت پسند ہے جس میں کسی انسان کا خون شامل ہو ؟ عمر بھر ‏آپ فری میں نہیں کھلاتے بلکہ خدمات کے عوض کھلاتے ہیں۔آپ اور آپ کے بچوں کی خدمات کی قیمت نان و نفقہ کے چند سکوں سے ‏آپ ادا نہیں کرسکتے۔
بعض لڑکی والوں کا یہ موقف ہے کہ جو جہیز مانگتے ہیں وہ مالدار ہوتے ہیں اورجہیزپانے لائق ہوتے ہیں۔ ایک بار دے دو تو بیٹی کی ‏زندگی خوب اچھی طرح سے گزرے گی ۔جو جہیز نہیں مانگتے وہ مفلس ہوتے ہیں۔وہاں شادی کرنے کا مطلب عمر بھر تکلیف اور رونا دھونا ‏ہے۔ یہ موقف بھی غلط فہمی پر مبنی ہے ۔حالات بدلتے دیر نہیں لگتی ۔مفلس مالدار ہوجاتا ہے اور مالدار کنگال ۔آپ کس آرام کی ‏بات کرتے ہیں۔اور مالداروں کے گھر میں ادنی سی بات پر وہ سب جھیلنا پڑ سکتا ہے جس کا تصور بھی لڑکی والے نہیں کرسکتے ۔پھر یہ غیر ‏قانونی خرچ ہے۔آپ سماج پر ظلم کررہے ہیں۔اور غلط نمونہ پیش کررہے ہیں۔اس طرح سے آپ بیٹیوں کو کمزور ہی کررہے ہیں۔اگر ‏ان کو طاقتور بنا نا ہے تو جہیز کو روکنا ہوگا ۔
طلاق :‏
اللہ سبحانہ وتعالی نے لوگوں کے مزاج اور طور طریقے الگ الگ بنائے ہیں۔جو شادی کے بعد ہی ایک دوسرے پر کھلتے ہیں۔اگر کسی میاں ‏بیوی میں نہ نبھے تو طلاق کا راستہ کھلا ہے۔ہمارے یہاں یہ راستہ دو وجوہات سے مسدو د ہے ۔ایک تو پہلی شادی میں اتنا خرچ ہوجاتا ہے کہ ‏والدین ٹوٹ جاتے ہیں۔دوسرے مطلقہ سے جلدی کوئی شادی کے لیے تیار نہیں ہوتا۔اگر شادی کم خرچ والی ہو تو دوسری اور تیسری ‏شادی بھی بڑی آسانی سے ہو ۔والدین یہ نہ کہیں کہ بیٹا جس گھر میں ہم بھیج رہے ہیں وہاں سے تمھارا جنازہ نکلے تو نکلے تم نہ نکلنا۔عہد نبوی ‏میں طلاقیں ہوتی رہتی تھیں ۔کبھی طلاق کی وجہ شوہر کی وفا ت ہوتی تھی۔اور عدت ہی کے دوران لوگ ان سے شادی کا پلان بنا لیتے ‏تھے۔پھر یہ مطلقائیں،بیوائیں عدت ختم ہوتے رشتہ ازدواج میں بندھ جاتی تھیں ۔
میں اسماء بنت عمیس ؓ کی مثال دیتا ہوں ۔یہ جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں تھیں۔غزوہ موتہ میں ان شہادت ہوگئی۔لہذا ابوبکر ‏رضی اللہ عنہ نے ان سے نکاح کرلیا ۔اور جب ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو علی رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں آگئیں۔بنا کسی پریشانی ‏اور تکلف کے۔جب تک مسلم معاشرہ اس طرح سے نہیں ہوجاتاعورتوں کو طاقتور نہیں بنایا جاسکتا۔اور نہ ہی ان کی فلاح و بہبود کے ‏لیے کوئی کوشش کامیاب ہوسکتی ہے۔
میراث : ‏
فقہی قواعد میں سے ایک قاعدہ ہے عرف و عادت کا اعتبار ،فقہ مالکی اور حنفی میں اس پر کچھ زیادہ ہی زور ہے ۔ لیبیا میں قبائل کے شیوخ اور ‏مالکی علمانے مل کر عرف و عادت کے قاعدے کو بنیاد بنا کرعورت کی میراث کو ساقط کردیا ۔ان کی دلیل تھی کہ اس طرح پراپرٹی غیروں ‏کے قبضے میں چلی جاتی ہے ۔جس کے خلاف علماء نے رسالے لکھے ہیں۔ان میں سے ایک رسالہ ہے’حرمان المراۃمن المیراث فی العرف ‏اللیبی والمنظور القَبلی‘جو میری نظر سے گزرا ہے۔
ہندوستان میں برادران وطن کا نظریہ بھی کبھی یہی تھاکہ عورت کاوالد کےترکے میں کوئی حق نہ تھا۔ بر صغیر کے اہل سنت میں ہمیشہ ‏سے حنفیوں کا دبدبہ رہا ہے ۔ یہاں کے علما نے بھی عرف کا لحاظ کرکے بیٹیوں کو وراثت سے ایک زمانے تک محروم کررکھا ہے۔یا کم از کم ‏اس پر خاموشی اختیار کرکے میراث کے حق سے عورتو ں کو محروم کردیا۔ہندوستان کھیتی باڑی والا ملک ہے۔ یہاں کی جائیدا د زیادہ تر غیر ‏منقولہ ہی رہی ہے جس کو دینے میں روپئے پیسے کی بہ نسبت ‏ مزید دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ‏ یہاں بیٹیوں کو وراثت میں ‏حصہ نہ دینے کا رواج چل نکلا۔ تاکہ یہ غیروں کے قبضے میں نہ چلی جائے ۔حالانکہ میراث کا حق کوئی معمولی حق نہیں ۔یہ نص صریح سے ‏ثابت ہے۔حیرت ہے کہ ہمارے آباء و اجداد اس سے غافل رہ کر اس درجہ مطمئن کیسے رہ سکے۔ بہر حال جو ہوا سو ہوا۔اب کرنے کا کام ‏یہ ہے کہ بھائی اپنی جائیداد میں بہنوں کا حصہ نکالیں۔ اگر دیگر بھائی راضی نہیں ہیں۔اور آپ ان کو مجبور بھی نہیں کرسکتے تو آپ کو جو ‏میراث میں ملا ہے اس میں سے بہنوں کا جو حق ہے وہ ان کو دے دیں۔یہیں سے شروعات ہوگی۔اور جس طرح سے فقہ جعفریہ نے ‏شیعوں کے حق میں ہندوستان میں قانون بنوا دیا ہے کہ ان کی میراث میں لڑکیوں کا بھی حق ہوتا ہے اسی طرح مسلم پرسنل لاء بورڈ بھی ‏یہ کام کرے ۔تاکہ باپ اور شوہر نیز دیگر رشتہ داروں کی وفات پر اسلامی طریقے سے بیٹیوں کو خود بخود حق مل جائے ۔
یہ چند سطور ہیں۔جن پر عمل کرکے ہم عورت کے مقام ومرتبے کو بحال کرسکتے ہیں اور اسے طاقتور بناسکتے ہیں۔پھر کمزوری کی وجہ سے ‏اس کو جن مظالم کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ خود بخود رفع ہوجائیں گے۔ اور اس کے بھی خوبصورت دن لوٹ آئیں گے۔

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Mo Mubarak Rain

جزاکم اللہ خیرا و احسن الجزاء
بارك الله فى علمك آمين
ماشاء اللہ مفصل مضمون ہے، ہر زاویے سے عورتوں کی مظلومیت رفع کرنے کی کوشش کی گی ہے